آٹھ فیصد ایک۔۔۔آٹھ فیصد دو۔۔۔ ۔۔وقفہ۔۔۔۔۔ 10 فیصد ایک۔۔۔10 فیصد دو۔۔۔یہ آوازیں سپریم کورٹ کے وسیع و عریض کمرےعدالت نمبر1 میں گونج رہی تھیں جو کشادہ ہونے کے باوجود سائلین، وکلا اور صحافیوں سے بھرا ہواتھا۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت کے مناظر چنداں مختلف نہ تھے۔ چیف جسٹس کی عدالت میں درجن بھر کے قریب وکلا اوران کے موکلان ایسے مخاطب تھے جیسے کسی منڈی میں غلے، مویشیوں، سبزیوں یا پھلوں کا بھاؤ تاؤ چل رہا ہو۔
جس کو بیٹھنے کی جگہ نہیں مل رہی تھی وہ کسی کونے کھدرے میں کھڑے کھڑے عدالتی کارروائی کے مناظر دیکھ رہاتھا۔ معاملہ اس قدرسنجیدہ تھا کہ جیسے سب نے سانس لینا ہی چھوڑ دیا ہو۔ آج سب نظریں ان عجیب بیوپاریوں پر لگی ہوئی تھیں جو قوم کے معمار کے روپ میں قوم کے مستقبل پر سب سے بڑی عدالت میں سودا بازی کے لیے کوشاں تھے۔
روسٹرم پر درجن بھر وکلا کے ساتھ ان کے بظاہر انتہائی وضع دار فر فر انگریزی بولتے موکلان کھڑے تھے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے ہاتھ جوڑ کر ان سے قوم کے مستقبل پر رحم کھانے کی اپیل کی۔ مہنگے داموں تعلیم فروخت کرنے والوں سے فیس میں 20 فیصد تک کمی کا کہا لیکن معاملہ حل طلب رہا۔
ایک عدالتی وقفے کے بعد اسکول کے نمائندوں نے اپنا ریٹ 8 فیصد سے 10 فیصد بڑھانے کا اعلان کردیا۔ رنگ برنگ کے سوٹ اور ٹائی پہنے یہ خوش لباس اورخوش گفتار مخلوق روسٹرم پرکچھ ایسی ادا سے کھڑے تھے جیسے کسی ادارے میں نئے تعلیمی سال کے داخلے کے لیے انٹرویوز ہورہے ہوں۔
انصاف کے کٹہرے میں شاید ہی اس شان و شوکت سے کوئی کھڑا ہوا ہو۔ اس سے پہلے کہ یہ سب اپنے انوکھے اور مہنگے نظام ِتعلیم پرانگریزی میں لیکچر دیتے، چیف جسٹس ثاقب نثار نے ان سب کو ان کے وکلا سمیت آڑےہاتھوں لیا اور کہا کہ وہ یہاں سودے بازی کرنے آئے ہیں؟ چیف جسٹس نے کہا آپ ہمارے بچوں کو کیسی تعلیم دے رہے ہونگے اگر آپ لوگوں کا یہ طرزِعمل ہے؟
یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
چیف جسٹس نے وکلا کو سختی سے منع کرتے ہوئے کہا کہ بات اردو میں کریں۔ آپ کے موکلان اب آپ کی کارکردگی سے متاثر ہوچکے ہیں۔ زیرلب فخریہ مسکراہٹ کے ساتھ اب اردو کی ٹانگیں بھی انگریزی ڈنڈوں سے توڑنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ اب کی بار ان سب کی اردو میں ایسی کلاس شروع ہوئی کہ شاید اس سے قبل کبھی اتنی طویل کلاس انہوں نے نہ دیکھی ہو۔ ان میں سے کچھ کروڑ کروڑ روپے تنخواہ والے انوکھے نوکر مرکز نگاہ تھے۔
یہ علم، یہ حکمت، یہ تدبر، یہ حکومت
پیتے ہیں لہو، دیتے ہیں تعلیم مساوات
چیف جسٹس نے کہا ‘ذرا سامنے آئیے ،میں وہ شکلیں تو دیکھوں جو کروڑ روپے تک تنخواہ کی اہلیت رکھتی ہیں!’ اب سب نظریں ان مہنگے ترین ملازمین کی جھلک کو ترس رہی تھیں۔ آپ ایسا کیا کرتے ہیں کہ آپ کی بنیادی تنخواہ 83 لاکھ ہے جبکہ مزید سہولیات اس کے علاوہ ہیں؟ چیف جسٹس کے سوال پر جیسے ان ملازمین کو سانپ سونگھ گیا ہو۔ پھر چیف جسٹس نے کہا آپ لوگ ہمارے بچوں کے مستقبل کے خریدار ہیں، آپ ان کی حلال کی جمع پونجی اکٹھی کرتے ہیں اور پھر ٹیکس سے بچنے کے لیے تنخواہ کی مد میں خرچ ظاہر کردیتے ہیں۔ ان ‘بیوپاریوں’ سے کچھ نہ بن پایا تو انہوں نے سرنڈر میں عافیت جانی۔ شاید اکبر الہ آبادی نے ان کے لیے ہی کہا تھا:
پڑھ کے انگریزی میں دانا ہوگیا
“کم” کا مطلب ہی کمانا ہو گیا
عدالت نے واشگاف الفاظ میں یہ حکم نامہ جاری کیا کہ ملک بھر میں 5 ہزار روپے سے زائد فیس لینے والے نجی سکول فیس میں 20 فیصد کمی کریں ۔عدالت نے اپنے حکم میں کہا ہے کہ نجی سکول 2 ماہ کی چھٹیوں کی فیس کا 50 فیصد والدین کو واپس کریں یا پھر انہیں مستقبل میں لی جانے والی فیسوں میں ایڈجسٹ کریں۔سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں کہا ہے کہ پرائیویٹ سکول فیسوں میں سالانہ پانچ فیصد سے زائد اضافہ نہیں کر سکیں گے اور اگر پانچ فیصد سے زائد اضافہ کرنا ہوا تو ریگولیٹری باڈی سے اجازت لینا ہو گی۔
یاد رہے کہ آٹھ ستمبر 2015 کو پاکستان کے بڑے شہروں میں نجی سکولوں میں پڑھنے والے بچوں کے والدین نے فیسوں میں بلا جواز اضافے اور دوسرے اخراجات کی مد میں بے جا وصولیوں کے خلاف احتجاج شروع کیا تھا۔والدین کے احتجاج کا نوٹس لیتے ہوئے سابق وزیرِ اعظم نواز شریف نے وزیر مملکت برائے تعلیم بلیغ الرحمان کو والدین اور سکولوں کے مالکان اور انتظامیہ سے مذاکرات کی ذمہ داری سونپی تھی۔
فیس بک پر تبصرے