کیا نئے چیف جسٹس عدالتی اصلاحات میں کامیابی حاصل کر پائیں گے؟
جسٹس ثاقب نثار چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے سے اپنی مدتِ ملازمت ختم ہونے کے بعد سبکدوش ہو گئے ہیں اور ان کی جگہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے نئے چیف جسٹس آف پاکستان کے طور پر اپنی ذمہ داریاں سنبھال لی ہیں۔ جسٹس ثاقب نثار اپنے کئی فیصلوں، اقدامات اور بیانات کے سبب متنازعہ رہے۔ انہوں نے کئی از خود نوٹس لیے اور تعلیمی اداروں، ہسپتالوں اور دیگر انتظامی شعبہ جات میں اصلاحات کی غرض سے غیر معین دورے کیے ۔ وہ ایک متحرک چیف جسٹس کے طور پر اپنے مسند پر براجمان رہے تاہم عدالتی اصلاحات اور نظامِ عدل میں موجود خامیوں پر ان کی توجہ کم رہی اور وہ اس حوالے سے محض چند ایک از خود نوٹسزکے سواترجیحی بنیادوں پر کوئی اقدامات نہیں اٹھا سکے۔
نئے چیف جسٹس ، جسٹس آصف سعید کھوسہ ڈیرہ غازی خان سے تعلق رکھتے ہیں اور انہوں نے اپنی مدتِ ملازمت میں گیارہ ہزار فوجداری مقدمات سمیت مجموعی طور پر ۵۵ ہزار مقدمات کی سماعت کی۔ وہ عدالتی مقدمات میں بلا وجہ التوا کے قائل نہیں ہیں ، یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ میں تعیناتی کے دوران انہوں نے گذشتہ 4 سال میں گیارہ ہزار زیرِ التوا مقدمات نمٹائے ہیں۔وہ اپنے فیصلوں میں ادبی حوالوں کی بنا پر بھی جانے جاتے ہیں، ’’گاڈ فادر‘‘ کی اصطلاح انہوں نے ہی استعمال کی تھی جس کا قومی افق پر بہت چرچا رہا۔
سب سے اہم بات انہوں نے میثاقِ حکمرانی طے کرنے کے حوالے سے کی اور انہوں نے اس خیال کا اظہار کیا کہ وہ صدرِ مملکت سے درخواست کریں گے کہ وہ انتظامی و سیاسی ڈھانچے میں اصلاحات کے لیے ، مقننہ، عدلیہ، فوج ، انتظامیہ اور خفیہ اداروں سمیت تمام تر ریاستی اداروں کا اجلاس بلا کر اپنے اپنے دائرہِ کار اور حلقہِ اختیار کے تعین پر ایک معاہدہ کریں تاکہ ہم اداراتی مسابقت اور مقابلے بازی کے اس ماحوال سے باہر نکل سکیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ماضی کی غلطیوں سے سیکھتے ہوئے آگے بڑھنا چاہیے ۔ نئے چیف جسٹس کا یہ عزم انتہائی حوصلہ افزا ہے مگر کیا ہمارے ادارے واقعتاًاپنی سابقہ روش سے ہٹ کر ایک نئے ڈھب پرآگے بڑھنا چاہیں گے؟ کیا ہمارے ریاستی ادارے ملک کے وسیع تر مفاد میں اداراتی رنجشیں اور شکوے شکایات بھلا کر نظمِ ریاست میں اصلاحات کے لیے کسی اتفاقِ رائے پر پہنچ پائیں گے یا وہ عملاً اس کی لاج بھی رکھیں گے؟
نئے چیف جسٹس نے اگرچہ اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ از خود نوٹسز کی روایت کم کریں گےاور عدالت کے دائرہِ اختیار کے احترام، عدالتِ عظمیٰ کے حوالے سے موجود بداعتمادی کے خاتمے اور عدالتی انتظامی ڈھانچے میں تبدیلی کی کوشش کریں گے۔ انہو ں نے بالخصوص عام آدمی کو درپیش سب سے نمایاں مسائل میں سے چند ایک، جیسے کہ جھوٹے گواہان، جعلی عینی شاہدین، غیر سنجیدہ قانونی چارہ جوئی اور مقدمات میں التوا وغیرہ کی بابت بات کرتے ہوئے ان کے حل پر توجہ مرکوز رکھنے کی بھی بات کی۔ تاہم سوال یہ ہے کہ کیا وہ اس مسند پر برجمان رہنے کی اس مختصر مدت میں اتنی اصلاحات کر پائیں گے؟ کیا ان کے پاس اس حوالے سے کوئی فریم ورک ہے کہ وہ ہنگامی بنیادوں پر ان مسائل سے نمٹ سکیں؟ مسائل کا ادراک اپنی جگہ لیکن چیف جسٹس کے لیے سب سےبڑی مشکل یہ ہے کہ کیا وہ ان مسائل کا حل دینے یا ان کے حل کی بنیادیں فراہم کرنے میں کام یاب ہو پائیں گے؟
قاریین ِ تجزیات اس بارے میں اپنی آرا کا اظہار اسی صفحے پر نیچے جا کر کرسکتے ہیں۔
فیس بک پر تبصرے