بات گھر سے شروع ہوئی جنہوں نے پھنسوایا انہیں جانتا ہوں,سابق وفاقی وزیر اور آصف زرداری کے دوست ڈاکٹر عاصم حسین سے انٹرویو

1,656

مجھے نشہ ؤور دوائیاں کھلا کر میرے وڈیو بیانات ریکارڈ کئے گئے ،یہاں مافیاز طاقتور ہیں

سابق وفاقی وزیرِ پٹرولیم اور چیئرمین ضیاء الدین گروپ آف ہاسپیٹلز ڈاکٹر عاصم حسین سابق صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کے قریبی دوست ہیں۔ آپ آرتھوپیڈک سرجن ہیں اور پاک آرمی کے سابق کیپٹن اور پاک بحریہ سے ریٹائیرڈسرجن لیفٹیننٹ ہیں۔ ڈاکٹر عاصم حسین کا برج قوس ہے۔ذائقہ دار کھانوں کے شوقین ہیں اور کوکنگ کا شغف رکھتے ہیں۔
26اگست 2015ء کو سندھ رینجرز نے کراچی کے علاقہ کلفٹن میں واقع سندھ ہائر ایجوکیشن کمیشن میں اُن کے آفس پر چھاپہ مارا تھا تب سے وہ میڈیا کی توجہ بنے ہوئے ہیں۔ آصف علی زرداری سے تعلق داری کے سبب 5ستمبر 2013ء کو شروع ہونے والے کراچی آپریشن میں ان کو زیرِحراست لیا جانا اِس آپریشن کی سب سے بڑی ہائی پروفائل گرفتاری ہے۔اُنہیں شاہراہِ فیصل نرسری میں واقع عبد اللہ شاہ غازی رینجرز ہیڈکوارٹر میں لے جایا گیا۔ اُن پر منی لانڈرنگ ، بدعنوانیوں اور اپنے ہسپتالوں میں سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگز اور کالعدم گروہوں سے تعلق رکھنے والے دہشتگردوں اور جرائم پیشہ عناصر کے علاج معالجے کا الزام ہے۔ اُن پر عائد کردہ الزامات کی تفصیل درج ذیل ہے:
(1) سرکاری اراضی کی دھوکہ دہی سے الاٹمنٹ لینا اور خیانتداری سے غیرقانونی قبضہ کرنا۔
(2) رفاعی ٹرسٹ کی آڑ میں لوگوں سے فراڈ کرنا اور ٹرسٹ کا غیرقانونی استعمال۔
(3) اختیارات کا ناجائز استعمال کرنا اور غیرقانونی فوائد لینا
(4) منی لانڈرنگ کرنا
(5) گیس کی بلیک مارکیٹنگ اور قیمتوں میں استحصالی اضافے پر بلاجواز غیرقانونی کٹوتیاں کرکے کھاد کارٹیل کے گروہی مفادات کو اقرباپروری سے نوازنا اور سال 2010۔2013ء کی لوڈ مینیجمینٹ ترجیحاتی ترتیب بندی کو بگاڑ کر قومی مالیاتِ عامہ اور عوام کو 450 ارب روپے کا نقصان پہنچانا۔
(6) سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگز اور کالعدم گروہوں سے تعلق رکھنے والے دہشتگردوں اور جرائم پیشہ عناصر کا اپنے ہسپتالوں میں علاج معالجہ کرنا۔
ڈاکٹر عاصم حسین28 نومبر 1953ء کو کراچی میں پیدا ہوئے تھے۔سابق صدر آصف علی زرداری کے ساتھ اُن کی دوستی اپنی گولڈن جوبلی سالگرہ مکمل کرچکی ہے اور یہ دوستی اب بھی قائم ہے۔ دونوں کی یہ دوستی 1963ء کو کراچی گرائمر سکول سے شروع ہوئی تھی جہاں یہ دونوں حضرات زیرِ تعلیم رہے تھے اور آصف علی زرداری اِن کے ایک سال جونیئر تھے۔بعدازاں ڈاکٹر عاصم حسین نے 1966ء کو کیڈٹ کالج پٹارو میں داخلہ لیاتھا جہاں آصف علی زرداری نے بھی اُن کے ہمراہ داخلہ لیاتھا۔ یہیں  پٹارو سے انہوں نے انٹرمیڈیٹ مکمل کیاتھا۔
ڈاکٹر عاصم حسین پاک آرمی میں شمولیت کا ارادہ رکھتے تھے۔ 1971ء کی پاک و ہند جنگ سے قبل ہی وہ پاکستان ملٹری اکیڈمی کے 49 ویں لانگ کورس کے لیے چُن لیے گئے تھے۔ بعدازاں اِسی کورس کوچھ ماہ کے کورس میں بدل دیا گیاجو پہلا خصوصی کورس کہلاتا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ سابق ڈائریکٹر جنرل رینجرز اور سابق کمانڈر جنوبی کمانڈ لیفٹیننٹ جنرل (ر) جاوید ضیاء بھی اِسی کورس ہی کے لیے منتخب ہوئے تھے۔ چونکہ ڈاکٹر عاصم حسین کے والدین انہیں ڈاکٹر بنانا چاہتے تھے اس لیے انہوں نے پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول ایبٹ آباد میں حصہ نہیں لیاتھا۔ 1978ء میں انہوں نے ڈاؤ میڈیکل کالج سے اپنا MBBS کیا تھا اور بعد میں اِس کالج کو یونیورسٹی کے درجہ پر ترقی سے نوازا گیاتھا۔ 1979ء میں ایک سالہ ہاؤس جاب کے بعدانہوں نے کیپٹن رینک پر بحیثیتِ ڈاکٹر پاک آرمی میں شمولیت اختیار کی تھی اور چھ ہفتوں کی ٹریننگ کے لئے آرمی میڈیکل کور سنٹر ایبٹ آباد گئے تھے۔ تب ڈاکٹروں کے لیے مسلح افواج میں خدمات انجام دینا لازمی ہوتا تھا۔
پاک آرمی میں ڈاکٹر عاصم حسین کو کراچی کے علاقہ ڈالمیا میں 132ویں فیلڈ ایمبولینس یونٹ کی Vکور میں تعینات کیا گیا تھا۔ بعدازاں 1981ء میں انہیں سرجن لیفٹیننٹ کے طور پر پاک بحریہ میں تعینات کیا گیاتھا۔ انہوں نے پاکستان نیوی شِپ شفا میں خدمات بھی انجام د ی تھیں اور بعد میں پاکستان نیوی شِپ بدر میں بھی اپنی خدمات پیش کی تھیں۔ تب ریٹائرڈ وائس ایڈمرل جاوید اقبال اِس جہاز کے کیپٹن تھے اور ان کے کمانڈر افسر بھی تھے۔آخرکار 1982ء میں انہوں نے مسلح افواج کو الوداع کہا تاکہ اپنے خاندانی ہسپتالوں کی انتظامت کرسکیں۔ 1982ء تا 1984ء کی مدت میں وہ جناح ہسپتال کراچی کے سرجری کے شعبے  میں کام کررہے تھے۔ 1984ء میں وہ پوسٹ گریجویشن کے لئے آسٹریا کے دارالحکومت ویانا گئے تھے اور 1986ء کو وطن واپس آگئے تھے۔ پاکستان آجانے کے بعد انہوں نے سول ہسپتال کراچی میں بطورِ سینئر رجسٹرار شمولیت اختیار کی تھی جہاں انہیں اسسٹنٹ پروفیسر آرتھوپیڈیک بنادیا گیا تھا البتہ اِسی سال انہوں نے استعفیٰ بھی دے دیاتھا۔
ڈاکٹر عاصم حسین کے والد ڈاکٹر تجمل حسین نے 1959 میں اپنے والد اور اُن کے دادا ڈاکٹر ضیاء الدین کے نام پر شمالی ناظم آباد میں ہسپتال کی بنیاد رکھی تھی۔ 1978ء میں گریجویشن کے بعد ان کی شادی ہوگئی تھی۔ اُن کے بچوں میں ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے جو  دونوں ہی ڈاکٹر ہیں۔ اب ڈاکٹر عاصم حسین کے والد ڈاکٹر تجمل حسین کی تیسری نسل بھی ڈاکٹری کے شعبہ سے وابستہ ہوچکی ہے۔ جب کبھی  آصف علی زرداری کو علاج معالجے کی ضرورت پیش آئی  تو انہوں نے ڈاکٹر عاصم حسین ہی سے رجوع کیاتھا۔ 2008ء میں جب پاکستان پیپلزپارٹی کی مرکزمیں حکومت قائم ہوئی تھی تو انہیں این آر بی  کا چیئرمین مقرر کیا گیا تھا لیکن اکتوبر 2010ء میں انہوں نے یہ عہدہ چھوڑ دیاتھا۔ مارچ 2011ء میں انہیں وفاقی وزیرِ پٹرولیم بنادیا گیاتھا۔
ڈاکٹر عاصم حسین کی گرفتاری پر انسانی حقوق کی تنظیموں سمیت کئی عالمی تنظیموں نے تحفظات کا اظہار کیاتھا جن میں ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائیٹس واچ اور امریکی کانگریس سرفہرست ہیں۔ اس سال 25 اپریل کو ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پاکستان کے وزیر اعظم میاں نواز شریف کو ایک خط بھی لکھاہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ڈاکٹر عاصم حسین کی گرفتاری، اُن کی تاحال جاری طویل حراست، اُن پر مبینہ تشدد سمیت اُن کی حراست کے ماحول بارے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ڈاکٹر عاصم حسین بارے وزیر اعظم سے استددعا کی ہے کہ ان کے ٹرائل کو انصاف کے مسلمہ بین الاقوامی معیارات کے مطابق یقینی بنایا جائے۔اس سلسلہ میں ڈاکٹر عاصم حسین کا مقدمہ آزاد، غیرجانبدار اور ساکھ یافتہ عدالتی بینچ میں پیش کیا جائے؛ انہیں قانونی نمائندگی، قانونی معاونت کا وکالتی حق دیا جائے؛ اور انہیں بے گناہی ثابت کرنے اور ضمانت لینے کے مواقع دیئے جائیں۔ ڈاکٹر عاصم حسین مسلم لیگ نواز کی میاں نوازشریف کی زیرِسربراہی وفاقی حکومت کے پہلے سیاسی قیدی ہیں۔ ان کی عدالت میں پیشی کے موقع پر خصوصی انٹرویو کیا گیا تھاجو کہ پیش خدمت ہے:
سوال: آپ کی گرفتاری کی وجوہات کیا ہیں؟ اور آپ پر نیب سمیت دہشتگردی کے مقدمات کیوں بنائے گئے ہیں؟
ڈاکٹر عاصم حسین: یہ صرف سیاسی تہمت بازی کے گھڑے گئے مقدمات ہیں تاکہ مجھے بدنام کیا جائے اور میرے ذریعے آصف علی زرداری کی ساکھ کو بھی داغدار کیا جائے۔
سوال: آپ کو گرفتاری کے بعد کہاں لے جایا گیاتھا؟
ڈاکٹر عاصم حسین: مجھے رینجرز کے عبداللہ شاہ غازی ہیڈکوارٹر کی نرسری میں لے جایا گیاتھا۔
سوال: کیا گرفتاری کے وقت آپ کا چہرہ ڈھانپا گیا تھااور آپ سے بدسلوکی کی گئی تھی؟
ڈاکٹر عاصم حسین: نہیں۔ سیل میں محبوس رکھنے کے سوا اُن کا باقی کا رویہ معقول تھا۔
سوال: آپ کو سیل میں کتنا عرصہ رکھا گیاتھا؟
ڈاکٹر عاصم حسین: مجھے ٹھیک طرح سے یاد نہیں ہے۔ شاید دو یا تین ہفتے۔ سیل میں رہ کر میں بری طرح کمزور ہوگیاتھا۔ اُن دنوں کراچی پر گرمی کی شدید لہر پڑرہی تھی۔
سوال: کیا کچھ عرصہ قبل آپ کی ویڈیوز بھی میڈیا میں لیک ہوئی تھیں؟
ڈاکٹر عاصم حسین: جب آپ کی کن پٹی پر بندوق رکھ کے تشدد کیا جارہا ہوتا ہے تو تب آپ کے پاس لقمہ دی گئی باتوں کا اعترافات کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا۔
سوال: یہ آپ کا دعویٰ ہے لیکن آپ ہی نے تائید کی تھی کہ آپ پر کبھی بھی تشدد نہیں کیا گیاتھاپھر کیا ہوا؟
ڈاکٹر عاصم حسین: یہ میں نے آپ کے اس سوال کی تائید میں جواب دیا کہ مجھ پر رینجرز کی جانب سے کبھی بھی ’’جسمانی‘‘ تشدد نہیں کیا گیا۔ لیکن کسی کو تنگ و تاریک کوٹھری میں قید کرکے آنکھوں پر سیاہ پٹی لپیٹ دینا ور اُسے بیڑیوں میں جکڑ دینا  تشدد ہی تو ہے۔ اِسی تشدد کے صدمے سے مجھے جناح ہسپتال کراچی میں ہارٹ اٹیک اور گردے فیل ہوجانے کی وجہ سے منتقل کیا گیاتھا۔ بہرحال یہ اُن پر منحصر ہے کہ وہ آپ پر کس قسم کا تشدد کرتے ہیں۔
سوال: یہ آپ کیسے ثابت کرسکتے ہیں کیا آپ کو اس سیل کا محل وقوع معلوم ہے؟
ڈاکٹر عاصم حسین: نہیں۔
سوال: کیا آپ کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر آپ کو رات کے وقت گاڑیوں پر سوار کرکے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل بھی کیا جاتا رہاتھا۔
ڈاکٹر عاصم حسین: جی ہاں۔
سوال: جیسا کہ آپ نے کہا کہ آپ پر نفسیاتی تشدد کیا گیاتھا۔ آب بتاسکتے ہیں کہ کیسے؟
ڈاکٹر عاصم حسین: مجھے نہیں معلوم کہ دن تھا یا رات تھی۔ پہلے دن میری آنکھوں پے پٹی باندھی گئی تھی اور مجھے کہا گیا تھا کہ زمین پہ بیٹھ جاؤں تب میرے چہرے پر غلاف ڈال دیا گیاتھا۔ وہ مجھے بارہا ایسے مقامات پر لے جاتے رہتے تھے جہاں سے تشدد سہنے والوں کی چیخیں اٹھ رہی ہوتی تھیں۔ مطلب کہ انہوں نے ذہنی طور پر مجھے بہت ہی ستایاتھا۔ دو ہفتوں تک تنہا قید رکھنے کی ایزاں رسانی کو انہوں نے مجھ پر کئی بار آزمایاتھا۔
سوال: ایسا صرف الزامات کی حد تک ہے، قدرتی طور پر اس کا کوئی ثبوت نہیں۔ کیا آپ بتاسکتے ہیں کہ کمرہ کیسا تھا؟
ڈاکٹر عاصم حسین: کرسی، پلنگ اور ایئر کنڈیشن کی سہولت سمیت اٹیچڈ باتھ روم والا کمرہ تھا جو کہ نسبتاً اچھا کمرہ تھا۔ اِسی کمرے میں ہر وقت ہفتہ بھر اور چوبیس گھنٹے میرے ساتھ ایک آدمی رکھا جاتا تھا جسے میرے ساتھ بات کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی تھی۔
سوال: کیا دورانِ حراست آپ سے کسی بڑی شخصیت نے ملاقات کی تھی؟
ڈاکٹر عاصم حسین: بالکل۔ رینجرز کے اعلیٰ عہدیداران آکثر آتے ہیں۔ وہ مجھے خاص بیانات دینے کو کہتے ہیں۔ میں یہی کہتا ہوں کہ وہ جو کچھ لکھوانا چاہیں میں لکھ دوں گا لیکن میں نہ تو کسی لکھی گئی بات کی تردید کروں گا اور نہ ہی کسی کی تائید کروں گا۔
سوال: کیا ہائی پروفائل رینجرز سے آپ کی مراد ڈائریکٹر جنرل رینجرز ہیں؟
ڈاکٹر عاصم حسین: جی ہاں
سوال: پھر وہ کیا کہتے؟
ڈاکٹر عاصم حسین: چھوڑیئے اسے
سوال: ڈائریکٹر جنرل رینجرز آپ سے ملنے والی اب تک کی سب سے بڑی شخصیت ہیں؟
ڈاکٹر عاصم حسین: کبھی کوئی یونیفارم میں ملنے آتا ہے اور کبھی عام لباس میں۔ لہٰذا میں نہیں پہچان پاتا کہ کوئی اُن سے بالا عہدے کا بھی ملنے آیا ہے یا نہیں۔
سوال: کسی بھی موقع پر آپ کو پاکستان پیپلز پارٹی یا آصف علی زرداری سے تعلق ختم کرنے پر کہا گیا ہے؟
ڈاکٹر عاصم حسین: نہیں۔ وہ مجھے صرف آصف علی زرداری کے خلاف بیانات دینے کا کہتے ہیں۔
سوال: زیرِ حراست رہنے والے زیادہ تر اِسی قسم کی باتیں کرتے ہیں۔ کیا خیال ہے آپ کا؟
ڈاکٹر عاصم حسین: چھوڑیئے اسے
سوال: کیا رینجرز کی حراست میں آپ سے محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل بارے بھی کوئی سوال کیا گیا تھا؟
ڈاکٹر عاصم حسین: جی۔ انہوں نے کیاتھا۔
سوال: کیا انہوں نے اس قتل بارے آپ کو کسی پر الزام لگانے کے لیے کہاتھا؟
ڈاکٹر عاصم حسین: نہیں۔
سوال: کیا انہوں نے آپ سے بلاول ہاؤس سے قربت رکھنے والے مقتولین جیسے خالد شہنشاہ اور بلال شیخ بارے کوئی سوال کیاتھا؟
ڈاکٹر عاصم حسین: جی ہاں۔ انہوں نے اس بارے تفتیش کرنا چاہی لیکن میں نے کہا ’’میں نے نہیں جانتا‘‘ اور یہ کہ آپ کو مجھ سے زیادہ بہتر معلوم ہونا چاہیے۔ میں بھی ان کے بارے اِتنا ہی جانتا ہوں جتنا کہ آپ انہیں جانتے ہیں۔
سوال: کیا انہوں نے آپ سے لیاری وار گینگز بالخصوص عزیر بلوچ بارے کچھ پوچھا؟
ڈاکٹر عاصم حسین: جی ہاں۔ انہوں نے پوچھا کہ کیا آپ اُسے جانتے ہیں؟۔ میں نے بتایا کہ میں اُسے نہیں جانتا۔ زندگی بھر میری نہ تو کبھی اس سے ملاقات ہوئی اور نہ ہی کبھی اُس سے بات ہوئی۔ حتیٰ کہ ابھی اگر وہ میرے سامنے آئے تو میں اُسے پہچان بھی نہیں پاؤں گا۔
سوال: کیا انہوں نے کبھی آپ کی جانب سے دوسری پارٹی کو جائن کرنے سے متعلق کوئی سوال کیاتھا؟
ڈاکٹر عاصم حسین: نہیں۔
سوال: کیا آپ سے وفاقی حکومت کا کوئی نمائندہ اس دوران کبھی ملاہے؟
ڈاکٹر عاصم حسین: نہیں۔
سوال: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کے ساتھ جو کچھ بھی کیا جاتا رہاہے اس کے پیچھے وفاقی حکومت ہے؟
ڈاکٹر عاصم حسین: بالکل۔
سوال: اِیسا کرنے میں وفاقی حکومت کے کیا مقاصد ہوسکتے ہیں؟
ڈاکٹر عاصم حسین: سیاسی مفادات
سوال: لیکن چوہدری نثار احمدتو آپ کے کیس سے لاتعلق رہنے کی کوشش کرتے ہیں؟
ڈاکٹر عاصم حسین: اُس نے کہا کہ وہ ویڈیوز دکھائے گا۔ وہ ہر کسی سے پہلے جانتا تھا کہ ویڈیو بنائی گئی ہے۔ حتیٰ کہ میرے علم میں آنے سے پہلے بھی۔
سوال: ویڈیوز کہاں ریکارڈ کی گئیں؟
ڈاکٹر عاصم حسین: یہ ایک مکمل ریکارڈنگ روم تھا۔
سوال: کیا آپ کو پتا چل گیا تھا کہ یہاں کیمرے نصب ہیں؟
ڈاکٹر عاصم حسین: جی ہاں۔
سوال: آپ ویڈیو کا دورانیہ جانتے ہیں؟
ڈاکٹر عاصم حسین: مجھے نہیں یاد۔ انہوں نے مجھے کوئی دوائی دی ہوئی تھی۔ میرے خیال میں میری متعلقہ ادویات میں مجھے الگ سے کوئی دوائی دی گئی تھی۔ میری دوائیاں میرے پاس نہیں ہوتیں وہ رینجرز کے پاس ہوتی ہیں۔
سوال: ویڈیو میں آپ نے زرداری صاحب کے کئی معاونین کا نام لیا، اُن کے پرسنل اسسٹنٹ جونیجو کا بھی نام لیا۔ آپ کو یاد ہے؟
ڈاکٹر عاصم حسین: مجھے بعد میں پتا چلا کہ جونیجو صاحب کو فوت ہوئے بھی دس سال ہوں چکے ہیں۔
سوال: لیکن کیا آپ نے ویڈیو میں وہ نام لیے؟
ڈاکٹر عاصم حسین: میں نے صرف وہی کچھ کہا جو مجھے رینجرز کی جانب سے کہنے کا کہا گیا تھا۔
سوال: کیا آپ اِن دعووں میں سے کسی ایک کا بھی ثبوت دے سکتے ہیں جو کہ پہلے سے لکھے شدہ آپ کو بولنے کو دیئے گئے تھے؟
ڈاکٹر عاصم حسین: وہ پڑھتے جاتے تھے اور مجھے وہی کچھ رٹ کر بولنے کو کہتے تھے۔
سوال: الزامات کی فہرست کے مطابق آپ کا شمار دنیا کے امیرترین افراد میں ہوتا ہے۔ کیا آپ واقعی ہیں؟
ڈاکٹر عاصم حسین: اگریہ صحیح ہے کہ میں امیرترین لوگوں سے بھی امیرکبیر ہوں تو پھر میری وہ دولت کہاں ہے ؟ وہ دیکھائی کیوں نہیں جاتی؟ لگتا ہے کہ الزامات لگا کر پاکستانیوں کو بے وقوف بنانا بہت آسان کام ہے۔
سوال: JIT کی رپورٹ کے مطابق آپ نے بین الاقوامی سطح پر 36 کمپنیوں کی ملکیت کا اعتراف کیا ہے؟
ڈاکٹر عاصم حسین: میں سعودی عرب کے نیشنل بینک کا مالک ہوں گا۔ متحدہ عرب امارات، ملائیشیا یہاں تک کہ ویسٹرن یونین کے بھی کئی قومی بینکوں کا مالک ہوں گا۔ جواب طلب بات یہ ہے کہ میں کئی بینکوں سمیت 30 کمپنیوں کا مالک بتایا جاتا ہوں لیکن کسی ایک بھی بینک میں میرا اکاؤنٹ نہیں ثابت کیا جاسکا اور نہ ہی وہ اِس سے متعلقہ کچھ ٹریس کرپائے ہیں۔ یہ امر میرے کیس کی تفتیش کرنے والوں کی ذہنی سطح اور ناقص فہمی کو ظاہر کرتا ہے۔ اِن بے ساکھ الزامات کی حقیقت سب کے سامنے واضح ہے بلکہ یہ الزامات ہی مشکوک اور مضحکہ خیز ہیں۔ چونکہ اس ملک کے لوگ بہت ہی زیادہ سادہ لوح ہیں لہٰذا وہ ایسے الزامات کو بہت سنجیدہ لینے لگ پڑتے ہیں۔ بہرحال ایسے مضحکہ خیز تبصرے پر تبصرہ کرنا میرے لیے مضحکہ خیز ہوگا۔
سوال: سوال: آپ تو ایک آرتھوپیڈیک سرجن ہیں۔ پھر آپ قدرتی وسائل پر کام کا تجربہ رکھے بغیر وفاقی وزیر پٹرولیم کیونکر بنادیئے گئے؟
ڈاکٹر عاصم حسین: حاجی حنیف طیب، چوہدری نثار احمد اور شاہد خاقان عباسی جیسے پٹرولیم سمیت ایسے بیسوں وزراء موجود ہیں جن کا نہ تو متعلقہ تعلیمی پسِ منظر ہے، نہ انہیں متعلقہ کام کا تجربہ ہے اور نہ ہی انہیں متعلقہ امور کی بیلنس شیٹ پڑھنا آتی ہے لیکن اُنہیں کوئی کچھ نہیں پوچھتا۔ چونکہ میں کسی سیاسی پس منظر سے نہیں آیا تھا لہٰذا بااثر روایتی جاگیردار سیاستدانوں کے اشرافیائی کلب میں مجھے قبول نہیں کیا گیا تھا۔ نوازلیگ جو کچھ پسند نا پسند کرتی ہے اُسی بنیاد پر بیان بازی کرتی ہے۔ یہ میری معاملہ فہمی اور انجام دہی کا مسئلہ تھا جو کچھ آج ملک میں ہورہا ہے اس کے پیچھے یہی وجہ ہے۔ میں نے بلامعاوضہLNG پالیسی بنائی۔ کسی کنسلٹینٹ کی خدمات نہیں لیں۔ بصورت دیگر عموماً یہی ہوتا ہے کہ کنسلٹینٹ کی خدمات لی جاتی ہیں اور محض مسودہ بندی اور دستاویزی کام کے لیے وہ لاکھوں ڈالر معاوضہ لے جاتے ہیں۔ جبکہ میں نے یہ پالیسی خود بنائی۔ LNG گیس میرے دماغ کی کاوش ہے۔ شیل گیس، ٹائیٹ گیس اور ہلکی BTU گیس پر کام میری ہی دو سالہ مدت میں ہوا۔ جبکہ نوازلیگ والے اس بارے نہیں جانتے۔
سوال: باوجودیہ کہ  آپ کو صحت کے شعبہ میں کام کا تجربہ تھا پھر آپ نے وزارتِ صحت لینے کی بجائے پٹرولیم ہی کی وزارت کیوں لی؟
ڈاکٹر عاصم حسین: شعبہ صحت صوبوں کی فہرست میں منتقل ہوچکا تھا اور وفاق میں وزارتِ صحت کا قلمدان تحلیل ہوچکا تھالہٰذا اب صرف صوبوں کے پاس وزارتِ صحت ہے۔ اس لیے میں وفاقی وزیرصحت نہ بنایا جاسکتا تھا۔
سوال: لیکن آپ اس وقت کچھ نہ کچھ بہتر کارکردگی دکھا سکتے تھے جیسا کہ ان دنوں ہو رہا ہے مثلاً ڈرگز ریگولیٹری اتھارٹی کا قیام اور نیشنل ہیلتھ پالیسی کی تشکیل۔ کیا آپ نے ایسا کچھ کیا؟
ڈاکٹر عاسم حسین: میں نے یہ سوچ کر ایسا نہیں کیاکہ میرے میڈیکل پسِ منظر کی وجہ سے کہیں مفادات کا تصادم آڑے نہ آئے۔ یہاں معقولیت نہیں ہے۔ لوگ مافیا اور مفاداتی فریق بن چکے ہیں۔ مالیاتی وزارت میں کوئی چارٹرڈ اکاؤنٹینٹ نہیں ہے۔اسی طرح پورے فیڈرل بورڈ آف ریونیوز میں کسی چارٹرڈ اکاؤنٹینٹ کا ہونا مجھے محال لگتا ہے۔ مالیاتی وزارت میں کتنے فی صد لوگ بیلنس شیٹ کو پڑھ سکتے ہیں؟ ان دنوں سب کچھ معیشت سے متعلق ہوچکا ہے۔ پہلے تو اِس ضرورت کو نظرانداز کیا جاسکتا تھا لیکن اب نہیں۔ ادویات سازی کی صنعت بند ہونے جارہی ہے کیونکہ آپ نے انہیں قیمتوں میں اضافے کی اجازت نہیں دی۔ اگر میں اُس قلمدان پر ہوتا تو صرف 250۔300 لازمی ادویات کی فہرست پر کنٹرول کرتا ہوں اورباقیوں کو آزاد رہنے دیتا۔ آج TB کی دوائیں دستیاب نہیں ہیں۔ ویکسینیں دستیاب نہیں ہیں۔ 50 فیصد دواساز صنعت ملک چھوڑ کر  جا  رہی ہے۔ معاملات کو نبٹانے کے ایسے طریقے نہیں ہوتے۔ ہم ان ادویات کو بھی دیکھ رہے ہیں جن کا پہلے کبھی نام بھی نہیں سنا تھا۔ یہ انتہائی غلط ہے۔مجھ پر غلط الزام لگایا گیا ہے کہ میں نےPMDC میں بدعنوانیاں کروائی ہیں۔ میں نے PMDC میں کچھ بہتر کرنے کی ہی کوششیں کی تھیں۔ ہرکسی نے مجھ پر پیسہ بنانے کا الزام لگایا۔ہمارے پاس قانونِ طب کا موضوع ہے جو دنیا میں کسی کے پاس بھی نہیں۔ ہم نے اس کو تبدیل کرنے، تصحیح دینے اور جدید تقاضوں سے ہم ا ٓہنگ کرنے کا سوچاتھا لیکن لوگوں نے چیخنا چلانا شروع کردیا۔ ہر جگہ مافیا سرگرم ہے، غلط کام کروانے والی ڈاکٹروں کی بھی مافیا ہے۔
سوال: آپ پر گیس کارٹیل بنانے کا الزام ہے جس کی وجہ سے مالیاتِ عامہ کو 450 ارب روپے کا نقصان پہنچا؟
ڈاکٹر عاصم حسین: تب ملک میں گیس کی طلب کے مقابلے پر  رسد میں قلت تھی اور آج بھی ویسی ہی صورت حال ہے۔ ترجیحاتی ترتیب بندی کا فیصلہ میرا نہیں تھا بلکہ کابینہ کا منظور کردہ فیصلہ تھا۔ دوسرا یہ کہ گیس کی رسد صنعتوں کو پہنچائی گئی تھی۔ اس پالیسی کے نتائج دیکھئے کہ برآمدات میں اضافہ ہوا تھا۔ نوازلیگ حکومت نے بھی گھریلوں صارفین کو ترجیح دی تھی جبکہ ٹیکسٹائل انڈسٹری کو گیس کی رسد بند کردی تھی۔ نوازلیگ حکومت کہتی ہے کہ کھاد کی قیمتوں میں اضافہ ہواتھا۔ آج کیا ہوا جب کہ گیس موجود ہے؟اِن دنوں پاکستان کھاد پر سبسڈیذ دے رہا ہے اور اِسے درآمد کررہا ہے۔ یہ سب الزامات ہیں اور شماریات میں ہیراپھری ہے۔
سوال: آپ پر دہشتگردوں کی مالی معاونت اور آپ کے ہسپتالوں میں اُن کا علاج معالجہ کیے جانے کے الزامات ہیں؟
ڈاکٹر عاصم حسین: یہ سب بے بنیاد الزامات ہیں۔ ان ڈاکٹروں کا نام لیجئے جو مجھ پر یہ الزامات لگا رہے ہیں۔ آپ کے گھر سے آپ کا نوکر چوری کرے تو کیا آپ کو پکڑا جانا چاہیے یا اُس چور نوکر کو؟پہلی بات تو یہ کہ ایسا سرے سے ہوا ہی نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوا ہے تو پھر رینجرز میڈیکل ہسٹری یا ریکارڈ سامنے کیوں نہیں لارہے؟و ہ ضیاء الدین ہسپتال میں چھاپہ مارچکے ہیں اور ہر چیز کو ضبط کرچکے ہیں۔ اس کے باوجود وہ ثبوت سامنے کیوں نہیں لارہے؟
سوال: کیا آپ کے ساتھ کوئی ذاتی دشمنی نبھائی جارہی ہے؟
ڈاکٹر عاصم حسین: بالکل! کچھ لوگ ہیں جن کو میرے ساتھ ذاتی کینہ ہے۔ میں پہلے بتاچکاہوں کہ میں اشرافیائی بیٹھک کا حصہ نہیں ہوا۔
سوال: آپ نے کہا کہ آپ کا اشرافیائی صف سے کوئی تعلق نہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے اندرونی حلقوں میں کوئی آصف علی زرداری سے آپ کے قریبی تعلقات کی جلن میں آپ کو پھنسوا رہا ہے؟
ڈاکٹر عاصم حسین: میں نے اس امکان کی کبھی تردید نہیں کی۔ہر بات پہلے گھر سے شروع ہوتی ہے پھر باہر جاتی ہے۔ وقت آنے پر میں اُن کا نام لوں گا۔ اُن کا پس منظر بتاؤں گا کہ کس نے کیا کچھ کیا؟فی الحال میں کسی اور انجام پر ہوں۔
سوال: حال ہی میں قادر پٹیل، وسیم اختر، روئف صدیقی، انیس قیصر قائمخانی کی ضمانتیں مسترد کردی گئی ہیں۔اُن کے مقدمات بھی دہشتگردوں کی علاج معالجہ اور تیمارداری کرنے کے سبب آپ پر قائم مقدمات سے منسلک ہیں۔ اُن کا ٹرائل کیوں کیا جارہا ہے؟
ڈاکٹر عاصم حسین: اگرچہ میں ان سب کے بارے میں جانتا ہوں لیکن مریضوں کے علاج بارے میں میری کبھی ان سے کوئی بات نہیں ہوئی۔ ان پر قائم مقدمات کی نوعیت سیاسی اور ذاتی ہے۔ البتہ میں نہیں جانتا کہ رینجرز نے ان کے نام JIT میں پیش کئے  ہیں یا نہیں۔
سوال: آپ کی درخواستِ ضمانت مسترد کردی گئی ہے۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ عدلیہ کسی کے پریشر میں ہے؟
ڈاکٹر عاصم حسین: بالکل۔ وہ پریشر میں ہیں۔
سوال: آپ بتانا چاہیں گے کہ وہ پریشر کس کا ہے؟
ڈاکٹر عاصم حسین: میں نہیں جانتا۔
سوال: آخر آپ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ سے رجوع کیوں نہیں کرتے؟
ڈاکٹر عاصم حسین: ایسا کرنے کاکیا فائدہ ہوگا؟ وہاں بھی پریشر تلے آجائیں گے۔مجھے بلا کسی جواز کے گرفتار کیا گیا۔ ایک سال ہوچکا ہے اور معاملہ ہائی کورٹ میں اٹکا ہوا ہے۔ جب آپ کسی کو پکڑتے ہیں تو بتاتے بھی ہیں کہ آپ نے ایسا کیوں کیا۔جب مجھے گرفتارکیا گیا تھاتو تب مجھ پر کیا الزام لگایا گیا؟ انسدادِ دہشتگردی قانون کی شق 11EEE کے مطابق کسی کے حراست میں لیتے وقت قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے ثبوت کی فراہمی لازم و ملزوم ہے۔ قانون کے مطابق جب قانون نافذ کرنے والے ادارے کسی کے خلاف کاروائی کرنا چاہتے ہیں تو انہیں عدالت میں ثبوت و شواہد اور اسباب و وجوہات بتانا ہوتی ہیں کہ وہ کیوں کسی کے خلاف کاروائی کررہے ہیں۔ یہاں حراست میں لینے سے مراد خالم خالی گرفتاری نہیں ہے بلکہ آپ کا کسی کو جاری جرم کرتے ہوئے روکنا ہوتاہے۔ اس ناطے آپ رسمی تفتیش اور کارروائی کا آغاز کرتے ہیں۔ مجھ پر عائد کردہ الزامات سے قطع نظر مجھے ہر طرح کے مقدمات میں ثبوت دیکھنا لازمی ہے۔ میرے مقدمہ میں صرف ایک خالی کاغذہے لیکن ثبوت کوئی نہیں۔ میری حراست کی قانونی حیثیت کو عدالت میں چیلنج بھی کیا گیا۔ بلاثبوت و شواہد کسی کو زیرحراست رکھنا غیرقانونی ہے۔لیکن عدلیہ نے کوئی فیصلہ نہیں سنایا۔ اس پر فیصلہ سنایا بھی نہیں جاسکتا کیونکہ مجھ سے پہلے جو انہوں  نے 400 لوگوں کو بلاثبوت و شواہد گرفتار کیا ہے ، مجھے رہائی یا ضمانت دیتے وقت انہیں بھی رہائی اور ضمانت دینی پڑے گی۔ جب میں دوسرے زیر حراست لوگوں کو دیکھتا ہوں تو میں یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہوں کہ یہ صحیح ہے یا غلط لیکن یہاں بے شمار ایسے لوگ ہیں جن کو بے گناہی کے باوجود مقدمات میں پھنسوایا گیا۔میرے جیسے لوگ جو وسائل اور مطلوبہ چیزیں رکھنے کے باوجود اپنے حق کے لیے نہیں ڈٹ سکتے تو جو لوگ جن کے پاس نہ وسائل ہیں نہ کچھ اور وہ کیسے کھڑے ہوں گے؟
سوال: آپ کو گرفتار ہوئے ایک سال ہوچکا ہے۔ کیا اس دوران آپ کی آصف علی زرداری سے کوئی بات ہوئی؟
ڈاکٹر عاصم حسین: نہیں
سوال: آپ کیا دیکھتے ہیں اور آپ کا وکیل کیا بتاتا ہے؟ مزید کتنا عرصہ لگے گا آپ کی اسی حالت میں؟
ڈاکٹر عاصم حسین: ڈاکٹر اور وکیل آخری وقت تک یہی کہتے ہیں کہ معاملات باخوبی نمٹالیے جائیں گے۔
سوال: آپ نے کبھی MNA یا MPA کے اانتخابات مین حصہ نہیں لیا۔ کیا آپ واقعی انتخابی سیاست کرنا چاہتے ہیں؟
ڈاکٹر عاصم حسین: نہیں
سوال: کیا آپ اب سیاست جاری نہیں رکھنا چاہتے؟
ڈاکٹر عاصم حسین: نہیں۔
سوال: کیا آپ اب انتخابی سیاست میں حصہ لیں گے؟
ڈاکٹر عاصم حسین: نہیں۔ یہ میرا دردِ سر نہیں ہے۔
سوال: کیا اب آپ سینیٹر بھی نہیں بننا چاہیں گے؟
ڈاکٹر عاصم حسین: نہیں
سوال: اگر پاکستان پیپلزپارٹی اگلی حکومت بنائے تب بھی نہیں؟
ڈاکٹر عاصم حسین: نہیں۔ میں آپ کو ایک بات بتاتا چلوں، یہ ملک پیشہ ورانہ مہارت کے لئے تیار نہیں ہے اور نہ ہی یہ اپنے تاریخی سفر کے اس مرحلہ پر پہنچا ہے۔ اس دنیا میں کارپوریشنیں کارفرما ہیں جن کی معیشتیں پاکستان کی معیشت سے بڑی ہیں۔ اِسے سمجھنے کے لیے بالغ نظری کی ضرورت ہے۔ آپ کو اچھی ٹیم کی ضرورت ہے۔میرا خیال ہے کہ ایسا ضابطہ کار موجود ہے جو ہمیں فوری اقدامات اٹھانے کی اجازت نہیں دینا۔ نجی شعبہ اس ضابطہ کار کی ایک شکل ہے۔ لہٰذا میں جھاڑیوں کے پاس اپنا وقت ضائع کیوں کروں؟ میں سمجھتا ہوں کہ میں بہتری کے لیے اقدمات کی کوشش کرسکتا تھا اور میں نے کیئے بھی۔ میں یہی سوچتا ہوں کہ میں نے اپنے وقت میں جو کچھ کیا صحیح کیا۔
سوال: کیا آپ اپنی گرفتاری بارے سندھ حکومت کے رویہ سے مطمئن ہیں؟
ڈاکٹر عاصم حسین: نو کمینٹس!
سوال: کیا پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت آپ سے ملنے آتی ہے؟
ڈاکٹر عاصم حسین: نہیں۔
سوال: جب یہ مقدمات ختم ہوں گے تو کیا آپ پاکستان ہی رہیں گے یا کسی بیرونی ملک منتقل ہوجائیں گے؟
ڈاکٹر عاصم حسین: یہ میرا ملک ہے۔ میں اِسے کیوں چھوڑوں گا؟
سوال: آپ کے خیال میں اس معاملے کو حل ہونے میں مزید کتنا عرصہ لگ سکتا ہے؟
ڈاکٹر عاصم حسین: کچھ نہیں کہہ سکتا۔

(ترجمہ : حسین رضا )

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...