ریفرنڈم کے بعد کا ترکی:امکانات و خدشات

1,090

دوسری طرف ترکی کے تین بڑے شہروں “استنبول،انقرہ اور ازمیر” نصف سے زائد ووٹ حکومت کی مخالفت میں کاسٹ ہوا اور اپوزیشن جماعتیں ان بڑے شہروں سے اردوان کی حمایت کم کرنے میں کامیاب ہو گئیں۔

16 اپریل کو ترکی  میں ہونے والے ریفرنڈم  میں  طیب اردوان نے معمولی برتری  کے ساتھ فتح حاصل کر لی ہے اور اس طرح  اردوان  کے اس خواب کو تعبیر مل گئ ہے جو انہوں نے   تقریبا ربع صدی قبل دیکھا تھا۔ طیب اردوان   صدارتی نظام کو ترکی کے لیے زیادہ بہتر سمجھتے  ہیں اور عوام کی طرف سے تائید حاصل ہونے کے بعد انہوں نے اپنے خطاب میں خؤشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب ترکی  پہلے کی بہ نسبت زیادہ ترقی کرے گا۔اپنے اس خطاب میں  اردوان نے    جسٹس اینڈ  ڈیویلپمنٹ  پارٹی  کے ساتھ ساتھ تین  اتحادی پارٹیوں کے رہنماؤں کا بھی شکریہ ادا کیا   جن کی کوششوں سے  انہیں اکثریت ملی۔

اس ریفرینڈم کے بعد   اب ترکی  میں بھی امریکہ اور فرانس کی طرح  پارلیمانی نظام کی بجائے صدارتی نظام رائج ہو گا اور  صدر کے اختیارات  میں اضافہ ہو جائے گا۔اس  نظام کے مطابق  :

آئندہ پارلیمانی اور صدارتی انتخابات  3 نومبر 2019 کو ہوں گے۔

وزارت عظمی کا منصب ختم کر دیا جائے گا جس پر آجکل بن علی یلدرم براجمان ہیں۔

اعلی پیمانے کی تمام تقرریوں کا اختیار صدر کے پاس ہو گا جن میں وزراء  اور ججوں کی تعیین اور بجٹ تیار ی کے اختیارات شامل ہیں۔

صدر اپنا ایک یا ایک سے زائد نائب طے کرنے کا مجاز ہو گا۔

ارکان پارلیمنٹ  کی تعداد کو 550 سے بڑھا کر 600 کر دیا جائے گا۔

ضرورت  پڑنے پر ایمرجنسی نافذ کرنے کا اختیار بھی صدر کے پاس ہو گا۔

قابل ذکر  بات یہ ہے  کہ   کرد آبادی کا ایک تہائی ووٹ بھی   صدارتی نظام کے حق میں پڑا ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کرد وں کی آبادی کا  معتد بہ  حصہ  ترکی سے محبت کرتا ہے، کردوں کے ووٹ  حاصل کرنے میں اہم کردار  حکومتی حلیف  جماعت الھدی کرد پارٹی  نے ادا کیا  اور  کردوں کو   بہتر مستقبل کے لیے  حکومت کو سپورٹ کرنے پر آمادہ  کیا۔

دوسری  طرف ترکی کے تین بڑے شہروں “استنبول،انقرہ اور ازمیر”  نصف سے زائد ووٹ حکومت کی  مخالفت میں کاسٹ ہوا اور اپوزیشن جماعتیں ان بڑے شہروں  سے اردوان کی حمایت کم کرنے میں  کامیاب ہو گئیں۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ    ترک پارلیمنٹ  میں  حکومتی اتحادی جماعتوں  کا تناسب 65٪ ہے جبکہ  ریفرنڈم  میں   حمایت میں پڑنے والا ووٹ 14 ٪ فیصد کم ہو  کر 51٪ فیصد تک پہنچ گیا ہے جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اردوان کی مقبولیت  میں کچھ کمی آئی ہے۔مقبولیت میں   کمی کی وجہ حکومت کےگولن مخالف اقدامات ہو سکتے ہیں۔

یاد رہے کہ 15 جولائی 2016 کو بغاوت  کی ناکام کوشش کا الزام حکومت نے فتح اللہ گولن موومنٹ پر لگایا تھا اور امریکہ سے مطالبہ کیا تھا کہ گولن کو ترکی کے حوالے کرے،نیز  حکومت نے انتقامی کاروائی کرتے ہوئے  گولن تحریک سے وابستہ  ہزاروں  کو  معطل کر کے جیل میں ڈال دیا تھا۔جس کا اثر پاکستان میں بھی پڑا اور پاک ترک سکول سسٹم کے سٹاف کو واپس بلا لیا گیا تھا،حال  ہی میں یہ طے پایا ہے کہ  پاکستان میں پاک ترک سکول اب معارف فاؤنڈیشن کے زیرانتظام ہوں گے جو کہ  حکومت کی نمائندہ  آرگنائزیشن ہے۔

اس ساری صورتحال  سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ ترک عوام انتہائی بیدار ہے ااور سیاسی جماعتوں کی حرکیات پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہے،اس ریفرنڈم  میں  ٹرن آؤٹ 85٪ فیصد  رہا   جو کہ پاکستان کے  دو گنا سے بھی زیادہ بنتا ہےجس سے  ترک عوام  کے جمہوریت   پر  اعتماد کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ترک  عوام  نے نو ماہ قبل  ہونے والی بغاوت  کی کوشش کو ناکام بنا کر  جس طرح جمہوریت دوست ہونے کا ثبوت دیا تھا اتنی بڑی تعداد میں آج پھر ووٹ ڈالنے کے لیے نکلنا  ترکی کی جمہوریت کے لیے نیک شگون ہے لیکن تھوڑے ہی عرصہ میں   حمایت میں 14٪ کمی آنا حکومت کے لیے الارمنگ ہے ۔حکومت کو چاہیے کہ وہ   اس مقبولیت کے گرتے ہوئے گراف کے اسباب کا جائزہ لے اور ان کے ازالے کی کوشش کرے  تاکہ  داخلی یا خارجی سازشی  عناصر کو انگلی اٹھانے کا موقع  نہ ملے، بصورت دیگر  2019ء کے انتخابات کوئی دور نہیں ہیں۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...