یخ بستہ طویل راتیں اور بلتی لوک بیٹھک کی معدوم روایت

1,299

گلگت بلتستان ملک کے انتہائی شمال میں سطح سمندر سے لگ بھگ پانچ ہزار تا سولہ ہزار فُٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ دنیا کے بلند ترین پہاڑی سلسلوں میں گھِرا ہونے کے باعث یہاں شدید ترین سردی پڑتی ہے۔  بلتستان کے مرکزی  شہر سکردو  سمیت کئی اضلاع کے بالائی علاقوں میں  دسمبر سے آخر فروری تک شدید برف باری ہوتی ہےجس کے باعث ان علاقوں کا دنیا سے زمینی  رابطہ منقطع ہو جاتا ہے جبکہ بلتستاں ڈویژن کی وادی گلتری کی صورت میں یہ انقطاع آٹھ مہینوں تک طویل ہو جاتا ہے۔اسی طرح شغرتھنگ، برالدو ، باشہ، داپہ اور کتی شو جیسے علاقوں کا زمینی رابطہ  بھی برف باری کے سبب کئی ماہ کے لیے منقطع رہتا ہے۔

اگر ہم ماضی بعید کی بات کریں تو گلگت بلتستان کا خطہ  بلندپہاڑی سلسلوں میں گھرا ہونے کے باعث باہر کی دنیاسے سالہا سال تک کٹا رہا ۔ اُس زمانے میں یہاں تک پہنچنے کے ذرائع آسان نہیں تھے۔تب اس خطے میں لوگوں کی اپنی ہی  ایک دنیا تھی جہاں لوگوں کو ضرورت کی تمام اشیا خود سے تیار کرنا ہوتی تھیں ۔ زندگی کی ہر مشکل کا حل بھی انھیں خود سے ڈھونڈنا ہوتا تھا۔یہاں کے باشندے معاشرے کی عام ضروریات کو پورا کرنے کے لیے گھریلو  دستکاریوں  کا سہارا لیتے تھے ۔ مریضوں کے علاج کے لیے گھریلوں ٹوٹکوں کے استعمال کے علاوہ ان کے پاس کوئی چارہ نہ تھا ۔ بیماری عام نوعیت کی ہویامہلک اورجان لیوا،  مقامی حکیموں اور گھریلوسطح پر رائج  متعدد جڑی بوٹیوں سے تیار کردہ ٹوٹکوں پر ہی تکیہ کیا جاتا تھا۔ ان ٹوٹکوں زود اثر بنانے کے لیے دم دعا اور تعویزات کا سہارا لیا جانا عام تھا۔

1836 میں پہلا انگریز سیاح اور مورّخ  جی ٹی وین  سکردو پہنچا تو  اُنہی دنوں ٹی بی کے باعث بلتستان کے حاکم راجہ احمد شاہ کے ایک بیٹے  کی وفات ہوئی ۔ جب یہ بات جی ٹی وین کو پتہ چلی تو اُنھوں نے اس فوتگی پر سخت افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ کاش میں ایک ماہ پہلے سکردو پہنچا ہوتا تو  سکردو کے حکمران کے جوان بیٹے کو ایک  چھوٹی سی ٹکیہ دے کر بچا سکتا تھا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اُس وقت خود حکمران بھی ٹوٹکوں  کا سہارا لیتے یا پھر موت کا انتظار کرنے بیٹھ جاتے جیسا کہ حکمران احمد شاہ کے بیٹے کے بارےمیں ذکر ملتا ہے کہ ٹی بی  جیسے موذی مرض  میں مبتلا ہونے کے بعد انھیں آبادی سے دُور ایک مقام پر رکھا  گیا تھا جہاں انھوں نے جان دے دی۔

خطے میں پڑنے والی شدید ترین اور خون جما دینے والی سردی میں پسماندگی کے باعث بالخصوص رات گزارنا   لوگوں کے لیے ایک سنجیدہ مسئلہ تھا۔ غربت کے اُس دور میں لوگوں کے پاس وسائل نہ ہونے کے برابر تھے ۔ایسے میں یخ بستہ راتوں کو گزارنے کے لیے لوگ اپنی مدد آپ کے تحت کچھ خصوصی ا نتظامات کرتےتھے ۔ اُس زمانے میں بجلی تو دور کی بات لالٹین وغیرہ کا تصور  بھی موجود نہیں  تھا۔ عام گھروں میں لوگ صنوبرکی لکڑی جلا کر روشنی کا اہتمام کرتے تھے اور صاحب حیثیت لوگ پتھرسے بنے دیے جلاتے تھے جس میں جانورں کی چربی بطور ایندھن استعمال ہوتی تھی۔ جن  کے پاس خوبانی کے درختان ہوتے وہ  دیے میں گیری کا تیل استعمال کرتے تھے۔ صنوبر کی لکڑی کی روشنی زیادہ وقت ساتھ نہیں دے سکتی تھی ، اس پر مستزاد اس لکڑی کی روشنی، جو دھواں چھوڑتی تھی جس سے  لوگ سانس اور پھیپھڑوں کی بیماری میں مبتلا ہوجاتے تھے۔

لہٰذا تمام گھروں میں یہ روزکا معمول ہوتا کہ مغرب کی اذان کے فوری بعد رات کا کھانا کھایا جاتا اور پھر فوراً سونے کا اہتما  م ہوتا۔ سردیوں میں جلدی سونے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ لوگوں کے پاس گھرو ں کو گرم رکھنے کے لیے ایندھن کا کوئی سلسلہ موجودنہیں  تھا۔اس  تکلیف دہ صورت حال کا  حل لوگوں نے یہ نکالا تھا کہ محلے کے اکثر لوگ  رات کے کھانے کے بعد کسی ایک شخص کے گھر جمع ہو جاتے اور کئی گھنٹے وہاں اجتماعی طور پر گزارتے ۔  اُ س وقت چونکہ آبادی بہت محدود تھی چنانچہ کسی محلے میں بسنے والے لوگ یا تو باہمی عزیز تھے یا پھرباہم  بہت قریب تھے۔ ایسےمیں راتوں کو لوگ محلے کے کسی ایک شخص کے گھر جمع ہوتے اور کہانیاں سنانے کی محفل جمتی۔ یہاں مہمانوں کی تواضع خطے کے روایتی پکوانوں ،کُلچے ، اذوق اور بلتی سبز نمکین چائے سے کی جاتی تھی ۔ان محافل میں خُشک میوہ جات مہمان نوازی کا لازمی جزو ہوتے تھے ۔

ایک تو صاحب ِخانہ خود خُشک میوہ جات کا اہتمام کرتے، دوسرایہاں کہانی سننے آنے والا ہرفرد کچھ نہ کچھ خشک میوہ ہمراہ لاتا ۔یوں اس نوعیت کی محافل رات گئے تک جاری رہتیں ۔ سردیوں میں قبل مسیح کی دیو مالائی داستان” کیسر  ” کو خاص  طور پر  سنانے کا اہتمام کیا جاتا ۔یہ کہانی اتنی طویل ہے کہ ا س کو ختم کرنے میں مہینوں صرف ہوتے تھے جبکہ بلتی زبان میں موجود دیگر بیسیوں کہانیاں بھی سردیوں کی راتوں میں سنائی جاتی تھیں ۔  کہانی سنانے کی یہ محافل جہاں ایک طرف  لوگوں کو گھروں میں ایندھن اور روشنی  کا کوئی ذریعہ نہ ہونے کے مسائل سے چھٹکارادلاتیں وہاں یہ  گلگت بلتستان کی منفرد تہذیب و ثقافت کو محفوظ رکھنے اور قدیم ماضی کی روایات کو نئی نسل تک منتقل کرنے کا باعث بنتی تھیں ۔

جوں جوں خطے میں  ترقی کے باعث جدید سہولتیں آتی گئیں، لوگوں کے معمولات اور طرز زندگی میں تبدیلی آتی رہی۔ جا بجا بجلی گھروں کی تعمیر کے باعث علاقے روشن ہونا شروع ہوگئے۔ گھروں میں پہلے ریڈیو ،پھر ٹیلی ویژن اور اب انٹر نیٹ ، فیس بُک ، واٹس ایپ اور ٹویٹر  کی آمد کے بعد شہروں کے ساتھ ساتھ گاؤں اور قصبوں میں بھی معمول کی زندگی متاثرہوئی ہے اور راتوں کی یہ پُر رونق محفلیں اب ختم ہوگئی ہیں ۔سردیوں کی لمبی راتوں میں ایک گھر میں جمع ہو کر قصّے  کہانیاں سنانے کا سلسلہ بھی اب متروک ہوچکا ہے۔ ٹیلی کمیونیکیشن کی ترقی نے ہر فرد کو مصروف کردیا ہے ۔ گاؤں اور محلے کی سطح پر اہل محلہ کا  کسی ایک گھر میں  جمع ہو نا تو درکنار اب  ایک ہی  فیملی کے ارکان ایک ہی چھت تلے رہنے کے باوجود بھی کئی کئی روز  تک آپس میں ممل نہیں پاتے۔یوں اب  قدیم اور روایتی قصے کہانیوں کے بھی معدوم ہونے کے خطرات منڈلا رہے ہیں۔ ہمارےملک میں کوئی ایسا ادارہ بھی نہیں جو ان روایتی قصے کہانیوں  کو محفوظ رکھنے کے لیے کام کرےلیکن چین کی یونیورسٹی  میں گیرالوجی کے نام سے باقاعدہ شعبہ موجودہے جہاں بلتی کیسر داستان کو باقاعدہ مضمون کے طور پر پڑھایا جاتا ہے ۔ البتہ بلتستان میں اب اپنی مدد آپ کےتحت بلتی زبان کی کہانیوں کو کتابی صورت میں شائع کر کے محفوظ کیا جارہا ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...