میں ہوں نجود، دس سال عمر اور مطلقہ ( قسط اوّل)
مصنف:نجود علی،ڈلفن مینوئے, ترجمہ:عاطف ہاشمی
نجود علی یمن سے تعلق رکھنے والی ایک بچی ہے جس کی شادی اس کے بچپن میں کسی ادھیڑ عمر شخص سے کردی جاتی ہے جو بجائے خود ایک ظلم ہے مگر اس پر مستزاد یہ کہ اس کو شوہر کی جانب سے کام کاج اور دیگر امورِ خانہ داری سے ساسس سسر کی خدمت تک کی سبھی ذمہ داریوں کا بوجھ ڈال دیا جاتا ہے۔ مزید یکہ اس پر ظلم و زیادتی اور تشدد کو بھی روا رکھا جاتا ہے۔ اس ظلم و نجبر سے نجات کے لیے گھر سے نکلنے اور طلاق لینے میں کامیابی تک کے مراحل کو آپ بیتی کی صورت میں ایرانی نژاد فرانسیسی صحافی اور مصنفہ ڈلفن مینوئے (Delphine Minoui)نے”I’m Nujood: Age 10 and Divorced” کے نام سے تحریر کیا ہے۔ نجود علی جبری اورکم عمری کے خلاف مزاحمت کی علامت سمجھی جاتی ہیں اوران کی آپ بیتی کااب تک تیس سے زائد زبانوں میں ترجمہ کیا جاچکا ہے۔اردو میں اس کتاب کا ابھی تک کوئی ترجمہ سامنے نہیں آیا۔ ہمارے سماج میں بھی جبری و کم عمری کی شادی اور گھریلو تشددایک المیے کی صورت موجود ہے۔ ایک باہمت کم عمر لڑکی کی آپ بیتی یقیناًہمارے ذہنوں کو ضرور جھنجھوڑے گی۔ سہ ماہی تجزیات اس کتاب کا اردو ترجمہ قسط وار شائع کرنے کا ارادہ رکھتاہے جس کی پہلی قسط آپ کی خدمت میں پیش کی جارہی ہے۔ (مدیر)
عدالت میں
2 اپریل 2008
میرا سر چکرانے لگ گیا تھا ،کیونکہ میں نے اپنی زندگی میں کبھی بھی لوگوں کا اتنا ہجوم نہیں دیکھا تھا۔عدالت کی مرکزی عمارت کی طرف جانے والے صحن میں لوگوں کا جم غفیر ہر سمت رواں دواں تھا۔کچھ لوگ شرٹ اورنکٹائی پہنے اپنی بغلوں میں زنگ آلود فائلوں کے پلندے دبائے چل رہے تھے اور کچھ لوگوں نے زنہ نامی روایتی لمبا چوغہ پہن رکھا تھا جو یمن کے شمال میں آباد دیہاتوں کے لوگ پہنتے ہیں۔
ایک طرف کچھ عورتوں کا جمگٹھا تھا جہاں سے ناقابل فہم چیخ و پکار اور سسکیاں سنائی دے رہی تھیں، اور میں یہ تمنا کر رہی تھی کہ میں ان کے ہونٹوں کو پڑھ کر وہ سب سمجھ سکوں جو وہ کہنا چاہ رہی ہیں لیکن لمبے سیاہ کپڑوں سے کیے گئے نقاب کی وجہ سے ان کے چہرے میں سے صرف ان کی گول آنکھیں ہی دکھائی دیتی تھیں جن پر اس طرح غصے کے آثار ظاہر ہو رہے تھے جیسے ابھی کسی طوفانِ گرد وباد نے ان کے گھروں کو اکھاڑ دیا ہو۔
میں نے ان کی طرف کان لگائے تو ان کی باتوں میں سے صرف چند الفاظ ہی اچک سکی: (بچوں کا تحفظ) (انصاف) (انسانی حقوق)۔۔۔لیکن مجھے ان کے مفہوم کا کچھ پتا نہیں تھا۔میری جانب ایک دیوقامت چوڑے کندھوں والا شخص کھڑا تھا جس کی پگڑی اس کی کنپٹی تک پھیلی ہوئی تھی،اس نے اپنے ہاتھ میں دستاویزات سے بھرا ہوا پلاسٹک کا ایک بیگ اٹھایا ہوا تھا،اور جو جو سننا چاہتا اسے بتاتا کہ وہ اپنی قبضہ شدہ جائیداد واپس لینے آیا ہے۔اف! یہ بھاری بھرکم شخص تو پوری طاقت سے اس خرگوش کی طرح اچھل رہا تھا جو راستے سے بھٹک گیا ہو، اور قریب تھا کہ پوری قوت کے ساتھ میرے ساتھ ٹکرا جائے۔
سب کچھ نہایت ہی بے ہنگم تھا،جسے دیکھ کر مجھے(یمن کے دارالحکومت) صنعاء کے وسط میں واقع وہ کھلا میدان یاد آگیا جس میں بے روزگار مزدور بیٹھے ہوتے ہیں،میرے ابو اکثر اس میدا ن کا ذکر کرتے ہیں کہ ان میں سے ہر شخص کو اپنی ہی فکر ہوتی ہے کہ کسی طرح اذان فجر سے تھوڑی دیر بعد سورج کی کرنیں زمین پر پڑنے سے پہلے ہی ا سے دن بھر کے لیے کوئی کام مل جائے۔بھوک کے مارے ان لوگوں کی حالت یہ ہو گئی ہے کہ ان کے دل پتھر ہو چکے ہیں،کسی کے پاس فرصت نہیں کہ دوسروں پر رحم کھائے۔لیکن اس کے باوجود میں یہ چاہ رہی تھی کہ کوئی میرا ہاتھ تھامے یا مجھ پر شفقت کی نگاہ ڈالے تاکہ میں اپنی بات چاہے ایک ہی مرتبہ سناوں مگر کسی کو سنا سکوں۔
میرا قد حقیقت میں اتنا تھا کہ گویا میں نظر ہی نہ آتی تھی،مجھ پر کسی کی نظر نہ پڑتی تھی،میں ان سب کے مقابلے میں بہت چھوٹی تھی،ان کے پہلو تک بھی نہیں پہنچتی تھی،کیونکہ میری عمر دس سال تھی، یا اس سے بھی کم تھی،کون جانتا ہے؟
میں نے عدالت کے بارے میں ایک الگ تصور قائم کیا ہوا تھا کہ یہ ایک پرسکون اور صاف ستھری جگہ ہو گی،اور یہ بدی کے مقابلے میں خیرو بھلائی کی مرکزی جگہ ہوگی جہاں دنیا کی ہر مشکل کا حل ملنے کا امکان ہو۔میں نے پڑوسیوں کے گھر میں ٹی وی پر لمبے چوغوں میں ججوں کو دیکھ رکھا تھااور ان کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ یہی وہ لوگ ہیں جو ضرورت مند کی مدد کر سکتے ہیں۔اس لیے مجھے انہیں میں سے کسی کی تلاش تھی تاکہ میں اسے اپنا دکھڑا سنا سکوں۔
میں تھکن سے چور ہو چکی تھی اور نقاب میں مجھے گرمی لگ رہی تھی،میں سہمی ہوئی تھی اور میرا سر بھی درد کر رہا تھا۔میرے دل میں اس طرح کی باتیں چل رہی تھیں کہ کیا مجھ میں آگے بڑھنے کی ہمت ہے؟
بالکل نہیں۔
ہاں۔
شاید۔
زیادہ مشقت گزر چکی ہے۔
اب مجھے آگے بڑھنا ہے۔
میں آج صبح جب اپنے گھر سے نکل رہی تھی تو یہ عہد کر کے نکلی تھی کہ جو میں چاہتی ہوں وہ اب حاصل کر کے ہی لوٹوں گی۔گھڑی پر ٹھیک دس بج رہے تھے۔
جاو اور ناشتے کے لیے نان لے آو، میری ماں نے مجھے 150 ریال تھماتے ہوئے کہا۔
میں فورا اٹھی اور غیرشعوری طور پر میں نے اسکارف کے اندر اپنے بھورے رنگ کے لمبے گھنگھریالے بالوں کی چٹیا کی اور اپنے جسم کو لمبے گاؤن(یمنی عورتوں کا گھر سے نکلتے وقت کا لباس)سے ڈھانپا۔میں چند میٹر پیدل چلی اور مارے خوف کے کانپ رہی تھی، جھٹ سے شہر کی طرف جانے والی پہلی ہی منی بس پر سوار ہو گئی، اسٹیشن پر اتری اور اپنے خوف پر قابو پاتے ہوئے زندگی میں پہلی مرتبہ پیلی ٹیکسی میں سوار ہو گئی۔
عدالت کے صحن میں انتظار لمبا ہو گیا،میں کس کے پاس جاوں؟ اچانک لوگوں کے ہجوم میں مجھے غیرمتوقع طور پرکچھ پرکشش چہرے نظر آئے،سفید سیمنٹ سے بنی بڑی عمارت کے دروازے کی طرف جانے والی سیڑھیوں پر بیٹھے تین لڑکے جنہوں نے پلاسٹک کے سینڈل پہنے ہوئے تھے مجھے سر سے پاؤں تک گھور رہے تھے،ان کے چہرے گرد وغبار سے سیاہ ہو چکے تھے،انہیں دیکھ کر مجھے اپنے چھوٹے بھائی یاد آ گئے۔
دس ریالوں کے عوض اپنا وزن معلوم کریں، ان میں سے ایک نے میری طرف پرانی ڈنڈی والی ترازو بڑھاتے ہوئے آواز لگائی۔
چائے پی کر اپنی پیاس بجھائیں،دوسرے لڑکے نے چائے کی پیالیوں سے بھری ٹوکری دکھاتے ہوئے پیش کش کی۔
گاجر کا تازہ جوس،تیسرے نے اس امید کے ساتھ کہ شاید اسے دو چار پیسے مل جائیں میری طرف خوبصورت مسکراہٹ بکھیرتے ہوئے اور دایاں ہاتھ آگے بڑھاتے ہوئے کہا۔
نہیں، شکریہ۔ مجھے پیاس نہیں ہے اور نہ ہی مجھے اپنا وزن جاننے سے کوئی غرض ہے۔انہیں کیا خبر کہ مجھے یہاں کیا چیز لائی؟
میں نے دوبارہ سر اٹھایا،میری بس ہو چکی تھی۔میں ان بڑے آدمیوں کی طرف چل دی جو میرے اردگرد چل رہے تھے۔کیونکہ عورتیں تو اپنے لمبے برقعوں کی وجہ سے ایک جیسی ہی لگ رہی تھیں۔میں سوچ رہی تھی کہ یہ میں نے اپنے آپ کو کس مصیبت میں ڈال دیا ہے؟ اسی اثنا میں مجھے دور سے سفیدچوغے اور کالی شرٹ میں ملبوس ایک شخص نظر آیا جو میری طرف ہی بڑھ رہا تھا۔شاید وہ کوئی جج ہو۔۔۔ یا پھر کوئی وکیل؟ میرے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا کہ اپنی قسمت آزماؤں۔
معاف کیجے گا جناب! میں جج صاحب سے ملنا چاہتی ہوں۔
جج؟۔۔۔ اس طرف چلی جائیں،سیڑھیوں سے آگے، دوبارہ بھیڑ میں گم ہونے سے پہلے اس نے مجھ پر حیر ت بھری نظر ڈالتے ہوئے جواب دیا۔
اب میرے پاس اور کوئی آپشن نہیں بچا تھا، مجھے اس سیڑھی کی طرف بڑھنا تھا جو بالکل میرے سامنے تھی۔ مصیبت سے جان چھڑانے کا یہ میرے پاس پہلا اور آخری موقع تھا۔مجھے اپنی پراگندگی کاحساس تھا۔ اس کے باوجود مجھے ان سیڑھیوں پر چڑھنا تھا تاکہ میں جاکر اپنی کہانی سنا سکوں۔میں اس انسانی بھیڑ کو پار کرنے کی غرض سے آگے بڑھی لیکن جوں جوں مرکزی دوازہ قریب آتا گیا اس بھیڑ میں بھی اضافہ ہوتا گیا،یہاں تک کہ میں گرتے گرتے بچی،میں نے خود پر قابو پایا، زیادہ رونے کی وجہ سے میری آنکھیں خشک ہو چکی تھیں اور میرا عزم ڈگمگا رہا تھا۔یہاں تک کہ مجھے اپنی ٹانگوں کا وزن اس وقت محسوس ہوا جب میرے پاؤں مرمر کے فرش پر لگے۔
اب مجھے قطعاً ہمت نہیں ہارنی چاہیے،بالکل بھی نہیں۔
ہسپتالوں کی دیواروں کی طرح یہاں بھی مجھے سفید دیواروں پر عربی عبارتیں لکھی ہوئی نظر آئیں جنہیں میں پوری کوشش کے باوجود نہیں پڑھ سکی۔ مجھے دوسری کلاس کے بعد زبردستی پڑھائی چھڑوا دی گئی تھی۔بعینہ اسی وقت جب میری زندگی ایک ڈراؤنے خواب میں تبدیل ہونے جا رہی تھی۔ مجھے لکھنے میں بھی اپنے نام نجود کے علاوہ کچھ زیادہ لکھنا نہیں آتا۔اس لیے مجھے پڑھنے میں بڑی دقت محسوس ہوئی۔ادھر ادھر دیکھتے ہوئے میری نظر زیتونی سبز وردی میں ملبوس لوگوں پر پڑی جن کے سروں پر عسکری ٹوپیاں تھیں،یقینی طور پر یہ پولیس والے تھے یا پھر فوجی جوان، ان سب نے اپنے سینوں پر کلاشنکوف لٹکائی ہوئی تھی۔
میں ڈر گئی، اس بات کا امکان تھا کہ وہ مجھے دیکھ کر روک دیں کیونکہ چھوٹی بچی کا گھر سے بھاگنا ناپسندیدہ فعل ہے۔میں ڈرتے ڈرتے اپنے پاس سے برقعے میں گزرنے والی عورت کے ساتھ ہو گئی،اس امید کے ساتھ کہ اس برقعے میں جانے والی اجنبی عورت میری طرف دیکھ کر کہے گی: چلو نجود۔
مجھے میرے اندر سے ایک صدا سنائی دی: تم بچی ہو،یہ بات ٹھیک ہے لیکن تم عورت بھی ہو، صحیح معنوں میں عورت،اگرچہ تمہیں یہ بات قبول کرنے میں دقت ہو رہی ہے۔
میں جج صاحب سے ملنا چاہتی ہوں۔
مجھے اس عورت نے بڑی بڑی سیاہ آنکھوں سے گھور کر دیکھا، اس نے مجھے گزرتے ہوئے اپنے ساتھ نہیں دیکھا تھا۔
کیا؟
مجھے جج سے بات کرنی ہے۔
کیا یہ عورت بھی دوسروں کی طرح جان بوجھ کر مجھے سمجھنا نہیں چاہتی؟
کس جج کی بات کر رہی ہو تم؟
مجھے بس جج سے بات کرنی ہے۔
لیکن اس عدالت میں تو بہت سے ججز ہیں۔۔۔
مجھے جج کے پاس لے چلیں،کسی بھی جج کے پاس۔
وہ خاموش ہو گئی،اسے میرے حلیے نے خوف میں مبتلاکر دیا تھا۔لیکن میری معمولی مگر تند چیخ نے اس کا دل موم کر دیا تھا۔
میں شہر میں رہنے والی عام سی دیہاتی لڑکی ہوں،میں نے ہمیشہ خاندان کے مردوں کی بات مانی،میں نے یہی سیکھ رکھا تھا کہ ہمیشہ ہر بات پر ہاں کہوں،لیکن آج میں نے دل پر پتھر رکھ کراس حال میں ’نہ ‘کرنے کا فیصلہ کیا ہے گویا کہ میں اپنے ساتھ زبردستی کر رہی ہوں۔مجھے عدالت میں پیش ہونے کے لیے تاریخ لینے سے کوئی نہیں روک سکتا، یہ میرے لیے آخری موقع ہے اور میں اتنی آسانی سے ہتھیار ڈالنے والی نہیں۔
ہال میں عجیب طرح سے بلند ہونے والی میری آواز کو حیرت انگیز آنکھیں اور ہال کے مرمر کی طرح ٹھنڈی نگاہیں چپ نہیں کروا سکتی تھیں۔
ظہر کا وقت ہو چکا ہے، تین گھنٹے گزر چکے ہیں اور میں ابھی تک اس عدالت کی انجان راہوں پر ماری ماری پھر رہی ہوں، میرا مقصد ہے کہ مجھے جج نظر آ جائے۔
میرے ساتھ آؤ،اس عورت نے مجھے اپنے پیچھے چلنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
ایک پرسکون ہال کا دروازہ کھولا گیا،اس کے فرش پر کارپٹ بچھی ہوئی تھی، اور یہ ہال لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ ہال کی دوسری جانب ڈیسک کے پیچھے مونچھوں والا ایک سنجیدہ شخص ہر طرف سے آنے والے سوالات کے طوفان کا جواب دے رہا تھا۔آخر کار مجھے جس کی تلاش تھی و ہ مل گیا،یہی وہ جج تھا جو نظر آ گیا۔ فضا میں شوکے باوجود اطمینان کا ماحول تھا۔مجھے لگا کہ میں محفوظ جگہ پر آ گئی ہوں۔مرکزی دیوار پر آویزاں مجھے جو فریم نظر آئی اسے میں نے پہچان لیا، یہ علی انکل کی تصویر تھی۔میں نے سکول میں یہی سیکھا تھا کہ اپنے ملک کے صدر کا نام ایسے ہی لوں، علی عبداللہ صالح تیس سال سے زائد عرصہ سے منتخب صدر ہیں۔
دوسرے لوگوں کی طرح میں نے بھی اپنی جگہ بنا لی اور دیوار کے ساتھ بچھے ہوئے صوفے پر بیٹھ گئی،باہر سے موذن کی آواز آئی جونماز ظہر کے لیے منادی کر رہا تھا۔مجھے یہاں اپنے اردگرد جانے پہچانے چہرے،بلکہ صحیح لفظوں میں جانی پہچانی آنکھیں نظر آئیں جنہیں میں پہلے صحن میں دیکھ چکی تھی۔بعض چہرے حیرت بھری نظروں سے میری طرف مڑے، آخرکار میرے ہونے کا بھی کسی کو پتا چلا، وہ وقت آ گیا تھا اس لیے میں نے حوصلہ کیا اور صوفے کی پشت پر اپنی کمر ٹیک کر بیٹھ گئی اور صبر کے ساتھ اپنی باری کا انتظار کرنے لگی۔
میں نے دل میں کہا: اگر اللہ ہے تو وہ مجھے بچانے کے لیے ضرور آئے گا۔میں کتنا عرصہ دن میں پانچ مرتبہ نماز پڑھتی رہی، اور رمضان کے بعد عید کے موقع پر مختلف ڈشیں پکانے میں اپنی امی اور بہنوں کا ہاتھ بٹاتی رہی تاکہ اللہ کا مجھ پر رحم ہو۔میرے ذہن میں دھندلی تصویریں چلنے لگیں؛میں پانی میں تیر رہی ہوں،سمندر پرسکون ہے اور پھر اس میں زیر وبم آتا ہے،میں اپنے بھائی فارس کو دور سے دیکھتی ہوں لیکن اس تک پہنچ نہیں پاتی،میں اسے پکارتی ہوں مگر وہ مجھے سن نہیں پاتا،ایسے میں، میں اس کا نام چیخ چیخ کر پکارنے لگتی ہوں لیکن ہوا کا دباؤ مجھے پیچھے کی طرف دھکیل دیتا ہے،میں مزاحمت کرتی ہوں اور اپنے بازوؤں کو پنکھے کی طرح گھماتی ہوں، کیونکہ میں جہاں سے چلی تھی وہاں واپس نہیں جانا چاہتی تھی،موجوں کی روانی بڑھتی گئی اور فارس میری نظروں سے اوجھل ہو گیا۔مدد! مدد! میں باہر کی دنیا کی طرف نہیں لوٹنا چاہتی۔ہرگز نہیں،مجھے باہر کی دنیا کی طرف نہیں لوٹ کر جانا۔
میں تمہاری کیا مدد کر سکتا ہوں؟ ایک مردانہ آواز مجھے نیند وادی سے باہر نکال لائی۔
ایک غیر معروف شکل میں ایک خوبصورت آوازتھی جسے اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے اونچا ہونے کی ضرورت نہیں تھی۔
اس نے دھیمے لہجے میں میرے کان میں چند الفاظ کہے: میں آپ کے لیے کیا کر سکتا ہوں؟ ”
یعنی کوئی ایسا شخص بھی ہے جو میری مدد کرنے کو تیار ہے۔میں نے اپنی آنکھیں ملیں،کیا دیکھتی ہوں کہ یہ وہی مونچھوں والے جج صاحب میرے سامنے کھڑے ہیں۔ہجوم منتشر ہو چکا تھا،لوگ بکھر چکے تھے اور ہال تقریباً خالی ہو چکا تھا۔میری خاموشی کو دیکھتے ہوئے اس آدمی نے اپنا سوال دوہرایا:
تم کیا چاہتی ہو؟
میں نے لمحہ بھر توقف کیے بغیر جواب دیا:
طلاق!
(جاری ہے)
فیس بک پر تبصرے