سماجی رویوں کی تبدیلی میں اساتذہ کا کردار

2,737

سماجی رویوں کی تبدیلی میں سب سے اہم کردار اساتذہ کا ہوتا ہے۔ اساتذہ کے کردار کی اہمیت فقط دورِ حاضر میں ہی نہیں سمجھی گئی بلکہ ارسطو اور افلاطون کے دور سے بھی پہلے اساتذہ کی خدمات و تعلیمات کو نہ صرف تسلیم کیا جاتا تھا بلکہ اسے بنیادی اکائی کے طور پر سماج میں اہمیت کا حامل خیال کیا جاتا تھا۔ اساتذہ کا اپنے شاگرد کی سوچ رویے اور عادات میں تبدیلی لانا ہی اصل کام اور فرض ہوتا ہے۔ والدین رشتہ دار اور دوستوں کا کردار استاد کے بعد ہوتا ہے جن سے انسان متاثر ہوتااور اپنے مستقبل کے خدو خال وضع کرتا ہے۔
طالب علم زندگی کے کسی بھی شعبے کو اختیار کر ے، خواہ وہ میڈیکل ہے یا انجینئرنگ، کمپیوٹر ہے یا بزنس لیکن بحیثیت انسان زندگی کے ہر شعبے میں اسے ایک چیز کی ہر صورت میں ضرورت ہے اور وہ اس کااچھا رویہ ہے۔ نصابی کتب اور اپنے فن کی مہارت انسان کو ایک مشین تو بنا سکتے ہیں لیکن اسے اچھا انسان نہیں بنا سکتے ، اچھا انسان بننے کیلئے ایک ذمہ دار اور باشعور استاد کی ضرورت ہوتی ہے اس حوالے سے ،یونیورسٹی اور کالج کا درجہ بعد میں آتا ہے اور سکول کا درجہ سب سے پہلے ہے۔ بچپن میں ایک طالب علم اپنے استاد سے جو کچھ سیکھتا ہے وہ ساری زندگی نہیں سیکھتا۔ استاد کی تربیت کے اثرات اس کی گفتار سے کردار تک دکھائی دیتے ہیں۔ استاد کیسے اپنے شاگرد کے رویوں کو بدلتا ہے۔ اس کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے جس میں صدیوں پہلے سقراط نے اپنے شاگرد افلا طون کو نصیحت کی تھی۔
افلا طون اپنے استاد سقراط کے پاس آیا اور اُ سے کہنے لگا آپ کا خادم بازار میں کھڑے ہو کر آپ کے بارے میں گستاخانہ باتیں کر رہا تھا سقراط نے مسکرا کر پوچھا وہ کیا کہہ رہا تھا افلاطون نے جذباتی لہجے میں جواب دیا آپ کے بارے میں وہ کہہ رہا تھا ۔۔۔ سقراط نے ہاتھ کے اشارے سے اسے خاموش کروایا اور کہا آپ یہ بتانے سے پہلے اسے تین معیارات پہ پرکھو،اس کا تجزیہ کرو اور اس کے بعد فیصلہ کرو کیا تمہیں یہ بات مجھے بتانی چاہیے؟ افلاطون نے کہا تین معیارات کیا ہیں؟ سقراط بولا کیا تمہیں یقین ہے تم مجھے جو بات بتانے لگے ہو یہ بات سو فیصد سچ ہے؟ افلاطون نے فوراً انکار میں سر ہلا دیا سقراط نے ہنس کر کہا پھر یہ بات بتانے کا تمہیں اور مجھے کیا فائدہ ہوگا؟  افلاطون خاموشی سے سقراط کے چہرے کی طرف دیکھنے لگا ۔سقراط نے کہا یہ پہلا معیار تھا اب ہم دوسرے معیار کی طرف آتے ہیں مجھے تم جوبات بتانے لگے ہو کیا یہ اچھی بات ہے ؟افلاطون نے انکار میں سر ہلا کر جواب دیا جی نہیں ،یہ بُری بات ہے۔ سقراط نے مسکرا کر کہا کیا تم یہ سمجھتے ہو تمہیں اپنے استاد کو بُری بات بتانی چاہیے؟ افلاطون نے انکار میں سر ہلا دیا۔ سقراط بولا گویا یہ بات دوسرے معیار پہ بھی پورا نہیں اترتی، افلاطون خاموش رہا سقراط نے ذرا ٹھہر کر کہا اور آخری معیار یہ بتاؤ وہ بات جو تم مجھے بتانے لگے ہو کیا یہ میرے لیے فائدہ مند ہے ؟افلاطون نے کہا نہیں، سقراط نے ہنس کر کہا ،اگر یہ بات میرےلیے فائدہ مند نہیں تو پھر اس کے بتانے کی کیا ضرورت ہے ؟افلاطون پریشانی سے اِدھر اُدھردیکھنے لگا۔
اگر استاد اپنے شاگرد کی تربیت میں اس منہج کواختیار کرے جو اِس واقعہ میں موجود ہے تواس سے رویوں کی اصلاح ہو سکتی ہے۔ پہلا مسئلہ یہ ہے کہ ہم سنی سنائی باتوں اور غیر یقینی اطلاعات کو عام کرتے، بحث کرتے اور اُس پہ رویوں کی عمارت کھڑی کرتے ہیں۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ہم خیروشر کی تصدیق اور اس کے اثرات و نتائج سے بے خبر یا علم کے باوجودشر کو عام کرتے ہیں۔ تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ نتیجتاً اس کے فوائد و ثمرات کیا ہیں، ہم اس سے بے پرواہ ہوکراپنا وقت  ضائع کرتے ہیں  اور مسلسل گناہ کے خریدار بنے رہتے ہیں۔ بد قسمتی سے ہمارے سماج میں استاد اور شاگرد کا باہمی تعلق، چند نصابی سرگرمیوں اور تدریسی کتب تک محدود ہو کررہ گیا ہے۔اس تعلق کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے جس میں استاد کے خیال سے ہی ایک ایسی شخصیت کا تصور قائم ہو جاتا ہے جو اپنے طالب علم کی نہ صرف تعلیمی ضرورت کو پورا کرتا ہے بلکہ اِس کیلئے تشنگی علم کی سیرابی کا ذریعہ بھی بنتا ہے۔ فقط یہی نہیں بلکہ اعلیٰ رویے، اخلاق اور خوبصورت طرز عمل سے اپنے شاگرد کی تربیت بھی کرتا ہے۔ دراصل یہ استاد ہماری روایت و میراث کا نمائندہ تھا جس کا وجود اب معدوم ہو تاجارہا ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...