توہینِ مذہب کے الزامات، ریاست کتنی تحقیقات کرتی ہے؟
قتل سے ایک ماہ قبل ہی ان لوگوں نے آکر راشد رحمان کے گھر سے دو گھر چھوڑ کر کرایہ پر رہائش اختیار کی۔ اس گھر میں صرف دو یا تین آدمی رہتے تھے جو دن میں کسی وقت نظر آجاتے، پھر ان کے قتل پر شہنائی بجنے کے بعد وہ گھر ایک بار پھر خالی ہو گیا
یہ 7 مئی 2014ء کا واقعہ ہے، غالباً رات کو تقریبا ساڑھے 8 بجے اطلاع آئی کہ انسانی حقوق کمیشن ملتان کے ریجنل کوارڈنیٹر اور جنید حفیظ کے وکیل راشد رحمان کو ان کے دفتر میں نامعلوم افراد نے قتل کر دیا ہے۔ راشد رحمان صاحب سے میرا تعلق تب سے تھا جب میری صحافت کا آغاز ہوا تھا۔ محنت کش کو محنت زیادہ اور معاوضہ کم مل رہا ہو تو راشد صاحب آواز بلند کرتے، بھٹہ مزدوروں سے جبری مشقت پر احتجاج کا معاملہ ہوتا تو راشد رحمان سڑکوں پر ہوتے۔ ملک میں اقلیتی برداری پر حملہ ہو تو ان کے مذہبی حقوق کی بات بھی انہی کی زبانی سننے کو ملتی۔ جہاں کہیں انسانی بنیادی حقوق مسخ ہوتے، گھریلو تشدد، جنسی زیادتی، راشد رحمان صاحب بلامعاوضہ ایسے کیسز لڑتے۔
جب کبھی مجھے ان واقعات کو رپورٹ کرنے کا موقع ملتا اور کسی کی ماہرانہ رائے درکار ہوتی تو انٹرویو لینے ان کے چوک کچہری کے قریب واقع اسی دفتر پہنچ جاتی جہاں انہیں قتل کیا گیا تھا۔ یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ ملتان میں راشد رحمان سے اچھا بولنے اور ان معاملات کو سمجھنے والا شائد ہی کوئی اور ہو۔ کتنی بار یوں بھی ہوا کہ راشد صاحب کورٹ کے اوقات میں موبائل فون نہیں سنا کرتے تھے اور مجھے اپنی رپورٹ کو مکمل کرنے کے لئے اعداد و شمار کی ضرورت پڑتی تو انہیں موبائل پر ایک پیغام بھیج دیتی، جواب میں وہ صرف یہ کہتے میرے آفس کے کمپیوٹر کی ڈی ڈرائیو میں ایک فولڈر ہے۔ وہاں سے اپنی ضرورت کی تمام تفصیل لے لو مجھے آفس آنے میں ابھی وقت لگے گا، کسی اور کے کمپیوٹر سے اتنی بے تکلفی میں نے کبھی نہیں کی جو راشد صاحب کے کمپیوٹر سے تھی، جب بھی کوئی بات سمجھ سے باہر ہوئی تو انہیں کال ملائی اور کہا سمجھا دیں وہ سمجھا بھی دیتے تھے۔
میری راشد رحمان صاحب سے آخری ملاقات ان کے قتل سے تقریبا 24 گھنٹے قبل ہوئی تھی۔ ہمارا چینل ان دنوں ریاست مخالف ایک خبر چلانے سمیت انٹرٹینمنٹ چینل پر ایک متنازعہ مارننگ شو آن ائیر کرنے کی سزا کاٹ رہا تھا۔ بے قصور ملازمین خوف میں مبتلا تھے، تنخواہیں رک چکی تھیں اور روز نئے چہرے دفتر سے گھر اور گھر سے دفتر تک کے راستے میں ہماری سرگرمیوں کا جائزہ لیتے تھے کہ کہیں ہم واقعی غدار وطن یا توہین کے مرتکب تو نہیں۔ دوسرے چینلز کے ملازمین کو باقاعدہ یہ ٹاسک دیا جا رہا تھا کہ لوگ جمع کر کے ہمارے دفتر کے باہر مشتعل مظاہرہ کروائیں چند اس عمل میں کامیاب بھی ہوئے۔ اچھی کارکردگی دکھانے والے رپورٹرز کا انعام میں ایک لائیو بیپر ہو جایا کرتا تھا اور ہماری زندگی داؤ پر لگ جاتی تھی۔ کئی کئی گھنٹے ہم دفتر سے باہر نہیں نکل سکتے تھے، جب مظاہرین کم ہوتے ہم گھروں کو لوٹنے لگتے تو دفتر کے باہر کھڑے دوسرے چینلز کے رپورٹرز شرمندہ ہونے کی بجائے ہمیں مسکرا کر دیکھتے۔
راشد رحمان نے اپنے قتل سے ایک روز قبل ہمارے چینل کے حق میں منعقدہ سمینار میں ایک قرارداد پاس کی اور کہا کہ بات صحافت کی آزادی کی ہے۔ ریاست کا ایک ستون دوسرے ستون کو چیلنج کر کے اپنی طاقت آزما رہا ہے۔ اگلی شام راشد رحمان کے قتل کی خبر مجھے جذباتی کر گئی، لندن میں مقیم بڑے بھائی کو کال ملائی اور انہیں یہ اطلاع دی، راشد رحمان اور میرے بھائی دونوں قریبی دوست بھی تھے انہوں نے یہ خبر سن کر کہا بیٹا جی ہمارا معاشرہ ایسے لوگوں کو قبول نہیں کرتا اس لئے انہیں قتل کر دیا جاتا ہے۔
راشد رحمان کے قتل کی پہلی وجہ لوگ ان کا آزادی صحافت کے سیمینار میں خطاب کرنا بتا رہے تھے لیکن بعد میں جو وجہ سامنے آئی وہ ان کا شاتم رسول ہونا تھا۔ وہ گستاخ کیسے بنے؟ راشد رحمان توہین مذہب کے سزایافتہ اور بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی کے شعبہ انگریزی ادب کے وزیٹنگ لیکچرار جنید حفیظ کی وکالت کر رہے تھے اور بطور وکیل کیس کی وکالت کرنا ہی ان کو شاتم رسول بنا گیا۔ راشد رحمان کا قتل دراصل اس آواز کو خاموش کرنا تھا جو بے بس افراد کے لئے اٹھتی تھی جو شائد ہم یا آپ نہیں۔ اس قتل سے قبل باقاعدہ ضلع کچہری اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے دفاتر میں نامعلوم افراد کی جانب سے پمفلٹس پھینکے گئے جس میں درج تھا کہ راشد رحمان کو انجام تک پہنچا دیا گیا ہے اور اب اس کی سزا سر تن سے جدا ہی ہے جو تجویز کر دی گئی ہے۔
سزا تجویز کرنے والے کون تھے کس حق سے انہوں نے یہ سزا تجویز کی اس پر تو تب بات ہو جب ان پمفلٹ پر کسی قانون نافذ کرنے والے ادارے نے کوئی ایکشن لیا ہو۔ تمام ادارے بے حس رہے۔ اعلان کرنے والوں نے جو قتل کا وقت مقرر کیا تھا اس پر راشد رحمان کو قتل کر دیا۔ اس قتل کو تمام ٹی وی چینلز اور اخبارات نے ایک معمولی قتل کے طور پر کور کیا۔ حالانکہ یہ وہ شخص تھا جو ہر صحافتی ادارے اور صحافی کا دوست تھا لیکن توہین مذہب کے کیس میں ملزم کا وکیل ہونا توہین کرنے کے مترادف کہلاتا ہے جبکہ ملزم پر ابھی جرم ثابت ہونا باقی تھا۔ میں نے بے شمار بہادر، خود کو زبردست کرائم رپورٹرز کہلانے والوں کو اس واقعہ کی کوریج سے انکار کرتے دیکھا۔ راشد رحمان کا پوسٹ مارٹم ہوا تو نشتر اسپتال کے فرانزک ڈیپارٹمنٹ کے باہر صرف میں وہ اکیلی صحافی تھی جو اپنے کیمرہ مین کے ساتھ کھڑی تھی۔ پولیس کی ایک وین موجود تھی جس سے ایک کانسٹیبل بار بار نکل کر مجھے خوف زدہ کرتا اور کہتا کیوں کھڑی ہیں آپ بی بی یہاں، آپ کو اپنی جان پیاری نہیں، جن لوگوں نے راشد رحمان کو قتل کیا ہے وہ اب بھی یہیں کہیں آپ کو دیکھ رہے ہیں، جائیں یہاں سے، زندگی خطرے میں نہ ڈالیں یعنی پولیس کو معلوم ہے کہ قاتل کہیں قریب موجود ہے لیکن اسے گرفت میں لانے سے قاصر ہے۔
گزشتہ کچھ عرصہ میں شدت پسندی ایک اور طرح سے پروان چڑھی ہے جس کی وجہ دراصل خود کو بہترین مسلمان قرار دینا ہے۔ پہلے اہل تشیع کو نشانہ بنایا جاتا رہا۔ اب یہ سلسلہ فرقہ وارانہ فساد سے بڑھ کر ہر اس شخص تک جا پہنچا ہے جو مذہبی رحجانات میں کسی دوسرے شخص کی توقعات پر پورا نہ اترتا ہو
ہزاروں دوستوں کا دوست، رخصت ہوا تو بس گھر کے چند افراد موجود تھے، یقینا ًوہ لوگ قابل تحسین اور نڈر ہیں جنہیں یہ یقین تھا کہ وہ صرف ایک ملزم کا کیس لڑ رہے تھے مذہب کی توہین کرنا ان کا مقصد نہ تھا اور جنازے میں شرکت کر کے انہوں نے اپنے انسان ہونے کا حق ادا کیا تاہم ان کی گنتی کرنا نہایت آسان تھا۔ تدفین کے اگلے روز ان کی رہائش گاہ کے قریب دو افراد نے شہنائی بجائی، معلوم ہوا کہ ایک ماہ قبل ہی ان لوگوں نے آ کر راشد صاحب کے گھر سے دو گھر چھوڑ کر کرایہ پر رہائش اختیار کی ہے۔ اس گھر میں صرف دو یا تین آدمی رہتے تھے جو دن میں کسی وقت نظر آجاتے اور پھر شہنائی بجنے کے بعد وہ گھر ایک بار پھر خالی ہو گیا
پولیس نے اس کیس کی تفتیش یہاں تک ضرور کی کہ راشد رحمان کو نامعلوم افراد نے ان کے دفتر میں گھس کر قتل کیا۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق قتل کی واردات میں نائن ایم ۔ ایم ۔ پسٹل استعمال ہوا۔ نائن ۔ ایم ۔ ایم پسٹل ملتان میں پہلی بار قتل کرنے کے لئے استعمال کیا گیا ہے۔ 5 گولیوں سے نشانہ بنایا گیا جن میں سے گلے میں لگنے والی گولی جان لیوا ثابت ہوئی۔ قاتلوں نے راشد رحمان کی ریکی کرنے کے لئے ان کے گھر کے قریب ہی چند روز رہائش اختیار کئے رکھی اور پھر تھانہ چہلیک میں درج یہ ایف ۔ آئی ۔ آر سیل کر دی گئی جو آج تک سیل بند ہے۔
اس قتل سے قبل جنید حفیظ کیس کی جب بھی سماعت ہوتی تو ملتان کی ماتحت عدالت میں متعلقہ جج کے کورٹ روم کے باہرایک مذہبی سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والے وکلاء نعرے بازی کرتے اور ان میں کئی ایسے وکلاء بھی ان کا ساتھ دیتے جن کا اس سیاسی و مذہبی جماعت سے کوئی تعلق نہ تھا۔ اکثر ایسا ہوا، قانون کے تناظر میں بات کرنے والے وہ وکلاء جو یہ جانتے ہیں کہ تب تک کوئی بھی توہین کا مجرم نہیں ہو سکتا جب تک اس پر یہ جرم ثابت نہ ہو جاَئے لیکن پھر بھی وہ سماعت رکوانے میں کامیاب ہو جاتے اور فاضل جج نے بھی کبھی اپنے اس حق کو استعمال نہیں کیا کہ اپنی صفائی میں ہر ملزم کو بولنے، قانونی چارہ جوئی کا بھی حق حاصل ہے، اس کا وکیل صفائی شواہد بھی پیش کر سکتا ہے، لیکن اس قانون کا صرف یک طرفہ استعمال ہی کیا جاتا رہا۔
اس کے بعد اعلیٰ تعلیمی ادارے میں ہونے والا مشال خان کا قتل بھی کچھ ایسا ہی دکھ تازہ کرتا ہے۔ وہی بے حسی، جہالت، ظلم اور بربریت ایک بار پھر دیکھی گئی کہ بس قتل کر دو، صرف مارنا کافی نہیں، مرے ہوئے کو اور مارو، یہی سب کیا مردان یونیورسٹی کے طلباء نے، نہ جانے مشال کی لاش کس اذیت سے گزری ہو گی۔ جس شخص کو آپ گولی مار کر قتل کر ہی چکے ہو اب اس سے مزید کیا چاہتے ہو؟ کہ لاش پر لکڑی کے ڈنڈوں سے وار کرنا، اس کے مردہ جسم پر اچھل کر خود کو زندہ ثابت کرنا۔ میں نے یہ ویڈیو غلطی سے ایک بار دیکھ لی تھی تب تک اس واقعہ سے لاعلم تھی پھر اچانک ٹیلی ویژن اسکرین پر وہی ویڈیو چلنا شروع ہوئی اور معاملہ کا علم ہوا۔ تمام دن دل پریشان رہا ایک عجیب سے کیفیت تھی۔ کئی روز تک میرے وٹس ایپ کے مختلف گروپس میں یہ ویڈیو بار بار شئیر ہوتی رہی۔ ہر بار ویڈیو بغیر کھولے ڈیلیٹ اس لئے کی کہ شائد مجھے یہ گمان ہو جائے کہ یہ واقعہ ہوا ہی نہیں۔
جب جنوبی پنجاب کے توہین رسالت کے کیسز کی تفصیلات اکٹھی کی تھیں تب تک مشال کا واقعہ پیش نہیں آیا تھا۔ مجھے توقع تھی کہ توہین کے کیسز میں مدعی ضرور شواہد بھی دیں گے اور پوری کوشش کر کے تمام ثبوتوں کے ساتھ بتائیں گے کہ کس طرح گستاخوں نے ان کی دل آزاری کی ہے اور ملزم ملنے سے گریز کریں گے کیونکہ وہ اور ان کے لواحقین تو پہلے ہی کفن ہاتھ میں اٹھائے پھر رہے ہیں وہ اب میڈیا سے بات کر کے خود کو مزید مشکل میں مبتلا نہیں کریں گے لیکن حیرت ہوئی، پہلے تو ایسے کیسز میں مدعیوں کے وکلاء ملنے پر آمادہ نہ ہوئے، انہیں اعتماد میں لیا پھر مدعیوں سے رابطہ کرنا چاہا ایک، دو آمادہ ہوئے لیکن چند ایسے بھی تھے جنہوں نے ملنے کا بار بار وعدہ کیا اور پھر مکر گئے۔ بات شواہد تک آئی، تو گستاخوں کے خلاف کھڑا مجمع دیکھا، علاقہ سے نکالا جائے، یہ واجب القتل ہے جیسی نعرے بازی بھی ہوئی۔ اس شخص کی گستاخی کی ویڈیو موجود ہے ہم نے دیکھی ہے ایک ایک سے پوچھا ویڈیو کہاں ہے تو آگے سے آگے کا راستہ دکھایا گیا۔ ویڈیو توصیف نے دیکھ رکھی ہے توصیف نے ہی ہمیں بتایا ہے کہ اس نے گستاخی کی ہے۔ توصیف سے ملے تو اس نے بتایا کہ مجھے تو کسی اور بتایا تھا کہ اس نے وہ ویڈیو دیکھی ہے اور پھر میں نے آکر علاقہ کے لوگوں کو بتایا۔
یہ ایک طویل سلسلہ تھا جس پر ایک پورا خاندان گستاخ قرار دیدیا گیا لیکن وہ ویڈیو نہ مل سکی جس پر خاندان کا جینا محال بن گیا۔ بنا کسی ثبوت آپ یہ مان کر کسی کی جان لینے کو تیار ہو جاتے ہیں جبکہ متاثرہ خاندان اللہ تعالی کی واحدانیت اور ختم نبوت پر یقین رکھنے کی قسمیں کھا رہا ہے وہ چاہتا ہے کہ ایک بار کوئی اخبار کہیں ان کی خبر شائع کر دے، ٹی وی چینل لوگوں کو یہ بتا دے کہ ہم گستاخ نہیں بلکہ اللہ اور رسول پاک سے محبت کرتے ہیں لیکن کوئی تسلیم کرنے کو تیار نہیں، کسی اخبار اور ٹی وی چینل نے ایسی خبر کو جگہ نہیں دی۔
گزشتہ کچھ عرصہ میں شدت پسندی ایک اور طرح سے پروان چڑھی ہے جس کی وجہ دراصل خود کو بہترین مسلمان قرار دینا ہے۔ پہلے اہل تشیع کو نشانہ بنایا جاتا رہا۔ اب یہ سلسلہ فرقہ وارانہ فساد سے بڑھ کر ہر اس شخص تک جا پہنچا ہے جو مذہبی رحجانات میں کسی دوسرے شخص کی توقعات پر پورا نہ اترتا ہو اور اس انتہا پسندی کی مثالیں گزشتہ عرصے میں بے شمار واقعات میں نظر آئے ہیں جن میں مشال کا قتل سرفہرست ہے۔ کیا ان لوگوں کے خلاف توہین کی دفعات کے تحت کارروائی ہوئی جو اس کا سوشل میڈیا کا فیک اکاونٹ بنا کر غیر اخلاقی مذہبی پوسٹ کرتے رہے اور اس پر یہ جھوٹا الزام عائد کیا گیا؟ اصل توہین کے مرتکب تو وہی افراد ہیں۔
سیالکوٹ میں تین بہنوں نے مل کر 45 سالہ شخص فضل عباس کو اس کے گھر کے اندر جا کر اس وقت قتل کر دیا جب وہ بیرون ملک سے اپنے گھر آیا ہوا تھا اور 14 سال قبل اس پر توہین کا ایک مقدمہ درج ہوا تھا۔ 14 سال تک پولیس نے کیا تفیتش کی؟ فضل عباس نے توہین کی تھی یا نہیں کی تھی کیوں پولیس تفتیش میں 14 سال تک ثابت نہ ہو سکا۔ اس کیس کی تفتیش کی بھی گئی یا نہیں؟ قاتل بہنوں نے پولیس کو اعترافی بیان میں کہا کہ وہ یہ قتل کرنے پر ہرگز شرمندہ نہیں۔ مذہبی عقائد میں تضاد پر چکوال کی مسجد، لاہور کے علاقہ سبزہ زار اور پنجاب یونیورسٹی کی سابقہ خاتون پروفیسر کے قتل جیسے واقعات رونما ہو چکے ہیں۔
حالات و واقعات بتا رہے ہیں کہ لوگ اس قانون کی آڑ میں، ذاتی رنجشوں جن میں رشتہ نہ ملنے پر ناکامی، لین دین، اختلاف رائے جیسے چند اور معاملات پر توہین مذہب کے قانون کا استعمال کر رہے ہیں ایسے میں جس شخص پر یہ الزام لگایا جاتا ہے اسے مارنے کا ہدف آسان ہو جاتا ہے اور اگر وہ بچ بھی جائے تو دائرہ اسلام سے خارج ہی تصور کیا جاتا ہے۔ ریاستی اداروں کو چاہیے کہ اس قانون کے غلط استعمال پر اپنی رٹ مضبوط کریں اور ایسے افراد کی تعین کردہ سزا پر عمل درآمد کروائیں۔ بند کیسز کو ری اوپن کریں ان کی تحقیقات کریں اور صرف قصور وار کو سزا دیں نہ کہ ہر اس شخص کو اس کی بھینٹ چڑھادیں جس پر کسی ہجوم نے آگے بڑھ کر الزام عائد کردیا۔
فیس بک پر تبصرے