شدت پسندی کا تعاقب
ریاست اور ایک عام پاکستانی شاید اس سے متفق نہ ہو کہ انتہا پسندی لوگوں کے ظاہر و باطن کو تبدیل کر دیتی ہے ۔ان کےسماجی اور مذہبی تصورات میں تنگ نظری نہ بھی ہو تو ان میں تبدیلی ضرور آ جاتی ہے ۔
بظاہر مشعال خان کا اندوہناک قتل ،نورین لغاری کی گرفتاری ، نام نہاد دولتِ اسلامیہ اور جماعت الاحرارکے رہنما احسان اللہ احسان کے ہتھیار ڈالنے میں کوئی مماثلت نہیں ہے تاہم بالعموم یہ واقعات شدت پسندانہ رجحانات اور دہشت گردی کی تصویر کشی کرتے ہیں ۔
مشعال خان کا کیس مجموعی طور پر شدت پسندانہ رویوں کااظہار ہے جس کو بدنیتی پر مبنی گروہوں نے اپنے مزموم مقاصد کے لئے استعمال کیا۔اسے انتہا پسندی کی انتہائی مجرمانہ شکل قرار دیا جا سکتا ہے جس میں مجرم عوام کے مذہبی جذبات سے فائدہ اٹھا تے ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ ریاست اور اس کے ادارے ان کے فعل پر کوئی کارروائی کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کریں گے ۔یہ رویئے بپھرے ہوئے انتہائی قدامت پرستوں گروہوں کو جو پاکستان کے ہر ادارے اور ہر طبقے میں موجود ہیں، خاص ماحول فراہم کرتے ہیں ۔
نورین، ملک میں پُر تشدد رجحانات کی پہلی شکار نہیں ہے ۔اسے لاہور میں اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ شام میں نصریٰ(دولتِ اسلامیہ کا حمایتی گروہ ) کی مددکے لئے روانہ ہو رہی تھی ۔اس کا کیس مغرب میں نوجوان مسلمان تارکین وطن کے کیس سے کافی حد تک مماثل ہے ۔جنہیں انٹر نیٹ کے ذریعے بھرتی کیا گیا ، ان کے خاندان والے اس بات سے لاعلم تھے ۔پاکستان میں شدت پسندی عمومی طور پر ایک خاندانی رجحان ہے سب سے پہلے خاندان کا کوئی مرد اس جانب راغب ہوتا ہے اور اس کے بعد خاندان کی خواتین کی باری آتی ہے ۔نورین کا دولتِ اسلامیہ کی جانب میلان تشویش ناک امر ہے کیونکہ اس کا خاندان بھی اس تبدیلی سے باخبر نہیں تھا۔یہ واقعہ مشرق ِ وسطیٰ کے دہشت گرد گروپ کاپاکستانی نوجوانوں کو ہدف بنانے کا پہلا باقاعدہ ثبوت ہے ۔دولت اسلامیہ کا اثر و نفوذ بڑھنے کا امکان ہے بالخصوص اپر مڈل کلاس کے نوجوانوں کو یہ اپنی جانب راغب کرے گی مگر ا س جانب بھی تک کوئی دھیان نہیں دیا گیا ۔مجموعی طور پر سماجی و مذہبی ماحول اور شدت پسند گروہوں کی سرگرمیاں خطرے کی علامت ہیں ۔یہ مسئلہ چند ایک یونیورسٹیوں تک محدود نہیں بلکہ یہ ہر کیمپس کی کہانی ہے ۔
نورین کے سفرِ شام کے بارے میں پنجاب کے محکمہ انسداد ِدہشت گردی اور آئی ایس پی آر کے بیانات میں تضاد سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ پولیس ایسے حساس معامللات کی معلومات کو بھی جوڑ توڑ کر پیش کرتی ہے ۔آشیر باد حاصل کرنے اور بڑے بجٹ کا جواز پیدا کرنے کے لئے انسدادِہشتگردی کے محکمے عسکریت پسندوں کی گرفتاری اور اموات کی تعداد میں مبالغہ آرائی کرتے ہے ۔ان کو دہشت گردوں کی سرگرمیوں کے بارے میں بہت کم معلومات ہوتی ہیں۔
جماعت الاحرار جو کہ گزشتہ چند مہینوں سے بڑے حملوں میں ملوث رہا ہے کے رہنما کا اپنے آپ کو حوالے کرنا ،ایک بڑی خبر ہے ۔جماعت الاحرار نے ان کے سرنڈر کی خبروں کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ انہیں پاک افغان سرحد سے گرفتار کیا گیا ہے۔معاملہ جو بھی ہو بہرحال یہ ایک بلا تردید کامیابی ہے ۔جسے اب اس انداز سے دیکھا جا رہا ہے کہ سیکورٹی ادارے ان عواقب سے کیسے نمٹ رہے ہیں۔
یہ تینوں واقعات ایک ہفتے کے اندر ظہور پزیر ہوئے ۔پاکستانی اور غیر ملکی میڈیا کو دیکھیں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ انتہا پسندی نے معاشرے کو ایک ایسی نہج پر پہنچا دیا ہے جس میں کوئی بھی بپھرا ہوا جتھا کسی کو بھی بغیر ثبوت کے مار سکتا ہے ۔اگر ان حالات میں کچھ دہشت گرد سرنڈر کر دیتے ہیں تویہ امر خوش کن نہیں ہے اور نہ ہی اس سے مسئلہ حل ہوگا کیونکہ دولت اسلامیہ جیسی دہشت گرد تنظیموں کو اپنے مزموم مقاصد کے لئے لوگ با آسانی مل رہے ہیں۔نورین اس کی واضح مثال ہے ۔کچھ تجزیہ نگار ایک قدم مزید بڑھتے ہوئے یہ کہنے لگے ہیں کہ جماعت الاحرار کے ترجمان کا سرنڈر انہیں ‘‘برے ’’سے ‘‘اچھے ’’میں تبدیل کرنا ہے جیسا کہ پنجابی طالبان رہنما عصمت اللہ معاویہ کے کیس میں ہوچکا ہے ۔وہ ملک کے اندر بڑے دہشت گرد حملوں میں ملوث تھا لیکن بعد ازاں اس نے خود کو پاکستان مخالف گروہوں سے الگ کر لیا۔
ریاست اور ایک عام پاکستانی شاید اس سے متفق نہ ہو کہ انتہا پسندی لوگوں کے ظاہر و باطن کو تبدیل کر دیتی ہے ۔ان کےسماجی اور مذہبی تصورات میں تنگ نظری نہ بھی ہو تو ان میں تبدیلی ضرور آ جاتی ہے ۔کوئی یہ سوال اٹھا سکتا ہے کہ یہ تین مختلف واقعات ہیں جن کا ایک دوسرے سے کوئی ربط نہیں ہے ۔کوئی شاید وہ اعداد و شمار بھی سامنے لے آئے کہ ملک میں آخری حملے کے وقت سے لے کر اب تک اتنے دہشت گرد ہلاک ہو چکے ہیں۔مجموعی طور پر ان حملوں میں کمی کامیابی کے دعوے کی ایک اچھی دلیل ہو سکتی ہے ۔نورین کے مقدمہ کے بارے میں شاید یہ عذر پیش کیا جائے کہ دولت اسلامیہ تو پاکستان میں موجود ہی نہیں ہے ۔جہاں تک مشعال خان کا معاملہ ہےاس کے بارے میں یہ کہا جا ئے کہ یہ ایمان کی حرارت رکھنے والوں کا فوری رد عمل تھا۔یہ دراصل اس کی مثال ہے کہ ہم کس انداز سے سوچتے ہیں۔
ان تین واقعات سے انتہا پسندی،جرائم اورغفلت کی حرکیات کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے ۔تاہم ان رجحانات کی سائنسی بنیادوں پر پرکھ اایک ایسے معاشرے میں ممکن نہیں ہے جو کہ سائنس کو اپنے تعلیمی اداروں میں ایک ڈسپلن کے طور پر ماننے کے لئے تیار نہیں ہے ۔
جو تھوڑا بہت کام عالمی مفکرین نے اس سلسلے میں کیا ہے ا س کے مطابق ایک عام آدمی اپنی مذہبی اور فرقہ وارانہ وابستگی اور شناخت میں بہت زیادہ حساس واقع ہوا ہے ۔مذہب میں اس وقت فرقہ وارانہ رنگ نمایاں ہو جاتا ہے جب مختلف شناختوں کے حامل افراد مخالفین کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں وہ فرقہ وارانہ جماعتوں کو صف اوّل کی جماعتوں کےساتھ اتحاد قائم کرواتے ہیں ،فرقہ وارانہ بنیادوں پر مدارس قائم کرتے ہیں ، سیاسی اور جغرافیائی بنیادوں پر شیعہ ایران اور وہابی سعودی عرب کی دشمنی کا حصہ بن جاتے ہیں۔ پرانے پاکستانی گروپ جیسا کہ تحریک طالبان پاکستان ہے وہ زوال کا شکار ہو رہے ہیں تو دوسرے گروپ مثلاً دولت اسلامیہ، پاکستانی طالبان کے عسکریت پسندوں سے مل کر اپنی جگہ بنا رہے ہیں ۔
مذہبی شعار اور رسومات جو پہلے سب کے لئے یکساں تھے اب ان پر کچھ کی اجارہ داری قائم ہو چکی ہے ۔تقریباً تما م فرقہ وارانہ گروہوں کے کچھ مخصوص ایام ہوتے ہیں جن پر وہ اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔مثال کے طور پرجنوبی پنجاب میں مزارات اور صوفی ازم مذہبی اظہار کا ایک ذریعہ ہے جسے لوگ ایک ثقافتی اظہار کے طور پر بھی لیتے ہیں لیکن اب حتی ٰ کے‘‘ صوفیا کے شہر ’’ میں بھی عدم برداشت بڑھ رہی ہے وہاں بھی محدود مذہبی اور سماجی تناظر میں بات کی جاتی ہے ۔اس نئے مذہبی ماحول کے بعد مذہبی اور فرقہ وارانہ اقلیتوں کو کافی مصائب کا سامنا ہے ۔
تاہم ریاست ایک نئے بیانئے کے لئے کوشاں ہے ۔نیشنل ایکشن پلان اس لئے بنایا گیا تھا کہ وہ ان مسائل پر اپنی توجہ مرکوز کرے جن کی جڑیں کافی گہری ہیں۔آپریشن ضرب ِ عضب اور اب آپریشن ردالفساد نے عسکریت پسندوں کے ڈھانچے کو نقصان پہنچایا ہے اور ان کے لئے زمین تنگ کر دی ہے لیکن ریاست معاشرے کے فکری عمل کو کوئی جہت دینے میں ناکام رہی ہے اس نے تعلیمی سے سیکورٹی شعبے کی اصلاحات سمیت کئی اقدامات ضرور اٹھائے ہیں لیکن ریاست کون ہے ؟اس کو چلانے والے کہاں سے آتے ہیں ؟اور کیا ان میں یہ صلاحیت بھی ہے کہ حالات کا دھارا موڑ سکیں ؟
(بشکریہ ڈان ، ترجمہ :سجاداظہر )
فیس بک پر تبصرے