انسانی جان کی حرمت اور قومیت پرستی میں انسانی جانوں کی قربانی کا بیانیہ
یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ انسانی جان دنیا کی سب سے قیمتی متاع ہے۔ اس کے خالق نے ایک انسانی جان کی قیمت پوری انسانیت کی قیمت کے برابر قرار دی ہے، بتایا ہےکہ جس نے ایک جان کو ناحق قتل کیا اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا۔ لیکن یہ مہیب ارشاد بھی ایک کلیشے بن کر رہ گیا ہے۔
انسانی جانوں کی قربانی کے لیے اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں یورپ میں ایک بت قومیت کے نام سے تشکیل دیا گیا جس کا فسوں پھر باقی دنیا میں پھیل گیا۔ عام لوگوں کو باور کرایا گیا کہ ایک خاص جغرافیہ میں یکساں تاریخ، ثقافت اور زبان رکھنے والے ایک قوم ہیں۔ ان پر اسی جغرافیے کےہم نسل، ہم وطن لوگوں کی حکمرانی بہت ہی ضروری قسم کی چیز ہے، غیر قوم حکمران ہوگی تو یہ غلامی ہو گی، لیکن ہم وطن کی حکمرانی میں غلامی نہیں ہوتی، اور غلامی کی ذلت سے موت بہتر ہے۔ یہ قومیت کے عقائد قرار پائے۔
قوم پرستی کا صور اس بلند آہنگی سے پھونکا گیا کہ اشرافیہ تو رہی ایک طرف، مزدور اور کارکن بھی اپنی قوم کو حق حکمرانی دلانے جان ہتھیلی پر لے کر نکل کھڑے ہوئے۔ انھوں نے لیکن یہ بنیادی سوال پوچھے بغیر کہ غیر قوم کے زیرِ حکومت رہنا اگر غلامی ہے تو اپنے لوگوں کے زیرِ حکومت رہنا غلامی کیوں نہیں، اپنی جانوں کے نذرانے لے کر غیر قوموں کی بندوقوں کے آگے کھڑے اور ٹینکوں کے نیچے لیٹ گئے۔ پھر جب وہ غیر قومیں ان کو چھوڑ کر اپنے ملک چلی گئیں تو یہ خود روزی روٹی کی خاطر اپنا ملک چھوڑ کر انھی غیر قوموں کے ملک میں ان کی غلامی کرنے جا پہنچے۔ اب وہاں رہنا اور ان کی غلامی میں رہنا ان کے لیے اعزاز بن گیا۔ یعنی اپنی مٹی پانی سے بنی ایک جغرافیائی سرحد جسے وطن کہا گیا اس پر کوئی غیر قوم حکمران ہو تو یہ غلامی ہے، ذلت ہے، لیکن خود یہ اپنے جسموں پر غیروں کی حکومت قبول کر لیں تو یہ اعزاز ہے! چنانچہ غیروں کو اپنے ملک سے نکالنے کے لیے بھگت سندھ، منگل پانڈے اور اشفاق (اور اب برہان وانی جیسے نوجوان) کو بتایا گیا کہ اپنی جان دے کر انھیں یہاں سے نکالو۔ وہ جانیں ہتھیلی پر لے کر نکل پڑے۔ عوام نے یہ بھی نہیں پوچھا کہ اگر حکومت ان کے ہم نسلوں کے ہاتھ میں آجائے گی تو کیا ہو جائے گا۔ کیا طاقت ور کمزور کا استحصال کرنا بند کر دے گا؟ عوام نے پوچھا ہی نہیں کہ روزی روٹی تو میسر وسائل میں اسے خود پیدا کرنی تھی، نماز اور مورتی پوجا، حج اور گنگا یاترا، مندر، چرچ اور مسجد جانے کی اجازت تو سب دے رہے تھے، تعلیم اور صحت کے مواقع بقدر وسائل سب کو ملتے تھے، تو کون سے حقوق تھے جو غیر نے نہیں دینے تھے۔ کہا گیا کہ دراصل پارلیمنٹ میں تمھیں مناسب نمائندگی نہیں ملے گی۔ غریب مگر سمجھا نہیں کہ یہ اس کا مسئلہ تھا ہی نہیں، پارلیمنٹ کی نمائندگی کا ڈھونگ اقتدار کے حصول کے لیے اس کے ہم قوم، ہم زبان اور ہم مذہب اشرافیہ کا اقتدار کے حصول کے لیے گھڑا ہوا ہتھکنڈا تھا۔ انھوں نے اپنا مسئلہ عام آدمی کا مسئلہ بنا دیا تاکہ عوام کی طاقت اور اس کی قربانیوں کی ناؤ پر بیٹھ کر ایوان اقتدارتک پہنچ سکیں۔
یہ حقیقت نظر سے اوجھل ہو گئی کہ اصل مسئلہ طاقت ور اور کمزور ، با اختیار اور زیرِ اختیار کا ہے۔ یہ دو فریق ہر نظام میں ہوں گے۔ فریب یہ دیا گیا کہ طاقت ور کے استحصال کا سبب اس کی طاقت کی نفسیات کو باور کرانے کی بجائے اس کا مذھب یا قومیت وغیرہ بنا دی گئی۔ چنانچہ استحصال شدہ طبقات بجائے قانون اور اخلاق کی مدد سے طاقت ور کو راہ راست پر لانے کے، طاقت ور کے مذھب یا قومیت سے جان چھڑانے میں اپنے مسئلے کا حل دیکھنے لگے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ عوام کے ہم مذھب اور ہم قوم اقتدار میں آ کر اس کا استحصال کرنے لگے۔ چناںچہ نتیجہ وہی رہا۔ ہم مذھب اور ہم قوم لیڈر اپنے عوام کو اس غلط راہ پر اس لیے ڈالتا ہے تاکہ خود اس کے لیے اقتدار کا راستہ ہم وار ہو۔ اس کے لیے لیکن استعمال بھی یہ غریب کمزور ہی ہوتا ہے۔
قومیت کے نام پر انسانوں کی سیاسی تقسیم کا سلسلہ ایک بار شروع ہوا تو پھررکا نہیں۔ غیر قوم کی تعریف پھر غیر زبان اور غیر مذھب کی تعریف میں سمٹ آئی۔ غیر نسل والوں سے نجات پا کر اب ایک بار پھر انسانوں سے کہا گیا کہ پھر اپنی جانوں کو سستا کریں کہ غیر زبان اور غیر مذہب کی حکمرانی بھی دراصل غلامی ہوتی ہے۔ لوگ پھر جانیں دینے چل پڑے۔
یہاں سیاسی جدوجہد کی نفی ہرگز نہیں کی جارہی، اگر کسی کو شوق ہے کہ اپنے ملک کی مسند اقتدار پر ہم رنگ یا اپنے ہم قوم یا ہم مذھب و ہم مسلک کو بیٹھا دیکھے تو وہ اپنےشوق سے ان کے اقتدار کے لیے جدوجہد کریں، مگر اس کے لیے انسانی جان کی قربانی مانگنا اور ایسے حالات پیدا کرنا کہ انسانی جانیں ضائع ہو کر رہیں، اس کا کوئی جواز نہیں۔
قومیت کے بت کی پوجا کے نتائج سامنے آ جانے کے بعد وقت آ گیا ہے لوگوں کو اس کی اس فتنہ سامانیوں سے نجات دلائی جائے ۔انسانی سماج میں پائے جانے والی ناانصافیوں کا حل تقسیم علیحدگی اور ہم قوم اور ہم مذھب کی حکمرانی کے مفروضوں میں نہیں، سماجی انصاف کے قیام میں ہے اور اس کے لیے قانون کی بالادستی اور اخلاقی تربیت ہی واحد راستہ ہے۔ انسانی جان اتنی سستی نہیں کہ بلا کسی اخلاقی جواز کے انسان کے بنائے ہوئے نظریات پر اسے قربان کر دیا جائے۔انسانی جان کی قدر کرنا ہوگی، یہی سب سے بڑی حقیقت ہے۔
فیس بک پر تبصرے