کیا قطر ثابت قدم رہ پائے گا؟
قطر خلیج بحران پر ایک سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے اور خلاف توقع قطر اپنے موقف پر ثابت قدمی سے قائم ہے،خلیجی ممالک کی طرف سے عائد اقتصادی پابندیوں کے باوجود قطر اپنے موقف سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹا جس کے بعد سعودی عرب نے تینوں اطراف سے پانی میں گھرے ہوئے جزیرہ نما قطر کو زمین سے ملانے والی واحد سرحد پر بھی نہر کھود کر اسے جغرافیائی طور پر بھی تنہا کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ یہ منصوبہ اس وقت سامنے آیا جب قطر نے اقتصادی پابندیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہوئے اپنے آپ کو خود کفیل بنا دیا۔
گزشتہ برس جون میں قطر خلیج بحران پیدا ہونے کے بعد قطر کی سرحد بند کر دی گئی تھی، اس کی سرکاری ہوائی کمپنی قطر ایئر لائنز کو سعودی عرب کی فضا استعمال کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی جب کہ سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں نے قطر کے شہریوں کو اپنے ملکوں سے نکال باہر کر دیا تھا۔اسی طرح اتحادی ممالک میں قطری نیوز چینلز،اخبارات اور آن لائن نشریاتی اداروں پر بھی پابندی عائد کر دی تھی۔مزید برآں قطر کے پاس ڈیری کا نظام بھی موجود نہیں تھا اور اسے سعودی عرب سے درآمد کیے جانے والے دودھ پر انحصار کرنا پڑتا تھا،ان اقتصادی پابندیوں میں دودھ کی سپلائی کی بندش بھی شامل تھی۔
قطر پر اقتصادی پابندیاں عائد کرتے وقت سعودی عرب کے اتحادی خلیجی ممالک کا خیال تھا کہ یہ ایسا ہتھیار ہے جس کے سامنے بہت جلد قطر گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جائے گا اور ایران سے اپنا ناطہ توڑ لے گا تاہم ایسا کچھ بھی نہ ہوا،بلکہ یہ سفارتی بائیکاٹ دوحہ اور تہران کے مابین مزید قربت کا باعث بن گیا، ایران کے ساتھ قطر کی ساحلی سرحدیں ملتی ہیں اور وہیں اس کے سب سے بڑے گیس کے ذخائر بھی ہیں، قطردنیا میں سب سے زیادہ ’مائع قدرتی گیس‘ پیدا کرنے والا ملک ہے اور دنیا میں قدرتی گیس کے تیسرے بڑے ذخائر کا مالک ہے۔قطر نے سب سے پہلے اپنی سمندری حدود میں موجود گیس کے ذخائر کو اپنی ’تنہائی‘ دور کرنے کے لیے استعمال کیا اور اس بائیکاٹ کو اپنی سالمیت کے خلاف چیلنج کے طور پر لیا ۔ قطری طیاروں کا انحصار بھی اب ایرانی فضائی حدود پر ہے اور آج بھی قطر ایئر لائن کا شمار دنیا کی سب سے اچھی پروازوں میں ہوتا ہے۔
اقتصادی پابندیوں کے توڑ کے لیے دوحہ نے اپنی معاشی پالیسی کا ازسرنو جائزہ لیا اور درآمدات پر انحصار کم سے کم کر دیا۔خلیجی ساحل پر طے شدہ منصوبے سے قبل ہی سات ارب ڈالر کی لاگت سے نئی بندرگاہ کھول دی، جس کا مقصد اپنی معیشت کو پڑوسیوں کی جانب سے لگائی جانے والی پابندیوں سے محفوظ رکھنا تھا۔اس بندرگاہ کا استعمال اب 2022 فٹبال ورلڈ کپ کے سٹیڈیم کی تعمیر کے لیے عمارتی مواد درآمد کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے، تاکہ تعمیراتی کام جاری رہے۔اس دوران قطر کو فیفا 2022 کو برقرار رکھنے کا چیلنج بھی درپیش تھا جس پر تاحال دوحہ نے کامیاب سفارتکاری کی ہے اور اس کی کوشش ہے کہ ہر قیمت پر یہ ورلڈ کپ قطر کی سرزمین پر ہی ہو۔
ڈیری کے نظام میں غیرملکی انحصار کے خاتمے کے لیے ایک ماہ کے اندر اعلی نسل کی دس ہزار آسٹریلوی و امریکی گائیں قطر ایئرویز کے ذریعے لائی گئیں۔ڈیری فارم کا انتظام چلانے والے پیٹر والٹروریڈن کا کہنا ہے کہ ’ہر کوئی کہہ رہا تھا کہ یہ نہیں ہو سکتا لیکن ہم نے کر دکھایا،انھوں نے کہا کہ ’ہمارا وعدہ تھا کہ اس بحران کے ایک سال بعد ہم تازہ دودھ میں خود کفیل ہو جائیں گے۔
اقتصادی پابندیوں سے مطلوبہ مقاصد حاصل نہ ہونے کے بعد سعودی عرب نے قطر کے زمینی راستے منقطع کرنے کے لیے خطیر رقم سے ایک بڑے منصوبے کا اعلان کر دیا ہے جسے نہر سلویٰ کا نام دیا جا رہا ہے۔ مجوزہ نہرِ سلویٰ کی لمبائی 60 کلومیٹر اور چوڑائی 200 میٹر ہو گی۔ نہر کی گہرائی 15 سے 20 میٹر کے درمیان ہو گی۔ اس کے نتیجے میں یہاں سے ہر طرح کے مسافر بحری جہاز اور بحری آئل ٹینکر گزر سکیں گے جن کی انتہائی لمبائی 300 میٹر اور چوڑائی 33 میٹر تک ہوگی۔منصوبے کی ابتدائی لاگت کا اندازہ 2.8 ارب ریال لگایا گیا ہے۔
نہرِ سلویٰ کی کھدائی کے نتیجے میں جہاز رانی کا ایک رُوٹ سامنے آنے کے علاوہ علاقائی اور عالمی سطح پر سیاحت کے لیے ایک پرکشش علاقہ بھی وجود میں آ جائے گا۔ ساتھ ہی نہر کے دونوں جانب بندرگاہیں بھی تعمیر کی جائیں گی جو مختلف نوعیت کے سمندری کھیلوں کے لیے مخصوص ہونے کے علاوہ سیاحتی جہازوں اور کشتیوں کا استقبال بھی کریں گی۔ نہر سے ملحقہ ساحلوں پر فائیو اسٹار ہوٹل بھی قائم کیے جائیں گے۔
علاوہ ازیں علاقے میں دیگر منصوبوں کی بھی پلاننگ کی گئی ہے جو تیل اور صنعت سے متعلق ہوں گے۔ اس طرح سعودی عرب میں سیاحت کے فرو غ کے لیے نیوم سٹی کی طرح یہ مقام بھی ایک اقتصادی اور سیاحتی مرکز کے طور پر سامنے آئے گا جس سے خلیج فارس کی پٹی پر آباد عرب مستفید ہو سکیں گے۔اس سے پہلے اس نوعیت کا آخری تجربہ دو برس قبل مصر نے “نئی نہرِ سوئز” کھود کر کیا تھا۔ تقریبا 72 کلو میٹر طویل اس نہر پر چار ارب ڈالر لاگت آئی تھی اور اسے 12 ماہ کی ریکارڈ مدت میں پورا کر لیا گیا تھا۔
سعودی خبر رساں ادارے العربیہ کے مطابق ایک سعودی عہدے دار نے سعودی عرب کی جانب سے قطر کے گرد نہر کھود کر اسے جزیرہ بنانے کا منصوبہ بنانے کی خبر کی تصدیق کر دی ہے۔سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے سینئر مشیر سعود القحطاتی نے ٹویٹر پر ایک پیغام میں لکھا ‘میں بےچینی سےنہر سلویٰ منصوبے کی تکمیل کی تفصیلات کا انتظار کر رہا ہوں،یہ ایک عظیم اورتاریخی منصوبہ ہے جو خطے کے جغرافیے کو بدل کر رکھ دے گا۔
سعودی عرب کی جانب سے نہرِ سلویٰ کے منصوبہ پر عمل درآمد کی صورت میں قطر اقتصادی طور پر مزید تنہا ہو جائے گااور اس کا انحصار ایران اور ترکی پر بڑھ جائے گا۔قطر کی جانب سے تا دم تحریر اس منصوبےپر کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آیا، جس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ قطر کو یا تو اس امر کا اطمینان ہے کہ اس منصوبے پر عملدرآمد اتنی آسانی سے ممکن نہیں ہو گایا پھر وہ اس منصوبے سے پیش آنے والے ممکنہ نقصانات کی تلافی کا انتظام کر چکا ہے۔
سعودی میڈیا کے مطابق مذکورہ نہر کھودنے کے منصوبے میں 9 کمپنیاں شریک ہوں گی اور توقع ظاہر کی جا رہی ہے کہ منصوبے کو صرف بارہ ماہ میں مکمل کر لیا جائے گا۔ٹینڈر حاصل کرنے میں کامیاب ہونے والی کمپنیوں کا اعلان رواں ماہ ستمبر میں ہونا تھا لیکن اس بات کا قوی امکان ہے کہ اسے دسمبر میں ہونے والی امریکہ خلیج سربراہی کانفرنس تک موخر کر دیا جائے۔امریکہ خلیج سربراہی کانفرنس بھی ماہ ستمبر میں ہی منعقد ہونا طےتھی جسے اب دسمبر تک ملتوی کر دیا گیا ہے۔اس کانفرنس کے التوا میں ایران کو تنہا کرنے کی امریکی کاوشیں کارفرما ہیں۔امریکہ جس کا قطر میں ایک بڑا امریکی فوجی اڈہ بھی موجود ہے نے آغاز میں اس تنازعہ پر سعودی عرب کی سربراہی میں قائم اتحاد کی حمایت کی تھی لیکن حال ہی میں اس نے بھی عرب خلیجی ممالک کے درمیان اتحاد پر زور دیا ہے کیونکہ وہ ایران پر نئی پابندیاں لگانے کے لیے حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
12ستمبر کو کویت میں ہونے والے خلیج تعاون کونسل اور مصر و اردن سربراہان کے اجلاس میں بھی امریکی فوج کی مرکزی کمان کے سربراہ جنرل جوزف فوٹیل نے خلیجی ممالک پر زور دیا کے وہ آپس کے اختلافات کو بھلا کر ایران کا مقابلہ کرنے کے لیے عرب نیٹو تشکیل دیں،انہوں نے کہا کہ خطے میں استحکام میں صرف دو رکاوٹیں ہیں،ایک ایران کا بڑھتا ہوا نفوذ اور دوسری انتہاپسند تنظیمیں۔ 5 جون 2017سے شروع ہونے والے اس خلیجی بحران کے دوران یہ دوسرا موقع ہے کہ سعودی عرب اور امارات کے ساتھ قطر بھی اجلاس میں شریک ہوا۔اجلاس کا مقصد خطے میں ایران کے بڑھتے ہوئے نفوذ کو روکنے اور بدامنی و دہشتگردی کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے تدابیر اور مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرنا تھا۔
گزشتہ ہفتےکویت میں ہونے والا یہ اجلاس عرب نیٹو کی تشکیل کے لیے تمہید کی حیثیت رکھتا ہے،اگر عرب ممالک اس اتحاد کے لیے اتفاق رائے قائم کر لیتے ہیں اور قطر بھی اس کا حصہ بن جاتا ہے تو توقع ہے کہ قطر پندرہ ماہ سے جاری بحران سے نکل آئے گا۔ یہی وجہ ہے کہ قطر کو اس میں شرکت پر آمادگی ظاہر کرنے کے لیے دسمبر تک کا وقت دیا گیا ہے اور امریکہ خلیج سربراہی کانفرنس کو دسمبر تک موخر کیا گیا تاکہ قطر کی طرف سے مثبت جواب آنے کی صورت میں اس بحران کے خاتمے کا اعلان کر دیا جائے اور قطر بھی دیگر عرب ممالک کی طرح ایران کے خلاف امریکہ کے کیمپ میں کھڑا ہو جائے۔
قطر کے لیے یہ فیصلہ کرنا اس لیے مشکل ہے کہ مشکل کی گھڑی میں اس کا ساتھ کسی عرب ملک نے نہیں دیا بلکہ خطے کے دو غیر عرب ممالک ایران اور ترکی ہی اس کے ساتھ کھڑے رہے۔
دوسری طرف قطر کے گرد نہر کھودنے کی دھمکی کا مقصد بھی قطر کو عرب اتحاد میں شامل ہونے پر آمادہ کرنا ہی معلوم ہوتا ہے،اسی لیے اس منصوبے پر عمل درآمد کا اعلان بھی ممکنہ طور پر ستمبر سے بڑھا کر دسمبر کر دیا جائے گا۔قطر نے اب تک خلیجی بحران پر بھرپور ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا ہے اور پابندیاں عائد کرنے والے خلیجی ممالک کو ناکامی سے دوچار کیا ہے، ادھر اقوامِ متحدہ اور کویت کی جانب سے سعودی عرب اور قطر کے درمیان تصفیے کی کوششیں بھی ناکام رہی ہیں لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اب امریکہ کی طرف سے قطر خلیج بحران کے خاتمے کی کوششیں کس حد تک کارگر ثابت ہوتی ہیں؟ اور قطر مشکل گھڑی میں ساتھ دینے والے ممالک کو کیا جواب دیتا ہے؟
قطر کی مختلف محاذوں میں سفارتی کامیابیوں کو دیکھتے ہوئے امید کی جانی چاہیے کہ دوحہ کوئی ایسا حل نکالنے میں کامیاب ہو جائے گا جس سے وہ حالیہ بحران سے بھی نکل سکے اور امتحان کی گھڑی میں ساتھ دینے والوں کو بھی راضی رکھ سکے گا۔کیونکہ دوحہ نے یمن میں حوثی باغیوں کی پشت پناہی کے الزام کے جواب میں بارہا اس موقف کا اعادہ کیا تھا کہ وہ غیرجانبدارانہ پالیسی پر گامزن ہے اور یہ کہ وہ دوسرے ممالک کی خود مختاری کی احترام کرتا ہے اور کسی کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرتا۔
قطر خلیج بحران کا حل کیا نکلتا ہے؟ اور آیا قطر آخری مرحلے میں بھی اسی ثابت قدمی کا مظاہرہ کرے گا جیسا کہ ڈیڑھ سال سے کرتا چلا آ رہا ہےیا وہ اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرے گا؟ امید ہے یہ سال جاتے جاتے ہمیں ان سوالات کے جوابات دیتا جائےگا۔
ستبدي لک الایام ماکنت جاھلا
و یاتیک بالاخبار من لم تزود
فیس بک پر تبصرے