پلوامہ حملہ اور بھارت کا ردِ عمل ۔۔۔ اسباب کیا ہیں؟
15 فروری 2019 ، جمعرات کی سہ پہر مقبوضہ کشمیر کے علاقے پلوامہ میں نیم فوجی دستوں پر ہونے والے حملے میں 40 فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔ اس حملے کو گذشتہ تین دہائیوں میں کشمیر میں ہونے والا سب سے بڑا حملہ قرار دیا جا رہا ہے۔اس حملے کی ذمہ داری پاکستان میں قائم جہادی تنظیم جیشِ محمد نے قبول کی ہے جبکہ بھارت سرکار نے پاکستان پر جیشِ محمد کی پشت پناہی کا الزام لگاتے ہوئے ذمہ داروں کے خلاف براہِ راست کارروائی کرنے کا اعلان کیا ہے۔تاہم پاکستان کی جانب سے اس حملے کے ساتھ ساتھ پاکستان پر الزامات کی بھی مذمت کی گئی اور کہا گیا کہ کشمیر میں امن کا قیام ہماری اولین ترجیح ہے۔پیر کے روز پلوامہ میں ہی بھارتی فوج کے ساتھ عسکریت پسندوں کی ایک اور جھڑپ میں ایک میجر سمیت 4 بھارتی فوجی ہلاک ہوئے اوراسی روز بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ اب بات چیت نہیں، کارروائی ہوگی۔
امن دشمن قوتوں کی کارروائیاں ایک طرف لیکن ہر ایسے واقعے کے بعد جنگی جنون اور باہمی نفرت کےان مظاہر سے کیا نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے؟حملے کے بعد نفرت کی ایک منظم مہم کشمیر سمیت پاک بھارت سماج پر کیا اثرات مرتب کرے گی؟ کیا ہم نفرتوں کے اس ماحول میں ایک پرامن مستقبل کی طرف بڑھ سکتے ہیں؟کیاالزام تراشی کا یہ بھارتی رویہ روا اور مناسب ہے ؟ اور کیا ایسی الزام تراشی کا موقع ہماری ریاست خود فراہم کرتی ہے؟بھارت کے ساتھ تعلقات کی بہتری اور باہمی نفرت کے خاتمے میں ہمیشہ کیا چیز آڑے آتی ہے؟ ایسی صورتِ حال کی ذمہ داری پاکستان یا بھارت میں سے کس پر عائد ہوتی ہے؟
قارئینِ تجزیات اس بارے اپنی آرا کا اظہار اسی صفحے پر نیچے جا کر کرسکتے ہیں؟
فیس بک پر تبصرے