محمد عامر رانا تجزیات کے مدیر اور اسلام آباد میں قائم معروف تحقیقی ادارے پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیزکے بانی ڈائریکٹر ہیں ۔علاقائی اور عالمی سطح پر شدت پسندی کی تحریکوں کی بدلتی حرکیات پر ان کی خاص نظر ہے اس حوالے سے نہ صرف عالمی سطح پر کئی کانفرنسوں میں نمائندگی کر چکے ہیں بلکہ ان کا شمار انسدادِ شدت پسندی کے چنیدہ ماہرین میں کیا جاتا ہے۔ کئی کتابیں اور تحقیقی مقالہ جات ،پاکستان اور پاکستان سے باہر ان کا ایک معتبر حوالہ ہیں ۔ان کی کتاب” ”The Militantپر انہیں 2016ء میں جرمن پیس پرائز سے نوازا گیا ۔عامر رانا پاکستان اور پاکستان سے باہر کئی یونیورسٹیوں اور تحقیقی اداروں کے فیلو اور ایڈوائزری بورڈزکے ممبر بھی ہیں ۔آپ پاکستان کے مؤقر انگریزی اخبار ڈان کے مستقل کالم نگارہیں ۔اس کے علاوہ آپ انگریزی جریدے Conflict and Peace Studiesکے بھی مدیر ہیں۔ان کا زیر نظر مضمون تحریک لبیک پاکستان کے قائد مولانا خادم حسین رضوی کا پروفائل ہے جس میں مولانا کی اٹھان کا پس منظر اور پیش منظر بھی دیا گیا ہے۔(مدیر معاون)
بظاہرخادم حسین رضوی میں ایک عوامی رہنما کی تمام تر علامات پائی جاتی ہیں تاہم جس طرح انہوں نے سیاسی قوت کے حصول کے لیے’’مذہبی طور پر بدعنوان‘‘ مقتدر اشرافیہ کے خلاف آواز بلند کی اور نچلے متوسط طبقے کے جذبات کو برانگیختہ کیا ہے، اس سے وہ ایک انتہائی جذباتی مقرر کے طور پر سامنے آئے ہیں۔
ان کا غرور یک گونہ خود اعتمادی میں بدلا اورانہوں نے اپنے تحریکی سفر کی نئی منزلوں کے حصول کے لیے کسی بھی طرح کی حد عبور کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔علامہ خادم حسین رضوی یا پھر باباجی جیسا کہ وہ اپنے معتقدین میں مشہور ہیں ،نہ صرف بریلویوں پر اثر انداز ہو رہے تھے بلکہ انہوں نے روحانی و طبعی طور پر انتہائی متحرک نئی شدت پسند نوجوان نسل کو بھی پروان چڑھایا۔ان کو جنوری 2016ء اس وقت شہرت حاصل ہوئی جب لاہور میں ان کی زیرِ قیادت جلوس کو پولیس کی جانب سے لاٹھی چارج اور تشدد کے ذریعے روکنے کی کوشش کی گئی۔ ذرائع ابلاغ پر اس واقعے کی بہت زیادہ تشہیر ان کے لیے عوامی ہمدردی کی لہر کے جنم لینے کا موجب بنی۔ اس سے پیشتروہ نہ صرف اپنی توانائیاں ختمِ نبوت کے لیے وقف کردینے کے حوالے سے مشہور تھے بلکہ داتا دربار کی مسجد میں ایامِ امامت کے دوران وہ ملک میں توہینِ مذہب کے قوانین کے پر جوش حامی کے طور پر بھی اپنی پہچان بنا چکے تھے۔یہی وجہ ہے کہ ان کی جانب سے پر جوش عوامی احتجاجی تحریک کا آغاز بریلوی علما کے لیے حیرت و استعجاب کا باعث نہیں بنا ۔نومبر2018 ء میں آسیہ بی بی کی بریت کے خلاف ان کا دھرنا ان کی اب تک کی جدوجہد کا نقطہِ عروج تھا۔
علامہ خادم حسین رضوی کی عقیدت کا دوسرا محور بریلوی مسلک کے بانی امام احمد رضا خان بریلوی کی ذات ہے اور اسی لیے انہوں نے اپنے نام کے ساتھ ’’رضوی‘‘ کا لاحقہ جوڑرکھا ہے۔اس لاحقے کی بنا پر ایک عمومی تاثر یہ بھی ابھرتا ہے کہ وہ سید ہیں، تاہم ایسا نہیں ہے بلکہ یہ لاحقہ ان کے نسب کی بجائے امام احمد رضا خان بریلوی سے ان کی نسبت کا اظہار ہے اوریہی نسبت داتا دربار سے منسلک مسجد میں بطور امام ان کی تعیناتی کا سبب بنی۔تعیناتی کمیٹی کے ارکان کے پیشِ نظر اس وقت یہی بات ہوگی کہ وہ کسی سیاسی تحریک سے وابستہ ہیں نہ کسی مذہبی سیاسی گروہ سے ان کا کوئی ناطہ تعلق ہے۔ ختمِ نبوت کے مشن سے وابستگی اور امام احمد رضا سے نسبت ان کی سیاسی و مذہبی پہچان کے لیے کافی تھی۔چونکہ یہ مسجد محکمہ اوقاف کے زیرِ اہتمام تھی اور خادم حسین رضوی یہاں حکومت کی جانب سے امام تعینات کیے گئے تھے، لہٰذاکسی دوسرے مسلک اور بالخصوص ریاست کے خلاف اشتعال انگیز بیان بازی کے مجاز نہیں تھے۔ چنانچہ وہ اپنے خطبات میں محتاط تھے۔ تاہم آسیہ بی بی کی حمایت کے سبب اپنے ہی محافظ ممتاز قادری کے ہاتھوں قتل ہونے والے گورنر پنجاب سلمان تاثیر کی نمازِ جنازہ کی امامت کے لیے جب خادم حسین رضوی سے کہا گیا تو انہوں نے مقتول گورنر کی نمازِ جنازہ پڑھانے سے انکار کردیا۔ یہ واقعہ ان کی زندگی میں ایک ہمہ گیر تبدیلی کا موجب بنا اور انہوں نے اہانتِ مذہب سے متعلق قوانین کے دفاع میں نئی تنظیم کی بنیاد ڈالنے کافیصلہ کیا۔
گزشتہ تین برسوں کے دوران وہ ملک کے مذہبی و سیاسی منظر نامے پر چھائے رہے ہیں۔ انہوں نے انتہائی کامیابی کے ساتھ بریلویوں میں اپنے مخالف مکتبِ فکر، دیوبند کے مقابلے میں مسلکی مظلومیت کے احساسات کو ابھارا جس کا مقصد بریلوی اسلام کو قوت عطا کرنا تھا، جس کی پہچان رسولِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بے انتہا عقیدت اور مسلکی رواداری کی روایت ہے جو ملک میں غالب دیوبندی مکتبِ فکر کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے اور جو سعودی عرب سمیت دیگر عرب خلیجی ممالک کی غیر معمولی حمایت کے نتیجے میں عوضی مجاہدین کے طور پر منتخب کیے جانیکے بعدقوت پکڑرہا ہے۔مظلومیت کا یہ خودساختہ احساس گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قاتل ممتاز قادری کی پھانسی کے بعد مزید گہرا ہوگیا۔ممتاز قادری کی پھانسی کے بعد کئی بریلوی تنظیموں نے اس واقعے اور توہینِ مذہب سے متعلقہ مسائل کو مذہبی و سیاسی طاقت کے حصول کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی تاہم خادم حسین رضوی کی تحریکِ لبیک اس دوڑ میں کامیاب رہی۔
چند ایک لوگوں کا دعویٰ ہے کہ تحریکِ لبیک کچھ جذباتی مذہبی رہنماؤں کا گروہ ہے جو کئی برسوں سے معجزانہ کامیابی کے لیے گھات لگائے بیٹھے تھے۔دلچسپی کی بات یہ ہے کہ جہاں ایک طرف خادم حسین رضوی بریلوی مکتبِ فکر کی توانا آواز بن کر ابھرے اور انہوں نے بریلوی عوام میں اپنی کامیابی کی امید اور حوصلے بڑھائے ہیں وہیں انہوں نے بریلوی مسلک کی طاقتی ساختیات پر بھی کاری ضرب لگائی ہے۔بریلوی مکتبِ فکر دو واضح طبقات میں تقسیم ہے؛ ایک طرف مشائخ یا مزارات کے گدی نشین ہیں جنہیں سیاسی طاقت میسر ہے اور مزارات کی آمدن ان کے زیرِ تصرف ہے جبکہ دوسری طرف مساجد کے ائمہ و خطبا اور اساتذہ مدارس ہیں جنہیں اس طرح کی کوئی سیاسی قوت میسر ہے نہ ہی ذرائع آمدن اور یہ بریلوی مکتبِ فکر کے مذہبی و روحانی نظم کی نظر انداز کی گئی اکائی ہیں۔ طبقہ ثانی میں بے توقیری کے اس احساس نے گذشتہ چند دہائیوں میں جنم لیا ہے۔پنڈی گھیپ کے ایک گاؤں سے تعلق رکھنے والے عام مولوی خادم حسین رضوی نے مشائخ کی قوت و ہیبت کو للکارتے ہوئے بریلوی علما کو تحریکِ لبیک پاکستان کے جھنڈے تلے مجتمع کیا ۔
جنوری 2018ء میں سیال شریف سرگودھا کے گدی نشین اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کی گذشتہ حکومت کا حصہ رہنے والے پیر حمید الدین سیالوی نے پنجاب کے سابق وزیرِ قانون رانا ثناء اللہ پرتوہینِ رسالت کا الزام عائد کرتے ہوئے ان کی معزولی اور ملک میں نفاذِ شریعت کے لیے ہڑتال اور احتجاج کا اعلان کردیا۔ ان کی اس پیش قدمی کو تجزیہ کاروں نے مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے خلاف محاذ سے تعبیر کیا تاہم بیشتر بریلوی علما کے نزدیک یہ دراصل خادم حسین رضوی کی حالیہ تحریکی اٹھان کا ردِ عمل تھا۔ان کا کہنا تھا کہ مشائخ خادم حسین رضوی کو اپنی سیاسی بقا کے لیے خطرہ سمجھ رہے تھے اور ان کا غصہ اس وقت انتہا کو چھونے لگا جب ان کو ملنے والے عطیات کا رخ خادم حسین رضوی کی طرف ہونے لگا اور ان کی جماعت تحریکِ لبیک کی جانب سے سیاسی عزائم کا اظہار سامنے آیا۔
پنجاب اور ملک بھر کے شہری علاقوں کے نچلے متوسط طبقے کے سماجی و معاشی مسائل سے جڑا مذہبی بیانیہ خادم حسین رضوی کی اصل طاقت بنا۔ان کے معتقدین انہیں ’’باباجی‘‘ کہنے لگے جو انہیں جاگیرداروں کے خلاف کھڑے ہوجانے والے ’’مولا جٹ‘‘ جیساطلسماتی کردار سمجھتے ہیں۔ ’’مولا جٹ‘‘ کایہ مذہبی و سماجی اظہار اوراس کی جانب سے اہلِ طاقت کو للکارنا سماجی ، مذہبی اور معاشی استحصال کا شکار عام آدمی کے زخموں پر مرہم کی مانند تھا۔
آج کل وہ دہشت گردی و بغاوت کے جرم میں گرفتار ہیں اور ان کی جماعت ان کی گرفتار ی کے خلاف کوئی نمایاں احتجاج کرنے میں ناکام رہی ہے۔ بیشتر تجزیہ کار اس کی وجہ تحریکِ لبیک کے کمزور تنظیمی ڈھانچے کو قرار دیتے ہیں جبکہ چند بریلوی علما کا خیال ہے کہ پنجاب میں کسی رہنما کے بغیر تحریکی روایت کاکوئی وجود نہیں ہے۔ یہاں عوام کو متحرک کرنے کے لیے کسی رہنما کی ضرورت موجود رہتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ تحریکِ لبیک اپنے قائد کی گرفتاری کے خلاف کوئی نمایاں احتجاج کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔
فیس بک پر تبصرے