انسان کی فطرت بھی عجب ہے کبھی تو کمال کے فیصلے کرتا ہے انسان اور کبھی ایسا طرز زندگی اختیار کر لیتا ہے جو اس کے شایان شان ہرگز نہیں ہوتا جدیدیت،ماڈرن ازم اور تیزرفتار ترقی نے کرہ ارض پر بسنے والے انسانوں کی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کئے ہیں خلوص،وفا داری اور رشتوں کی مضبوطی اور تقدس اب خال خال ہی کہیں نظر آتا ہے گویا انسانی معاشرے میں یہ عوامل اب انسانی معاشرے میں دیوانے کا خواب بن چکے مادیت پرستی کی لہر نے جیسے خون سفید کردیئے ہوں چاچا،تایا اور ماما کی اولادیں ایک ہی گھر کی چھت کے نیچے بے حد پیار محبت سے رہتے تھے وہ بھی زمانہ تھا آج توسگی اولاد بھی بسا اوقات والدین کو اپنے ساتھ برداشت نہیں کرتی
یہ داستان ِ الم ایک بوڑھی ماں کی ہے جو 80برس کی عمر میں اپنی ہی اولاد کی بے اعتنائی کے سبب در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہے ہمارے نشیبی علاقہ کے استاد خادم حسین دھامرہ کا شمار پڑھے لکھے اور باشعور افراد میں ہوتا ہے شعبہ تعلیم سے ریٹائرمنٹ کے بعد وہ اپنے آبائی پیشے زراعت سے منسلک ہو گئے میں نے بھی پرائمری تک تعلیم ان سے حاصل کی ان کا احترام آج بھی روز اول کی طرح میرے من میں ہے اچھی کتابوں سے لگاؤ انہیں جنون کی حد تک ہے ان کا اکثر کہنا ہوتا ہے کہ مارکیٹ میں جب بھی کوئی اچھی کتاب آئے مجھے ضرور دینا استاد جی کو صحت کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص کرم سے نواز رکھا ہے 65برس کی عمر کو پہنچنے کے باوجوداپنی قابل رشک صحت کی بدولت وہ نوجوان دکھائی دیتے ہیں اس روز جب میں استاد جی کی جانب جانکلا تو انہوں نے بدلتی ہوئی معاشرتی اقدار اور انسانی رویوں پر سیر حاصل بحث کی ہمیشہ اچھے اخلاق سے پیش آنے کی نصیحتیں بھی کیں اور اپنے گھر میں گزشتہدو برس سے قیام پذیر تاج مائی سے میرا تعارف بھی کرایا تاج مائی استاد جی کی چارپائی سے متصل چارپائی پر سامنے بیٹھی اپنے دکھڑے سنا رہی تھی اور میں اس کی دکھ بھری کہانی سن کر اندر ہی اندر جیسے ٹوٹتا جا رہا تھا تاج مائی نے بتایا کہ اس کی ایک بیٹی تھی اور دو بیٹے ہیں جواں سال بیٹی شادی سے قبل ہی اللہ کو پیاری ہو گئی جبکہ میرے دونوں بیٹے اپنے اپنے بیوی بچوں کے ساتھ خوشحال زندگی گزار رہے ہیں دونوں سرکاری ملازم ہیں اور ہر ایک کی ماہانہ آمدن 30سے 40ہزار ہے مگر انہیں کبھی یہ شرم اور احساس نہیں ہوا کہ ان کی سگی والدہ حالات کے ستم سے تنگ آکر ان کے پاس رہنے کے بجائے کہیں اور رہائش پذیر ہے جھریوں بھرے چہرے پر آنسو اسکی آنکھوں سے برسات کی طرح برس رہے تھے بھرائی ہوئی آواز میں مجھ سے مخاطب ہوئی بیٹا یہ حال ہے آج کے بچوں کا!میں نے محنت پوریا کرکے دونوں بیٹوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا کبھی مرغیوں کے انڈے بیچ کر ان کی ٹیوشن فیس اور کالج فیس ادا کرنا پڑتی تو کبھی کسی ہمسائی سے رقم ادھار لیکر انکے داخلہ کیلئے پیسوں کا انتظام مکرتی انکا والد انکے بچپنے سے ہی دنیا فانی سے رخصت ہوا تو تمام تر ذمہ داری میرے ناتواں کندھوں پر آپڑی میں نے انکی پرورش اور تعلیم و تربیت میں کوئی کمی نہ آنے دی زیور تعلیم سے آراستہ کیا اور ان کی شادی پڑھی لکھی لڑکیوں سے کی آج میری حالت یہ ہے کہ میں دو جوان بیٹوں کی ماں ہوتے ہوئے در بدر ہوں ان کے پاس میرے سر چھپانے کو بھی جگہ نہیں یہ تو بھلا ہو ماسٹر سائیں کا جنہوں نے انسانی ہمدردی کے تحت زندگی کے بقیہ دن عزت کے ساتھ گزارنے کیلئے چھت فراہم کی ماسٹر جی کے گھر رہتے ہوئے مجھے آج دو برس ان کے گھر رہتے ہوئے انہوں نے مجھے سگی ماں سے بڑھ کر محبت،احترام اور عزت دی میں جب بھی بیمار ہوتی ہوں ماسٹر جی سارے کام چھوڑ کر پہلے میری دوائی لینے جاتے ہیں میرے لئے علیحدہ دودھ رکھواتے ہیں اور تازہ روٹی بنوا کر اکثر کھانا بھی میرے ساتھ ہی کھاتے ہیں
یہ سب باتیں جب میں اپنی سماعت میں اُتار چکا تو انسانی رویوں کی اس قدر سرد مہری اور زبوں حالی پر حیرت زدہ رہ گیا میں سوچنے لگا کہ آج جو اولاد اپنے بوڑھے والدین کے ساتھ یہ سلوک روا رکھے گی اس کا اپنا کل کیسا ہوگا؟
غروب آفتاب کا وقت قریب آپہنچا شام کے سائے ڈھلنے کو تھے دریائے سندھ کے کنارے استاد خادم حسین دھامرہ کے گھر سے جب اجازت لیکر بوجھل قدموں کے ساتھ باہر نکلتے ہوئے میں نے اپنے آپ سے یہ سوال کیا کہ ایک استاد خادم حسین دھامرہ کا کردار کھڑا ہے جس کا تاج مائی سے کوئی خونی رشتہ تک نہیں مگر وہ اسے سگی ماں جیسی محبت اور عقیدت دے رہا ہے اور دوسری طرف دو سگے بیٹوں کی شکل میں رشتوں کی نہ ٹوٹنے والی اکائی ہے جنہوں نے اپنی جنت کو دربدر کردیا ہے میں سوچنے لگا کہ جانے تاج مائی جیسی کتنی مائیں اس طرح کی اداس شاموں میں اپنے جھریوں بھرے چہروں اور خشک آنکھوں کے سوتوں کے ساتھ اپنے دکھڑے روزانہ کسی اجنبی اور اتفاقاً ملنے والے افراد کو سناتی ہوں گی اور شاید اپنی داستان الم سناتے ہوئے انہیں یہ محسوس ہوتا ہوگا کہ ان کے الفاظ کی حدت کبھی ان کی سگی اولاد تک پہنچے اور وہ انہیں واپس اپنوں کی دہلیز تک پہنچا دے مگر حرص و ہوس کی اس دنیا میں ہم انسانوں میں جانے یہ احساس کیوں مرتا جارہا ہے کہ ہم زندہ ماؤں کو جیسے درگور کرنے پر تلے ہوئے ہیںانسان کی فطرت بھی عجب ہے،کبھی تو کمال کے فیصلے کرتا ہے انسان اور کبھی ایسا طرز زندگی اختیار کر لیتا ہے جو اس کے شایان شان ہرگز نہیں ہوتا۔ جدیدیت،ماڈرن ازم اور تیزرفتار ترقی نے کرہ ارض پر بسنے والے انسانوں کی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کئے ہیں۔ خلوص،وفا داری اور رشتوں کی مضبوطی اور تقدس اب خال خال ہی کہیں نظر آتا ہے۔ گویا انسانی معاشرے میں یہ عوامل اب دیوانے کا خواب بن چکے ہیں۔ مادیت پرستی کی لہر نے جیسے خون سفید کردیے ہوں۔ چاچا،تایا اور ماما کی اولادیں ایک ہی گھر کی چھت کے نیچے بے حد پیار محبت سے رہتے تھے، وہ بھی زمانہ تھا آج توسگی اولاد بھی بسا اوقات والدین کو اپنے ساتھ برداشت نہیں کرتی۔
یہ داستان ِ الم ایک بوڑھی ماں کی ہے جو 80برس کی عمر میں اپنی ہی اولاد کی بے اعتنائی کے سبب در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہے۔ ہمارے نشیبی علاقہ کے استاد خادم حسین دھامرہ کا شمار پڑھے لکھے اور باشعور افراد میں ہوتا ہے، شعبہ تعلیم سے ریٹائرمنٹ کے بعد وہ اپنے آبائی پیشے زراعت سے منسلک ہو گئے، میں نے بھی پرائمری تک تعلیم ان سے حاصل کی، ان کا احترام آج بھی روز اول کی طرح میرے من میں ہے۔ اچھی کتابوں سے لگاؤ انہیں جنون کی حد تک ہے، ان کا اکثر کہنا ہوتا ہے کہ مارکیٹ میں جب بھی کوئی اچھی کتاب آئے مجھے ضرور دینا۔ استاد جی کو صحت کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص کرم سے نواز رکھا ہے۔ 65برس کی عمر کو پہنچنے کے باوجوداپنی قابل رشک صحت کی بدولت وہ نوجوان دکھائی دیتے ہیں۔ اس روز جب میں استاد جی کی جانب جانکلا تو انہوں نے بدلتی ہوئی معاشرتی اقدار اور انسانی رویوں پر سیر حاصل بحث کی۔ ہمیشہ اچھے اخلاق سے پیش آنے کی نصیحتیں بھی کیں اور اپنے گھر میں گزشتہ دو برس سے قیام پذیر تاج مائی سے میرا تعارف بھی کرایا۔ تاج مائی استاد جی کی چارپائی سے متصل چارپائی پر سامنے بیٹھی اپنے دکھڑے سنا رہی تھی اور میں اس کی دکھ بھری کہانی سن کر اندر ہی اندر جیسے ٹوٹتا جا رہا تھا۔ تاج مائی نے بتایا کہ اس کی ایک بیٹی تھی اور دو بیٹے ہیں، جواں سال بیٹی شادی سے قبل ہی اللہ کو پیاری ہو گئی جبکہ میرے دونوں بیٹے اپنے اپنے بیوی بچوں کے ساتھ خوشحال زندگی گزار رہے ہیں ۔دونوں سرکاری ملازم ہیں اور ہر ایک کی ماہانہ آمدن 30سے 40ہزار ہے مگر انہیں کبھی یہ شرم اور احساس نہیں ہوا کہ ان کی سگی والدہ حالات کے ستم سے تنگ آکر ان کے پاس رہنے کے بجائے کہیں اور رہائش پذیر ہے۔ جھریوں بھرے چہرے پر آنسو اسکی آنکھوں سے برسات کی طرح برس رہے تھے، بھرائی ہوئی آواز میں مجھ سے مخاطب ہوئی بیٹا یہ حال ہے آج کے بچوں کا!میں نے محنت پوریا کرکے دونوں بیٹوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا کبھی مرغیوں کے انڈے بیچ کر ان کی ٹیوشن فیس اور کالج فیس ادا کرنا پڑتی تو کبھی کسی ہمسائی سے رقم ادھار لیکر انکے داخلہ کیلئے پیسوں کا انتظام مکرتی انکا والد انکے بچپنے سے ہی دنیا فانی سے رخصت ہوا تو تمام تر ذمہ داری میرے ناتواں کندھوں پر آپڑی میں نے انکی پرورش اور تعلیم و تربیت میں کوئی کمی نہ آنے دی زیور تعلیم سے آراستہ کیا اور ان کی شادی پڑھی لکھی لڑکیوں سے کی آج میری حالت یہ ہے کہ میں دو جوان بیٹوں کی ماں ہوتے ہوئے در بدر ہوں ان کے پاس میرے سر چھپانے کو بھی جگہ نہیں یہ تو بھلا ہو ماسٹر سائیں کا جنہوں نے انسانی ہمدردی کے تحت زندگی کے بقیہ دن عزت کے ساتھ گزارنے کیلئے چھت فراہم کی ماسٹر جی کے گھر رہتے ہوئے مجھے آج دو برس ان کے گھر رہتے ہوئے انہوں نے مجھے سگی ماں سے بڑھ کر محبت،احترام اور عزت دی میں جب بھی بیمار ہوتی ہوں ماسٹر جی سارے کام چھوڑ کر پہلے میری دوائی لینے جاتے ہیں میرے لئے علیحدہ دودھ رکھواتے ہیں اور تازہ روٹی بنوا کر اکثر کھانا بھی میرے ساتھ ہی کھاتے ہیں.
یہ سب باتیں جب میں اپنی سماعت میں اُتار چکا تو انسانی رویوں کی اس قدر سرد مہری اور زبوں حالی پر حیرت زدہ رہ گیا. میں سوچنے لگا کہ آج جو اولاد اپنے بوڑھے والدین کے ساتھ یہ سلوک روا رکھے گی اس کا اپنا کل کیسا ہوگا؟
غروب آفتاب کا وقت قریب آپہنچا، شام کے سائے ڈھلنے کو تھے، دریائے سندھ کے کنارے استاد خادم حسین دھامرہ کے گھر سے جب اجازت لیکر بوجھل قدموں کے ساتھ باہر نکلتے ہوئے میں نے اپنے آپ سے یہ سوال کیا کہ ایک استاد خادم حسین دھامرہ کا کردار ہے، جس کا تاج مائی سے کوئی خونی رشتہ تک نہیں مگر وہ اسے سگی ماں جیسی محبت اور عقیدت دے رہا ہے اور دوسری طرف دو سگے بیٹوں کی شکل میں رشتوں کی نہ ٹوٹنے والی اکائی ہے، جنہوں نے اپنی جنت کو دربدر کردیا ہے۔
میں سوچنے لگا کہ جانے تاج مائی جیسی کتنی مائیں اس طرح کی اداس شاموں میں اپنے جھریوں بھرے چہروں اور خشک آنکھوں کے سوتوں کے ساتھ اپنے دکھڑے روزانہ کسی اجنبی اور اتفاقاً ملنے والے افراد کو سناتی ہوں گی اور شاید اپنی داستان الم سناتے ہوئے انہیں یہ محسوس ہوتا ہوگا کہ ان کے الفاظ کی حدت کبھی ان کی سگی اولاد تک پہنچے اور وہ انہیں واپس اپنوں کی دہلیز تک پہنچا دے، مگر حرص و ہوس کی اس دنیا میں ہم انسانوں میں جانے یہ احساس کیوں مرتا جارہا ہے کہ ہم زندہ ماؤں کو جیسے درگور کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
Next Post
فیس بک پر تبصرے