لاہورِ گُم گشتہ

1,373

زمان پارک میں رہائش اور دھرم پورہ سکول میں پڑھائی کے دوران میرا پسندیدہ ترین مشغلہ کرکٹ کھیلنے کے بعد اردو ناول اور جرائد پڑھنا ہوتا تھا۔پچاس کی دہائی کے ابتدائی ماہ  و سال فیضؔ، منٹو اور عبد الحمید عدمؔ کا زمانہ کہلاتاہے۔پاک ٹی ہاؤس میں تمام تر ادیب اکٹھے ہوا کرتے تھے۔میں سبطِ حسن کی زیرِ ادارت چھپنے والے لیل و نہار کا قاری تھا اور اس میں میرا ایک خط بھی شائع ہوا تھا۔شورش کاشمیری کا چٹان، مولانا مودودی کا ترجما ن القرآن اور ان کے ساتھ ساتھ احمد پرویز کا طلوعِ اسلام بھی زیرِ مطالعہ رہتا تھا۔گورنمنٹ کالج میں میرا داخلہ کرکٹ کی بنیاد پر ہوا تھا اور سلمان قریشی، جسے ہم ’’کرشر‘‘ کہا کرتے تھے نے میری ریگنگ کی تھی تاہم بعد ازاں مجھے اس کی کتاب Pieces of Eight کی نظموں نے اپنے سحر میں جکڑ لیا۔

بارہویں جماعت کے دوران خالد رانجھا( جو بعد میں پاکستان کے وزیرِ قانون بنے) اور مجھے انگریزی شاعری کا شوق چرایا۔ ملاحظہ کیجیے، “How can I be gay/When you are away”۔میرے استاد عبد القیوم جوجو، جو جی سی ڈراما کلب کے روحِ رواں تھے نے مجھے بتایا کہ پرچے میں میری لکھی ہوئی نثر ان کی سمجھ سے بالا تھی۔شعیب ہاشمی نے مجھے معاشیات پڑھائی۔میں نے طارق علی، سلمان تاثیر، سلمان پیر اورشاہد رحمان کو بارہا انہیں تنگ کرتے دیکھا۔میں نے ان سے بغیر لڑائی کے جیت جانے کا ہنر سیکھا ہے۔ تاہم میں ہنوز یہ نہیں جان پایا کہ جیت جاناکیا ہے۔

ستر کی دہائی کے اواخر میں مَیں پاکستان ٹائمز میں زِم اور صدیقی کے ساتھ ادارتی صفحے پر کام کرتا تھا، یہاں فیضؔ اور مظہرعلی خان نے اپنی زندگی کے بہترین ایام گزارے تھے۔ چوہے اخبارات کو کتردیتے تھے، جن کو پکڑنے کے لیے پالی گئی بلیوں کو کھیلوں کے نامہ نگار آصف کچا گوشت ڈالا کرتے تھے،جس کی بو کمرے میں ہر طرف پھیلی رہتی۔کمرے ہر وقت تاریکی میں ڈوبے رہتےاور دن میں بھی روشنیاں جلائے رکھنے کی ضرورت رہتی تھی۔مظہر علی خان ہفتہ وارViewpoint کے دفتر میں بیٹھا کرتے جہاں میں ان سے(رعب کے سبب) بمشکل بات کر پاتا تھا۔ میں Viewpoint میں ‘Janus’ کے قلمی نام سے ایک کالم لکھا کرتا تھا۔ہوا یوں کہ ایک بار زِ م نے ‘J’ ہٹا کر اس نام کو تبدیل کردیا اور مدیرِ اعلی آئی اے رحمان بھی اس غلطی کو پکڑ نہیں پائے۔ یقیناً وہ دونوں مجھ سے کم بدمعاش تھے۔

ان دنوں میں سلیم الرحمان سے بہت زیادہ متاثر تھا، میں انہیں انارکلی میں ملا، جہاں وہ کبھی کبھار منو بھائی کے ساتھ، جو غالبا ً اپنے اردو کالموں کی طرح عمدہ پنجابی شاعری بھی کیاکرتے تھے،آ نکلتے تھے۔سلیم الرحمان نے مجھے ناول نگا ر عزیز احمد پر تنقیدی مضمون لکھنے کو کہا۔ لاہور کے ادبی حلقوں نے انتظار حسین کے ناول’ بستی‘ پر میرے تبصرے کو بالکل پسند نہیں کیا تھا جس میں میں نے اس ناول کو اردو کے بہترین دس ناولوں میں سے ایک قرار دیا تھا۔2013 میں انتظار حسین حقیقتاً بہترین غیر انگریزی لکھاری کے لیے Booker Prize حاصل کر سکتے تھے( وہ اس ایوارڈکے لیےنامزد ہوئے تھے)۔

میں نے کشور ناہید کے سرائےنما گھر میں کئی ادیبوں سے ملاقاتیں کر رکھی ہیں، جمیل الدین عالی سے لے کر گوپی چند نارنگ تک سبھی کسی نہ کسی سمے وہاں پائے جاتے تھے۔انگریزی نثر کے حوالے سے میں ان دنوں صفدر میر کا دیوانہ تھا۔میں نےگوپی چند نارنگ کو کشور ناہید کے گھر پر سنا تھا۔ان سے بات کی توصفد ر میر سے متعلق میرے خیالات بدل گئے اور مجھے احساس ہوا کہ ضیا محی الدین جب کہتے ہیں کہ ہمارے بہت کم ادیب اچھی ارود بولتے ہیں تو وہ یقیناً صحیح کہہ رہے ہوتے ہیں۔جب گوپی چند نارنگ بولتے ہیں تو ’’باتوں سے پھول جھڑتے ہیں‘‘۔داوود رہبر لاہور میں کچھ تنگ نظر تعلیمی اداروں کی جانب سے بدسلوکی کے واقعات کے کافی عرصے بعد لاہور آئے تو انہوں نے بتایا کہ پطرس بخاری ایک فرشتے کی مانند بولتے ہیں۔انہوں نے پطرس کو لاہور کے خاقانِ تکلم کا خطاب دیا۔یہ کہنا غیر ضروری ہے کہ کہ داوود رہبر بذاتِ خود ایک فرشتے کی مانند اردو لکھا کرتے تھے۔سلیم الرحمان، جن کے سر یہ گناہ ہے کہ انہوں نے مجھے الفاظ کی جڑ کے بارے تجسس میں مبتلا کردیاتھا، انہوں نے مجھے بتایا کہ اگر یہ کوئی اصطلاح ہے ،تو ناصر کاظمی رئیس الملائکہ کی طرح بات کیا کرتے تھے۔ میں نے ناصر کاظمی کو نہیں سنا، تاہم میرا خیال ہے کہ اردو کے بد ترین متکلم قیوم نظر تھے ، بالخصوص اس دن کے بعد جب انہوں نے 1964 کی تقریب تقسیمِ اسناد میں میرے خیالات کو یاوہ گوئی سے تعبیر کیا تھا۔ سلیم الرحمان نے اپنی تحریر کردہ قدیمی ادب کی مختصر تاریخ میں الفاظ کا مستند تلفظ استعمال کرنے پر اصرار کیاتھا ۔ انہوں نے لکھا کہ Ciceroدراصل Kikero، Cyprus دراصل Kuprus اور Thucidydesدراصل Thukidides تھا۔انہوں نے اردو میں ایک خاص طرزِ تحریر اپنایا جو مجھے اسی قدر محبوب تھا جس قدر خان فضل الرحمان خان کی لکھت محبوب تھی۔بعد ازاں جب انتظار حسین سےشناسائی ہوئی تو مجھے ان کی نثر سے پیار ہو گیا۔

میں نے ایسی انگریزی شاعری بھی کی جسے آج میں دیکھنا بھی نہیں چاہتا۔سب سے پہلے یہ کالج جریدے میں شائع ہوئی اور بعد ازاں The Ravi میں بھی ، اس کی وجہ تقریباً یہی تھی کہ میں مجلسِ ادارت کا حصہ تھا اور مجھے ایسا کرنے  کاکوئی نہیں روک سکتا تھا۔میں نے نا سمجھ آنے والی نثر بھی لکھی۔ جب میں یہ سب کررہا تھا تو انتظار حسین اس وقت بہت نفیس اور عمدہ کالم لکھ رہے تھے۔ یہ ان دنوں سے پہلے کی بات ہے جب وہ اپنے دوستوں کے ساتھ چائے پینے کے لیے مناسب جگہ کی تلاش میں لاہور مسخر کررہےتھے۔
شیخ صلاح الدین اور حنیف رامےکو دو ہی کام تھے،یا تو وہ انتظار حسین کے ساتھ مختلف ریستورانوں میں پڑے اونگھتے رہتے یا پھرفلسفیانہ مباحث میں مستغرق رہا کرتے تھے۔جب کافی ہاؤس ادبا کی عسرت و تنگدستی سے عاجز آگیا تو انہیں پاک ٹی ہاؤس نے چھت فراہم کی ۔اعجاز حسین بٹالوی، قیوم نظر، ضیا جالندھری، یوسف ظفر اور مختار صدیقی حلقہ اربابِ ذوق کی مجالس وائی ایم سی اے میں منعقد کیا کرتے تھے، اب وہ پاک ٹی ہاؤس میں ہونے لگیں۔

ایک دن ضیاالحق کی مدح میں اداریہ لکھنے کے بعد جیسے ہی میں نے سراٹھایا، استاد دامن روسی زبان میں چلاتے ہوئے اندرداخل ہوئے، انہیں کسی نے بتا دیا تھا کہ میں روسی زبان جانتا ہوں۔انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ ہیر دوبارہ لکھ رہے ہیں جس میں رانجھا ہیرو ہوگا، کیوں کہ پنجابی کلاسیکی ادب نے اپنی ہیروئن کو نمایاں کرنے کے لیے ہیرو کو نظر انداز کردیا ہے۔شہر میں حکمرانوں کے خلاف حبیب جالب بھی استاد دامن کی طرح سیاسی بیان بازی کررہے تھے۔

توفیق رفعت کلیم عمر کے ساتھ گورنمنٹ کالج آئےتھے، توفیق نے میرا شعر دیکھا ، حوصلہ افزائی کی تاہم کلیم عمربے لحاظ اور رائے دینے میں منہ پھٹ ہونے کی حد تک ایمان دار واقع ہوئے تھے۔توفیق عمردانائی کےشاعر تھے تاہم بنیادی طور پر وہ کافرانہ حد تک فطرت سے لطف اندوز ہونے والےشخص تھے۔وہ ایک بڑے شاعر تھے، ان کے ایک منظوم ڈرامے میں میں نے اداکاری بھی کی تھی۔ اس ڈرامے کی ہدایت کاری فرخ نگار عزیز نے کی تھی ۔

توفیق رفعت کی زندگی کا عکس ان کی نظموں سے جھلکتا تھا کیوں کہ وہ فیصلے صادر یا نتائج اخذ نہیں کیا کرتے تھے۔ان کی شاعری حسیات کو چھوتی اور فیصلے کا اختیار انہیں پر چھوڑ دیتی۔انہیں کسی بھی پیغام کو پھیلانے کا خیال اس لیے لاحق نہیں رہتا تھاکیوں کہ وہ کسی حکم یا فیصلہ صادر کرنے کے زمرے میں آ سکتاتھا۔انہوں نے حتمی نتائج کی پروا کیے بغیر زندگی گزاری، انہوں نےاپنے سامنے موجود کسی بھی شے کے اخلاقی جائزےکے نتائج کو ہم پر مسلط کرنے سے احتراز کرتے ہوئے سوز وگداز اور حسن و خوبصورتی کوتخلیق کیا۔
انہوں نے زمانی تغیرات کے آگے بند باندھنے والے نظریات کی بجائے تغیر کے عملِ پیہم کو قبول کیا ۔انہیں روح کی غیر جانبداری کی بنا پر آزادی کی اس کیفیت سے نوازا گیا تھا جو ہمارے دور کے چند ایک شعرا کو ہی میسر تھی۔ماضی کو یاد کرتے ہوئے ان کے پیشِ نظروقت کے تھپیڑوں کی نذر ہو جانے والی کوئی خاص اقدار نہیں ہوا کرتی تھیں بلکہ وہ محض ان لمحات کا ذکر کرتے جو ماضی کے دھندلکوں میں کہیں کھو چکے تھے۔انہیں جس چیز نےتغیر کی طرف سب سے زیادہ مائل کیا وہ موت تھی، ایسے لوگوں کی موت جنہیں وہ جانتے تھے، وہ لوگ جن کی زندگیوں میں سماج نے ان کی عظمت کا اعتراف کبھی نہیں کیا تھا۔

کلیم عمر نے لاہور جیسے شہر میں، جذباتی شعبدہ بازی کے بارے میں حساسیت کے ساتھ لکھا، لاہور میں جس کا فقدان پایا جاتا تھا۔کلیم عمر اور توفیق رفعت نے زندگی میں کئی اتار چڑھاؤ دیکھے اور انہیں کئی مشکلات درپیش رہیں، تاہم ان کی سرپرستی نے اطہر طاہر اور عالمگیر ہاشمی کی قیادت میں اچھی شاعری کرنے والے شعرا کا ایک حلقہ جنم دے دیا تھا۔ لاہور کافی حد تک قدامت پسندی کا گڑھ بنتا جا رہا تھا اوریہاں کے مطالعاتی حلقے بدلنے لگےتھے۔ کبھی کبھار کراچی کے اہلِ دانش یہاں کے ادبی حلقوں کو ملامت کرتے تھے کہ انہوں نےنظریے کی خاطر انسانیت جیسے موضوع کو خیرباد کہہ دیا ہے۔

بھٹو دور کی قومیانہ حکمتِ عملی سے لاہور کی تلخ یادیں وابستہ تھیں یہی وجہ ہے کہ ضیا دور کی اسلامائزیشن کے لیے اس نے قبولیت کے در کھول دیے تھے۔قدامت پسندی، ماضی سے بے تعلق ہونے کے خیال کے آگے بند باندھنے کی کوشش کے طور پر اب ایک جوابی طرزِ عمل کی بجائے بنیاد پرستانہ رجحان کے طور پر سامنے آ رہی تھی۔آپ کسی بھی وقت پٹ سکتے تھے۔تمام ادبی جرائد یکے بعد دیگرے بند ہوتے جارہے تھے۔اردو بازار میں محض مذہب بکتا تھا۔2013 میں آپ آزادانہ طور پر اپنے خیالات قلم بند کرنے کی پاداش میں قتل کیے جاسکتے ہیں۔ کوئی بھی خطرناک کتاب لکھنے کے بعد آپ دعا کرتے ہیں کہ اس کتاب پر کسی کی نظر تک نہ پڑے۔
پاکستان ٹائمز بند ہو چکا تھا اور حکومتِ پاکستان اس کی ازسرِ نو اشاعت میں دلچسپی نہیں رکھتی تھی۔میں نے اس اخبار کو خدا حافظ کہا اور اور دی نیشن میں چلا گیا اور بعد ازاں رحمت شان آفریدی کے لبرل اخبار دی فرنٹیئر پوسٹ، جس کا نام بڑی چالاکی سے رکھا گیا تھا میں کام کرنے لگا۔پاکستان ٹائمز میں مستحکم ملازمت کے 9 سال گزارنے کے بعد ،جن کا آغاز1700روپے ماہوارتنخواہ سے ہوا تھا، میں اب صحافتی سفر میں غیر یقینیت کی ڈھلوان پر آپہنچا تھا۔

میں نے نجم سیٹھی کے فرائیڈے ٹائمز میں کام شروع کیا، ان کے ہفتہ واراردو اخبار ’آج کل‘ میں ادارتی خدمات سرانجام دیں اور قدامت پسند حلقوں کی جانب سے اس اخبار کی حیرت انگیزمخالفت کا تجربہ کیا۔ فرنٹیئر پوسٹ معاشی بدحالی کا شکار ہو گیا، اور آج کل ایک ایسے شہر میں باقی نہیں رہ سکتا تھا جہاں سیکولر خیالات کے پرچارک اردو اخبار کو ہضم کرنا مشکل تھا۔ سلیم الرحمن اور انتظار حسین آج کل میں کالم لکھا کرتے تھے۔انتظار حسین کی ڈیلی ٹائمز میں شمولیت کے بعد نجم بھی ادھر چلے گئے اور میں بھی ان کا پیچھا کرتے وہاں پہنچ گیا، اور ڈیلی ٹائمز نےآج کل کی بطور روزنامہ اشاعتِ ثانی کی راہ ہموار کی۔

ایک دن انتظار حسین نے مجھے علی داد ا کی گیلری میں اپنے دوستوں کی محفل میں آنے کو کہا۔اب مجھے ایک عشرہ ہونے کو آیا ہے کہ اپنا اختتامِ ہفتہ ایسے دوستوں کے ہمراہ گزاررہا ہوں جہاں مجھے امریکی ایجنٹ یابھارتی جاسوس ہونے کے طعنے سننے پڑتے ہیں نہ ہی نظریاتی مباحث کے ذریعے میری ہفتے بھر کی تھکن کو مزید ہوا دی جاتی ہے۔وہاں میں بہت عمدہ اردو کہانیاں لکھنے والے لکھاریوں مسعود اشعراوراکرام اللہ اور سلیم الرحمن کی لغوی روایت کے امین شاہد حمید کی محفل سے لطف اندوز ہوتا ہوں۔

فرائیڈے ٹائمز میں کام کرنے کے دنوں اچانک مشفق خواجہ مجھ سے ملنے آئے ، میں ایک عرصے سے ان کا پرستار تھا۔ عبداللہ حسین ہمیشہ میرے بے باک صحافتی طرزِ عمل کا دفاع کرتے رہے۔ان کے ناول اداس نسلیں کو میں اردو کے پہلے دس بڑے ناولوں میں شمار کرتا ہوں جبکہ ان کی کچھ کہانیوں کے بارے میں ، جیسے کہ لندن فلیٹ کے آوارہ پاکستانی مزدوروں کی کہانی ہے، میں سمجھتا ہوں کہ انہوں نے بہت ہی فطری انداز میں نہایت عمدگی کے ساتھ تحریر کی ہے ،جسے لیکن بہت کم سراہا گیا ہے۔

عدمِ برداشت کا شکار ہوتے شہر سے کوسوں دور علی دادا کی گیلری 80 کی دہائی کے انتظار کی یاد دلاتی ہے جو ہر خوبصورت اور حسین محفل میں موجود ہوتے۔بابر علی کے علی آدیٹوریم کی سالانہ محفل میں جب ضیا محی الدین نثر پڑھا کرتے تھے تو وہ اردو اور فقط اردو بولا کرتے تھے، وہ دوسرے ادیبوں کی طرح جگ ہنسائی کا سامان نہیں بنتے تھے۔ مجھے خوشی ہے کہ میں اب بھی سیکھ رہا ہوں۔

 

(ترجمہ: حذیفہ مسعود)

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...