حج کے سفر نامے اور اسلامی عالمگیریت کے مذہبی تخیلات

12,150

ڈاکٹر خالد مسعود کا شمار دنیا میں اسلامی فقہ کے چند بڑے ماہرین میں ہوتا ہے۔ آپ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ، بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد کے اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر جنرل اورہالینڈ کے انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار اسٹڈی آف اسلام کے ڈائریکٹر رہے ہیں۔وہ عدالتِ عظمیٰ کے شریعت اپیلنٹ بنچ کے ایڈہاک ممبر بھی ہیں۔ڈاکٹر خالد مسعود سہ ماہی تجزیات اور تجزیات آن لائن میں باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔ ان کا حالیہ مفصل مضمون اردو ادب میں سفرنامہِ حج کی روایت اوراس کے جدید اسالیب سے متعلق آگاہی فراہم کرتا ہے۔ یوں تو یہ تحریر ملک کے معروف اخبار نویس محمود شام کے سفرنامہِ حج ’’رحمان کے مہمان‘‘ پر تبصرے کے طور پر لکھی گئی ہے تاہم اسے خالد مسعود صاحب کے قلم کا اعجاز کہیے کہ یہ ایک مکمل مضمون کی صورت قاری کو سفرنامہِ حج ، جو اردو ادب کی باقاعدہ صنف کے طور پر اپنی پہچان قائم کرچکا ہے،کی مکمل تاریخ سے روشناس کرواتا ہے اور ان سفرناموں کے متنوع اسالیبِ تحریر،منفرد تخیلات و رجحانات اور قدیم و جدید دور کے تغیر پذیر سماجی ، سیاسی اور مذہبی تناظر میں فکر و نظر کی کشاکش کے نتیجے میں ان سفری رودادوں میں وارد ہونے والے تغیرات سے قاری کو متعارف کرواتا ہے۔ ان کا یہ مضمون اپنی جامعیت کے اعتبار سے بلا شبہ منفرد حیثیت کا حامل ہے جسے ’تجزیات ‘ میں بصد ناز شائع کیا جا رہا ہے۔(مدیر)

اسلامی ثقافت میں سفر کی دینی اہمیت اورحج کے سفر کی روحانی معنویت نے سفر نامہِ حج میں حاجی کو دینی آپ بیتی لکھنے کا موقع دیا۔ اسلامی روایت میں سفرکا زندگی اور دین سے گہرا رشتہ ہے۔ اس رشتے کی اہمیت کے لیے یہی گواہی کافی ہے کہ شریعت، سیرت، طریقت، مذہب، مسلک، صراط مستقیم جیسے دین کے اہم حوالوں میں راستہ کا طبعی تصوراور مذہبی تخیل مشترک ہے۔ سب زندگی گزارنے کے راستے ہیں۔ سبھی سفر کے استعارے ہیں۔ قرآن کریم نے سیروا فی الارض کی دعوت دی اور زمین کی سیر و سیاحت کا حکم دیا تو جغرافیہ تاریخ کے اوراق بن گیا۔ قدیم آثار قوموں کے عروج اور زوال کی داستان سنانے لگے۔ سفر سے علم میں اضافہ اور ذہن میں وسعت پیدا ہوئی۔ نبی کریمﷺ کے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ تک سفر ہجرت نے دین کی دعوت کے عالمگیر تخیل کو مستحکم کیا اور دنیا کی تاریخ بدل دی۔ سیرت النبی کا یہ عمل فقہ اسلامی کا ایک اہم موضوع بن گیا۔ سفرعلم کے حصول کے لیے ہو تو رحلہ فی طلب العلم ، اور بیت اللہ کا عزم ہو تو حج کہلائے، اوردونوں فرض قرار دیے گئے۔ مسافرابن السبیل کہلایا۔ سفر کی سختیوں میں عبادات کے احکام میں رعایات دی گئیں۔
سیر و سیاحت، ہجرت، طلب علم اور حج کے سفر کی یاد داشتیں اسلامی ادب کا سرمایہ ہیں۔ حج کے سفر نامے اتنی تعداد میں لکھے گئے کہ خود صنف ادب بن گئے۔ یورپ کے واسطے سے جدیدیت اور استعمار سے شناسائی ہوئی تو حاجیوں کو روایت اور جدیدیت کی سیاسی کشمکش کے تجزیے کا موقع بھی ملا۔ سفر نامہِ حج حصول آزادی، استعمار اور استعماری رویوں کے خلاف مزاحمت کے اظہار کا ذریعہ بھی بن گیا۔
باربرا میٹکاف جو دور جدید میں اسلامی تحریکات، اداروں اور شخصیات کے بارے میں اپنے تجزیاتی مطالعات کے حوالے سے بہت معروف ہیں سفر حج کو ”اندر کا سفر” بتاتی ہیں۔ مشہور امریکی ماہر بشریات ڈیل آئیکلمان اور ماہر سیاسیات جیمز پسکیٹوری نے 1990 میں اسلام میں سفر کی روایت کی اہمیت پر” مسلم مسافر: حج، ہجرت اور مذہبی تصور” کے عنوان سے ایک کتاب شائع کی جس میں سفر کی مختلف شکلوں کے علمی تجزیے پیش کیے گئے تھے۔ ”حج کی یادیں” کے عنوان سے شامل مقالے میں باربرا میٹکاف کا کہنا تھا کہ حج کے مختلف موضوعات، مناسک، تاریخ اور انتظامات پر بہت تحقیقی کام ہوا ہے۔ سفر حج کے بارے میں بھی کافی لکھا جا چکا ہے۔ تاہم یہ ایسا مو ضوع ہے کہ جب تک حج کا سفر جاری ہے سفرنامے لکھے جاتے رہیں گے۔ اس صنف ادب کے اسلوب تحریر اور موضوعات میں بہت تنوع ہے۔ کسی نے خطوط کی شکل میں لکھا، کسی نے ہدایت نامہ کی طرز اپنائی۔ کسی نے سفر کے دوران پردیس میں وطن کی گلیوں کو یاد کیا، کسی نے لوگوں کے رہن سہن اور بود و باش کے موازنے کیے۔ یہ سفر نامے کہیں آپ بیتی ہیں تو کہیں امت مسلمہ کے سیاسی، سماجی اور معاشی پس منظر پر تبصرے، کہیں عقیدت اور عشق کی سرشاری کا اظہار ہیں توکہیں خود احتسابی کا۔ان سفر ناموں کے لکھنے والوں میں علما بھی ہیں،ادیب اور سیاست دان بھی۔ نواب اور ریاستوں کے سربراہ بھی ہیں، صوفیا اور خواتین بھی۔ بلھے شاہ کو شکایت رہی کہ لوگ کتابیں پڑھ پڑھ کے عالم فاضل تو کہلاتے ہیں لیکن اپنے آپ کو پڑھ نہیں پاتے۔ بھاگ بھاگ کر مسجدوں مندروں میں جاتے ہیں لیکن کبھی اپنے من میں جھانکنے کی جرات نہیں کرتے۔ اقبال کو گلہ رہا کہ ستاروں کی گزرگاہیں ڈھونڈنے والے اپنے افکار کی دنیا میں سفر نہیں کر سکتے۔ تاہم سفرنامہِ حج ایسی صنف ادب ہے جس میں ہر مصنف اپنے اندر جھانکتا ملتا ہے۔
باربرا میٹکاف نے رفیع الدین فاروقی مراد آبادی کے ”سفرنامہِ حجاز”(1786)، نواب مصطفی خان شیفتہ کے ”سراجِ منیر”(1814)، نواب سکندر بیگم بھوپال کے ”حجِ مکہ ”(1870)، عبدا لماجد دریا بادی کے ”سفرِ حجاز” (1929)، غلام حسنین پانی پتی کے ”سامانِ آخرت” (1934)، شورش کاشمیری کے” شب جائے کہ من بودم، حجاز میں چند روز” (1967)، عبداللہ ملک کے ”حدیث دل” (1970) ممتاز مفتی کے” لبیک” (1975) اور زینب خاتون کاکاخیل کے ”جلوہ گاہِ توحید کے روبرو” (1976) کا ذکر کیا ہے۔ میٹکاف کے بقول یہ سب کسی نہ کسی پیرائے میں اندر کے سفر کی کہانیاں ہیں۔ ہر مصنف اس سفر کے دوران ذہن اور دل میں تبدیلی کے احساس کا ذکر کرتا ہے۔ بقول اقبال کعبہ ایک مرکز محسوس بن کر سامنے آتا ہے۔ عقیدت کے اشعار میں کعبہ اللہ کا گھراور اس کا پردہ دامن لگتا ہے جس سے لپٹ کر حاجی دل کا حال سناتا ہے۔ کوئی حاجی عرفات کے میدان میں امت کے اتحاد کا نظارہ دیکھتا ہے، کوئی خود کو تاریخ کے کاروان میں شامل محسوس کرتا ہے۔ کوئی اپنی آزاد خیالی کا رشتہ اسلام میں ڈھونڈتا ہے تو کوئی روایتی دین میں تہذیبی مسلم کا مقام تلاش کرتا ہے۔ حج ذات کی تلاش ہے۔روحانی وطن کی جانب واپسی کا سفر ہے۔
برصغیر میں سفرنامہِ حج کی روایت بہت پرانی ہے۔ باربرا میٹکاف نے شاہ ولی اللہ کے ایک شاگرد مولانا رفیع الدین مراد آبادی کے سفر نامہِ حجاز(1787) کے حوالے سے لکھا ہے کہ اسے برصغیر پاک و ہند میں لکھا پہلا سفرنامہِ حج شمار کیا جاتا ہے۔ مجھے اس کی تفصیلات نہیں مل سکیں۔ تاہم مصنفہ نے شاہ ولی اللہ کی فیوض الحرمین اور التفہیمات الالہیہ کا ذکر نہیں کیا اس لیے خیال یہی ہے کہ وہ اردوسفرناموں کا ذکرکر رہی ہیں اور یہ سفر نامہ اردو زبان میں لکھا گیا ہوگا۔ تاہم محققین میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ اردو میں پہلا سفر نامہِ حج کون سا ہے۔ ظہور احمد اعوان کے مطابق حاجی محمد منصب خان کا ”ماہ مغرب المعروف بہ کعبہ نما ” جو 1871 میں لکھا گیا ،بر صغیر میں اردو ادب کا پہلا حج نامہ ہے۔ قدسیہ قریشی ) ”اردو سفر نامے، انیسویں صدی میں ”، ڈاکٹریٹ کا مقالہ، دہلی یونیورسٹی،(1971 نے سفر دار المصطفی(1855) کو قدیم ترین قرار دیا ہے۔ یہ سفر نامہ کپتان رچرڈ فریڈرک برٹن کے پلگریمیج ٹوالمدینہ اینڈ مکہ مطبوعہ1852 کا مولوی محمد انشاء اللہ کی جانب سے کیا گیا اردو ترجمہ ہے۔ اگر اردو ترجمہ کی وجہ سے اس سفر نامے کو اس فہرست میں نہ رکھا جائے تو نواب سکندر بیگم آف بھو پال کا ”تاریخ وقائع حج” اردو کا پہلا سفر نامہِ حج شمار ہوگا جو 1816 میں لکھا گیا۔
اردو میں سفرناموں کی ابتدا اٹھارہویں صدی میں ہوئی ہو یا انیسویں میں، یہ صنف ادب ابتدا ہی سے اسلوب اور ترتیب میں جدید رجحانات کی حامل تھی۔ اس کی ایک وجہ تو اردو زبان کی عالم گیریت تھی۔ یہ نئی زبان تھی اوراس میں جدید رجحانات کو اپنانے میں قدیم زبانوں والی جھجک نہیں پائی جاتی تھی۔ دوسرے اردو قدیم اور جدید ادوار کے سنگم میں پروان چڑھی تھی۔ روایت اوربغاوت دونوں کا دودھ پیا تھا۔ فارسی اور سبک ہندی کی روایت سے جڑی تو رہی لیکن اپنے حسن بے پروا کی وجہ سے جدید ماحول میں بھی گھل مل گئی۔ ذات پات، مذہب اور مغرب ومشرق کی تفریق سے بالاتر ہو کر حال دل سنانے کے لیے ہندو،مسلم، سکھ، مسیحی سب کی محرم راز بنی۔ حتیٰ کہ یورپ سے آئے اجنبی بھی اردو غزل کی زلف کے اسیر ہوئے۔ اردو ادب کے شعورکی تشکیل کا زمانہ سماجی، مذہبی اور سیاسی شناخت کے سوالوں میں الجھا تو سرسید نے انگریز سرکار کے خلاف بغاوت ہند کے اسباب اور بجنور کی سرکشی، اکبر الہ آبادی نے جدیدیت کے خلاف مزاحمت، ابوالکلام آزاد نے استعمار سے آزادی، پریم چند نے اصلاح معاشرہ کے لیے اردو کا ہی انتخاب کیا۔ شہر آشوب، شکوے، جواب شکوے،عروج و زوال، ہجرو وصال جیسے حساس موضوعات اردو میں ہی لکھے گئے۔مذہبی ہم آہنگی کے لیے بھی اردو ہی وسیلہ ظفر بنی۔غیر مسلموں نے نعت گوئی اور سیرت نگاری میں حصہ لیا تو اسی زبان میں۔ نعت گو ئی میں کشن پرشاد شاد، عرش ملیسانی،منشی بالا سہائے متصدی، جگن ناتھ آزاد، کنور مہندر سنگھ بیدی، پنڈت ہری چند اختر اور فراق گورکھپوری جیسے نامور شعرا کے نام آتے ہیں۔
اردو زبان میں عالمگیریت کی اس بنیادی صلاحیت کے علاوہ جدید دورکی عالمگیریت بھی اردو سفر ناموں میں تیزی سے اضافے کی وجہ بنی۔اس میں مواصلات کی ترقی اور چھاپے خانے کی ایجاد بھی شامل تھی اورذرائع نقل و حمل کے نئے وسائل بھی۔ سمندری سفر کی آسانیوں کی وجہ سے جہاں سفر میں آسانی اور تیزی آئی وہاں سفر حج کے انتظامات کو بہتر بنانے کے قواعد و ضوابط کے پیچیدہ معاملات کا آغاز بھی ہوا۔ ہرحاجی چاہتا تھا کہ بعد میں آنے والوں کو ان معاملات سے آگاہ کرے۔ یوں حج کے سفرناموں کی تعداد بھی بڑھی اور اس روایت میں ہدایات کے ابواب کا شامل کرنا بھی ضروری ہوتا گیا۔ اسی ضرورت نے سفر نامہِ حج کو زیادہ پڑھی جانے والی اردو زبان میں لکھنے کی روایت کو مستحکم بھی کیا۔ چھاپے خانے کی ایجاد نے جہاں سفرنامے کے قارئین کی تعداد میں اضافے کو یقینی بنایا وہاں کتاب کی ترتیب اور اسلوب تحریر کے لیے کچھ قاعدے بھی متعارف کرائے۔ سفرنامہِ حج کی روایت کو ان جدید رجحانات اورضابطوں نے زیادہ نستعلیق بنا دیا تو سفر نامے کی نوعیت میں بھی بدلاؤ آیا۔ قارئین کی کثرت کے تصور سے اس صنف ادب نے مصنفین میں فصاحت کے ساتھ ساتھ ابلاغ کا شوق بھی پیدا کیا۔ ذات کی دریافت، آزادی کی لگن اور استعمار کے خلاف مزاحمت کی کسک کے احساس میں دوسروں کو شریک کرنے کی خواہش نے جدید رجحانات کو مزید فروغ دیا۔
مورخین کا کہنا ہے کہ سفر نامہِ حج کی ابتدا حج نامے کی صنف سے ہوئی جو روز نامچے اور واقعہ نویسی کا اسلوب تھا۔ تیزی سے ارتقا کی منزلیں طے کرتے ہوے انیسویں صدی میں سفر نامہِ حج ایک نئی صنف ادب شمار ہونے لگا۔ قدسیہ قریشی نے اپنے ڈاکٹریٹ کے مقالے ”اردو سفر نامے، انیسویں صدی میں ”، دہلی یونیورسٹی، 1987 میں سفرناموں کی درجہ بندی کا تصور دیا اور حج کے سفر ناموں کو مذہبی سفرناموں کی صنف میں شامل کیا۔ تاہم ان کے لیے ذیلی صنف کا درجہ نا انصافی لگتا ہے۔ ان کے بیان کردہ سولہ مذہبی سفر ناموں میں ایک دو کو چھوڑ کر سب حج کے سفر نامے ہیں اور باقی جو یاترا یا زیارات سے تعلق رکھتے ہیں وہ بھی حج کی ذیلی صنف ہی ہیں۔ ڈاکٹر انور سدید(1989)نے اپنی کتاب اردو ادب میں سفر نامہ میں حج کے اسّی سفر ناموں کا ذکر کیا ہے۔ قدسیہ قریشی اور انور سدید کے علاوہ مرزا حامد بیگ (1999) اور خالد محمود(2011)نے بھی سفر ناموں کے وقیع جائزے پیش کیے ہیں لیکن ان مقالات میں سفر نامہِ حج مرکز توجہ نہیں۔
بیسویں صدی میں حج کے سفر نامے سفر کی یاد داشتوں اورعازمین حج کے لیے ہدایات تک محدود نہیں رہے۔ اب وہ مصنف کی داخلی شناخت کا سفر نامہ بھی ہیں۔ جناب ظہور اعوان (1991) ممتاز مفتی کے حج کے سفر نامے ”لبیک ” کو اس صنف میں منفرد بتاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ’’ اس سفرنامے میں مفتی ایک مہم جو کی مانند اپنی ذات کی تسخیر پر نکلے نظر آتے ہیں”۔ اعوان اسے رپورتاژ کی اس صنف میں شمار کرتے ہیں جس میں حج ”خارجی رسمیات سے آگے گذر کر داخلی اور روحانی دنیا میں جھانکنے کی دعوت پر لبیک کہنے کا نام ہے۔‘‘
اکیسویں صدی میں سفر نامہِ حج ادب کی ایک اعلی صنف میں بدلتا لگ رہا ہے۔ پاکستان کے نامور صحافی اور قادر الکلام شاعر محمود شام کا سفر نامہ ”رحمان کے مہمان” مطبوعہ2018اس کی عمدہ مثال ہے۔اس صدی میں حج کے سفر ناموں میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا۔ جناب عبد العزیزنے2016 میں ” اردو میں حج کے سفر نامے” کے عنوان سے اپنے بلاگ میں ڈاکٹر شہاب الدین کے علی گڑھ یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کے مقالے کے حوالے سے2009 تک250 حج کے سفر ناموں کو فہرست کیا ہے۔ ان میں روایتی بھی ہیں لیکن اکثر جدید رجحانات کی عکاسی کرتے ہیں۔ لکھتے ہیں کہ اردو میں سفر ناموں پر تو بہت کچھ لکھا جا چکا ہے لیکن حج کے سفر ناموں کا موضوع ابھی تشنہ تحقیق ہے۔ بعض سفر نامے طرز تحریرکی بنا پر متنازعہ ضرور ہوئے کہ ایک مقدس فریضے کے حوالے سے عقیدت کا دامن چھوٹنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ لیکن حج کا سفر نامہ اپنی اصل میں تو ایسے مسافر کی آپ بیتی ہے جس کے دل میں محشر بپا ہوتا ہے۔ وہ حرم میں ایسے محرم کی بارگاہ میں ہوتا ہے جس سے کوئی راز چھپا نہیں۔ وہ اسے دل کا حال نہ سنائے تو کسے سنائے۔
محمود شام کا سفر نامہِ حج جدید رجحانات کا آئینہ دارہے۔ ان کے اپنے الفاظ میں یہ ایسے سفر کی روداد ہے جو ’’زندگی کا حاصل ہے۔ جو ایک ایک قدم تسکین اور ایک ایک گام بشارت ہے‘‘۔ اس میں ترتیب، تصنیف، ابلاغ اور بیان کے کئی جدید تجربات نظر آتے ہیں۔ یہ ایسا جدید رجحان ہے جو روایت کو ساتھ لے کر چلتا ہے۔ محمود شام نے ملک اور بیرون ملک پیہم سفر کیے ہیں اور ہر بار اس سفر کی روداد لکھی ہے۔ امریکہ کیا سوچ رہاہے (2015)، لاڑکانہ سے پیکنگ (1972)، بھارت میں بلیک لسٹ (2002)، ترقی کرتا دشمن، بھارت کے چند سفر(2014) سب رپورتاژ کی جدید صنف کی تکنیک میں لکھے گئے ہیں۔ جن میں قاری مسافر کا رفیق سفررہتا ہے۔ قاری سے تقاضا ہے کہ مصنف کی خود کلامی کے وقت بھی وہ اپنے کان، آنکھ،دل اور دماغ کے دروازے کھلے رکھے۔ سفر نامہِ حج ”رحمان کے مہمان” میں جدید اسلوب کا دوسرا تجربہ یہ ہے کہ اس میں ماضی کے بیان کے لیے حال کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے۔ الفاظ دل میں اترتے ہیں تو منظر بصارت سے بصیرت میں بدلتے جاتے ہیں۔ ایک پیرا ملاحظہ ہو:
’’میں محسوس کر رہا ہوں کہ میں روشنی کی ایک طویل قطار کے آخری سرے پر کھڑا ہوں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آواز سنائی دے رہی ہے۔ صدیاں میرے دائیں بائیں گذر رہی ہیں۔ مجھے ان صدیوں کی بھی اپنے الفاظ میں صورت گری کرنا ہے۔ میرے اندر کا شاعر بھی جاگتا رہا ہے۔ یہ سفر خود ایک روحانی تجربہ ہے۔ جسم کی ہی نہیں روح کی بھی تطہیر ہوتی رہی ہے۔ ہم رحمن کے مہمان ہیں۔ اس کے در پر حاضری دے رہے ہیں۔ ان گلی کوچوں سے گزر رہے ہیں جہاں سے سرور کائنات فخر موجودات گزرتے رہے ہیں۔ جسمانی سفر مختصر ہے لیکن احساس کا سفر صدیوں پر محیط ہے‘‘۔
اس سفر نامے میں حج کی تاریخ، جغرافیہ، تعمیرات، حرم کی توسیعات کا تذکرہ ہے، حج اور زیارات کے آداب اور ہدایات بھی ہیں۔ حرمین کی عمرانی ترقی کا جائزہ بھی ہے اور مکہ مکرمہ میں جدیدٹیکنالوجی کے تعارف اوررواج کے سال بہ سال جائزے کا چارٹ بھی۔ حج کی عالمگیریت کے تصور اور دنیا کو گلوبل امہ میں تبدیل کرنے کے عزم پر تبصرہ بھی۔ حج کی معاشیات اور سیاسیات کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔ اتنے بڑے پیمانے پر حج کے وسیع انتظامات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ حج کے سفر کی مشکلات اور حجاج کے صبراور برداشت کا ذکر ہے توطواف میں سیلفیوں، دھکم پیل اورمنی اور عرفات کے سفر میں پیاروں کی گمشدگیوں اور سامان پیچھے رہ جانے کا احوال بھی بیان ہوا ہے۔ حج کے سفر کی نامہ نگاری میں یہ معلومات شامل کرنا نئی بات نہیں، البتہ یہ بات کہ مسلمان تجدید کے اس عمل کو زندگی کے معمولات میں شامل کیے ہوئے ہیں اسلامی ثقافت کے ایک اہم جدید رجحان کا احوال ضرور ہے۔
اکیسویں صدی کے اس سفر نامے میں دو باتیں خاص طور پرجدید رجحانات کی غماز ہیں ؛ان میں سے ایک وقت کا تصور اور احساس ہے جو مسلسل موجود نظر آتا ہے۔ کہیں روزنامچے اور ڈائری کی صورت میں گھڑی کی سوئیوں سے چلتا وقت دکھائی دیتا ہے۔ لمحوں میں منقسم وقت کا یہ تصور جدید ہے۔ وقت کو تقسیم در تقسیم کرکے زندگی کے تیزی سے گزرنے کا احساس رہتاہے۔اس منقسم وقت کے تصور نے زندگی کو لمحاتی بنا کرانسان کوذہنی دباو کا شکار بھی بنا دیا ہے۔ دوسری جانب وقت کی اضافیت کے تصور کا احساس بھی جدید ہے جو خلا کے سفر کی کہانیوں کے ذریعے ہماری روزمرہ گفتگو اورحقیقی زندگی کا حصہ بن گیا ہے جس میں کبھی لمحے صدیاں لگتے ہیں اورکبھی صدیاں لمحوں میں گزر جاتی لگتی ہیں۔ پہلے وقت کی اس اضافیت کو صوفیا اور شعرا کی خیال آفرینی سمجھا جاتا تھا اب اس کے امکان پر شک بھی نہیں گزرتا۔
اس سفر نامے میں محمود شام نے یہ دلچسپ اور خوشگوار تجربہ کیا ہے کہ وہ اپنے سفر کے دوران مختلف مقامات اور مواقع پر صدیوں پہلے کے سفر ناموں کو یاد کرکے اپنے سفر کو چودہ صدیوں سے جاری عمل سے جوڑ دیتے ہیں۔ یوں وقت منقسم نہیں لگتا بلکہ مسلسل محسوس ہوتا ہے۔۔ صدیوں پہلے کے واقعے اوراپنے سفر کا بیان صیغہ حال میں جاری رکھتے ہوے وہ اس تسلسل کو ٹوٹنے نہیں دیتے۔ قاری کی سہولت کے لیے جملوں اور پیروں کے درمیان نقطوں کی سطر سے ماضی اور حال میں بارڈر لائن ضرور کھینچتے ہیں کہ کہیں وقت کے سیل رواں میں پیروں کے نیچے سے زمین نہ نکل جائے۔
اس رپورتاژ میں مختلف مقامات پر کسی نہ کسی سفر نامہِ حج کے مصنف محمود شام کے شریک سفر ہو جاتے ہیں۔ رفیق سفرکے انتخاب میں انہوں نے دنیا بھر کی لائبریریاں کھنگالی ہیں۔ یہ رفیق سفر کبھی تھوڑی دیر اور کہیں دور تک ساتھ رہتا ہے۔
حجاز میں قدم رکھتے ہی پچھلی صدی کے ایک عمانی کا سفر حج یاد آتا ہے جو پیدل سفر کرتا کئی سال میں مکہ مکرمہ پہنچا ہے۔ نواب مصطفی خان شیفتہ یاد آتے ہیں، جو بادبانی جہاز سے عدن کے راستے حجاز پہنچے ہیں۔ ان کو بھی حج کے سفر میں دو سال سے زیادہ لگ گئے ہیں۔ خانہ کعبہ کے روبرو پہنچتے ہیں تو حضرت ابراہیم ؑ کی آواز سنائی دیتی ہے، سعی میں حضرت ہاجرہ ؑ تگ و دو کرتی نظر آتی ہیں تو خود کلامی تبصرہ سنیے۔ ”چار ہزار سال سے اللہ تعالی کی وحدت پر یقین کرنے والے صفا اور مروہ کے درمیان سعی کر کے اس عظیم خاتون کی تگ و دو کی تقلید کرتے ہیں”۔
وقت کی بیکرانی، وقوع و غیوب کے سلسلوں، اور صدیوں کے مابین سفر کا ذکر بار بار ملتا ہے، نثر میں بھی اور اشعار میں بھی۔
منی سے عرفات کی جانب روانہ ہوتے وقت یادیں ذہن پر چھانے لگتی ہیں تو لکھتے ہیں:
”ہر ایک کو شدت سے احساس ہے کہ اب مرکزی مرحلہ آرہا ہے۔ اس کی ادائیگی میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں ہونی چاہیے۔ بستر تہ کیے جا چکے ہیں۔ کان دروازے کی طرف لگے ہیں کہ کب کوچ کا اعلان ہوتا ہے۔
میں 1430سال پہلے کے مناظر تاریخ کے اوراق میں دیکھ رہا ہوں۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم 8 ذی الحج سے منی میں قیام پذیر ہیں۔ 9ذی الحج نماز فجر کے بعد تھوڑی دیر منی میں مزید ٹھہرتے ہیں، سورج نکل آتا ہے پھر آپ عرفات کی طرف روانہ ہورہے ہیں۔ صحابہ کو حکم دیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے میدان عرفات میں وادی نمرہ میں خیمہ نصب کیا جائے۔ اللہ اکبر، اللہ اکبر کی روح پرور صدائیں بلند ہو رہی ہیں۔
کیا مبارک ساعتیں ہیں۔ تاریخ کی منتخب ہستیاں فریضہ حج کی ادائیگی کے لیے روا ں ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک اونٹنی پر سوار ہیں۔ اونٹنی بھی اپنی خوش بختی پر نازاں ہے (کہ رحمۃ للعالمین دنیا سے آخری خطاب کے وقت اسی اونٹنی پر سوار تھے) ۔۔۔۔۔۔
خطبہ بآواز بلند ارشاد ہو رہا ہے۔۔۔
اے لوگو میری بات گوش ہوش سے سنو، دیکھو، ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے۔ اس رشتے کی وجہ سے کسی مسلمان کو دوسرے مسلمان کی کسی شے پر اس کی اجازت کے بغیرتصرف روا نہیں ہے۔ ورنہ ایک دوسرے پر ظلم ہو جائے گا۔
اے اللہ تو سن رہا ہے کہ میں نے اپنا یہ فرض بھی ادا کر دیا۔
ہر طرف سے آواز بلند ہو رہی ہے۔ یا اللہ میں گواہی دیتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا فرض ادا کردیا۔
۔۔۔۔۔۔
اعلان ہورہا ہے۔ میں واپس پندرہویں صدی ہجری اوراکیسویں صدی عیسوی میں لوٹ رہا ہوں۔ ”چلیے۔ عرفات کے لیے بسیں تیار ہیں ”۔
عرفات میں امام غزالی یاد آرہے ہیں: ”اے دوست،عرفات کے میدان میں قدم رکھو تو میدان قیامت کا منظر یاد کرو”۔
یہاں لوگوں کا اژدہام۔ آوازوں کا بلند ہونا۔ زبانوں کا اختلاف۔ رنگوں کا اختلاف۔ وہاں قیامت کے دن اول و آخر سب جمع ہوں گے۔ سب سے پوچھ گچھ ہوگی۔
اس سفر نامے میں ادب اپنے ہر مفہوم میں غالب نظر آتا ہے۔ اس لیے کہ یہ سفر ان ادب گاہوں کا ہے جو عرش سے کہیں زیادہ نازک ہیں۔ یہاں تو جنید اور بایزید بھی سانس روک کر آتے ہیں۔ اسی لیے جہاں بات بین السطور کہنی ہو تو محمود شام اپنے اندر کے صحافی کو روک کر قلم اپنے اندر کے شاعر کے حوالے کردیتے ہیں۔ چند مثالیں پیش ہیں۔
حدود حرم قریب آتی ہیں تو شاعر حرم کی توسیع پر مبارک باد دے کر دل کی تشویش زبان پر لاتا ہے۔
بڑھی جا رہی ہیں حدود حرم
مسلماں بہت ہیں، پہ مسلم ہیں کم
قیام و رکوع و سجود ان گنت
عبادت فقط بندگی کا بھر
شاعر اپنے رب سے ہی اس کا مداوا مانگتا ہے
جب گناہوں کی فراوانی ہے
عزم توبہ بھی عطا کر یارب
جب ندامت ہی مری قسمت میں ہے
ذوق گریہ بھی عطا کر یا رب
طواف کے موقع پر کائنات کی وسعتوں اور رب کائنات کی بے کراں رحمت کے حضور مشتاق بندوں کے سمندر میں ایک قطرہ بھر شمولیت بھی فخر کا مقام ہے۔
رحمت بھی بیکراں تھی، وہاں تشنہ میں بھی تھا
بے تاب تھیں ہدایتیں، گم گشتہ میں بھی تھا
امڈے ہوے تھے اشک، دعائیں حضوریاں
اس بحر اشتیاق میں، اک قطرہ میں بھی تھا
طواف کعبہ کا روحانی تجربہ تحیرکے در کھولتا ہے۔
میں تھا خدا کے پیش ،یا خود کے حضور تھا
کچھ کھل سکا نہ، پورا حرم نور نور تھا
لمحے سمٹ رہے تھے، مگر فاصلے نہیں
میں جتنا اپنے پاس تھا، اتنا ہی دور تھا
اپنے وجود میں تھا کبھی، بارہا نہیں
حیران کن وقوع غیوب و ظہور تھا
طواف وداع کے موقع پر احسان و انعام پرشکراور فخر کا اظہارملتا ہے
اپنے رحمان کا مہمان رہا ہوں کچھ دن
ایک اقلیم کا سلطان رہا ہوں کچھ دن
روز آتی تھی صبا خلد سے خوشبو لے کر
خیمہِ عشق کا دربان رہا ہوں کچھ دن
صبح دم آ کے جگاتی تھی مجھے بانگِ حرم
اپنی تقدیر کا عنوان رہا ہوں کچھ دن
حدود حرم مدینہ میں داخلے پر وارفتگی ملاحظہ ہو
سبز گنبد ہے سامنے میرے
یعنی دن رات پھر گئے میرے
میں صحابہ کے درمیان میں ہوں
نہیں لگتا کہ اس جہان میں ہوں
اپنی تاریخ کی پناہ میں ہوں
غزوہ بدر کی سپاہ میں ہوں
سبز گنبد پہ میری نظریں ہیں
ٹھہری ٹھہری سی میری سانسیں ہیں
دل میں امڈی ہوئی دعائیں ہیں
ذہن میں پھیلتی شعاعیں ہیں
اک گھڑی میں گزر گئیں صدیاں
کھل گئے کتنے ہی در امکاں
مدینہ منورہ پر پہلی نظر پڑتے ہی کیف کا حال سنیے
آنکھ میں آجا دلِ شام، مدینہ آیا
دھڑکنیں روک لے، اب دید کا لمحہ آیا
گردشِ دہر ذرا ٹھہر کہ اس شہر میں ہیں
جس کی گلیوں میں مقدر کو سنورنا آیا
مختلف عشق کے انداز تھے، محبوب تھا ایک
سب کے حصے میں برابر وہی جلوہ آیا
روضہ رسول کی حاضری پر بحر بدل جاتی ہے، الفاظ سکڑنے لگتے ہیں، لے تیز ہو جاتی ہے، زبان رقص میں آجاتی ہے۔
خوش قسمت ہوں، ترے در پر ہوں
مری ذات تو اس کی اہل نہ تھی
مرے سارے عمل تو غفلت کے
مری عادت نا فرمانی کی
پھر بھی تانگ حضوری کی
اک آرزو کھل کر رونے کی
کئی برسوں میرے ساتھ رہی
اب چپ ہوں تیری چوکھٹ پر
مرے ہونٹ تو جیسے سل سے گئے
مرے ذہن سے لفظ تو مٹ سے گئے
جنت البقیع پہنچ کر اداسی گھیر لیتی ہے۔ عقیدت آنسو بن کر ٹپکتی ہے تو آگہی گنگ ہو جاتی ہے۔ تاریخ کو کیسے گم نام کیا جا سکتا ہے۔ ظاہر مٹ سکتا ہے لیکن دل پر لکھا کون مٹا سکتا ہے۔
حیرت کی سیڑھیوں سے صدیاں اتر رہی ہیں
محرابِ آگہی سے نسلیں گزر رہی ہیں
گمنامیوں میں لپٹی تاریخ سو رہی ہے
دھرتی نے اپنی ساری خوشبوئیں وار دی ہیں
سورج نے احتراماً کرنیں اتار دی ہیں
بے نام و بے نشاں ہیں، پر عشق جانتا ہے
یاں کون سو رہا ہے، دل پر لکھا ہوا ہے
اک عمر سے عقیدت ذروں کو دھو رہی ہے
مٹی یہاں کی پیہم اکسیر ہو رہی ہے
اس سفر نامے میں محمود شام کے اندر کا صحافی ہمیشہ جاگ رہا نظر آتا ہے۔ اسے بولنے کی اجازت ملتی ہے لیکن بہت کم۔ عرفات کے خطبے کے بارے میں صحافی آخر بول ہی پڑتا ہے۔
”میں سمجھ رہا ہوں کہ۔۔۔ حج کا خطبہ بھی سننے کا کوئی اہتمام ہو گا۔ لیکن بتا یا جا رہا ہے کہ حج کا خطبہ تو مسجد نمرہ کے خطیب دیتے ہیں۔ سخت گرمی ہے۔ باہر ہجوم ہے۔ وہاں تک پہنچنا بھی ممکن نہیں ہے۔ خیموں میں خطبہ سنانے کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ ہم خطبے کی سماعت سے محروم رہتے ہیں”۔
عرفات میں انسانوں کا بہت بڑا اجتماع ہے۔ لگتا ہے پوری دنیا اس میدان میں سمٹ آئی ہے۔
”دو چادروں میں یہ سارے عربی، عجمی، کالے، گورے۔ ایشیائی۔ افریقی۔ یورپی۔ ا مریکی۔ ایرانی۔ تورانی، ترک۔ وحدت ملی کا مجسم اظہار ہیں۔ دور تک پھیلے خیموں کے اس شہر میں کتنے لاکھ عازمین اس وقت پہنچ چکے ہیں”۔
اتنے بڑا اکٹھ اور ہر طرح کا تنوع دیکھ کر صحافی باب کا عنوان باندھتا ہے: ‘حج، ابتدائے عالمگیریت’۔
’’ہر سال کتنی بڑی تعداد میں مسلمان دنیا بھر سے یہاں جمع ہوتے ہیں۔ کتنا بڑا اورکتنا نمائندہ اجتماع ہوتا ہے۔ مگر یہ صرف عبادات تک محدود ہے۔ یہاں سے کوئی پیغام آج کے حالات کے مطابق نہیں ملتا ہے۔ حقوق اللہ تو پورے اہتمام سے ادا کییجاتے ہیں۔ حقوق العباد کی ادائیگی کا حکم بھی اللہ تعالی نے ہی دیا ہے۔ اس کے حبیب اور رسول آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حجۃ الوداع کے خطبے میں بار بار بندوں کے حقوق پر زور دیا تھا۔ یہ اجتماع مسلمانوں کی طاقت بن سکتا ہے۔ سیاسی۔سماجی۔ دفاعی۔ اقتصادی اور علمی حوالے سے۔‘‘
عام طور پر گلوبلائزیشن کی بات کی جاتی ہے۔ عالمگیریت کی۔ دنیا کو کہا جاتا ہے کہ یہ گلوبل ولیج، عالمگیر گاوں بن گئی ہے۔ ‘‘
”میں سوچ رہا ہوں کہ اس وقت منی ایک حقیقی عالمگیر گاوں کی صورت اختیارکر گیا ہے۔ کو نسا ملک ہے جس کا شہری اس وقت یہاں نہیں ہے۔ کونسی زبان ہے جس کا بولنے والا یہاں موجود نہیں۔ کونسی نسل ہے جس سے تعلق رکھنے والا یہاں نہیں ہے۔ یہ ہے عالمگیریت۔ ہر سال اس کا مظاہرہ ہوتا ہے”۔
یوں تو ہر زمانے میں سفر نامہِ حج میں کسی نہ کسی طور اسلام کی عالمگیریت کے تصور کا ذکر ملتا ہے لیکن اکیسویں صدی میں اس کے ذکر کا آہنگ بلند ہوتا جا رہا ہے۔ اس میں تیزی سے ترقی کرتی ٹیکنالوجی کا کردار بہت اہم ہے۔ لیکن ٹیکنالوجی کے پیش منظرمیں اسلامی تعلیمات کا کردار پس منظر میں چلا جاتا ہے۔ اس کی بڑی وجہ تو یہی ہے کہ جدیدیت اورعالمگیریت کو مغربی تصور سمجھ کراسے مغربی تہذیب سے جڑا قرار دے دیا جاتا ہے۔ لیکن اس سے بھی بڑی وجہ یہ ہے کہ جدید دور سے پہلے عالمگیریت کا تصور اور مفہوم بالکل مختلف تھا۔آج بھی روایت پسند لوگ اسلام کی عالمگیریت کا مطلب دنیا میں مسلمانوں کا غلبہ سمجھتے ہیں۔
اسلام اپنی دعوت میں عالمگیر ہے تو غلبے کے نہیں خطاب کے حوالے سے ہے۔ قرآ ن یا ایھا الناس کہہ کرپوری انسانیت سے مخاطب ہے۔ اسلام نے عالمگیریت کی دعوت پہلے اہل کتاب کو دی تو دین کی مشترک اقدار پر اکٹھے ہونے کے لئے دی۔
’’کہہ دو کہ اے اہل کتاب جو بات ہمارے اور تمہارے دونوں کے درمیان یکساں (تسلیم کی گئی) ہے اس کی طرف آؤ وہ یہ کہ خدا کے سوا ہم کسی کی عبادت نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بنائیں اور ہم میں سے کوئی کسی کو خدا کے سوا اپنا کار ساز نہ سمجھے اگر یہ لوگ (اس بات کو) نہ مانیں تو (ان سے) کہہ دو کہ تم گواہ رہو کہ ہم (خدا کے) فرماں بردار ہیں۔ ‘‘( آل عمران64)۔
اہل کتاب اور مسلمانوں میں سب سے بڑی قدر مشترک یہ ہے کہ وہ بھی خود کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کا پیروکار(آل) کہتے ہیں۔ حضرت ابراہیم ؑ نے ہی اپنے پیرو کاروں کے لیے مسلم کا نام تجویز کیا تھا۔ لیکن بعد میں یہود دعویٰ کرنے لگے کہ حضرت ابراہیم تو یہودی تھے، نصاریٰ کا دعوی تھا کہ حضرت ابراہیم نصرانی تھے۔ قرآن نے بتایا کہ حضرت ابراہیم ؑ نہ یہودی تھے نہ نصرانی۔وہ مسلم حنیف تھے۔یہاں یہودیت اور نصرانیت کی نفی نہیں کلمہ مشترک کی تصدیق مطلوب تھی۔ مسلمان آج بھی نماز میں پانچوں وقت جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں درود وسلام پیش کرتے ہیں تو ساتھ ہی حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے ماننے والوں(آل) پر بھی درود بھیجتے ہیں۔ مدینہ کی ریاست میثاق کی بنیاد پر بنی۔ اس ریاست میں سیاسی تشکیل کے لیے نبی اکرمﷺنے ہجرت، بیعت اور معاہدے ،مذہبی آزادی، مشترکہ دفاع اور ریاست کی اطاعت کے اصو ل پرکیے۔ اس میثاق میں مشرکین عرب، یہود، نصاریٰ اور مسلمان سبھی شامل تھے۔
قرآن کریم حج کے لییتمام انسانوں کو دعوت دیتا ہے ( و اذن فی الناس بالحج،الحج27)۔ اللہ نے حکم دیا۔ ہر وہ انسان جو استطاعت رکھتا ہے اس پر حج فرض ہے، یہ اللہ کا حق ہے۔ جو انکار کرے اللہ کو اس کی پروا نہیں (و للہ علی الناس حج البیت، آل عمران97)۔ حضرت سعید بن منصورؓ کی یہ روایت ملتی ہے کہ جب یہ آیت اتری تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین عرب، نصاریٰ، یہود، مجوس اور صابئین سب کو جمع کر کے یہ حکم سنایا۔ سب نے ماننے سے انکار کیا۔ صرف مسلمانوں نے قبول کیا ( سنن سعید بن منصور، ج3، ص1074 ) ۔
بعض تاریخی اور فقہی وجوہ کی بنا پر الناس کا مفہوم مسلمان اور حج کا مطلب مناسک حج رہ گیا تو اس کے وسیع مفاہیم نظروں سے اوجھل ہو تے گئے۔ اللہ نے بتایا کہ بیت اللہ تمام انسانوں کے اجتماع اور امن کی جگہ ہے )مثابۃ للناس، البقرہ؛ (125۔ اردو میں مثابۃ للناس کا ترجمہ عبادت کی جگہ اورالناس کا ترجمہ مسلمان کرنے سے کعبہ کی مرکزیت میں عالمگیریت کے مقاصد اور مفہوم شامل نہیں رہے۔اللہ تعالی نے کعبہ،بیت الحرام کو پوری انسانیت کے لیے فیصلوں کی جگہ قرار دیا(قیاما للناس، المائدہ، 97)۔ اردو میں قیاما للناس کا ترجمہ امن کی پناہ گاہ کرنے سے اس کا مفہوم محدود ہو گیا۔ قرآن نے بتا یا کہ یہ پہلا گھر ہے جو مکہ میں ساری دنیا کے انسانوں کی ہدایت کے لیے تعمیر کیا گیا(آل عمران: 96)۔ اردو میں ترجمے 146146 پہلا گھر جو لوگوں (کے عبادت کرنے) کے لیے مقرر کیا گیا145145 ہدایت کے عالمگیر کردار کو محدود کر دیا۔
عالمگیریت تاریخی عمل کا تسلسل ہے۔آج عالم گیریت کی منزل تک پہنچنے میں بڑی رکاوٹ غلبے کی خواہش، جنگ کو امن کا وسیلہ قرار دینے کی حکمت عملی، اسلحے کی منافع بخش صنعت، اور قانون کی حکمرانی اور عوام کی خوشحالی کی جگہ ملکی سلامتی اور قومی مفادات کی ترجیح ہے۔ عالمگیریت کے قیام کے لیے باہمی احترام، اعتماد اور امن پر ایمان لازمی ہے۔ اکیسویں صدی میں سفر ناموں میں اسلامی عالمگیریت کے ان مثبت اصولوں کے تذکرے سے پتا چلتا ہے کہ یہ احساس اہلِ ایمان میں جاگ رہا ہے۔ قوی امید ہے کہ آج کے منفی رویوں کے باوجود اسلامی عالمگیریت کا پُر امن راستہ کامیاب ہوگا۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...