ابوظہبی: عالمی بین المذاہب مکالمہ کانفرنس
مشرق وسطیٰ کا خطہ بہت طویل عرصے سے داخلی اور خارجی آویزشوں کا شکار ہے۔ مغربی طاقتوں کی اس خطے میں زیادہ دلچسپی یہاں سے نکلنے والے تیل کی وجہ بھی تھی جسے عرف عام میں بلیک گولڈ یا سیال سونا بھی کہا جاتاہے کیونکہ ایک وقت میں یہ دنیا کا سب سے قیمتی اثاثہ تصور کیا جاتا تھا۔یہ تیل ہی ہے جس کے بل پر مغرب نے دنیا کی قیادت پر قبضہ کیا اور اس قبضے کو دائمی حیثیت دینے کے لیے اسرائیل جیسی ریاست کا قیام عمل میں لایا گیا۔ تاہم اب مغربی سیاست اور حکمت عملی میں کچھ تبدیلی کے آثار نظر آرہے ہیں ، بالخصوص مغربی دنیا کی سب سے بڑی مذہبی شخصیت یعنی پاپائے روم پوپ فرانسیس جزیرہ نما عرب کا دورہ کرنے والے پہلے پاپائے روم ہیں۔ان سے پہلے ان ہی کے ہم نام سینٹ فرانسیس السیسی نے تیرھویں صدی میں مصر کے سلطان سے ملاقات کی تھی۔پوپ فرانسیس مذہبی پیشوائیت پر فائز ہونے کے بعد سے اسلام اور عیسائیت کو ایک دوسرے کے قریب تر لانے کے لیے کوشاں ہیں اور وہ اپنے پیغامات میں مذہبی رواداری ، انصاف اور امن کے اصولوں پر زور دے رہے ہیں۔
متحدہ عرب امارات کے بانی شیخ زید بن سلطان النہیان کی یاد میں منعقدہ بین المذاہب ہم آہنگی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جنگ سے کچھ حاصل ہوتا ہے تو وہ بدحالی ہے اور ہتھیاروں سے موت ملتی ہے ، یہ سب چیزیں ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں، یمن ، شام ، عراق اور لیبیا کے حالات ہمارے سامنے ہیں۔ ہمیں ہتھیاروں کے ذریعے حاصل ہونے والی طاقت کی مخالفت کرنی ہوگی۔ پوپ فرانسس نے خطے میں جاری جنگوں کو ختم کرنے کی اپیل کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ مختلف عقائد کے حامل شہریوں کو برابری کی بنیاد پر حقوق فراہم کیے جائیں۔ انھوں نے ابو ظہبی میں قاہرہ کی جامعہ الازہر کے سربراہ شیخ احمد الطیب سے ملاقات کی جس کے بعد یواے ای کے زیر اہتمام منعقدہ بین المذاہب مکالمہ کانفرنس سے خطاب بھی کیا۔اپنے خطاب میں انھوں نے خطے میں جاری جنگوں کا خاتمہ، انصاف اور شہریوں کو برابری کی بنیاد پر حقوق کی فراہمی کی ضرورت پر زور دیا۔ انھوں نے تمام مذہبی رہنماؤں سے کہا کہ لفظ” جنگ” کو منظوری دینے والے ہر پہلو کو مسترد کرنا ان کا فرض ہے، میں خاص کر یمن، شام، عراق اور لیبیا کے بارے میں سوچ رہا ہوں۔اس موقع پر شیخ احمد الطیب نے کہا کہ مذہب کو کسی صورت بھی تشدد کو جائز قرار دینے کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ پوپ فرانسس اور شیخ احمد نے دستاویزات پر دستخط کرتے ہوئے عہد کیا کہ الازہر اور ویٹی کن انتہاپسندی کے خلاف مل کر لڑیں گے۔ ابو ظہبی کے ولی عہد شیخ محمد بن زاید نے متحدہ عرب امارات میں تعمیر ہونے والے پہلے چرچ کی زمین کی دستاویزات پوپ فرانسیس کو تحفے کے طور پر پیش کی۔پوپ فرانسس نے جواب میں ولی عہد کو مصر کے سلطان ملک الکمال اور سینٹ فرانسیس السیسی کے درمیان 1219 میں ہوئی ملاقات کا فریم کیا ہوا تمغہ پیش کیا۔
بین المذاہب ہم آہنگی کے لیے ایک عرصہ سے بین الاقوامی حلقوں میں کام ہو رہا ہے۔ متحدہ عرب امارات میں ہونے والی عالمی بین المذاہب مکالمہ کانفرنس کا انعقاد ایسے وقت میں ہوا ہے کہ چند روز قبل ہی یو اے ای کی حکومت 2019 کو رواداری کا سال قرار دے چکی ہے۔ اس سے قبل دوماہ پہلے سعودی عرب میں بھی ایک ایسی ہی کانفرنس کا انعقاد ہوچکا ہے جس میں دنیا بھر سے بارہ سو سے زائد مسلم قائدین نے شرکت کرکے بین المذاہب مکالمے کو فروغ دینے پر زور دیا تھا۔یو اے ای کی بین المذاہب مکالمہ کانفرنس اسی سلسلہ کی کڑی ہے۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور یو اے ای کے ولی عہد محمد بن زید بین المذاہب مکالمہ کے فروغ پر یقین رکھتے ہوئے اس بات کو یقینی بنانے میں مصروف ہیں کہ تمام مذاہب کی مشترکہ باتوں کو لیکر ایک متفقہ مذہبی ماحول بنایا جائے جس میں تمام مذاہب مشترکات کی بنیاد پر ایک دوسرے کا احترام کریں تاکہ نفرتوں اور انتہاپسندی کو جنم دینے والے مذاہب کا سہارا لیکر دنیا بھر میں دہشت گردی کو فروغ نہ دے سکیں۔ best bong cheap price
مذاہب کے درمیان باہمی رواداری اور برداشت کی ایسی فضا ناگزیر ضرورت کا درجہ حاصل کرچکی ہے کہ سب لوگ اپنے اپنے عقیدہ و مذہب پر قائم رہتے ہوئے مل جل کررہ سکیں اور ان کے عقائد وروایات معاشرتی میل جول میں روکاوٹ نہ بنیں۔ اس کے لیے سنجیدہ علمی، فکری اور سماجی سطح پر محنت کی ضرورت ہے۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ اس کام کا آغاز مسلم دنیا سے ہورہا ہے ۔ اس کام میں تمام مذاہب کے معتدل مزاج شخصیات کو شریک کیا جائے تو اس کوشش کے بہترین ثمرات سامنے آسکتے ہیں۔
بین المذاہب ہم آہنگی میں سب سے زیادہ ضرورت مکالمہ کی رہی ہے جسے ہمیشہ نظر انداز کیا گیا ہے۔ اس باب میں ہمیشہ مناظرانہ روش اختیار کی گئی ہے اور بجائے اتحاد وقربت پیدا کرنے کے ہمیشہ نفرت اور انتہا پسندی کو فروغ دیا گیا ہے۔ قرآن کریم نے اس حوالے سے بڑی خوبصورت اصطلاح “مجادلہ” کی استعمال کی ہے۔ مجادلہ قرآن کریم کے اہم موضوعات میں سے ایک ہے۔ یہ نسل انسانی کی درست رہنمائی کے لیے بہت ضروری ہے مگر قرآن کریم اس کے ساتھ چند شرائط ذکر کرتا ہے، جنہیں اپنائے بغیر اس سے کوئی فائدہ حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ مجادلہ کے لیے علم ، دلیل اور افہام و تفہیم کو بطور شرائط بیان کیا گیا ہے۔ علم ، دلیل، حکمت ودانش کے ساتھ تمام مذاہب کو اپنا اپنا موقف پیش کرنے کا موقع دیا جائے اور افہام وتفہیم کے ساتھ مسائل زیر بحث لائے جائیں تو بین المذاہب ہم آہنگی کے لیے کی جانے والی کوششیں کارگر ثابت ہوسکتی ہیں۔
دورجدید میں نسل انسانی نے اپنے سماجی، معاشی اور خاندانی ماحول میں آسمانی تعلیمات سے کنارہ کشی اختیار کررکھی ہے، جس کے تلخ نتائج آئے روز ہمارے سامنے آرہے ہیں۔یہ عنوان مذاہب کے عالمی رہنماؤں کی اس وقت بہت زیادہ توجہ کا طلب گار ہے۔ انسانی معیشت حلال و حرام کے تصور سے بے گانہ ہوتی جارہی ہے، خاندانی نظام میں رشتوں کا تقدس قصہ پارینہ بنتا جارہا ہے ۔ یہ وہ امور ہیں جنکی جانب مذاہب کے عالمی رہنماؤں کو سب سے زیادہ توجہ دینی چاہیے کہ یہی آسمانی تعلیمات ہیں۔
سعودی عرب اور متحدہ عرب آمارات میں ہونے والی ان کانفرنسوں کاخیر مقدم اس امید کے ساتھ کیا جانا چاہیے کہ دنیا کے دو سب سے بڑے مذاہب کی بڑی شخصیات پاپائے روم اور شیخ الازہر باہمی مشاورت سے بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ اور انتہاپسندی و دہشت گردی کے لیے مذاہب کے استعمال کو روکنے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔
فیس بک پر تبصرے