اقبال کا پیغام حرکت اور ہمارے جوان
ثاقب اکبر جامعہ قم سے فارغ التحصیل اورعلمی و فکرے ادارے ’’البصیرۃ‘‘کے صدر نشین ہیں۔ مسالک کے درمیان ہم آہنگی اورملی یکجہتی کے لیے کوشاں ہیں، اس حوالے سے کئی کتب کے مصنف بھی ہیں ۔شاعر مشرق علامہ اقبال کے کلام کا بیشتر حصہ نوجوانوں کے نام پیغام سے عبارت ہے کیونکہ مولانا انہیں ہی نئے زمانوں کا امام تصور کرتے ہیں ۔ثاقب اکبر کا یہ مضمون بھی علامہ کے اس پیغام کا جائزہ لیتا نظر آتا ہے ۔آپ تعلیمی اداروں میں فکر اقبال کی مزید ترویج کے خواہاں ہیں۔(مدیر )
اقبال کا نظریۂ اجتہاد
علامہ اقبال کا نظریہ اجتہاد اسلام کی ترقی پسند روح کا غماز ہے۔اسلامی تعلیمات کی بعض چیزیں ایسی ہیں جن کے تغیر پذیر ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر اسلام کی اخلاقی تعلیمات ہیں جیسے سچ بولنا ، جھوٹ نہیں بولنا اورایسی دیگر اسلامی اقدار ،اسی طرح اسلام کے بنیادی عقائد مثلاً توحیدپرستی اور شرک کی نفی، اس میں تبدیلی ممکن نہیں۔ یونہی بعض ایسی چیزیں ہیں جوخود انسان کی فطرت میں ہیں، جیسے انسان کا علم دوست ہونا، انسان کا جمالیات سے لگاؤ وغیرہ ،ان میں تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔ انسان اپنے اندر سے جہالت سے نفرت کرتا ہے اور یہ ہمیشہ ایسے ہی رہے گا۔دوسری طرف وہ تمام اقدامات اورقوانین جو انسانی معاشرے کو روزانہ کی بنیاد پر چلاتے ہیں ان میں تبدیلی کی ضرورت پڑتی ہے چونکہ حالات بدلتے رہتے ہیں اورعلاقے مختلف ہونے کی بنا پر بھی تقاضے بدل جاتے ہیں۔اقبال کی نظر ان دونوں پہلوؤں پر ہے۔
تغیر وثبات کے عناصر ساتھ ساتھ
قانون زندگی کے بارے میں یہ تمام اشارے علامہ اقبال کی شاعری میں موجود ہیں اوریہی ان کے نظریہ اجتہاد کی بنیاد ہیں۔ تبدیلیوں کے ساتھ نئے احکام آتے ہیں اور نئے قوانین بنتے ہیں۔ یقینی طور پر وہ انسان کو اور معاشرے کو زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے میں اپنا کردارادا کرتے ہیں۔ یہیں سے اس ترقی کا وہ راستہ کھلتا ہے جس کی طرف علامہ اقبال نے اشارہ کیا ہے۔ یہ بات تو واضح ہوگئی کہ کیسی چیزیں تغیر پذیر ہیں اورکیسی چیزوں کو ثبات حاصل ہے۔ مجموعی طورپر ہم کہہ سکتے ہیں کہ بعض چیزوں کو ثبات حاصل ہے اور بعض چیزیں تغیرپذیرہیں۔
اجتہاد کے پس منظر میں ہم دیکھیں گے کہ بعض احکامات اورقوانین ایسے ہی ہیں۔مثال کے طور پر نبی پاکؐ کے زمانے میں ایک خاص طرح کا طرز حکومت تھا۔ آپؐ کے بعد خلافت کا سلسلہ چلا، اس میں تبدیلیاں آتی رہیں، البتہ تبدیلیاں بنیادی اصولوں کی بنا پر آنی چاہئیں۔ مثلاً نظام حکومت میں کوئی بھی تبدیلی ہواس میں عوام کی تائید اورشرکت ضروری ہے۔ سسٹم آف گورنمنٹ، انتظامی امور کو چلانا، ریکارڈ کومحفوظ کرنا ایسی چیزیں ہیں جن میں تبدیلی وقت اورحالات کے ساتھ ساتھ آرہی ہوتی ہے۔ اسی طرح زمینوں کی تقسیم ،ملکیت اور انتظام کے تصور میں بہت ساری تبدیلیاں پیدا ہوئی ہیں۔ وقت کے ساتھ ایسی چیزیں تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔علامہ اقبال نے اجتہاد کے بارے میں اپنے مشہورِ عالم خطبے میں وقت و حالات کی تبدیلی کے ساتھ حکم کی تبدیلی کے امکان ہی کو ثابت کیا ہے۔انھوں نے اجتہاد کے سسٹم کو بھی عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔ انفرادی اجتہاد سے اجتماعی اجتہاد کی عصری تطبیق کے لیے انھوں نے منتخب پارلیمنٹ کے ذریعے اجتہاد کی بات کی ہے۔ ان کے نزدیک اجماع کی عصر حاضر میں یہی ممکنہ صورت ہے۔
رجعت پسند قوتوں کا مقابلہ
اسلامی قانون سازی کے تصور میں ٹائم اینڈ سپیس (زمان ومکان)بنیادی مسئلہ ہے۔ علامہ اقبال نے اسی حوالے سے مسئلہ اجتہاد کو اجاگر کیا ہے۔
آج کی نوجوان نسل کو یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ قانون میں تبدیلی اور تغیر کے وقت بعض قوتیں رجعت پسندی کا شکار ہوجاتی ہیں۔ نوجوانوں کو اس میں ایک بنیادی کردارادا کرنا ہوتا ہے تاکہ معاشرہ جمود کا شکار نہ ہونے پائے۔ اسی پس منظر میں علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے :
آئینِ نو سے ڈرنا طرزِ کہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
تہذیب کے مظاہر تبدیل ہوتے رہتے ہیں لیکن دوسری طرف جمود زدہ اذہان کی طرف سے ان کے خلاف ردعمل بھی سامنے آتا رہتا ہے۔ یہ مرحلہ واقعی کٹھن ہوتا ہے، ایسے میں بوسیدہ مظاہر کے بجائے جدید مظاہر کے مطابق اپنے دور کو تعمیر کرنا نہایت ضروری ہوتا ہے۔ ایسے مواقع پر جو قومیں بروقت فیصلہ نہیں کرتیں پیچھے رہ جاتی ہیں۔ تاریخ کے قافلوں کے تیز رفتار سفر کی وجہ سے گاہے پامال بھی ہو جاتی ہیں۔
والدین تبدیل شدہ حقائق کو قبول کریں
والدین کو بھی معلوم ہوناچاہیے کہ ان کے اوربچوں کے زمانے میں فرق ہے۔ یہ تبدیلی ارتقا کی طرف ہے۔ہمارے نوجوان اگر بعض کام ایسے کرتے ہیں جو ہماری بنیادی اورانسانی اقدار کے خلاف نہیں ہیں تو انھیں کرنے دیے جائیں، خواہ مخواہ کے اعتراضات نہیں کرنے چاہئیں۔ مثلاً وہ کپڑے کس طرح کے پہنتے ہیں، کپڑوں کا رنگ کس طرح کا اختیار کرتے ہیں، موسیقی میں ان کے نئے رجحانات کیا آرہے ہیں یا لٹریچر میں وہ کیا نئی چیزیں پسند کرتے ہیں۔ ان امورمیں اسلام کے بنیادی اخلاقی اور سماجی اقدارکی نفی نہ ہو تو بزرگوں کو چاہیے کہ وہ ان تبدیلیوں کو ارتقا یامزاجوں کی تغیر پسندی کے پس منظر میں قبول کرلیں۔
اقبال کی جوانوں سے امیدیں
علامہ اقبال کی ساری امیدیں نوجوانوں سے وابستہ نظر آتی ہیں۔ ان کا شاہین کا تصور بڑا واضح ہے۔ انھوں نے اپنے بیٹے جاوید کے نام جو نظمیں لکھی ہیں درحقیقت ان میں نوجوان نسل کے لئے ایک اجتماعی پیغام ہے۔ وہ جوانوں کے لئے دعا کرتے ہیں:
جوانوں کو مری آہ سحر دے
پھر ان شاہیں بچوں کو بال و پر دے
خدایا! آرزو میری یہی ہے
مرا نور بصیرت عام کر دے
اسی طرح انھوں نے کہا ہے:
محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
مجموعی طور پر دیکھا جائے توعلامہ اقبال نوجوان نسل کوجمودکے دور سے نکل کرآگے بڑھنے کے لیے انگیخت کرتے ہیں۔ علامہ اقبال نے اپنے زمانے کے جمود کا ذکرکرتے ہوئے نوجوان نسل کو تبدیلی اورارتقا میں اپنا کردار ادا کرنے کی طرف راغب کیا ہے۔مغرب میں آنے والی تیز رفتار تبدیلیوں اور اپنے ہاں کے جمہورپروہ یوں اظہار رنج کرتے ہیں:
وہاں دگر گوں ہے لحظہ لحظہ
یہاں بدلتا نہیں زمانہ
حقیقت یہ ہے کہ نئے معرکوں کی سکت جوانوں میں ہی ہوتی ہے وہی جرأت رندانہ کا مظاہرہ کر سکتے ہیں۔ وہ تبدیلی کو نسبتاً جلد قبول کرتے ہیں۔
علامہ اقبال کی شاعری میں ہمیں اس بات کا بڑا واضح پیغام ملتا ہے کہ انسان مادی علم کی حدوں سے نکل کر چیزوں کی معنویت اورروحانیت پر بھی غور کرے۔ وہ کہتے ہیں:
نہیں تیرا نشیمن قصرِ سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں
یا مثلاً وہ کہتے ہیں:
تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا
ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں
وہ یہ بھی کہتے ہیں:
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
کرگس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور
جو لوگ مادی مقاصد کے لیے علم حاصل کرتے ہیں وہ کرگس بن کر رہ جاتے ہیں۔ ان کی ساری ہمتیں بازاری چیزوں کے حصول کے لیے ہوتی ہیں۔ وہ انہی پر جھپٹتے رہتے ہیں جبکہ شاہین پست پروازنہیں ہوتا، بلند پرواز ہوتا ہے ،اس کی نگاہ میں بڑی تیزی ہوتی ہے۔ علامہ اقبال کے نزدیک یہ چیزیں ترقی اورارتقا کی علامت ہیں۔ وہ کہتے ہیں:
اے طائرِ لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
اقبال کا شاہیں ایسا رزق قبول نہیں کرتا جس سے پرواز میں کوتاہی آتی ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ ایسی امیدیں مت لگائیں، ایسی امداد مت قبول کریں جوآپ کی پرواز کو کوتاہ کردے۔جدید عالمی معاشی نظام قوموں سے آزادئ فکر وعمل چھین لیتا ہے۔ اس نظام معیشت کے پیچھے کائنات اور انسان کا ناقص فہم ہے۔ اگر ’’طائر لاہوتی‘‘ کے استعارے کو پیش نظر رکھا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ اقبال جس بلند پروازی کا پیغام دیتے ہیں وہ بلند اخلاقی اصولوں پر استوار معاشی نظام کا بھی متقاضی ہے۔
اقبال کا تصور تعلیم بھی ارتقا پسندانہ اورجامع ہے۔اقبال کا خودی کا فلسفہ انسان کی اسی جامع شناخت سے جڑا ہوا ہے۔
کائنات میں انسان کی حیثیت
میں کون ہوں؟مجھے کیا کرنا چاہیے؟کیا نہیں کرنا چاہیے؟انسان کو اپنے آپ سے یہ سوالات ضرور کرنا چاہئیں۔
قرآن مجید میں کہا گیا ہے کہ انسان تخلیق ہوئی تو فرشتوں کو اس کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا لیکن شیطان ابلیس نے انکار کردیا۔جنت کے لیے پیدا ہونے والا انسان جب شیطان ابلیس کی گمراہی کا شکار ہوا تو اپنے مقام سے گر گیا۔ اسے پھر اٹھنے کے لیے اللہ پاک نے توبہ کے مواقع دیے ۔اس نے انسان سے کہا کہ گمراہ کرنے والے عناصر سے ہوشیار رہو، یہ عناصر تمھاری جنت میں داخل ہوسکتے ہیں ، تمھیں ان سے خبرداررہنے کی ضرورت ہے۔ علامہ اقبال نے آدم کی کہانی کے پس منظر میں انسان کے مقام کی اہمیت کو بڑی خوبصورتی سے نظم بند کیا ہے ۔اسی کو پہچاننا اور سمجھنا ادراکِ مقام خودی ہے۔ یعنی جب انسان یہ سمجھنے لگتا ہے کہ میرا یہ مقام ہے کہ میں مسجود ملائک ہوں، اللہ تعالیٰ نے زمین پرمجھے اپنا خلیفہ مقرر کیا ہے تو وہ اپنے مقام کی حفاظت کرتا ہے۔ علامہ اقبال نے اس حوالے کہا ہے:
نہ تو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے
جہاں ہے تیرے لیے تو نہیں جہاں کے لیے
جب اللہ پاک نے زمین و آسمان،چاند،ستارے سب کچھ انسان کے لیے مسخرکردیا اورقرآن میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ یہ سب چیزیں انسان کے لیے پیدا ہوئی ہیں تو پھر انسان کو ان پر فریفتہ نہیں ہوناچاہیے بلکہ اپنی حیثیت اوراپنے مقام کا ادراک کرتے ہوئے عرفانِ خودی کی منزل حاصل کرنا چاہیے۔
اب جب انسان اس زمین پر آگیا ہے تو اسے اپنی تخلیق کے مقاصد کے حصول کے لیے نیا سفر درپیش ہے چونکہ وہ بنیادی طورپر روح الٰہی کا امین ہے اس لیے اسے بلند پروازی ہی کا راستہ اختیار کرنا ہے۔ انسان کے اندر اسی بلند پروازی کے جذبے کو اقبال نے یوں بیان کیا ہے:
عروجِ آدمِ خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہِ کامل نہ بن جائے
ایک اور شعر دیکھیے:
باغِ بہشت سے مجھے حکمِ سفر دیا تھا کیوں
کارِ جہاں دراز ہے اب میرا انتظار کر
یہ نظم تو پوری کی پوری بلند پروازی اور دعوت جرأت و ہمت سے عبارت ہے۔
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
تہی، زندگی سے نہیں یہ فضائیں
یہاں سینکڑوں کارواں اور بھی ہیں
قناعت نہ کر عالم رنگ و بو پر
چمن اور بھی آشیاں اور بھی ہیں
اگر کھو گیا اک نشیمن تو کیا غم
مقامات آہ و فغاں اور بھی ہیں
تو شاہیں ہے ، پرواز ہے کام تیرا
ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں
اسی روز و شب میں الجھ کر نہ رہ جا
کہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ہیں
گئے دن کہ تنہا تھا میں انجمن میں
یہاں اب مرے رازداں اور بھی ہیں
اقبال کی انفرادیت
دنیا میں ایسے شعراء کم نظر آتے ہیں کہ جن کی فکر نے مشرق و مغرب کو یوں متاثر کیا ہو جیسے اقبال نے کیا ہے۔ پاکستان جیسی ریاست کے لیے انھیں مصور پاکستان کہا جاتا ہے۔ ایرانیوں کا دعویٰ ہے کہ ان کا انقلاب فکر اقبال کا مرہون منت ہے۔ اقبال کو پیامبر مشرق کہا جاتا ہے جنھوں نے مغرب کے گوئٹے کے پیغام کے جواب میں پیام مشرق کو نظم بند کیا۔ دنیا کی کئی زندہ زبانوں میں ان کے منثور اور منظوم تراجم ہو چکے ہیں۔ عربی، ایرانی اور اردو زبانوں میں ان کے نغموں کی گونج ہر سو آج بھی سنائی دیتی ہے۔
علامہ محمد اقبال کا کلام ہمارے کورس میں اگرچہ کسی حد تک موجود ہے لیکن ایک ایسا مجموعی رنگ نہیں ہے جیسا ہونا چاہیے تھا۔ہم پر اقبال کا بہت حق ہے، ہمیں اس حق کو ادا کرنا ہے۔ یہ حق اقبال کی شناخت کے بغیر ممکن نہیں ۔ہمیں اپنی نوجوان نسل تک اقبال کا پیغام پہنچانا ہوگا ۔اس کے لیے سنجیدگی کے مظاہرے کی ضرورت ہے ہر سطح پر نصاب میں اقبال شناسی کا ایک حصہ شامل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اپنے مستقبل کو تابناک اورمحفوظ بنایا جاسکے ۔
اقبال سرحدوں سے ماورا
اقبال ایک عالمی سرمائے کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ہم اگر ان سے محروم رہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کا پیغام دنیا کی کسی دوسری قوم کے لیے تحرک بخش نہیں ہوسکتا۔آج بھی اقبال کا پیغامِ حرکت و انقلاب کا باعث بننے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔دنیا بھر میں آج بھی علامہ اقبال سے روشنی حاصل کرنے والے لوگ، ممالک اوردانشور موجود ہیں لیکن پاکستان میں اس حوالے سے صورت حال افسوس ناک ہے۔خاص طور پر اس حوالے سے کہ ہم رجعت پسند قوتوں اور افراد کے زیر اثر اپنا بہت سا نقصان کر چکے ہیں۔ ہمیں ترقی و ارتقاء کے پیامبر شعراء، ادباء اور مفکرین کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت ہے۔ اقبال یقینی طور پر جن میں بہت نمایاں ہیں۔
فیس بک پر تبصرے