پاکستان، سعودی عرب اور سی پیک
سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے دورہ پاکستان کا آغاز آج سے ہو رہا ہے۔ ولی عہد کو پاکستان میں سرکاری طور پر خوش آمدید کہنے کے لئے غیر معمولی اقدامات کیے گئے ہیں اور اسلام آباد کے در و دیوار اس وقت محمد بن سلمان اور سعودی عرب کی تحسین و توصیف سے بھرے پڑے ہیں۔ سعودی عرب سے پاکستان کے تعلقات تاریخی طور پر بہت پرجوش اور گہرے رہے ہیں اور مختلف ادوار میں سعودی عرب کے سربراہان جب بھی پاکستان کے دوروں پر آتے تھے تو ان کا فقید المثال استقال کیا جاتا تھا۔ سعودی فرمانروا شاہ فیصل مرحوم پاکستان میں عوامی سطح پر مقبول ترین بین الاقوامی شخصیت کے طور پرمعروف ہیں۔ نواز شریف کے سابقہ دور میں شاہ عبد اللہ مرحوم کا تاریخی استقبال لاھور میں کیا گیا تھا۔ سعودی شاہی خاندان سے شریف خاندان کے تعلقات بہت ہی نجی قربت کے حامل تھے اور کسی حد تک یہ تعلقات اس وقت بھی موجود ہیں۔ سعودی شاہی خاندان کا پاکستان کے پالیسی ساز حلقوں میں اثر و رسوخ شروع دن ہی سے موجود ہے جس کا اظہار اکثر اوقات ملکی سیاست و معیشت میں سعودی کردار سے ہوتا رہتا ہے۔
پاک سعودی تعلقات کی اصل اور مکمل جہتوں کے بارے میں پاکستانی قوم کی معلومات اندازوں اور تخمینوں تک ہی محدود ہیں۔ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور حکمرانوں کا سعودی عرب کے ساتھ غیر معمولی برتاؤ یہی خبر دیتا ہے کہ یہ محض جذباتی دوستی اور سعودی عرب میں واقع مسلمانوں کے مقدس مذہبی مقامات کے تناظر میں استوار ہونے والا رشتہ نہیں ہے۔ ان تعلقات کی اسٹریٹجک جہت اس حد تو معلوم و معروف ہے کہ کسی بھی جارحیت کی صورت میں سعودی دفاع کے لیے پاکستانی افواج کی دستیابی و فراہمی دونوں ممالک کے درمیان پائے جانے والی انڈراسٹینڈنگ کا حصہ ہے۔ مگر اس تعاون کی تفصیل اور اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والے باہمی فوائد و شروط کو کبھی بھی عوامی سطح پر کھل کر شئیر نہیں کیا گیا۔ یمن کے تنازعے کو جب پارلیمنٹ میں زیر بحث لایا گیا تھا تو اس وقت بھی دونوں ممالک کے مابین دفاعی معاہدے کی موجودگی و شروط کی بازگشت سنائی دی گئی تھی مگر تفصیلات سامنے نہیں آسکیں۔
پاکستانی معیشت کو سہارا دینے کے لئے سعودی عرب کا بالواسطہ و بلاواسطہ کردار بہت ہی اہمیت کا حامل ہے۔ پاکستان کے غیر ملکی ورکرز کی سب سے بڑی تعداد اس وقت بھی سعودی عرب میں موجود ہے اور مشکل مالی حالت میں ترسیل زر کی مد میں جو کثیر رقم ہر سال سعودی عرب میں مقیم پاکستانی ارسال کرتے ہیں، اس کا نعم البدل دور دور تک موجود نہیں ہے۔ سعودی عرب میں مقیم پاکستانیوں کی تقریباً تمام تر بچتیں واپس پاکستان میں آ کر لمبی مدت کی سرمایہ کاری میں لگ جاتی ہیں۔ یہ پہلو امریکہ و یورپ وغیرہ میں مقیم پاکستانی ورکرز میں مفقود ہے کیونکہ ان ممالک میں شہریت اور کاروبار کی ملکیت کے قوانین غیر ملکی ورکرز کے لیے زیادہ سازگار ہیں۔ اس وجہ سے معمول کی ترسیل زر تو ان ممالک سے ہوتی ہی ہے مگر بچتوں کا بڑا حصہ وسیع پیمانے پر پاکستان میں صرف نہیں ہوتا۔ سعودی عرب کی پاکستانی معیشت میں سرمایہ کاری اور اس کے صحیح ترین اعدادوشمار بھی پوری طرح ہمارے سامنے نہیں آتے۔ براہ راست حکومتی امداد یا کچھ بڑے منصوبوں کا ذکر تو اکثر اوقات ہوتا ہے مگر نجی شعبے میں ہونے والی سرمایہ کاری کو عموماً نظر انداز کردیا جاتا۔ کھاد، پراپرٹی، زراعت و انڈسٹری اور دیگر کئی سیکٹرز میں سعودی سرمایہ کاری موجود ہے جس کے اصل اور موثر اعدادوشمار کسی بھی ایک مربوط اسٹڈی کی شکل میں آج تک سامنے نہیں آسکے۔
حالیہ دنوں میں سعودی عرب کی پاکستانی حکومت کے ساتھ قربتوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کے دورہ سعودی عرب سے تعاون کا جو نیا سلسلہ شروع ہوا تھا، اب لگتا یہی ہے کہ وہ سلسلہ شہزادہ محمد بن سلمان کے حالیہ دورے سے عروج پر پہنچ جائے گا۔ اس وقت مختلف اطراف سے لگ بھگ چودہ یا پندرہ ارب ڈالر کی کل سرمایہ کاری کی بات ہو رہی ہے، جس میں اہم ترین منصوبہ گوادر میں قائم کی جانی والی مجوزہ آئل ریفائنری کا ہے۔ کہتے ہیں کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا اور اس کی سب سے بڑی مثال سعودی عرب اور عمران خان کی زیر قیادت پی ٹی آئی حکومت کی قربت اور تیزی سے پروان چڑھنے والا والہانہ تعلق ہے۔ اب سے محض چند ماہ قبل پارلیمان میں سعودی عرب افواج بھیجنے کے مسئلے پر پی ٹی آئی کے ممبران جس شدومد سے سعودیہ پر تنقید کرتے تھے، اس کے منفی اثرات نواز حکومت پر پوری طرح عکاس ہوئے تھے۔ حکومتی وزیر شیریں مزاری اور خود وزیر اعظم عمران خان نے جو تند و تیز اور تیکھے بیانات اس وقت داغے تھے وہ یقیناً سعودی وزارت خارجہ کے ریکارڈ میں آج بھی موجود ہوں گے۔ نواز حکومت کو جو بیل آوٹ پیکج سعودی حکومت نے دیا تھا، اس پر عمران خان کا انتہائی سخت بیان سامنے آیا تھا۔ مگر سیاست صرف مفادات کی اسیر ہوتی ہے اور سیاست کی پرخار وادی میں قدم رکھنے والوں کو سب سے پہلے یہی سبق سیکھنا ہوتا ہے۔
سعودی حکومت خود بھی شاہ عبد اللہ کے زمانے کی سیاسی پالیسی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے یو اے ای کے ساتھ گرمجوش تعلقات بنا کر خطے کی سیاست میں جارحانہ کردار ادا کرنے کے لیے کمر کس چکی ہے۔ ان حالات میں سعودی عرب کو پاکستان کی حمایت و تعاون کی ضرورت پہلے سے بھی زیادہ ہے۔ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے اس حقیقت کو سیاسی قیادت کی نسبت زیادہ بروقت اور باریک بینی سے بھانپتے ہوئے راحیل شریف کی صورت میں اپنا کارڈ کھیل دیا تھا۔ نواز حکومت اس کے برعکس حالات کی سنگینی کو پوری طرح سمجھ نہیں سکی اور سی پیک کے تناظر میں چین اور ترکی کے ساتھ تعلقات بڑھاتے ہوئے وہ پاکستان کے روایتی دوستوں کو کہیں پیچھے چھوڑ گئی تھی۔ اس غلطی کی سزا بھی بالاخر نواز حکومت کو بھگتنا پڑی۔
شہزادہ محمد بن سلمان کے دورے کے ساتھ ہی بعض حلقوں کی طرف سے یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ پاکستان ایک مرتبہ پھر امریکہ و سعودی عرب پر مشتمل روایتی بلاک کی طرف جھک گیا ہے جس سے فاصلہ پیدا کرنے کی کوششیں سی پیک کی شکل میں نواز حکومت کر رہی تھی۔ اس سلسلے میں پہلی بات تو یہ ہے کہ پاکستان جیسی ریاست کے لیے جس کے امریکہ و سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کا ایک تاریخی تسلسل موجود ہے، اس انداز میں ایک بلاک سے نکل کر دوسرے بلاک میں جانا عملی طور پر ممکن نہیں ہے۔ یہ درست ہے کہ سی پیک جیسے منصوبوں سے سیاسی ترجیحات کا بھی اندازہ ہوتا ہے مگر یہ بھی مدنظر رہے کہ نواز حکومت ترکی و قطر کے ذریعے امریکی مفادات کے تحفظ کو یقینی بنانے کی کوشش کرتی رہی تاکہ کسی ممکنہ منفی ردعمل سے بچا جاسکے۔ یہ بھی پیش نظر رہنا چاہیئے کہ پاکستانی ریاستی اداروں اور سماج میں امریکہ اور اس کے حلیف دوست ممالک کی پذیرائی اور اثرورسوخ بہت ہی زیادہ اور غیر معمولی ہے۔ پاکستان افواج کے افسران کی تربیت، بیوروکریسی کی تعلیم و ٹریننگز، ڈیویلپمنٹ سکیٹر کی اکثروبیشتر فنڈنگ، تعلیمی اداروں کی اٹھان و اساتذہ کی بیرون ممالک تعلیم، معیشت کی بنت و ساخت، ملک میں موجود ٹیکنالوجی کی وابستگی اور اوریجن وغیرہ وہ فیکٹرز ہیں جو پاکستان کو امریکہ اور اس کے حلیف ممالک کے ساتھ جڑے رکھنے میں مسلسل اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے۔ محض سی پیک کی طرح کے منصوبے کی بنیاد پر یہ مفروضہ قائم کرلینا کہ پاکستان ایک کیمپ چھوڑ کر کسی دوسرے کیمپ میں منتقل ہونے جا رہا تھا اور سعوی امدادی پیکج و سرمایہ کاری سے یہ تبدیلی سبوتاژ ہوجائے گی، سادہ فکری اور کم علمی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ ایسا کوئی پیراڈائم شفٹ نہ تو موجود تھا اور اگر یہ فکر کسی جگہ خواہش کی صورت میں موجود بھی تھی تو اس کی کامیابی اور بروئے کار آنے کے چانسز نہ ہونے کے برابر تھے۔ ملکی اداروں اور سماج کے اندر اپنے اپنے مفادات سے جڑے ہوئے ہونے کی وجہ سے اتنی مزاحمت پیدا ہونی کی توقع ہے کہ اس طرح کی کسی بھی پیراڈائم شفٹ پالیسی کی کامیابی کے کم از کم اس وقت تک کوئی امکانات نہیں ہیں جن تک چین اپنے حلیف ممالک کے ساتھ مل کر وہ سب کچھ آفر نہیں کرسکتا جس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ چین کی انفراسٹرکچر ڈیویلپمنٹ کی پالیسی اپنی جگہ اہمیت کی حامل ہے مگر پاکستان کی افواج، بیوروکریسی، سیاستدان، این جی اوز، تعلیمی اداروں کی قیادت اور حتی کہ مذہبی حلقوں کی ایلیٹ بھی چین کے پلڑے میں زیادہ وزن رکھنے کی پالیسی کی مزاحمت میں پیش پیش ہوں گے۔ امریکہ، برطانیہ، یورپ، جاپان، آسٹریلیا، سعودی عرب وغیرہ نے ایک کلی حلیف کی صورت میں پاکستان میں اتنی مادی و معنوی سرمایہ کاری کر رکھی ہے کہ اس کی موجودگی میں سی پیک کو گیم چینجر بنا کر پیش کرنا محض دیوانے کی بڑ محسوس ہوتا ہے۔
شہزادہ محمد بن سلمان کا دورہ بھی دو ملکوں کے درمیان باہمی مفادات کے تحفظ کی ایک کڑی ہے۔ ہمیں بحیثیت قوم سعودی عرب کے ساتھ جذبات پر مبنی پیار پھٹکار (Love and Hate) کے تعلق سے نکل کر معروضی حقائق کی روشنی میں ترجیحات طے کرنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت سعودی عرب کے بڑھے ہوئے ہاتھ کو تھام کر سنگین معاشی مشکلات سے نکلنا ہی ہمارے قومی مفاد میں ہے۔
فیس بک پر تبصرے