کیا نئے ولی عہد بحرانوں سے نمٹ لیں گے یا جنگ کی طرف جائیں گے؟

983

شاہی خاندان کے اندر ہی ایک اپوزیشن بھی پہلے سے موجود ہے لیکن سدھیریوں کی کثرت اور وحدت سے اس اپوزیشن کی کوئی حیثیت نہیں تھی،اب جبکہ محمد بن نائف اور ان کے ہمنوا بھی اپوزیشن میں شامل ہو رہے ہیں تو اس سے بن سلمان کے حامیوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے بدھ کے روز علی الصباح ایک شاہی فرمان  میں شہزادہ محمد بن نایف کو ولی عہد  اور وزارت داخلہ کے منصب سے ہٹا کر ان کی جگہ اپنے بیٹے شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز کو ولی عہد  جبکہ شہزادہ عبدالعزیز بن سعودد بن نایف کو وزیر داخلہ مقرر کیا ہے۔ فرمان کے مطابق شہزادہ سلمان کے پاس نئی ذمہ داری کے ساتھ وزیر دفاع کو عہدہ بھی برقرار رہے گا۔ نیز وہ نائب وزیر اعظم بھی ہوں گے۔سعودی عرب کی بیعت کمیٹی کے 34 میں سے 31 ارکان نے اس  فیصلے کی توثیق کی ہے۔

نئے شاہی فرمان   کے جاری ہوتے ہی  عالمی  رہنماؤں   نے شہزادہ محمد بن سلمان کو ٹیلیفون پر رابطہ کر کے انہیں مملکت کا ولی عہد اور نائب وزیر اعظم بننے پر مبارک باد پیش کی اور نئے ولی عہد کے لیے نیک تمناؤں اور امیدوں کا اظہار کیا۔

اس خبر کے منظر عام پر آتے ہی  سعودی عوام  نے سوشل میڈیا پر شہزادہ محمد بن  نایف  کی بیعت کرنا شروع کر دی   اور  توقع ظاہر کی کہ  وہ اپنے ویژن 2030  کو عملی جامہ پہنائیں گے اور سن 2030 ء تک  سعودی عرب  کی معیشت کا تیل پر انحصار ختم کر دیں گے۔سعودی  سرکاری چینل العربیہ نیوز  میں شہزادہ محمد بن نایف  کو  شہزادہ محمد بن سلمان کے ہاتھ پر بیعت  کرتا دکھایا گیا ہے لیکن اگر اس ویڈیو  کو دیکھنے سے بالکل بھی ظاہر نہیں ہو رہا کہ  بن نایف بن سلمان کی بیعت کر رہے ہیں،بلکہ ویڈیو سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ  دونوں شہزادوں کے درمیان  یہ مصافحہ  اس وقت ہوا  جب منگل کے روز شاہ سلمان نے محمد بن نائف کو قصر صفا میں طلب کیا،بن نائف کے محل پہنچتے ہی بن سلمان  نے آگے بڑھ کر ان سے مصافحہ کیا اور قدم بوسی کی۔

اگر یہ تجزیہ درست ہے تو پھر سعودی سرکاری چینل کی جانب سے اس ملاقات کے وقت ہونے والے مصافحے کو بیعت قرار دینا اس بات کا پتا دیتا ہے کہ شاہی خاندان میں اندر ہی اندر  بہت کچھ پک رہا ہے ۔یہ بات تو کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ   شاہی خاندان کے اندر ہی ایک اپوزیشن بھی پہلے سے موجود ہے لیکن سدھیریوں کی کثرت اور وحدت  سے اس اپوزیشن کی کوئی حیثیت نہیں تھی،اب جبکہ محمد بن نائف اور ان کے ہمنوا بھی اپوزیشن میں شامل ہو رہے ہیں  تو اس سے  بن سلمان کے حامیوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ رواں ماہ قطر کے ساتھ شروع ہونے والی کشیدگی  سے بھی اسلامی دنیا  میں آل سعود کے ساتھ ہمدردی میں کمی آئی ہے اور سعودی عرب دانستہ  یا نادانستہ  طور پر اپنے پاؤں پر خود ہی کلہاڑی مارنے کا مرتکب ہو رہا ہےاور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جلد بازی میں سعودیہ  سے غلط فیصلے کروائے جا رہے ہیں  جن کے نتائج  ممکنہ  طور پر سعودیہ کے حق میں بہتر نہیں ہوں گے۔

معروف ترک تجزیہ کار ابراہیم کراگل  کے مطابق مشرق وسطی میں کسی بھی قسم کی تبدیلی  کے احکامات امریکا اور برطانیہ سے صادر ہوتے ہیں اس لیے قطر سے لاتعلقی اور  ولی  عہد کی تبدیلی  کے احکام بھی ضروری ہے کہ ادھر سے ہی آئے ہوں۔ابراہیم کراگل کے مطابق  امریکا نے ترکی،پاکستان،انڈونیشیا سمیت تمام حلیف  وغیر حلیف اسلامی ممالک کی تقسیم  کا منصوبہ بنایا ہوا ہے جس پر وہ تیزی سے عمل کر رہا ہے  اور توقع کے عین مطابق   شام  میں خانہ جنگی  شروع کروانے کے بعد اب اس نے خلیج کا رخ کر لیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ایران  کے اہم مقامات پر داعش کے حالیہ حملوں کا مقصد ایران  کو   عربوں کے خلاف جنگ کے لیے بھڑکانا ہے،جبکہ امریکی صدر سعودیہ کو ہر قسم کے تعاون  کی تھپکی دے کر گئے ہیں اور  یہی وجہ ہے کہ جارحانہ مزاج کے وزیر دفاع محمد بن نائف کو ولی عہد بھی مقرر کر دیا گیا ہے تاکہ   جنگ میں کودنے سے کسی قسم کی حکمت و رحمدلی رکاوٹ نہ بنے اور اس طرح  مسلک کے نام پر   دوبدو   اس جنگ کا آغاز ہو جائے جس کا  امریکا کئی سالوں سے انتظار کر رہا ہے۔

اگر  دشمن کی چال کامیاب ہو گئی تو  یہ  جنگ پورے خطے کے لیے تباہ  کن ہو گی۔اس    طرح ممکن ہے کہ  آنے والے دنوں میں ایران اور سعودیہ میں دہشتگردی کی کاروائیوں میں اضافہ   دیکھنے کو ملے  جس سے دونوں ملک جنگ کی طرف بڑھیں۔اس  ممکنہ جنگ کا مقصد سعودیہ کو ٹکڑوں میں تقسیم کرنا ہو گا جس کے بعد ایران اور ترکی کی باری آئے گی۔اس طرح  (خاکم بدہن )سعودیہ کا انجام بھی شام اور لیبیا  سے مختلف نہیں ہو گا۔

سعودی عرب اس وقت داخلی و خارجی سطح پر  بہت مشکل میں گھرا ہوا ہے اور  چومکھی جنگ لڑ رہا ہے۔اس کی یہ جنگ نظری بھی ہے اور عملی بھی،یمن  میں اتحادیوں کے ساتھ عملی طور پر جنگ نے سعودیہ کی کمر  توڑ کر رکھ دی ہے،رہی سہی کسر   قطر کے ساتھ حالیہ کشیدگی نے پوری کر دی ہے اور  اس بحران  سے سعودیہ نے کئی اعتبار سے نقصان اٹھایا ہے۔یہ سب  قابل برداشت ہوتا اگر سعودیہ  میں داخلی استحکام ہوتا،لیکن ایسا نہیں ہے۔داخلی سطح پر  بھی سعودیہ دہشتگردی کا شکار ہے جس میں اضافے کا خدشہ ہے،ایسےمیں   شاہی خاندان میں اختلافات اور کلیدی عہدوں میں غیرمعمولی رد وبدل   بلاد حرمین کے لیے کوئی نیک شگون نہیں۔شاہی خاندان  ان مشکلات سے آگاہ ہے  اسی  اعصاب شکن صورتحال سے نمٹنے کے لیے ہی  محمد بن سلمان کی شخصیت کو موزوں قرار دیا جا رہا ہےخدا کرے کہ   معزول ولی عہد نے اس ناپسندیدہ  فیصلہ کو  ملکی مفاد کے لیے دل سے قبول کیا ہو اور نئے ولی عہد شاہی خاندان کی توقعات پر پورا اتریں اور  بلاد حرمین کو بحرانوں سے نکال  سکیں۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...