ایک بھولا بسرا ادیب

917

اپنی زندگی میں خان فضل الرحمن خان پاک ٹی ہاؤس میں ہونے والے ادبی اجلاسوں کے مستقل شرکاء میں سے شامل ہوتے تھے ۔ عموماً پہلی قطار میں بیٹھتے ، پیش کی جانے والی ہر تحریر کو بغور سنتے اور پھر ایک یا دو جملوں میں بے لاگ اور حتمی انداز میں رائے دیتے تھے۔ یہ آپ کا مخصوص انداز تخاطب تھا۔ وہ شہادت کی انگلی بلند کرکے صاحب صدر سے بولنے کی اجازت طلب کرتے اور جو رائے دیتے، اسے سینئر نقاد بھی توجہ کے ساتھ سنتے اور مانتے تھے۔
خان فضل الرحمن قریب چھ فٹ کے لمبے تڑنگے اور نزار جسم کے انسان تھے۔ ایک زمانے میں وہ وکلاء کے سیاہ کوٹ میں ملبوس ٹی ہاؤس میں بیٹھے دکھائی دیتے تھے۔ پھر یہ کوٹ اتر گیا اور اس کی جگہ ایک میلا پاجامہ اور گھٹنوں تک دراز قمیض باقی رہ گئی جو آہستہ آہستہ ہر روز زیادہ میلی ہونے لگی۔ زندگی کے آخری دنو ں میں ان کی ذاتی زندگی ایسی بے قاعدگی اور انتشار کا شکار ہوئی کہ ان کے لباس سے باقاعدہ بدبو کے بھبکے اٹھنے لگے تھے۔
1961 میں خان فضل الرحمن خان کا ناول ’’ آفت کا ٹکڑا‘ ‘ چھپا تو اردو کے ادبی حلقوں میں اس نے فورا ًہی ایک متنازعہ فیہ حیثیت حاصل کرلی۔ یہ اس دور میں لکھے جانے والے ناولوں سے بہت ہٹ کر لکھا ہوا ناول اور اپنے موضوع، نثر او ر تکنیک کے اعتبار سے ایک نیا تجربہ تھا۔ اسے مکتبہ جدید نے چھاپا۔ اس کے ناشر حنیف رامے تھے، جنہوں نے خان فضل الرحمن خان کے بقول اس ناول کی ایڈیٹنگ بھی کی اور اس میں سے ایسے تمام حصے احتیاطاًحذف کردیے ، جو ان کے خیال میں اعتراض کی زد میں آسکتے تھے۔ اس کے باوجود اس ناول پر فحش نگاری کا الزام لگا اور اس کی فروخت پر پابندی لگا دی گئی۔ منٹو کے بعد خان صاحب پہلے ادیب تھے جن کی تحریروں پر فحش نگاری کا الزام لگایا گیا۔جیسا کہ خان صاحب ہی کی زبانی معلوم ہوا کہ بعد ازاں انھوں نے اس ناول کے مزید دو حصے بھی لکھے جو ہنوز شائع نہیں ہوئے ۔ یہ مسودے نابھ روڈ پر ان کی اقامت گاہ میں ایک طرف ڈھیر کی گئی ردی کے انبار میں موجود تھے لیکن ان پر نظرثانی کی آپ کو مہلت نہیں ملی۔ ان کی وفات کے بعد ان مسودوں کی کیا درگت بنی اور وہ کس ردی والے کے ہاتھ لگے، اس بارے میں کسی کو کچھ علم نہیں ہے۔
زبان و بیان کے اعتبار سے خان فضل الرحمن خان صاحب ایک جید لکھنے والے تھے۔اپنے ناولوں آفت کا ٹکڑہ ، اورادھ کھایا امرود اور اپنے دیگر افسانوں کے ذریعے خان فضل الرحمن خان نے بیک وقت زبان موضوع اور تکنیک کی سطح پر تجربات کی جرات کی اور ایک نیا پن لانے کی کوشش کی۔ ان کا قریب تمام فکشن ایسے ہی چونکا دینے والے نئے پن سے بھرا ہوا ہے ۔ ان کی نثر میں ہندی و فارسی الفاظ اور مزاج کی گھلاوٹ، ان کا انسانی جنسی جبلت کے بیان پر اصرار اور کرداروں کو ایک خاص انداز میں پیش کرنے کا اسلوب ان کے فکشن کی خاص پہچان ہے ۔
70 کی دہائی میں ’’ آفت کا ٹکرا ‘‘ کی اشاعت کے بعدہی سے خان صاحب باقاعدہ طور پر ایک متنازعہ فیہ ادیب کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ ان کی متعدد کہانیاں ادبی رسائل سے محض اس بناء پر واپس ہوئیں کہ وہ فحش نگاری کی ذیل میں آتی تھیں۔ اس دور میں خاص طور پر حنیف رامے نے اپنے جریدے ’’ نصرت‘‘ میں خان صاحب کو مسلسل چھاپا۔ یہ خان فضل الرحمن کی تخلیقی فعالیت کا دور تھا۔
جیسا کہ معلوم ہوتا ہے خان صاحب نے کبھی اپنی تحریروں کی نشر و اشاعت پر کچھ خاص توجہ نہیں دی۔ وہ ان ادیبوں میں سے نہیں تھے جو خود اپنی کتابوں کی محبت میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور ان کی تشہیر کے لیے تردد کا شکاررہتے ہیں  اور اس بنیاد  پر اپنی تشہیر کی راہ تلاش کرتے ہیں۔ خان صاحب کی بے نیازی، اپنے آپ میں مگن رہنے کی خُو اور ان کی کم آمیزی و کم گوئی، ان کی شخصیت کو دلچسپ اور پرکشش بناتی ہیں۔
خان صاحب کی کتابیں لائبریریوں یا بک سٹورز پر دستیاب نہیں ہیں۔ نہ ان کے فن پہ اتنا  لکھا گیاجو ان کا حق بنتا تھا۔ موجودہ نسل کے پاس ان کے ادب سے متعارف ہونے کے لیے بنیادی علمی و ادبی وسیلے موجود نہیں ہیں۔ انھیں پڑھنے والوں ہی نے نہیں، لکھنے والوں اور ناقدین اور علمی ادبی اداروں نے بھی فراموش کردیا۔ فی زمانہ ذاتی تشہیر کا ہنگامہ اور شور شرابا اس قدر ہے کہ خاموش رہنے اور اپنے فن کی پرورش اور بلوغت کی کوششوں میں مصروف رہنے والوں کو بھلا دیا جانا زمانے کا چلن بن چکا ہے۔لیکن خان صاحب کو ان کی زندگی ہی میں فراموش کیا جانے لگا تھا۔ وہ نوے کی دہائی میں منظر سے ہٹ گئے اور گوشہ گمنامی میں جا بیٹھے تھے۔

خان فضل الرحمن خان کی وفات بھی گوشہ گمنامی میں ہوئی۔ جب تک ان میں چلنے پھرنے کی سکت تھی وہ بڑی باقاعدگی کے ساتھ پاک ٹی ہاوس اورچائنیز ریسٹورنٹ میں ہونے والے ہر ادبی اجلاس میں شریک ہوتے تھے۔زندگی کے آخری ایام آپ نے بیماری کی حالت میں نابھ روڈ پر واقع ایک تجارتی مگر نامکمل پلازے میں ایک کمرے میں گزارے جب کہ آپ ایک ڈھیلی پائنتی والی چار پائی پر پڑے رہتے تھے۔ جہاں ان کی چار پائی دھری تھی، اس کے قریب تین فٹ کے فاصلے پر مختلف غلاظتوں اور گندگی کے ڈھیر لگے رہتے تھے۔ جن پر پلنے والی مکھیوں او رمچھروں کی وہاں بہتات تھی او رجو معمولی سی آہٹ پر اس غلاظت پر سے ایک بادل کی طرح بلند ہوتے او رپورے کمرے میں پھیل جاتے۔ پاس ہی پڑے ایک میز اور سٹول پر دہی ، ڈبل روٹی ، چکنائی وغیرہ کی تہیں جمی ہوتی تھیں۔ خود خان صاحب کا لباس چار پائی پر بچھا گدا ، چادر اور رصنائی مختلف طرح کی غلاظتوں میں لتھڑی ہوئی اور گیلی رہتی تھیں اوران میں سے بدبو کے بھبھکے اٹھتے تھے ۔
اس حالت میں بھی خان فضل الرحمن میں زندگی کس قدر موجزن تھی، اس کا اندازہ ان کے تروتازہ سفید چہرے پر پھیلی طمانیت اور شانتی سے بخوبی ہوتا تھا جو اس تمام غلاظت کے بیچ ایک کنول کی طرح کھلا ہوا معلوم ہوتاتھا۔ ان سے ایک تفصیلی گفتگو وہیں اسی کمرے میں ہوئی جب کہ وہ صاحب فراش تھے۔ وہ یادداشت کے فقدان کا شکار ہوگئے تھے۔ کوئی بات یاد کرنے کے لیے انھیں ذہن پر بہت زور دینا پڑتا تھا۔ چہروں کوپہچاننے میں بھی انہیں خاص دقت ہوتی تھی۔

اس سوال کے جواب میں کہ وہ اپنی اولاد کے ساتھ ماڈل ٹاون والی کوٹھی میں جو معلوم ہوا تھا کہ چار کنال کے قریب رقبے پر محیط تھی، کیوں نہیں رہتے تھے؟ خان صاحب نے کہا ’’وہ کوٹھی میری بیوی کے نام ہے جس کو میں نے طلاق دے دی تھی۔‘‘
’’ اپنے خاندان سے آپ کو کوئی شکایت نہیں ہے کہ انھوں نے آپ کو اس حال میں رکھا ہوا ہے ۔‘‘
’’ نہیں مجھے کسی سے کوئی شکایت نہیں ہے ۔ میں خود ہی ایسا رہتا ہوں۔‘‘ خان صاحب نے اسی طمانیت بھرے تاثر کے ساتھ جواب دیا۔
خان فضل الرحمن خان کے ساتھ اس کمرے میں ایک چالیس پنتالیس سالہ نیم بدحواس عورت بھی رہتی تھی۔خان صاحب سے کچھ فاصلے پر اس نے اپنی چار پائی بچھائی ہوئی تھی جس پر چند میل آلود چادریں اور کپڑے پڑے تھے ۔ اس عورت نے اپنے متعلق جو کہانی بیان کی وہ ان معلومات سے مختلف تھی ۔ جو مجھے خان صاحب کے قریبی لوگوں سے اس کے متعلق حاصل ہوئی تھیں ۔ عورت کا بیان مختصر اً یوں تھا۔
’’ میرا نام راحیلہ ہے ، میں تیس برس سے خان صاحب کے ساتھ رہ رہی ہوں۔ میرا تعلق مصر سے ہے ، جہاں سے میں دس برس کی عمر میں یہاں لاہور آئی تھی۔ پھر کچھ عرصہ پانی والا تالاب میں ایک عورت محمودہ کے پاس رہی ۔ ایک دن خان صاحب وہاں سے گزرے ، انھوں نے مجھے دیکھا اور پسند کیا اور پوچھا کہ کیا میں ان کے ساتھ رہ سکتی ہوں۔ میں تیار ہوگئی اور یہاں چلی آئی۔‘‘
عورت نے اپنے مصری ہونے کے ثبوت کے طور پر چند جملے عربی زبان میں ادا کئے۔ خان فضل الرحمن کے بارے میں اس کا خیال یہ تھا کہ یہ بہت شریف ، نماز روزے کے پابند او رلکھنے پڑھنے کے بے انتہا شوقین تھے۔خان فضل الرحمن کے قریبی احباب البتہ اس عورت سے متعلق مختلف معلومات فراہم کرتے تھے جن کے مطابق اس کا اصل نام فہمیدہ تھا ۔1960کے قریب خان فضل الرحمن کی اس سے کسی طور ملاقات ہوئی۔ یہ تب موہنی روڈ پر مقیم تھی اورایک مقدمے کے سلسلے میں کلائنٹ کے طور پر ان کے پاس آئی تھی۔ خان صاحب نے اس کی مدد کی۔ اور اسے اپنا دل دے بیٹھے اور انھوں نے شادی کرلی۔ تب سے یہ دونوں اکٹھے رہ رہے تھے۔ خان صاحب کے قریبی عزیزوں کے خیال میں وہ خان صاحب کو لوٹ کھسوٹ رہی تھی۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ خان صاحب کی آخری سانسوں تک ان کے ساتھ رہی۔ اس کے بعد وہ کہاں گئی کسی کو کچھ معلوم نہیں ہے۔
خان فضل الرحمن1910 میں ریاست سہارنپور ( ہندوستان) کے ایک گاؤں رائے پور میں پیدا ہوئے۔والد کا نام فضل حق خان تھا ، جو اپنے علاقے کے اہم بڑے زمینداروں میں شمار ہوتے تھے ۔ خان فضل الرحمن نے گورنمنٹ مسلم ہائی سکول ، انبالہ سے میٹرک کیا۔ پھر آپ لاہور تشریف لائے اور یہاں گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے کیا، ایم اے( ہسٹری ) اور ایل ایل بی لکھنو یونیورسٹی سے کیا ۔ گھر میں روپے پیسے کی ریل پیل تھی۔اس نے جوان ذہن کو کبھی کسی نوکری کی طرف مائل نہیں ہونے دیا۔ تحریک پاکستان کی لہر چلی تو مسلم لیگ کے کارکن کے طور پراس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ایک جلسے میں حکومت کے خلاف تقریر کرنے کے الزام میں خان صاحب کے خلاف وارنٹ جاری ہوگئے لیکن خبر ملنے پر وہ پولیس کے گھر تک پہنچنے سے پہلے فرار ہوگئے ۔لاہور میں آکر انھوں نے خود کو لکھنے پڑھنے اور وکالت کرنے میں مصروف کرلیا۔ لکھنے کا آغاز البتہ چھوٹی عمر میں کردیا تھا۔ گورنمنٹ کالج لاہور کے ادبی رسالے ’ راوی‘ میں آپ کی ابتدائی تحریریں اور نظمیں شائع ہوئی تھیں۔

1935 میں خان فضل الرحمن کی شادی شمیم فاطمہ سے ہوئی جن سے ان کے دو بچے ہیں ایک بیٹا ضیاء الرحمن او ربیٹی پروین داؤد۔ ضیاء الرحمن گورنمنٹ کالج میں شعبہ انگریزی ادب میں تدریس سے وابستہ رہے۔ پہلی شادی قریب پچیس برس رہی،1954 میں اس جوڑے میں طلاق ہوگئی ۔ تب سے وہ نابھ روڈ پر واقع اپنے مکان میں مقیم ہیں ۔ یہ ایک چار منزلہ عمارت ہے۔ جس میں دفاتر بنے ہوئے ہیں لیکن جب تک خان صاحب زندہ رہے، یہ عمارت اسی حالت میں نامکمل ہی رہی۔ اس مکان کے علاوہ کچھ پلاٹس اوربنک بیلنس بھی خان فضل الرحمن کے نام پر موجود تھا ۔ قریب ہر روز خان فضل الرحمن کا بیٹا ضیاء الرحمن نابھ روڈ آتا تھا، اور دودھ اور ڈبل روٹی ان کے لئے وہاں رکھ جاتا تھا۔شاید ان کا علاج بھی کروانے کی کوشش کی گئی تھی لیکن ان کی حالت دیکھ کر اندازہ ہوتا تھا کہ انھیں ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا تھا۔ اسی کسمپرسی کی حالت میں وہ فوت ہوئے۔

خان فضل الرحمن کی جتنی کتابیں چھپی ہیں ، قریب اتنے ہی غیر مطبوعہ مسوادت موجود تھے۔ بہت سے مسودات خان صاحب کی زندگی ہی میں گم ہوگئے تھے۔ باقی مسودات کو انھوں نے ایک صندوق میں بند کرکے رکھا ہوا تھا۔ معلوم ہوا کہ یہ مسودات ان کے چند دوستوں نے ایک عرصہ تک بنک لاکر میں محفوظ رکھے۔ قریب ڈیڑھ برس تک یہ ایک صندوق میں بندصلاح الدین محمود کے گھر میں پڑے رہے۔ پھر فضل الرحمن اس صندوق کونابھ روڈ والے گھر میں اٹھالائے ۔ اس صندوق میں ’’آفت کا ٹکڑا‘‘ کے بقیہ دو حصوں کے علاوہ چند افسانے ، چند ناول،اور انگریزی زبان میں ایک ناول کا مسودہ بھی موجود تھا۔ نابھ روڈ والے گھر میں یہ مسودات نچلے کمرے کے ایک طرف ایک ڈھیر کی صورت میں پڑے رہتے تھے۔ یہ مسودات نہایت بوسیدہ کاغذوں اور فائل کورز پر کھر درے قلم سے بدخط تحریر میں لکھے گئے تھے۔ ان کو پڑھنا خاصا دشوار تھا۔ جیسا کہ خان صاحب ہی کی زبانی معلوم ہوا’’آفت کا ٹکڑا‘‘کے تیسرے حصہ کے مسودے کوان کی موجودہ ’’بیوی ‘‘ نے چند روپوں کے عوض ردی میں بیچ ڈالا تھا۔ جسے پھر خان صاحب نے نئے سرے سے لکھا۔یہ مسودہ بھی ان کے مسودات والے بکسے میں موجود تھا۔
پیشے کے اعتبار سے خان فضل الرحمن ایک ایڈووکیٹ تھے۔ وہ اپنے زمانے کے کامیاب وکلاء میں شامل تھے ۔ اردو انگریزی کے علاوہ انہیں ہندی ، فارسی او رکسی حد تک عربی پر بھی عبور حاصل تھا۔مزاج میں قلندرانہ جذب و مستی کی کیفیت رہتی تھی۔ لیکن بنیادی طورپر آپ اپنی ترنگ میں رہنے والے ایک شریف النفس اور بھلے انسان تھے۔ ایک زمانے میں ان کے ٹھاٹھ باٹھ رئیسانہ تھے۔ شاہ خرچ تھے۔ شاید بیوی سے ناچاقی رہتی تھی۔ گھر سے ناخوش تھے۔ کچھ وجہ ہوگی کہ اپنی پہلی بیوی کو طلاق دی اور خود نابھ روڈ اٹھ آئے۔ ایک خوشگوار سماجی زندگی کے لیے وہ کبھی موزوں نہ ہوسکے اور اپنا بھرا پڑا گھر چھوڑ دیا۔ان کی ذاتی زندگی میں بھی یہ عدم موافقت اوربے ترتیبی نمایاں رہی۔

خان فضل الرحمن کئی کئی گھنٹے مسلسل لکھنے والے ادیب تھے ۔ عموماً ساری ساری رات بیٹھ کر لکھتے ، معمولی رسیدوں سے لے کر عدالتی فائلوں کے کورز تک ہر قسم کے کاغذوں پر ان کے مسودات مشتمل تھے ، تحریر بدخط تھی اور الفاظ بہت چھوٹے چھوٹے اور آپس میں الجھے ہوئے ہوتے تھے۔کوئی منظرلکھنے سے پہلے خان فضل الرحمن عموما اس کی تصویر کاغذ پر کھینچ لیتے تھے ۔ اپنے مختلف ناولوں کے خیالی شہروں ، جنگلوں او رکرداروں کے ان کے ہاتھ کے کھینچے ہوئے متعدد خاکے ان کے مسوادت میں موجود تھے ۔بعض اوقات ٹی ہاؤس میں بیٹھے ہوئے بھی آپ کاغذوں پر ایسے خاکے کھینچتے رہتے تھے۔ آخری عمر میں یعنی جب تک آپ میں چلنے پھرنے کی سکت رہی، ان کی دوسری بیوی انھیں لینے ٹی ہاؤس میں آجاتی تھی اور انھیں زبردستی اپنے ساتھ لے جاتی۔

خان فضل الرحمن ایک رنگین مزاج مرد کی طرح تمام عمر صنف نازک کے دلدادہ رہے او ران کے ایک قریبی دوست کے بقول وہ ہر تھوڑے عرصے کے بعد اپنے ساتھ رہنے والی عورت کو بدل دیتے تھے او راسے دوستوں سے نئے سال کے ماڈل کے طور پر متعارف کرواتے تھے۔ تاہم انکی شخصیت میں متضاد دھارے بیک وقت رواں رہتے تھے۔ آپ کی شخصیت کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ وہ نوجوانی سے پابند صوم و صلوہ تھے۔ انھوں نے حج بھی کیا۔ادبی جلسے کے دوران ہی وہ کرسی پر بیٹھے بیٹھے نیت باندھ کر نماز پڑھنے لگتے تھے۔ باقاعدگی سے نماز پنجگانہ ادا کرتے تھے۔ ان کے سبھی پرانے اورنئے جاننے والوں کی ان کے بارے میں یہ مشترکہ رائے تھی کہ خان صاحب بھلے مانس، شریف، کم گو ، مہذب اور شائستہ انسان تھے۔ جوانی میں کچھ عرصہ سگریٹ نوشی کی لیکن جلد ہی اس عادت کو ترک کردیا تمام عمر شراب کو منہ نہیں لگایا۔ کبھی کسی نے انہیں بلند آواز میں بولتے یا قہقہہ لگاتے نہیں سنا ، عموماً کم بولتے،بہت سوچ کر مگرمختصر اور  کھری بات کہنے کے عادی تھے۔

زاہد ڈار بتاتے ہیں کہ خان صاحب کبھی کبھارٹی ہاؤس میں آکر بتاتے تھے کہ ان کا کوئی کردار خود سر ہورہا تھا اور وہ اس بات سے پریشان تھے۔ ان کے خاص کر وہ کردار جو جنسی بے راہ روی کا شکار ہوتے، مسلمان نہیں ہوتے تھے۔ کبھی وہ پریشان صورت لیے ٹی ہاؤس میں آتے تو کسی کے استفسار پر کہتے کہ ان کا کوئی کردار ان کے ہاتھ سے نکل گیا ہے اور وہ اسے تلاش نہیں کرپارہے۔ یا یہ کہ ان کی کہانی کہیں آکر رک گئی یا الجھ گئی ہے اور اب ان سے یہ آگے نہیں چلائی جا رہی تھی۔

میں نے خان صاحب سے پوچھا جب کہ وہ بیماری کی حالت میں بستر پر لیٹے ہوئے تھے اور ان کی آواز میں شدید نقاہت تھی۔’’ خان صاحب ، بہت عرصہ سے آپ نے کچھ نہیں لکھا ، کیا اب لکھنے کو دل کرتا ہے؟‘‘
’’ ہاں جی۔ بہت دل کرتا ہے ۔‘‘
’’کیسی کہانی لکھنے کو دل کرتا ہے؟ ‘‘
خان صاحب مسکرائے ، کچھ دیرسوچا پھر لیٹے لیٹے کروٹ بدلی جس سے ان کی رضائی میں سے بدبو کے بھبھکے بلند ہوئے۔انھوں نے ویسی ہی طمانیت کے ساتھ دھیمے لہجے میں کہا’’ ہاں جی۔۔۔ رومانٹک کہانی۔‘‘

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...