پی ایس 114 ضمنی انتخابات: پی پی پی، ایم کیوایم پاکستان اورپی ٹی آئی مدمقابل

1,240

سیاسی مبصرین کے مطابق یہ ضمنی انتخابات کراچی شہر میں آئندہ عام انتخابات کی سیاست پراثراندازہوگا۔

کراچی کے حلقے پی ایس 114 میں 9 جولائی کوہونے والے ضمنی انتخابات کو کراچی کے سیاسی حلقے انتہائی اہم قراردے رہے ہیں جہاں پاکستان پیپلزپارٹی، متحدہ قومی موومنٹ پاکستان اورپاکستان تحریک انصاف کے مابین سخت مقابلے کاامکان ہے۔سیاسی مبصرین کے مطابق عام انتخابات سے چند ماہ قبل ہونے والے اس ضمنی انتخابات کے شہر کی سیاست پراثرات مرتب ہونگے اور شہر میں مستقبل کی پارلیمانی سیاست کی راہیں متعین کرے گی۔
اس حلقے سے 2013 ء سے سیاستدان عرفان اللہ مروت مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر37 ہزارسے زائدووٹ حاصل کرکے کامیاب قرارپائے جبکہ مقابلے میں متحدہ قومی موومنٹ کے روئف صدیقی نے 30 ہزارسے زائدووٹ حاصل کئے تھے۔ پاکستان تحریک انصاف کے اسرارعباسی نے 13807 جبکہ پاکستان پیپلزپارٹی کے سجاد احمدپپی نے محض 3827 ووٹ حاصل کئے تھے۔ البتہ متحدہ قومی موومنٹ نے الیکشن ٹریبونل میں انتخابی بے ضابطیوں اوردھاندلی کے الزامات عائدکرتے ہوئے عرفان اللہ مروت کی کامیابی کوچیلنج کیاتھا۔ نادرا کی جانب سے 17000 سے زائدجعلی ووٹ کاسٹ کئے جانے کی تصدیق کے بعد الیکشن ٹریبونل نے اس حلقے میں دوبارہ انتخابات کرانے کاحکم دیاجبکہ سپریم کورٹ نے رواں سال مئی میں الیکشن ٹریبونل کے فیصلے کو برقراررکھا ۔ یوں الیکشن کمیشن کی جانب سے 9 جولائی کوانتخابات کرانے کافیصلہ کیاگیا۔
پی ایس 114 کراچی کے ضلعی شرقی میں واقع حلقہ ہے جہاں مختلف مذاہب اورزبانوں کے لوگ آباد ہے۔ کشمیرکالونی، اخترکالونی، منظورکالونی، محمودآباد، اعظم بستی، ڈیفنس ویو اوعردیگربستیوں پرمشتمل اس حلقے میں مسیحی برادری کا ایک بڑا ووٹ بنک ہے جبکہ کشمیری، پنجابی، مہاجرِِِ،سندھی اورپختون بھی بڑی تعداد میں آباد ہے۔ عرفان اللہ مروت نے دومرتبہ 2002ء اور2013ء کے انتخابات میں یہ نشست جیتی ہے جبکہ متحدہ قومی موومنٹ 2008 ء، 1993 اور1990کے عام انتخابات میں اس نشست پرفاتح قرارپائی تھی۔ 1997 میں مسلم لیگ(ن) کے سردارعبدالرحیم جیتے تھے۔
اس حلقے میں پاکستان پیپلزپارٹی کبھی بھی ایک مؤثرقوت نہیں رہی ہے اورپچھلے تین انتخابات میں عرفان اللہ مروت اورمتحدہ قومی موومنٹ کے مابین ہی رہاہے۔مگراس مرتبہ پی پی پی نے کراچی ڈویژن کے سیکریٹری جنرل سینیٹرسعیدغنی کوضمنی انتخابات میں کھڑا کریہ نشست جیتنے کی بھرپورکوشش کررہی ہے۔ سعید غنی اس حلقے میں واقع چنیسرگوٹھ یوسی(سندھی اکثریتی آبادی) کے 2001 ء میں ناظم رہ چکے ہیں جبکہ اسی حلقے سے 2013ء میں ان کے بھائی فرحان غنی چیئرمین منتخب ہوئے ہیں۔ پی پی پی ذرائع کاکہناہے کہ سعید غنی کوجتواکرپی پی پی کراچی میں اس تاثرکوزائل کرنے کی کوشش کرنا چارہی ہے کہ شہرمیں پی پی پی صرف لیاری، ملیر اورکیماڑی کے سندھی اوربلوچ اکثریتی آبادیوں تک محدود نہیں ہے۔سعید غنی کوصوبائی حکومت کی حمایت کے ساتھ ساتھ حلقے کا رہائشی ہونے کافائدہ اٹھارہے ہیں۔
اس مرتبہ ضمنی انتخابات میں عرفان اللہ مروت نے پاکستان تحریک انصاف کے امیدوارنجیب ہارون  کی حمایت کرکے حلقے کی سیاست میں گرماگرمی پیداکردی ہے، عرفان اللہ مروت نے رواں سال فروری میں پی پی پی کے سربراہ اصف علی زرداری سے ملاقات کرکے پارٹی میں شمولیت کافیصلہ کرلیاتھا جس کی وجہ سے مروت نے ماضی میں جام صادق دورحکومت میں بطورمشیرداخلہ پارٹی کے خلاف سخت اقدامات کرنے پرٹویٹرپرزداری کی صاحبزادیوں بختاوراورآصفہ نے مروت کی پارٹی میں شمولیت پرناراضگی کااظہارکیا۔ مروت کے قریبی حلقوں کے مطابق سعید غنی کی سازشوں کی وجہ سے وہ پی پی پی میں جانے سے رک گئے۔البتہ سعید غنی کوضمنی انتخابات میں ہروانے کے لئے وہ پی ٹی آئی کے امیدوارکی بھرپورحمایت کررہے ہیں۔ تحریک انصاف کے جنرل سیکریٹری جہانگیرترین نے سابق ایم پی اے سردار رحیم (جو اب مسلم لیگ فنکشنل کاحصہ ہے) کی حمایت حاصل کرنے کے لئے کراچی میں پیرپگارا سے ملاقات کی جبکہ عمران خان نے بھی اپنے امیدوارکی مہم کے سلسلے میں حلقے کا دورہ کیا۔
اندرونی تقسیم اورآپریشن سے متاثرمتحدہ قومی موومنٹ پاکستان نے اس مرتبہ مسلم لیگ(فنکشنل) سے حال ہی میں پارٹی میں شامل ہونے والے معروف کاروباری شخصیت کامران ٹیسوری کوحلقے میں اتاراہے۔ حلقے میں دویوسیز مہاجراکثریتی آبادی ہونے کی وجہ سے متحدہ قومی موومنٹ کی پوزیشن بھی کافی مستحکم ہے۔ البتہ مبصرین کاکہناہے کہ اگست 2016 میں پارٹی سربراہ الطاف حسین سے راہیں جداکرنے کے بعد متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے لئے یہ ضمنی انتخابات جیتنا ایک بڑاچیلنچ ہوگا کیونکہ ایم کیوایم (لندن) کے حامی مقامی طورپر انتخابات کابائیکاٹ کرنے پرقائل کریں گے۔
مسلم لیگ(ن) نے صوبائی نائب صدر علی اکبرگجر، جماعت اسلامی نے سابق یوسی چیئرمین ظہوراحمد جدون اورجمیعت علماء اسلام(ف) نے دانیال گجر کومیدان میں اتارا ہے مگرسیاسی مبصرین کے مطابق اصل مقابلہ  پاکستان پیپلزپارٹی، متحدہ قومی موومنٹ پاکستان اورپاکستان تحریک انصاف کے مابین ہی متوقع ہے۔
مضمون نگارکراچی میں مقیم صحافی اورمحقق ہے۔ ٹویٹر: @zalmayzia ) 

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...