نوجوانوں کے لیے تفریح کے سکڑتے مواقع
لاہور تاریخی اہمیت کا شہر ہے جو اپنی علمی اور ادبی سرگرمیوں کے علاوہ تفریحی اعتبار سے بھی ہردل عزیز شہر رہا ہے۔ جو لوگ لاہور میں رہے ہیں خصوصاً اندرون شہر میں، انہیں اس بات کا بخوبی اندازہ ہے اور وہ جانتے ہیں کہ یہاں پر ہر موسم کے اپنے کھیل تھے ۔ اگر بسنت کا موسم ہوتا تو سبھی لوگ گھروں کی چھتوں پر ہوتے۔ کرکٹ کھیلنے کے لیے کوئی غیر ملکی ٹیم پاکستان کا دورہ کرتی تو پورے لاہور کی گلیوں اور سڑکوں پر کرکٹ کھیلی جاتی اور جب تک ہاکی مرحوم نہیں ہوئی تھی تو گھر میں موجو د جو ڈنڈا ،سوٹا ہاتھ میں آتا اس سے ہاکی کھیلنے لگتے ۔لیکن پچھلے کچھ عرصے سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ دانستہ یا نا دانستہ طور پر لاہورشہر کے لوگوں سے اجتماعی تفریح کے مواقع چھینے جا رہے ہیں۔
لاہور میں بسنت سب سے بڑا ثقافتی میلہ ہوتاتھا۔موسم بہار کی آمد کے موقع پر پتنگ بازی اور دیگر ثقافتی سرگرمیوں پر مشتمل بسنت کا تہوار منایا جاتا تھا۔ لاہور کی کوئی چھت ایسی نہیں تھی جہاں سے پتنگ نہ اڑتی ہو، چھوٹے، بڑے غرض خواتین بھی اس سے محظوظ ہوتی تھیں، ثقافتی رنگوں سے بھرپور بسنت کا تہوار بھارت اور پاکستان کے پنجاب کے علاقوں میں منایا جاتا تھا، بسنت کی تیاری کئی ماہ پہلے شروع ہو جاتی تھی، پتنگیں بنانے کے چھوٹے چھوٹے کارخانے گلیوں میں قائم تھے جبکہ دھاگے پر خصوصی مہارت کیساتھ مختلف اقسام کی ڈور تیار کی جاتی تھی۔ لاہور کی بسنت کی دیکھا دیکھی دنیا کے کئی اور ملکوں اور شہروں میں بسنت منائی جانے لگی،لیکن لاہور کی بسنت میں وہ خاص بات ہے جو اور کسی جگہ نقل نہیں کی جاسکتی تھی اس لیے کہ لاہور کی بسنت میں پتنگ بازی مرکزی نکتہ ہے۔ اس شہر میں پتنگ بازی ایک ایسا شوق ہے، جیسے اودھ کے لکھنؤ میں شاعری۔
لاہور کے اندرون شہر کے رہنے والے پتنگ کے دیوانے ہیں اور پتنگ کا رتبہ ان کے ہاں ایک محبوبہ سے کم نہیں۔پتنگ تو دنیا کے بہت سے ملکوں میں اڑائی جاتی ہے لیکن اس شہر میں گڈی بازی کو جو چیز دوسرے ملکوں کی پتنگ بازی سے منفرد کرتی ہے وہ ہے پتنگ کے پیچ لڑانا۔لاہور میں پتنگ بازی محض شوق نہیں دیوانگی ہے۔ لاہور میں پتنگ اڑانے کے لیے شیشہ کے مانجھا لگا ہوا دھاگا، جسے ڈور کہتے ہیں، استعمال ہوتا تھا جب کہ دوسرے ملکوں میں سادہ دھاگہ سے پتنگیں اڑائی جاتی ہیں۔ لاہور کی ڈور پتنگوں کا مقابلہ کرنے کے لیے بنیادی چیز تھی۔اس مقابلہ میں پتنگ کا کٹنا اور ایک فریق کا ہارنا اور دوسرے کا جیتنا جس جوش و ولولہ کو جنم دیتا تھا۔گھروں اور میدانوں میں کھڑے ہوکر ایک دن ایک ہی وقت میں پیچ لڑاتے اورر خوشی کے نعرے بلند کرتے اور یہ دن ہوتا بسنت کا دن۔
مغرب نے اور اس کی ملٹی نیشنل کمپنیوں نے دنیا میں یورپ اورامریکہ کے تہواروں اور رسموں کو فروغ دیا۔ بسنت پاکستان ایسے کم مایہ ملک کا واحد تہوار تھا جسے مغرب کی ملٹی نیشنل کمپنیوں نے اپنا لیا۔ پھر اس تہوار کے ساتھ وہی ہوا جو کسی بھی عوامی تہوار میں اشرافیہ کی شمولیت سے ہوتا ہے۔اس ثقافتی تہوار میں بے شمار خرافات شامل ہوگئیں۔کئی سالوں سے منائے جانے والے اس ثقافتی تہوار کی رنگینیاں ماند پڑ گئیں، دھاتی تار کے استعمال نے کئی جانیں لیں تو حکومت نے چند برس قبل اس تہوار کے منانے پر پابندی عائد کر دی۔ لاہور میں آخری بار 2009میں بسنت منائی گئی جبکہ 2012میں عدالت نے پابندی برقرار رکھنے کا فیصلہ سنا دیا۔ یوں وہ تہوار جسے جنرل ضیاء کی ’’جہادی پالیسی‘‘ نہ ختم کر سکی اسے مشرف اور ’’اشرافیہ‘‘ کی ’’نام نہاد روشن خیالی‘‘ نے برباد کردیا۔
کسی زمانے میں لاہورکے میلے بڑے اہتمام سے منائے جاتے تھے۔دور ونزدیک سے لوگ ان میلوں میں شامل ہوتے اور لطف انداز ہوتے۔میلہ چراغاں یا میلہ شالامار دراصل پنجابی صوفی شاعر شاہ حسین کے عرس کی تین روزہ تقاریب کا نام ہے۔ یہ تقاریب شاہ حسین کے مزار، جو لاہور کے علاقے باغبانپورہ میں واقع کے قریبی علاقوں میں منعقد ہوتیں۔ یہ تقاریب پہلے شالامار باغ کے اندر منعقد ہوا کرتی تھیں مگر صدر ایوب خان کے صدارتی حکم 1958 کے بعد سے شالیمار باغ میں ان تقاریب کے انعقاد پر پابندی عائد کر دی گئی۔ ماضی قریب تک یہ میلہ لاہور کی تاریخ کا سب سے بڑا ثقافتی میلہ گردانا جاتا تھا۔اسی طرح عرس داتا گنج بخش صفر کی اٹھارہ تاریخ سے شروع ہوتا ہے۔ یہ روایتی میلہ داتا گنج بخش کے مزار اور قریبی مینار پاکستان کے تمام علاقے پر محیط ہوتاتھا۔ عقیدت مند مزار پر فاتحہ خوانی ،دعا اور میلہ میں خریداری کرنے کے ساتھ ساتھ یہاں موجود تفریحی سہولتوں اور سرکس وغیرہ سے بھی لطف اندوز ہوتے۔اس کے علاوہ بھی لاہور کے دوسرے علاقوں میں صوفی بزرگوں کے مزارات پر عرس کے موقعے پر میلوں کا اہتمام ہوتا۔پھربنیاد پرستی اور دہشت گردی کی لہر ان میلوں کو نگل گئی۔
لاہور کی ایک اور سستی اجتماعی تفریح لاہور کے سینماگھر تھے۔ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ساٹھ کی دہائی میں کل سات سو پچاس سنیما تھے جن میں سے صرف چار سو پنجاب میں تھے اور ان چار سو میں سے بھی بیاسی سینما گھر لاہور میں تھے اور لاہور کی وجہ سے پاکستانی فلم انڈسٹری کو ’’لالی وڈ‘‘ کا نام ملا تھا۔ سینما کے زوال کی بہت سی وجوہات تھیں، ایک تو یہ کہ اصلاحی فلموں کی جگہ گنڈاسے نے لے لی اور ایسی فلمیں بننے لگیں جن سے تشدد کو کافی حد تک فروغ ملا، کوئی کہانی کوئی پلاٹ نیا نہیں رہا، بس وہی پرانے موضوعات پیش کیے جاتے رہے جس کی وجہ سے لوگوں کی دلچسپی ختم ہو گئی۔ ستر کی دہائی میں لوگوں کے گھروں میں وی سی آر آئے جن پر فلمیں دیکھی جانے لگیں۔ لوگوں نے سینما جانا چھوڑ دیا، کیونکہ دس بیس روپے کرائے پر فلمیں گھر دیکھ لی جاتی تھیں اور سینما میں جانے کا تردد نہیں کرنا پڑتا تھا۔ 1980 کے عشرے میں جب ضیا الحق حکومت تھی تو اس دوران نظام اسلام کے نام پر بہت کچھ تبدیل کیا گیا اور ظاہر ہے کہ فن و ثقافت پر بھی اسکا اثر پڑا اور فلموں کے موضوعات بہت ہی محدود ہوگئے جس کی وجہ سے بھی فلم ساز جو پہلے صرف پنجابی فلموں کے بنانے کے ماہر تھے ان کا روزگار بھی متاثر ہوا اور فنانسرز بھی موجود نہ رہے۔ جب لاہور میں ہی فلمی سرگرمیاں نہ رہیں تو پورے پاکستان کا حال کیا رہا؟جہاں سینما تھے وہاں شادی ہال یا پلازے بن گئے۔ اب کچھ سینمابنے ہیں لیکن اس کے ٹکٹ اتنے مہنگے ہیں کہ اسے عام لوگ خرید نہیں سکتے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ نوجوانوں کو بوجھ نہ سمجھا جائے کیونکہ قوموں کی تقدیریں نوجوانوں کے ہاتھ میں ہوا کرتی ہیں۔ انہیں بہتر روزگار ، صحت مند سرگرمیوں کے فروغ ، اور کھیل کے میدان اور تفریح کے مناسب مواقع فراہم کیے جائیں۔ ملک کے مختلف حصوں میں علاقائی کھیلوں کو فروغ دے کر مقامی نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ ہمارے نوجوان مایوسیوں اور کٹھن حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے، اپنی صلاحیتوں ، اپنے علم و فن کو بروئے کار لاکر اپنے ملک پاکستان سے محرومیوں کے ازالے اور ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکیں ۔
فیس بک پر تبصرے