بچوں کے رشتے اورہمارے سماجی رویّے

931

ہمارے معاشرے میں بیٹی والے حسّاس ہوتے ہیں یا انہیں حسّاس کر دیا جاتا ہے۔ دونوں صورتوں میں اس حساسیت کی وجہ ہمارے وہ رویے ہیں جو بیٹا اور بیٹی کی تفریق پر مبنی ہیں۔ فقط ایک تجربہ و مشاہدہ نہیں بلکہ کئی تجربات و مشاہدات ہیں جواس غیر مساوی رویّے  پر گواہ ہیں۔ معاشرے کے ایسے افراد کا زاویۂ نظرفقط غیر اسلامی ہی نہیں بلکہ غیرانسانی بھی ہے۔ والدین اپنی بیٹی یابیٹیوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کے بعد ان کی شادی کیلئے جب سماج کی ذہنیت کا جائزہ لیتے ہیں تو انہیں معلوم ہوتا ہےکہ بیٹیوں کی تعلیم تو اس معاشرے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔وہ تو حسن و جمال اور دولت و آسائش کا خواہش مند ہے۔اگر تعلیم ضروری بھی ہے تو اس لیے کہ نوکری کرکے گھر کا ذمہ اُٹھا سکے۔

کچھ روزپہلے مجھے اس کا یوں تجربہ ہواکہ ایک عزیز نے اپنی بیٹی کے رشتے کے لیے آنے والی فیملی کے ساتھ ملاقات کرنے اور اُن کے ساتھ بیٹھنے کے لیے کہا۔ پہلے لڑکے کو دیکھا تو وہ واجبی شکل و صورت کا مالک تھا اور ملازمت بھی مناسب تھی۔ جب اس کے والدین سے ملاقات ہوئی تو اندازہ ہواکہ لڑکا ہونا ہی اعلیٰ وصف اور خوبی ہے ۔اس کے علاوہ کسی اور خوبی کا ہونا ضروری نہیں ہے۔ ہمارے ہاں یہ بھی ایک رسمِ بد ہے کہ صرف لڑکی کو دیکھنے کے لیے پورا خاندان لڑکی والوں کے گھر آدھمکتا ہے۔کوئی نہیں جانتا کہ لڑکی کی شخصیت پر اس کے بُرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ آنے والی خواتین کی گفتگو ، جائزہ اور تبصرہ مزید اس کے اعتماد اور ذات کو ٹھیس پہنچاتے ہیں۔ فقط لڑکی نہیں گھر کے سامان کوبھی عجیب انداز میں دیکھا جاتا ہے اس طرح صرف غربت و سادگی کا مذاق نہیں اڑایا جاتا بلکہ قیمتی سامان کے تقاضے کی طرف اشارہ بھی ہوتا ہے ۔

بعض خاندان لڑکی دیکھنے کے بہانے تفریح اور دعوت کا پروگرام بنا کر گھر سے نکلتے ہیں بعض اوقات ،بہن کی طرف سے اس بات پر بھی رشتہ رَد کر دیا جاتا ہے کہ لڑکی نے مجھے سلام نہیں کیا۔طریقہ کار یہ ہونا چاہیے کہ فقط والدین لڑکی کے گھر جائیں اور مل کر  واپس آ جائیں۔

بد قسمتی سے گھریلو سطح پر ایسے رویّے خواتین کی طرف سے ہوتے ہیں جو خود ماں، بہن اور بیٹی ہوتی ہیں۔ ماں اپنی بیٹی کے لیے انتہائی جذبہ محبت رکھتی ہے۔ بہن یا بیٹی اس حساسیت سے واقف ہوتی ہے کہ رشتے کا طے ہونا اور اس وقت کسی کی جملے بازی کتنی تکلیف دیتی ہے لیکن یہ خواتین اپنے آپ کو اس لڑکی کی جگہ رکھ کر نہیں سوچتیں جس کے گھر رشتہ دیکھنے جاتی ہیں۔

جس معاشرے میں جائز راستے بند کر دیے جائیں یا جائز کاموں کے لیے مشکلات کھڑی کر دی جائیں تو وہاں گناہ، بے راہ روی اور بے حیائی عام ہوتی ہے۔ آج شادی کرنا ایک مشکل کام ہو چکا ہے۔ رشتہ طے پانا لڑکی یا لڑکا تلاش کرنا جان جوکھوں کا کام تو ہے ہی اصل مشکلات کے پہاڑ اس کے بعد کھڑے ہوتے ہیں۔ رسوم و رواج کاایک سیلاب ہے جو دونوں خاندانوں کی زندگی کی جمع پونجی بہا کرلے جاتا ہے۔ مہینہ دو مہینہ کی مصروفیات میں دولت ضائع کرنے اور قرضوں کے بوجھ تلے دب جانے کے بعد ایک نئی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ اس نئی زندگی میں معاشی تنگی اور ذہنی اذیت کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ ان تمام مسائل و مشکلات سے بچنے کا واحد راستہ سماجی رویوں کی اصلاح ہے۔ جلدیابدیر اس کے سوا کوئی اور حل نہیں ہے ۔

 

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...