تبدیلی، اقامت، قیامت اور ہماری مشکل!
ہمارے ایک بہت مخلص، سادہ طبیعیت، لکھنے پڑھنے کا شوق رکھنے والے، دین دار اور آئیڈیلسٹ دوست ہیں۔ چند دن قبل فون پر یاد کیا، میں شہر سے باہر تھا۔ واپسی پر پھر یاد کیا، بڑی محبت سے بلایا اور اسلام آباد میں سیکٹر آئی نائن کے معروف چھپر ہوٹل، جو اب ایک پلازہ کے گراؤنڈ فلور پر نیو سٹائلش ریسٹورنٹ بن چکا ہے، کے باہر پارک کے سامنے رکھی پلاسٹک کی میز کرسی پر لذیذ مچھلی کھلائی۔ پھر کڑک پتی والی چائے پلائی۔ موسم خوش گوار تھا، ہلکی دھوپ دسمبر کی سردی میں لازوال نعمت کی طرح پھیلی ہوئی تھی اور ہماری نرم گرم گفتگو میں رنگ بھر رہی تھی۔ کوئی ڈیڑھ دو گھنٹے ہم وہاں بیٹھے رہے۔ میرے دوست تبدیلی کے لئے بہت پرجوش ہیں اور کسی بھی صورت دین کا بول بالا چاہتے ہیں۔
آپ کا فکری اور اعتقادی سفر مولانا ابوالاعلیٰ مودودی سے شروع ہوکر ترکی کے رجب طیب اردگان اور تیونس کے راشد غنوشی تک پہنچ چکا ہے اور اب آپ ایک اسلامی ریاست کے اندر غیر مسلموں اور غیر مذہبوں کو تمام ممکنہ رعایتیں دینے کے لیے بھی تیار ہیں، بس کسی نہ کسی طرح اسلامی حکومت قائم ہوجانی چاہیے۔ پہلی بار جماعت کے علاوہ کسی کو اگر ووٹ دیا تو عمران خان کی پی ٹی آئی کو اور جب خان صاحب نے اپنی پہلی تقریر میں ہی مدینہ کی ریاست کے ماڈل پر پاکستان کی ریاست کی تعمیر کے عزم کا اظہار کیا تو جوش و جذبے سے لبریز اپنے فیصلے سے شاد کام ہوئے۔
مجھے انہوں نے بتایا کہ ان کے کئی بے دین اور ملحد دوست بھی ہیں، نہ صرف وہ ان کی بات سن لیتے ہیں بلکہ اسلام کے حکم کے مطابق تواضع کا مظاہرہ بھی کرتے ہیں۔ ان کا ایک کولیگ قادیانی بھی ہے اور وہ سارے دفتر کی مخالفت کے باوجود، اس سے بہتر سماجی تعلقات رکھتے ہیں۔ اگرچہ باقی سارے لوگ اسے تنگ کرنے کے بہانے ڈھونڈتے رہتے ہیں لیکن وہ اس سے بات بھی کرتے ہیں اور دلجوئی بھی کرتے ہیں کہ آخر کو وہ بھی انسان ہے۔ تاہم انہیں غامدی صاحب کی اس رائے سے بالکل اتفاق نہیں جس کے مطابق وہ انہیں ‘مطلقاً کافر نہیں جانتے کہ آخر وہ توحید، رسالت، قیامت سب کو مانتے ہیں’۔ میرے دوست کے مطابق مسلمان ہونے کے لیے ختم نبوت پر ایمان کے حوالےسے کوئی رعایت نہیں دی جاسکتی۔ انہیں غامدی صاحب کے اتمام حجت کے نظرئے پر علمی اور عملی تحفظات ہیں۔
انہوں نے مجھے بتایا کہ مذہب تو بہت سے ہیں لیکن دین صرف ایک ہی ہے اور وہ اسلام ہے۔ دین کے تین حصے ہیں، عبادت و دعوت، معاملات و معاشرت اور اور تیسرا بہت اہم پہلو جو اسے دین بناتا ہے وہ اس کے اصولوں کا زندگی کے ہر ہر شعبے میں نفاذ ہے۔ ساتھ انہوں نے وضاحت کی کہ وہ حکمت عملی کے طور پر نفاذ سے زیادہ نفوذ کے قائل ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کے ظاہر سے زیادہ ان کے باطن میں تبدیلی لائی جائے۔ میرے طالب علمانہ ذوق کو دیکھتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ مولانا مودودی اور دیگر علمائے کرام کی تعبیر دین میں جوہری فرق یہی ہے کہ مولانا مودودی نے اسلام کی تشریح ایک مکمل ضابطہ حیات کے طور پر کی اوراسلام کے سیاسی غلبے کو ایک دینی ذمہ داری قرار دیتے ہوئے لازمی ٹھہرایا جس کے بغیر اسلام کے مکمل ضابطہ حیات ہونے کے تصور کا نفاذ نہیں ہوسکتا اور نہ فریضہ اقامت دین ادا ہوسکتا ہے۔
مزید بتایا کہ برصغیر میں جمعیت علمائے ہند جیسی مسلمانوں کی بڑی نمائندہ جماعتوں کے ہوتے ہوئے بھی جماعت اسلامی کے قیام کی ضرورت اسی لیے پیش آئی تھی۔ ساتھ یہ بھی وضاحت کی کہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ کسی پر زبردستی کریں گے یا ڈنڈے کے زور پر اسلام نافذ کریں گے۔ میری الجھن اور تردد کو بھانپتے ہوئے کہنے لگے کہ دیکھیے کیا اب آپ اس پر بھی راضی نہیں کہ میں لوگوں کو ان کے ذاتی انتخاب کے حق کے طور پر لہو لعب، موسیقی، فلم بینی وغیرہ کی بھی اجازت دینے کے لیے تیار ہوں۔ بلکہ اگر وہ اپنی پرائیویٹ جگہ پر مے نوشی بھی کریں، یا معاشرے میں فساد پیدا کیے بغیر لڑکیوں سے دوستی کربھی لیں تو مجھے کوئی اتنی پریشانی لاحق نہیں ہوگی، سوائے اس کے کہ ان کے لیے ہدایت کی دعا کی جائے۔
میں نے ان کی اس اعلی ظرفی اور وسعت قلبی کو خوشگوار حیرت سے سراہا تو کہنے لگے کہ دیکھیے ایک تو آپ سے بات کرنے میں بڑی مشکل یہ ہے کہ آپ کا پتہ نہیں چلتا کہ آپ اسلامسٹ ہیں، لبرل ہیں، سیکولر ہیں،قوم پرست ہیں، ڈیموکریٹ ہیں، متشکک ہیں، سوشلسٹ ہیں، کیمیونسٹ ہیں، مغرب زدہ ہیں، مشرقی تہذیب کے دلدادہ ہیں، دین کو آخری حجت سمجھتے ہیں یا کلچر کو، مقامیت کے قائل ہیں یا عالمی تہذیب کے؟ آخر آپ کیا ہیں اور آپ کو کیسے بات سمجھائی جائے؟ مجھے ان کی مشکل کا اندازہ ہوا تو عرض کیا کہ دیکھیے اپنے بارے میں بعینہ یہی مشکل مجھے خود بھی درپیش ہے۔ کسی بھی نظریے سے ایسی وابستگی جس کے بعد میں اپنے دل و دماغ کی کھڑکیاں بند کرلوں اور دوسرے امکانات پر سوچنا چھوڑ دوں، یہ میرے لیے بہت مشکل ہوتا ہے۔ آپ مجھے ایک نالائق طالب علم ہی سمجھ لیجیے جو اس جہان حیرت میں بس اپنی آنکھیں پٹپٹائے جا رہا ہے۔
جو کچھ مجھے سمجھ میں آتا ہے شائد یہ ہے کہ ہم اکثر وہ کہنا چاہتے ہیں جو دوسرے سننا چاہتے ہیں، یا انہیں سننا چاہیے۔ اور ایسا انہیں پہلے کسی نظریاتی، شخصی یا قومی شناخت کے خانے میں رکھے بغیر نہیں ہوسکتا۔ یا پھر ہم صرف اپنی کہنا چاہتے ہیں کوئی سنے نہ سنے، یا بس اپنی معلومات، جذبات، احساسات، مشکلات اور آدرش کا اظہار چاہتے ہیں۔ تنقید، تلقین اور تبلیغ کے مقصد سے ہی ہمارے پیرائے اظہار کا تعین ہوتا ہے۔ جب تک ہم کسی کو دنیا میں موجود اور معروف کسی نظریاتی خانے میں فٹ نہ کرلیں، جن کو ہم کسی حد تک جانتے ہیں، اس وقت تک ہمیں سمجھ نہیں آتی کہ اس پر اپنے لفظی اور نظریاتی ہتھیاروں کا استعمال کس طرح کیا جائے۔ افسوس یہ گفتگو بھی ایک بار پھر زندگی کے دوسرے بہت سے کاموں کی طرح ادھوری ہی رہی۔
فیس بک پر تبصرے