پاکستان میں مقیم بہاری برادری
کراچی کے بیشتر نادرا دفاتر کے باہر مختلف زبانوں اور قبائل کے لوگوں کی لمبی قطاریں اکثردکھائی دیتی ہیں جنہیں اپنے کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ کے حصول میں دشواری کا سامنا ہوتا ہے۔ان افراد میں ایک قابلِ ذکر تعداد ان مہاجرین ، یا ان کے بچوں کی ہوتی ہے جو سقوطِ ڈھاکہ کے وقت مشرقی پاکستان سے کراچی ہجرت کر آئے تھے۔بہاری شناخت رکھنے والے ان ہزاروں افراد کے شناختی کارڈز یا تو منسوخ کر دیے گئے ہیں، یا پھر گذشتہ کئی برسوں سے ان کی توسیع نہیں کی جارہی ۔نادرا جانے پر ان سے تقاضہ کیا جاتا ہے کہ وہ اپنی شناختی دستاویزات ، مہاجرت کے کاغذات یا راشن کارڈز دکھائیں۔
لانڈھی کےمضافاتی پسماندہ علاقے مجید کالونی کراچی کے رہائشی 34سالہ عابد احمد ان افراد میں سے ہیں جن کے شناختی کارڈ کی میعاد قریب اڑھائی سال قبل ختم ہو چکی ہے مگر نادرا دفتر بطور پاکستانی ان کی شناخت کی تجدید میں پس و پیش سے کام لے رہا ہے جس کے سبب وہ گذشتہ اڑھائی برس سے بے روزگار ہیں کیوں کہ ہر جگہ ملازمت کے لیے ان سے شناختی دستاویزات کی فراہمی کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔
عابد احمد کے والدین ان بد نصیب افراد میں سے ہیں جنہوں نے دو بار ہجرت کی سختیا ں جھیلی ہیں۔ ایک 1947 اور دوسرا 1971 میں۔ بھارتی صوبوں پنجاب اور اتر پردیش کے مسلمانوں نے جہاں مغربی پاکستان کی طرف ہجرت کی، وہاں بہار کے مسلمانوں نے جغرافیائی لحاظ سے قریب ہونے کے باعث مشرقی پاکستان، موجودہ بنگلہ دیش کی طرف جانے کو ترجیح دی۔عابد احمد کے 79سالہ بزرگ والدجن کا نام قطب ہے، دوہری ہجرت کو یاد کرتے ہوئے کہتےہیں کہ
’’1947 میں میری عمر سات آٹھ برس رہی ہو گی۔ میرے والد شمالی بھارت کی ریاست بہار میں واقع ایک ریل گاڑی کے پرزے بنانے والے کارخانے میں کام کرتے تھے۔ہم بیرال راہداری سے مشرقی پاکستان داخل ہوئے تھے۔مشرقی پاکستان میں 15 برس رہنے کے بعد وہاں اردو بولنے والے غیر بنگالیوں (بہاریوں ) کے خلاف لسانی بنیادوں پر بالخصوص ،نفرت انگیز مہم کا آغاز ہونے لگا اور بنگالی قوم پرست تنظیمیں مغربی پاکستان کی برتری کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئیں۔1970 کے عام انتخابات میں بہاریوں نے بنگالی قوم پرست تنظیم عوامی لیگ کی بجائے مغربی پاکستان کی حمایتی جماعتوں، بالخصوص جماعتِ اسلامی کے حق میں رائے دی۔انتخابات کے بعد یہاں کی قوم پرست قوتوں نے مغربی پاکستان سے علیحدگی کی تحریک کا آغاز کردیا اور مغربی پاکستان کی حمایت کرنے کی پاداش میں بہاریوں پر حملہ آور ہونا شروع ہوگئیں۔‘‘
سقوطِ ڈھاکہ اور بنگلہ دیش کے قیام کے بعد جن 5لاکھ سے زائد بہاریوں نےسابقہ مشرقی پاکستان میں رہنے کو ترجیح دی، وہ بنگلہ دیش کی نو خیز ریاست کے دگرگوں اور پر تشدد حالات کے باعث بتدریج پاکستان کی جانب ہجرت کرنے لگے۔1974 میں حکومتِ پاکستان نے ان مہاجرین کے انضمام کا فیصلہ کیا ۔جس کے بعد 1972 سے 1992 کے دوران تین مراحل میں تقریباً ایک لاکھ ستر ہزار(170000) بہاریوں کو وطن واپس لایا گیا اور ہر بار یہ کام انتہائی بے دلی سے کیا گیا۔مجید کالونی میں چیئرمین یونین کمیٹی فیروزخان کہتے ہیں کہ جو لوگ وطن واپسی معاہدے کے تحت 1974 میں پاکستان آئے تھے، انہیں ہی وطن واپسی کی دستاویزات دی گئی تھیں، اس کے بعد 80 کے اوائل تک آنے والے باقی ماندہ مہاجرین کو اس طرح کی کوئی شناختی دستاویزات مہیا نہیں کی گئیں۔
بہار سے ہجرت کر آنے والوں کی اکثریت نے کراچی کو جائے سکونت کے طور پر منتخب کیا۔حکومت نے انہیں دیگر صوبوں میں بھی آباد کرنے کی کوشش کی تاہم تقریباً سبھی خاندانی مراسم کی وجہ سے دوبارہ کراچی آگئے اور یہیں مستقل رہائش اختیار کر لی۔کراچی میں بہاری برادری کی اکثریت اورنگی ٹاؤن، مجید کالونی، سیکٹر36-B لانڈھی، کورنگی، بہادرآباد، نیو کراچی اور سرجانی ٹاؤن میں آباد ہے۔پاکستان میں مقیم بہاری خاندانوں کو کئی مشکلات کا سا منا ہے جن میں سب سے اہم ان کے پاس شناختی دستاویزات کا نہ ہونا ہے۔جس کے سبب وہ نجی و سرکاری اداروں میں ملازمت کے اہل ہیں نہ ہی دیگر شہری حقوق سے استفادہ کر سکتے ہیں۔مثلاً وہ بینک اکاونٹس کھلوا سکتے ہیں نہ کوئی جائیداد وغیرہ خرید سکتے ہیں۔
یونین کمیٹی کے چیئرمین فیروز خان کہتے ہیں کہ ان کے حلقہ ِ انتخاب کے زیادہ تر افراد بہاری تھے اور انہوں نے اپنے بچوں کو تعلیم دلوائی۔ان افراد کے پاس شناختی دستاویزات بھی تھیں، جن کی میعاد اب ختم ہو گئی ہے ، لیکن نادرا دفتر ان دستاویزات کی تجدید کررہا ہےنہ ہی ان کے بچوں کو شناختی دستاویزات کی فراہمی ممکن بنا رہاہے۔اورنگی ٹاؤن سے منتخب ایم کیوایم (پاکستان) کے رکن قومی اسمبلی سید امین الحق کہتے ہیں کہ متحدہ قومی موومنٹ کافی عرصے سے بہاری برادری کو شناختی دستاویزات کی فراہمی کے لیے آواز بلند کررہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ قانونی اور جائز طریقے سے 80 کی دہائی میں پاکستان آئے تھے، انہوں نے متحدہ پاکستان کے لیے بیش بہا قربانیاں دی ہیں اور وہ متحدہ پاکستان کے لیے مکتی باہنی سے لڑتے رہے ہیں۔انہوں نے کہا ہے کہ کئی وعدوں اور تسلیوں کے باوجودبہاری افراد کو نادرا افسران کے امتیازی رویے کا سامنا ہے۔دوسری جانب نادرا افسران کا کہنا ہے کہ نادرا نے بہاری افراد میں سے ’’غیر مرئی‘‘ افراد کا پتہ لگانے کی مہم تیز کررکھی ہے۔ جن افراد کی شناختی دستاویزات منسوخ کی گئی ہیں یا جن کی تجدید نہیں کی جارہی، دراصل اس کی وجہ ان افراد کی ’’پر اسرار‘‘ شناخت ہے۔ایک افسر نے اپنا نام صیغہِ راز میں رکھتے ہوئے بتایا کہ نادرا بہاری افراد سے 1980 کے اوائل میں ملنے والے شناختی کاغذات، راشن کارڈز یا مہاجرت کی دستاویزات سے متعلق استفسار کررہا ہے۔
بہاری برادری اور دیگر سیاسی جماعتوں بالخصوص ایم کیو ایم (پاکستان) کے دباؤ میں آکر جنوری 2017 میں گذشتہ حکومت کے معزول وزیرِ اعظم نواز شریف نے اٹھارہ اراکین پر مشتمل پارلیمانی کمیٹی کے قیام کا اعلان کیا تھا تاکہ سقوطِ ڈھاکہ سے پیش تر اور مابعدپاکستان کی طرف ہجرت کرکے کراچی میں سکونت اختیار کرنے والے بہاری اور بنگالی افراد کے شناختی کاغذات سے متعلقہ مسائل کا حل نکالا جائے۔ اس کمیٹی کے سربراہ نائب اسپیکر قومی اسمبلی مرتضیٰ جاوید عباسی تھے۔انہوں نے منسوخ شدہ شناختی دستاویزات کے حوالے سے آئندہ کے لائحہِ عمل کے لیے اجلاس بھی بلایا تھا تاہم مئی 2018 میں حکومت کے تبدیل ہونے سے بہاری افراد کی شناخت کا مسئلہ جوں کا توں موجود ہے۔
(ترجمہ: حذیفہ مسعود، بشکریہ: دی نیوز)
فیس بک پر تبصرے