روس کی اسلام اور مسلمانوں سے متعلق حکمت عملی

ڈاکٹر قمر الہدیٰ

1,143

افغانستان سے فوجی انخلاء کے لگ بھگ 30 سال کے بعد روس نے رواں مہینے کے اوائل میں ایک امن کانفرنس بلائی جس میں 12 ممالک بشمول طالبان کے ایک وفد کے شریک تھے ۔ اگرچہ افغان صدر اشرف غنی  کی جانب سے کسی سرکاری وفد کو اس کانفرنس میں نہیں بھیجا گیا تاہم اعلیٰ سطح کی امن کونسل جو کہ مسلح جہادیوں سے مذاکرات کی ذمہ دار ہے، اس کے ایک اہلکار کو اس کانفرنس میں بھیجا گیا ۔ روس گزشتہ کچھ سالوں سے  وسیع مشرق وسطیٰ میں لیبیا سے لے کر جنوب وسط ایشیاء میں افغانستان تک کے علاقوں میں امن معاہدوں اور قیام امن کی کوششوں میں شامل ہے جس کا موقع اسے عالمی سطح کی گریٹ گیم کے نتیجے میں حاصل ہوا ہے، ان کوششوں کا بنیادی مقصد روسی مفادات کا دفاع ہے۔

روس کی جانب سے قطر کے شہر دوحہ میں قائم مسلح افغان طالبان کے دفتر اور کابل حکومت کے درمیان امن بحالی کی کوششوں  کے لیے سفارتی توانائیوں میں تیزی دکھائی دی ہے ۔ افغان طالبان کی جانب سے اعلیٰ سطح کے ایک  مذاکرات کار محمد عباس ستانکزئی کا بیان آیا ہے کہ ” ہم  موجودہ حکومت کو ایک کٹھ پتلی تصور کرتے ہیں اور یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ افغانستان کی سرزمین سے تمام غیر ملکی افواج واپس چلی جائیں ”۔ افغان طالبان کی جانب سے عالمی برادری کو باور کروانے کی یہ کوشش کہ وہ افغان عوام کی ایک حقیقی تحریک ہیں، کی کوشش وہ امر ہے جہاں  روس اپنے اثر ورسوخ کا مظاہرہ کرنے کے لیے ایک موقع تصور کرتا ہے ۔

اسی اثناء میں  امریکہ کی جانب سے روس کی عالمی حیثیت اور اثرو رسوخ کا اعتراف ہی واحد وجہ نہیں ہے جس کی بناء پر روس مسلم دنیا کے اہم خطوں شمالی افریقہ ، شام اور جزیرہ نما عرب سے لے کر ترکی اور ایران تک اپنی جغرافیائی حدود کی اہمیت کو بروئے کار لاتے ہوئے اہم کھلاڑی بناہے بلکہ روس کے اپنے طور پر اس کی بڑھتی ہوئی اہمیت کے پیش نظر صدر ولادی میر پیوٹن کی کوشش ہے کہ سوویت یونین کے انہدام کے بعد روس کی کھوئی جیوپولیٹیکل اہمیت کو بحال کیا جائے کیونکہ کریملن کو خود روس کے اندر آباد 22 ملین مسلمانوں کی فکر ہے ۔ لیکن اس سب کے باوجود وہ کیا پریشانی ہے جس نے صدر پیوٹن کو مشرق وسطیٰ اور دیگر مسلمان ممالک میں اس قدر سرگرم کررکھا ہے ؟

اس کا ممکنہ جواب یہ تین وجوہات ہیں جس کے سبب یہ کہا جا سکتا ہے کہ صدر پیوٹن مسلم اکثریتی ممالک میں ان کی بناء پر دخل اندازہو رہے ہیں ۔ سب سے پہلے خود روس میں آباد مسلم آبادیاں (خاص طور پر موجودہ زمانے میں شمالی کاکشیئن خطے میں جاری مسلح کارروائیاں )، وسط ایشیائی مسلم ریاستیں جو کہ سابقہ سوویت یونین کا حصہ رہی ہیں اور مسلم امہ کے مسائل پر مبنی سیاسی جدوجہد کو مشرق وسطیٰ اور جنوب ایشیاء تک محدود رکھتے ہوئے اسے روسی سرزمین تک داخل ہونے سے روکنے کی کوشش کرنا ۔

صدر پیوٹن مسلم تاتاریوں اور اور کریمیا ئی لوگوں کے عثمانی خلافت اور صفویوں کی بادشاہتوں کے ساتھ  تاریخی تعلق سے آگاہ ہیں۔ اگرچہ روسیوں نے 1994 سے لے 2000 تک چیچنیا کی مسلح جدودجہد کو سختی سے کچل دیا تھا تاہم روسی جہادیوں کی اس طاقت سے آگاہ ہیں کہ وہ دوبارہ بھی سر اٹھا سکتے ہیں ،خاص طور پر موجود حالات میں جبکہ داعش کا خطرہ سر پہ منڈلا رہا ہے ۔ اسی سال میں چیچنیا کے مختلف علاقوں میں ایک گرجے اور دیگر مقامات پہ بم دھماکے ہوئے ہیں ۔ نزدیکی داغستان بھی مسلح انتہاء پسندی کے خطرے سے دوچار ہے جہاں جہادیوں نے کاکیشیائی خلافت کا دعویٰ کررکھا ہے ۔ روس سے تعلق رکھنے والے لگ بھگ 2500 مسلم نوجوانوں نے شام کی جنگ میں داعش کی پکار پہ لبیک کہا ہے اور دولت اسلامیہ میں شمولیت اختیار کی ہے ۔

ماسکو کے لیے یہ امر بھی پریشان کن ہے کہ ترکمانستان ، ازبکستان اور تاجکستان کے مسلح جہادیوں نے داعش کی بیعت کا اعلان کیا ہے۔ مثال کے طور پر اس مہینے کے آغاز پر داعش کے جنگجوؤں نے ترکمانستان کے شمال میں واقع ایک جیل میں بغاوت کی ذمہ داری قبول کی جس کے دوران 27 افراد کی موت واقع ہوئی تھی۔ 2011 میں عرب بہار کی تحریکیں صدر پیوٹن کے لیے ایک ڈراؤنے خواب سے کم نہیں تھیں ۔ روس کو یہ خوف لاحق ہوا کہ عرب مسلمانوں کی جمہوریت کی خاطر اٹھی یہ تحریکیں خود روس کے ہمسایہ مسلمان ممالک تک نہ پھیل  جائیں اور نتیجے کے طور پر سیاسی اسلام کی وہابی تشریح اس کے ارد گرد علاقوں میں تشدد اور بغاوت کی وجہ بن جائےجس کے نتیجے میں روس کا جدیدیت پہ قائم اسلام  جہادی تحریک کے خطرات کا سامنا کرنے لگے ۔ پیوٹن کو خطرہ ہوا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ جہادی ان کے شامی اتحادی صدر بشار الاسد کا تختہ الٹ دیں اور وہاں روسی علاقوں سے آئے مسلم انتہاء پسند مضبوط ہو جائیں اور بعد ازاں روس کے شمالی خطےکا کاکیشیاء میں مسلح جہاد شروع ہوجائے ۔

صدر پیوٹن کے شام کے متعلق خدشات درست ثابت ہوئے  ۔ 2012 کے اواخر میں القاعدہ کی شام کی شاخ اور دیگر سلگی جہادیوں نے شام کی اپوزیشن میں مضبوط مقام حاصل کرلیا۔ 2013 میں دولت اسلامیہ کے ظہور کے بعد ان گروہوں کی طاقت میں اضافہ ہوگیا اور انہوں نے صدر بشار کی حامی افواج کے خلاف کئی کامیابیاں حاصل کیں ۔ پیوٹن کی جانب سے شام کی جنگ میں صدر بشار کی حمایت کا فیصلہ اور فوجی امداد روس کی داخلی صورتحال اور مفادات کے لیے تھی  ۔

اس افراتفری میں روس پر یہ واضح تھا کہ وہ اپنی مسلم آبادیوں میں ابھرنے والی بے چینی پہ خاموش نہیں رہ سکتا ۔ مثال کے طور پر روس سال 2016 سے ایسی کانفرنسسز کا انعقاد کروا رہا ہے جہاں مسلم علماء شریک ہوتے ہیں اور اسلام کی روایات اور عقائد کو جدید دنیاسے ہم آہنگ کرنے پربحثیں  کرتے ہیں ۔ سال 2016 میں ماسوائے سعودی علماء کے دنیا بھر کے سنی علمائے کرام کو چیچنیا کے دارلحکومت گروزنی میں ” اہل سنۃ والجماعۃ کیا ہے” کے عنوان پہ ہونے والی عالمی کانفرنس میں مدعو کیا گیا ۔

اگرچہ اس کانفرنس کا مقصد سنی اسلام کی وضاحت تھی، تاہم اس میں سلفی اسلام کو اسلام کی غیر درست تشریح قرار دیتے ہوئے اس میں موجود اغلاط کی نشاندہی کی گئی ۔ اس کانفرنس میں مصر سے بہت جید وفد شریک ہوا، جس میں الازہر کے امام اعظم ڈاکٹر احمد الطیب، موجودہ مفتی اعظم شیخ شوقی العالم ، مصر کی وزارت مذہبی امور کے نمائندے شیخ اسامہ الازہری اور مصر کے سابقہ مفتی اعظم شیخ علی الجمعہ شامل تھے ۔ شام کے مفتی اعظم احمد بدرالدین حسین اور نامور دانشور عدنان ابراہیم بھی اس کانفرنس میں شریک تھے ۔ ماسکو کی ایک عظیم الشان نئی مسجد میں افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صدر پیوٹن نے کہا کہ”روایتی طرز کا اسلام روس کی روحانی زندگی کا اٹوٹ حصہ رہا ہے ۔اسلام کی بنیادی تعلیمات ہمارے دیگر مذاہب کی طرح محبت، اخوت اور بھائی چارے کا درس دیتی ہیں ۔”مزید برآں بہتر مذہبی روابط کے قیام کے لیے صدر پیوٹن نے روسی مفتیان کی کونسل اور مسلم روحانی کونسل کا ایک اشتراکی دفتر اوفا میں قائم کرنے کا اعلان کیا جو کہ شمالی کاکیشیاء میں رابطہ کاری کےفرائض سرانجام دے گا ۔

روس کی جانب سے اس کے بڑھتے ہوئے کردار کے سبب جس میں وہ روایتی اسلام کو عالمی دھارے میں لانے کے لیے خود کو ایک پلیٹ فارم کے طور پر پیش کررہا ہے ، نے اسے یہ موقع فراہم کیا ہے کہ وہ مذہب کے استعمال کو اپنے قومی مفادات کی تکمیل کےلیے استعمال کرسکے ۔ جیسا کہ افغان امن کی کوششوں میں اس کی جانب سے دیکھا جارہا ہے۔ روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے اس موقع پر کہا کہ ”روس بطور اس کانفرنس کے منتظم کے ، افغانستان کے علاقائی ہمسائیوں اور دوستوں کی اس مذاکراتی میز پر شمولیت کے لیے شکریہ ادا کرتا ہے اور اپنی تمام ممکنہ خدمات افغانستان کے داخلی امن اور سلامتی کے لیے پیش کرتا ہے۔”

روس کی جانب سے عالمی سطح پر مسلم رہنماؤں سے مشاورت سے ایک امر واضح ہوتا ہے کہ صدر پیوٹن مذہبی رہنماؤں اور مذہب کی طاقت سے آگاہ ہیں اور وہ نرم انداز سے اپنی طاقت کو سفارتکاری میں بروئے کار لاتے ہوئے داخلی اور عالمی سطح پر موجود عناصر کو متاثر کرسکتے ہیں ۔ روس کی مسلم ریاستوں میں موجود عناصر کے ساتھ  مذہبی سفارتکاری  کی ممکنہ وجوہات چاہے دفاع اور جیوپولیٹیکل تقاضوں کے ماتحت ہی ہوں، تاہم روسی یہ سیکھ چکے ہیں کہ سفارتکاری ہی مقاصد کے حصول کا واحد پرامن ذریعہ ہے اور اکیسویں صدی میں سفارتکاری کا تقاضہ مذہب کے ساتھ تعاون کرنا ہے ۔

ڈاکٹر قمر الہدیٰ سنٹر فار گلوبل پالیسی میں وائس پریزیڈنٹ ہیں ۔ اس سے پہلے وہ امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں آفس آف ریلیجن اینڈ گلوبل افیئرز میں بھی کام کرچکی ہیں ۔

(ترجمہ شوذب عسکری)

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...