چین کے سماجی بحالی مراکز تنقید کی زد میں
ترکی کے ایک ٹیلی ویژن چینل کو دیے گئے انٹرویو میں وزیر اعظم نے چین کے مغربی صوبہ ژن جیانگ میں آباد اویغور مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے سلوک کے بارے میں کیے گئے سوال کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ وہ اس معاملےکے بارے میں تھوڑا بہت جانتے ہیں۔ انہوں نے اس مسئلے کے بجائے اپنے انٹرویو میں چین کی طرف سے ملنے والی مالی امداد اور پاکستان میں چین کی سرمایہ کاری پر اپنی توجہ مرکوز رکھی۔
چین کو مذہبی و نسلی اقلیتوں،خصوصاً اویغور مسلمانوں پر ظلم و ستم کے حوالے سے سخت تنقید کا سامنا ہے۔ چین کے حوالے سے فریڈم ہاؤس 2018ء کی کنٹری رپورٹ میں چین کو ایسے ملکوں میں شامل کیا گیا ہے جہاں مذہبی آزادیاں نہیں ہیں۔ چین کے بارے میں ابھرتے ہوئے اس تصور نےاسے سخت تشویش میں مبتلا کر دیا ہے اور اس کےسبب ان کوششوں کو نقصان پہنچ رہا ہے جس کے تحت وہ دنیا میں اپنا نرم تاثر پیدا کر رہا ہےتاکہ ’’ایک خطہ ۔ایک راہداری منصوبے‘‘ سمیت دنیا بھر میں اس کے تجارتی اور تزویراتی منصوبےکامیابی سے ہمکنار ہوسکیں۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ ہفتے چین نے اقوام متحدہ کے حکام کو اس شرط کے ساتھ صوبہ ژن جیانگ کا دورہ کرنے کی دعوت دی تھی کہ وہ چین کے اندرونی معاملات کو نہیں چھیڑیں گے۔
پاکستان بھی عموماً چین کے اندرونی معاملات پر تبصرہ کرنے سے اجتناب کرتا ہے لیکن بہت سے پاکستانیوں نے اویغور خواتین سے شادیاں کر رکھی ہیں اور وہ خواتین صوبہ ژن جیانگ کے ری ایجوکیشن(تعلیم نو) کیمپوں، جنہیں ’حراستی مراکز‘ سے تعبیر کیا جارہا ہے، میں نظربند ہیں۔ پاکستانی مطالبہ کر رہے ہیں کہ ان کی ازواج کو ان مراکز سے آزاد کرایا جائے لیکن چین کی بھاری سرمایہ کاری اور چینی افسران کی اس حوالے سے حساسیت کے باعث اس نازک مسئلےپر پاکستان کو انتہائی مشکل صورتحال کا سامنا ہے۔ کچھ خبروں کے مطابق پاکستان کے وفاقی وزیر برائے مذہبی امور نور الحق قادری نے حال ہی میں اس معاملے کو پاکستان میں تعینات چینی سفیر کے سامنے اٹھایا ہے۔
چین کے ان ’’تعلیم نو مراکز ‘‘کے بارے میں پراسراریت پائی جاتی ہے کیوں کہ چینی حکام باہر کی دنیا کے مبصرین کے لیے ان مراکز کے دروازے کھولنے پر آمادہ نظر نہیں آتے۔چینی دانشوروں کا دعویٰ یہ ہے کہ یہ مراکز چین میں انتہا پسندی کو روکنے کی حکمت عملی کا حصہ ہیں، جو آج کی دنیا کے تناظر میں کوئی جدا گانہ عمل نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ چین نے مغرب اور مسلم ممالک میں مروج انسداد انتہا پسندی کی حکمتِ عملیوں کے محتاط مطالعے اور جائزے کے بعد یہ تعلیمِ نو حکمت عملی ترتیب دی ہے۔ اگرچہ چینی ماہرین اپنی اس حکمتِ عملی کی تائید میں خلیجی ممالک، جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیائی مسلم قوموں کی مثالیں پیش کرتے ہیں تاہم ابھی بھی انسدادانتہا پسندی کی چینی حکمتِ عملی سیاست کاری کا مظہر بنی ہوئی ہے اور مغربی پالیسی ساز اور پیشہ ور حلقے اس سے متعلق ابہام کا شکار ہیں۔
چین کے ان تعلیمِ نو مراکز کی زیادہ تر معلومات مغرب کی طرف سے ہی ملتی ہیں ۔اگرچہ اس تنقید کے نتیجے میں چین نے ان کیمپوں کے بارے میں کچھ معلومات افشا بھی کی ہیں تاہم یہ ان مراکز کی اصل صورتحال جاننے کے لیے ناکافی ہیں۔ گزشتہ سال چین کی ایک خبر رساں ایجنسی نے صوبہ ژن جیانگ کے علاقہ اویغور کے چیئرمین شوہرت ذاکر کا ایک انٹرویو جاری کیا تھا جس میں ان کا کہنا تھا کہ یہ تعلیم نو کے کیمپ اور پیشہ ورانہ ادارے ہیں ۔یہ ان لوگوں کے لیے ہیں جو دہشت گردی اور انتہا پسندی سے متاثر تو ہوتے ہیں لیکن انہوں نے کوئی ایسا جرم نہیں کیا ہو تاجن پر انہیں سزا ہوئی ہو۔ اسی طرح چین میں گذشتہ نومبر کو ایک سیمینار ہوا جس میں چینی دانشوروں نے چینی حکمتِ عملی کی وضاحت میں دنیا بھر میں انسداد انتہا پسندی کے مختلف و متنوع پروگراموں کا ذکر کرتے ہوئےکہا کہ یوں تو مختلف ممالک میں انسداد پر تشدد انتہا پسندی کے لیے کوششیں ہو رہی ہیں لیکن عالمی سطح پر اس حوالے سے کوئی یکساں منصوبہ موجود نہیں ہے۔ ایک چینی دانشور نے چار مراحل پر مشتمل ایک چار نکِاتی فارمولا پیش کیا جو 1۔توڑ، 2۔قیام،3۔ روک تھام،4۔بڑھوتری جیسے مراحل پر مشتمل ہے۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ توڑ کا مطلب یہ ہے کہ افراد کو انتہا پسندی کے ماحول سے دور رکھا جائے۔ قیام یہ ہے کہ افراد کو مذہب کی صحیح روح سے روشناس کر ایا جائے۔ روک تھام سے مرادیہ ہے کہ ان افراد میں تعلیم کو فروغ دیا جائے اور بڑھوتری کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کے لیے ہنر مندی کے ترقیاتی پروگرام ترتیب دیے جائیں۔
تاہم چین کےانسداد انتہا پسندی منصوبے کے حوالے سےاب تک کا سب سے اہم کام جرمنی میں مقیم چینی محقق ژن یو ژہو نے کیا ہے ۔ ان کا ایک مقالہ 2017ء کے ’’جرنل آف ٹیررازم اینڈ پولیٹیکل وائلینس‘‘ میں شائع ہوا جس میں انہوں نے بتایا کہ چین کی انسداد انتہا پسندی حکمت عملی ہمہ جہت ہے اور اس حوالے سے چین نے مغربی ممالک میں جاری ایسے ہی پروگراموں سےاستفادہ کیا ہے اور اپنا ایک الگ ماڈل بنایا ہے جوکہیں زیادہ مضبوط ہے۔اس کے مطابق گویا اس پروگرام کی ’’پانچ چابیاں‘‘، ’’چار شاخیں‘‘، ’’تین دستے‘‘،’’دو ہاتھ‘‘اور ’’ایک اصول ‘‘ہے۔ مجموعی طور پر یہ عناصرانسداد انتہا پسندی کی کوششوں کے قانونی‘ مذہبی ‘ ثقافتی ‘ نظریاتی اور سائنسی تناظرات کی نشاندہی کرتے ہیں، جن کا اطلاق یا نفاذ سرکاری ایجنسیوں، سرکاری اداروں اور خطےکی غیر سرکاری تنظیموں کی طرف سے کیا جاتا ہے۔انسداد انتہا پسندی کا یہ پروگرام کثیر الجہتی منصوبوں کو ترتیب دیتا ہے۔ ژن جیانگ حکومت نے کئی ایک منصوبے شروع کیے ہیں جو مختلف لوگوں سے متعلق ہیں، ان کے متعلق جو بنیاد پرستانہ رجحانا ت کا شکار ہیں اور ان کے متعلق بھی جو بنیاد پرستانہ رجحانات کا شکار ہو سکتے ہیں۔یہ’’پانچ کنجیاں‘‘ دہشت گردی کا دیر پا حل فراہم کرتی ہیں اور ان کنجیوں کی شناخت نظریاتی، ثقافتی، رسوم و رواج، مذہبی اور قانونی کنجیوں کے طور پر کی قائم کی گئی ہے۔’’چار شاخوں ‘‘ سے مراد چارمناہج کا مجموعہ ہے جس میں ’’صحیح مذہبی تعلیمات کے زیرِ اثر لانا‘‘، ’’ثقافت کی مدد سے مزاحمت ‘‘، ’’قانون کی مدد سے قابو کرنا‘‘ اور ’’سائنسی فکر کو پروان چڑھانا‘‘ جیسے طریقِ کار شامل ہیں۔صحیح مذہبی تعلیمات کے زیرِ اثر لانے سے مراد لوگوں کے سامنے اسلام کی اصل تفہیم پیش کرنا جبکہ ثقافت کی مدد سے مزاحمت کا مطلب ہے کہ اعتدال پسندی اور سیکولرائزیشن کے حوالے سے لوگوں کی رہنمائی کرنا اور انتہا پسندی سے چھٹکارے کا موثر اور عملی حل تلاش کرنا۔’’تین دستوں‘‘ سے مراد لوگوں کے تین اہم گروہوں کی مدد و پشت پناہی کی حکمتِ عملی ہے جس کے تحت حکومت استحکام اور سلامتی برقرار رکھنے کےلیےان پر بھروسہ کر سکے۔’’دو ہاتھوں ‘‘ میں سے ایک ’’مضبوط ہاتھ‘‘، جو دہشت گردوں پر اپنی گرفت رکھے اور دوسرا ’’مضبوط ہاتھ‘‘ ایغور عوام کی تعلیم و تربیت کرے اور ’’ایک اصول‘‘ سے مراد ژن جیانگ کو قانون کی مدد سے چلانے کی پالیسی ہے۔
مصنف نے اس مضمون میں انسداد انتہا پسندی کی چینی حکمتِ عملی کے ارتقا کا تاریخی پسِ منظر بھی بیان کیا ہے اور انہوں نے بیان کیا ہے کہ ژن جیانگ CCPکمیٹی کی جانب سے مئی 2013 میں جاری کردہ’’ غیر قانونی مذہبی سرگرمیوں پر قابو پانے اور مذہبی انتہا پسندی کی سرایت پذیری کے آگے بند باندھنے کی قانونی حکمتِ عملی بارے مختلف رہنما آرا‘‘ کے عنوان سے ایک پالیسی دستاویز موجود ہے۔اس دستاویز کو گیارہ نمبر دستاویز بھی کہا جاتا ہے جس میں نسلی رسوم و رواج اور روایات، مذہبی اعمال و افعال اور انتہا پسندانہ مظاہر و مشاغل کے درمیان حد بندی کی وضاحت کی گئی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ انسداد انتہا پسندی حکمت عملی کے ہموار نفاذ کے لیے ژن جیانگ کے حکام نے نئے قوانین بنائے اور اپریل 2017ء میں ’’انسداد دہشت گردی کے قواعد وضوابط ‘‘ کے نام سے ترامیم بھی متعارف کروائی ہیں تاکہ مختلف قسم کے انتہا پسندانہ رویوں پر روک لگائی جا سکے۔ نئے قانونی ڈھانچے کے تحت حکام نے مختلف منصوبے بھی جاری کیے ہیں جن میں قیدیوں میں موجود بنیاد پرستانہ رجحانات کےخاتمےکے پروگرام کے ساتھ ساتھ انتہا پسندی و دہشت گردی سے منسلک ایسے لوگ جو مجرمانہ سزا کے حق دار نہیں ہیں ، ان کی اصلاح کے سماجی پروگرام شامل ہیں۔
ری ایجوکیشن سینٹر (تعلیم نو مراکز) یا ’’سماجی بحالی مراکز ‘‘سماجی پروگرام کے تحت قائم کیے گئے ہیں۔ یہ مراکز صوبہ ژن جیانگ میں سول سوسائٹی گروپوں یا ’’فانگ ہوئی جو‘‘ورکنگ گروپس کے ذریعے چلائے جا رہے ہیں ۔ یہ ورکنگ گروپس ایسے افراد پر مشتمل ہیں جو لوگوں کا دل و دماغ جیتنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ ورکنگ گروپس علاقائی حکومت کی جانب سے بھیجے جاتے ہیں۔
انسداد انتہا پسندی کے حوالے سے کام کرنے والوں کے لیے چینی ماڈل میں سیکھنے اور سمجھنے کے لیے بہت کچھ ہے لیکن اویغور کا مسئلہ مذہبی انتہا پسندی سے زیادہ پیچیدہ ہے کیوں کہ اس میں نسلی، ثقافتی اور سیاسی حقوق کی جہات بھی شامل ہیں۔ پاکستان کے لیے موجودہ صورتحال میں سیکھنے کے لیے اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے کہ وہ پاکستانی مردوں کی بیویوں سے متعلقہ مسئلے کے حل کی کوئی راہ تلاش کر سکے۔
فیس بک پر تبصرے