گروہی شرف کی علم بردار شناخت پسند سیاست

لکھاری: فرانسس فوکویاما, مترجم: حسین رضا

1,167

یہ مضمون فرانسس فوکویاما کی کتابIdentity: The Demand for Dignity and the Politics of Resentment کے پہلے باب The Politics of Dignity کا ماخوذ اردو ترجمہ ہے۔ ان کی یہ کتاب ستمبر 2018ء میں منظر عام پر آئی ہے ۔فرانسس فوکویاما Freeman Spogli Institute for International Studies (FSI)میں سینئر فیلو ہیں ۔جان ہاپکننزیونیورسٹی اور جارج میسن یونیورسٹی میں سیاسیات کے استاد رہ چکے ہیں ۔اس سے قبل 1992ء میں ان کی کتاب The End of History and the Last Man کے دنیا کی بیس سے زائد زبانوں میں تراجم شائع ہو چکے ہیں جبکہ اس کے علاوہ بھی ان کی کئی کتابیں شائع ہو چکی ہیں ۔(مدیر )

اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں دنیا میں ڈرامائی تبدیلیاں رونما ہوئی تھیں۔ 1970 ء کی دہائی کی ابتداء سے لے کر 2000ء کی دہائی کے وسط تک کا زمانہ بقول سموئیل پی ہنٹگٹن ڈیموکریٹائیزیشن کی تیسری لہر تھی۔ اس زمانے میں انتخابی جمہوریت کے حامل ممالک کی تعداد 35 سے بڑھ کر 110ہوگئی تھی۔ اس دوران دنیا کے اکثریتی ممالک میں لبرل جمہوریت اگر عملی طور پر نہیں تو نظری طور پر نظامِ حکومت کا معیار ضرور بن چکی تھی۔ سیاسی اداروں میں جمہوری رجحانات کے ساتھ ساتھ اقوام کے مابین گلوبلائزیشن کی بدولت اقتصادی انسلاک بھی پروان چڑھا تھا جسے ’جنرل ایگریمنٹ آن ٹیرف اینڈ ٹریڈ‘ اور ’ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن‘ نے متشکل کیا تھا اور اس انسلاک کو خطوں کی سطح پر یورپین یونین اور ’نارتھ امیریکن فری ٹریڈ اگیریمنٹ‘ جیسے بندوبستوں نے منظم کیا تھا۔ اس عرصہ کے دوران بین الاقوامی تجارت اور سرمایہ کاری میں اضافے کی شرح عالمی سطح پر جی ڈی پی کی ترقی میں بڑھوتری کے ساتھ ساتھ وسیع پیمانے پر خوشحالی کا محرک بنی تھی۔ دنیا بھر میں 1970ء سے 2008ء کے درمیان اشیاء اور خدمات کی پیداوار تقریباً چار گنا بڑھ گئی تھی اور ترقی پذیر ممالک میں انتہائی غربت میں رہنے والوں کی تعداد میں 1993 میں 42 فیصد اور 2011 ء میں 17 فیصد کمی دیکھنے کو ملی تھی۔ اسی دوران بچوں میں پانچ سال سے کم عمر میں اموات کی شرح بھی 1960ء میں 22 فیصد اور 2016ء میں 5 فیصد کم ہوئی تھی۔
تاہم تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ موجودہ لبرل ورلڈ آرڈر سے ہر ایک کو فائدہ نہیں پہنچ سکا۔ دنیا بھر میں بالخصوص ترقی یافتہ جمہوری ممالک میں عدم مساوات بھی پھیل چکی ہے اور ترقی کے بہت سے فوائد سے بنیادی طور پر تعلیم یافتہ اشرافیہ ہی مستفید ہوتی رہی ہے۔ ترقی کے عمل میں اشیاء ، سرمائے اور لوگوں کی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی کے اثرات سے کثیرالجہت سماجی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ ترقی پذیر ممالک میں بجلی کی عدم فراہمی کا شکار دیہی باشندے بڑے شہروں کی طرف نقل مکانی کرنے لگے ہیں جہاں وہ ٹی وی دیکھتے اور نت نئے سیل فونز اور انٹرنیٹ کے ذریعے دنیا سے منسلک ہوگئے ہیں۔ مزدوروں کی منڈی کے عالمی اتارچڑھاؤ سے اپنے ملکوں میں ناقابلِ گزارہ معاشی حالات سے تنگ مزدوروں سمیت روزگار کے بہتر مواقع کے متلاشی بیسیوں لاکھوں انسانوں اور ان کے کنبوں کی بین الاقوامی سرحدوں کے آرپار کھپت کی گنجائش بھی نکلی تھی۔ چین اور بھارت جیسے پہلی دو بڑی آبادی والے ممالک میں نئی مڈل کلاس کی کئی پرتیں ابھرچکی تھیں جنہوں نے ترقی یافتہ ممالک کی پرانی مڈل کلاس پرتوں کو پچھاڑ کر اپنی جگہ بنالی تھی۔ مینوفیکچرنگ کے شعبوں نے یورپ اور امریکہ سے مشرقی ایشیا اور دوسرے کم اجرت مزدروں والے خطوں کی طرف رخ لرلیا تھا۔ نئی اقتصادی حرکیات میں خدمات کے شعبوں میں مردوں کی جگہ خواتین اور نیم مشاق مزدوروں کی جگہ سمارٹ مشینیں لے چکی تھیں۔ دنیا کو لبرل اور اوپن کرنے والی لہر 2000ء کی دہائی کے وسط میں تھمتے تھمتے مخالف سمت میں چل پڑی تھی۔ یہ ردوبدل دو مالیاتی بحرانوں کا مظہر تھا جن میں پہلا امریکا کی سب پرائم مارکیٹ سے شروع ہونے والا مندی کا رجحان تھا جو جلد ہی عالم گیر کسادبازاری میں بدل گیا تھا اور دوسرا روبہ دیوالیہ یونانی معیشت سے یورو کی قدر اور یورپین یونین بارے یقینیت کو لاحق جوکھم تھے۔ دونوں بحرانوں بارے اشرافیہ کی پالیسیوں کے مضرات سے دنیا بھر میں کاروباری تنزلی، بڑے پیمانے پر بیروزگاری اور بیسیوں لاکھوں عام مزدوروں کی اجرتوں میں کمی جیسے مظاہر دیکھنے کو ملے تھے۔ چونکہ مندی کے اس رجحان کی زد میں آنے والے ممالک میں امریکا اور برطانیہ بھی شامل تھے لہٰذا صف اول کے ان دونوں ممالک کی مثالوں سے لبرل جمہوریت کے نظام کی ساکھ بارے منفی تاثر کو تقویت ملی تھی۔
جمہوری علوم کے اسکالر لیری ڈائمنڈ مابعد کسادبازاری بحرانوں کے سالوں کو ایک ایسی’’جمہوری کسادبازادی‘‘ کا عنوان دے چکے ہیں کہ جس کی زد میں آکر دنیا بھر کے مجموعی جمہوری ممالک کی اکثریت بڑھوتری پانے کی بجائے گراوٹ کا شکار ہوگئی ہے اور دوسری طرف چین اور روس جیسے غیرجمہوری ممالک کی خودانحصاری اور اثرورسوخ میں اضافہ ہوا ہے۔ چین نے دنیا کو ترقی یافتہ بننے اور دولت یاب ہونے کے لیے مشعلِ راہ کے طور پر اپنا غیرجمہوری اوصاف کا حامل ’’چائنہ ماڈل‘‘ متعارف کروانا شروع کردیا ہے اور روس نے روبہ زوال امریکا اور یوپین یونین کے لبرل انحطاط کو نشانہ بنالیاہے۔ 1990ء کی دہائی میں جن ممالک کو کامیاب لبرل جمہوریتیں سمجھا جاتا تھا آج اُس صف کے کئی ممالک خاص کر ہنگری، ترکی، تھائی لینڈ اور پولینڈ نے آمرانہ طرزِحکومت کے فرسودہ نظام کی طرف سرکنا شروع کردیا ہے۔ عرب سپرنگ نے 2011ء سے مشرق وسطیٰ میں آمروں کی اکھاڑ پچھاڑ جاری رکھی ہوئی تھی لیکن خطے میں لیبیا، یمن، عراق اور شام جیسے ممالک میں آمریتوں کی جمہوریت سے تبدیلی کی امید بر آنے کی بجائے مایوس کن خانہ جنگی کی صورتحال رونما ہوئی ہے۔ امریکا عراق اور افغانستان پر دھاوا بول کر بھی سانحہ نائن الیون کی دہشتگردی برپا کرنے والے عناصر کو نابود کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا ہے بلکہ امریکا کی یہ مہم جوئی دنیا بھر میں متشدد اور غیرمتشدد اسلامسٹوں کے لیئے دولت اسلامیہ(داعش) کے قیام کو عمل میں لانے کا محرک بنی ہے۔ دولت اسلامیہ عراق وشام (داعش) بارے قابل غور نکتہ یہ ہے کہ اُس میں ایسی کونسی کشش تھی کہ جو یورپ اور مشرق وسطیٰ کے پرآسائش زندگی گزارنے والے مسلمان نوجوانوں کو لڑنے کے لیے اپنی طرف راغب کرلائی؟
اس دوران 2016 ء کے دو انتخابات کے نتائج توقع سے ہٹ کر حیران کن نکلے تھے۔ جن میں ایک برطانیہ میں یورپی یونین سے علیحدگی کے حق میں ریفرنڈم کے نتائج آنا تھا اور دوسرا ڈونلڈ جے ٹرمپ کا امریکی صدر منتخب کیا جانا تھا۔ دونوں واقعات میں ووٹروں خاص کر محنت کش طبقے کے تحفظات معاشی مسائل گھمبیر ہونے، بیروزگاری پھیلنے اور صنعتی سرمایہ کاری رکنے سے متعلق تھے۔ ووٹروں کا رجحان غیرملکی تارکین وطن کے خلاف بھی بھرپور تھا جن کی آمد اور کھپت کے اثرات سے مقامی ثقافتی شناختوں کو معدومی اور مقامی باشندوں کو روزگار کے مواقع سے محرومی کے حالات کا سامنا ہے۔ لہٰذا اس تناظر میں ترقی یافتہ ممالک میں تارکین وطن کی آمد کے سدباب کی علم بردار اور یورپی یونین سے علیحدگی کی داعی جماعتوں کو انتخابات میں بھرپور حمایت ملی ہے مثلاً فرانس میں نیشنل فرنٹ کو، نیدرلینڈ میں پارٹی فار فریڈم کو، جرمنی میں اے ایف ڈی کو اور آسٹریا میں فریڈم پارٹی کو بھرپور پذیرائی ملی ہے۔ پورپ بھر میں لوگوں کو اسلام پسندوں کی د ہشتگردی اور مسلمانوں کی مذہبی شعائر، حجاب اور برقعہ وغیرہ کے پھیلنے سے متعلق تحفظات رہے تھے۔
بیسویں صدی کی سیاست معاشی مسائل پر رائٹ ونگ اور لیفٹ ونگ کی کشمش کا مظہر تھی۔ لیفٹ زیادہ سے زیادہ مساوات کا متقاضی تھا اور رائٹ زیادہ سے زیادہ آزادی کا طالب تھا۔لیفٹ ونگ کی ترقی پسند سیاست کا مرکزومحور محنت کش طبقہ، ٹریڈ یونینیں اور سوشل ڈیموکریٹک جماعتیں تھیں جو سماجی تحفظ اور معاشی وسائل کی منصفانہ تقسیم کروانے میں بارآور رہی تھیں۔ رائٹ ونگ کی بنیادی ترجیح حکومتی بکھیڑوں کو محدود کرکے نجی شعبہ کو پھیلانے میں دلچسپی رکھنا تھی۔ اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں اس کشمکش نے کئی خطوں میں اپنی پہچان کی تعریف کو ’شناخت‘ کے تابع بنادیا تھا۔ لیفٹ ونگ کی توانائیاں معاشی مساوات کو وسیع تر پیمانے پر پھیلانے میں کم لگی تھیں اور سیاہ فام، تارکینِ وطن، خواتین، لاطینی امریکا نژاد ہسپانوی امریکی شہری(Hispanics)، ہم جنس پرست اور پناہ گزین وغیرہ جیسے نظرانداز کیے جانے کا تاثر رکھنے والے متنوع گروہوں کے مفادات کی تکمیل پر زیادہ لگی تھیں۔اسی طرح رائٹ ونگ نے اپنی نئی پہچان نسل، قومیت اور مذہب کے لوازم پر مبنی روایتی قومی شناخت کے تحفظ کے علم بردار محب وطنوں کی حیثیت سے کروائی ہے۔
کارل مارکس کی سیاسی جدوجہد کو معاشی مفادات کے تصادم کی کشمکش قرار دینے کی روایت یعنی کہ اصل لڑائی ایک ایک پیسہ بٹورنے پر ہے کے مصداق درحقیقت 2010ء کی دہائی کی رُوداد یہی ہے کہ گلوبلائزیشن کے تحت پیداوار کی خامی دنیا بھر کے انسانوں کی اکثریت کو اُس ترقی کے ثمرات سے مستفید کروانے میں ناکامی رہی ہے جو دنیا بھر میں رونما ہوئی ہے۔ قومی پیداوارکے تناسب کا جو پہلا ایک فیصد 1974ء کو خام ملکی پیداوار(جی ڈی پی) کا 9 فیصد بنتا تھا وہ 2008ء میں 24 فیصد تک نمو پاچکا ہے لیکن اس کے باوجود بھی 2000ء سے 2016ء کے درمیان تقریباً نصف امریکی آبادی کی حقیقی آمدنی میں کوئی اضافہ نہیں دیکھا گیاہے۔
روسی صدر ولادیمیر پیوٹن سویت یونین کے انہدام کے المیے کا ذکر بھی کرچکے ہیں کہ کس طرح یورپ اور امریکا 1990ء کی دہائی میں روس کی کمزوری کا فائدہ اٹھاکر نیٹو کے ذریعے گھیرا ڈالنے کے لیئے روسی سرحدوں کے قریب آگئے تھے۔ انہوں نے اخلاقی برتری کے گھمنڈ میں مبتلا مغربی سیاستدانوں کو دھتکار کر یہ باور کروانا چاہا کہ سابق امریکی صدر اوباما کے اس بیان کہ ’’روس خطے کا کمزور کھلاڑی لیکن ایک بڑی طاقت ہے‘‘ کی غلط فہمی میں روس کو ہرگز معمولی سمجھنے کی بھول نہ کی جائے۔ ہنگری کے وزیراعظم ویکتور اربان نے 2010ء میں دوبارہ برسراقتدار آنے کے بعد 2017ء میں اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ’ہنگری قوم نے یہ فیصلہ بھی کرلیا ہے کہ ہم اپنے ملک کی تعمیرنو چاہتے ہیں؛ ہم اپنی خودداری کی تجدید کرنا چاہتے ہیں؛ اور ہم اپنا مستقبل دوبارہ روشن بنانا چاہتے ہیں۔ چینی صدر شی جن پنگ کی حکومت چین کی ہزار سالہ تحقیر کیے جانے کابارہا ذکر کرچکی ہے کہ کس طرح امریکا، جاپان اور دیگر ممالک چین کی طاقتِ پرواز میں رخنہ اندازی کرتے رہے تھے تاکہ چین اُن بڑی عالمی طاقتوں کی صف میں نہ آسکے جس عالمی منصب سے یہی طاقتیں گزشتہ ہزار سالہ تاریخ سے محظوظ ہوتی آرہی ہیں۔ جب القاعدہ کے بانی اسامہ بن لادن چودہ برس کے تھے تو اُن کی والدہ نے انہیں سعودی عرب کے اپنے گھر میں ہی ٹی وی پر فلسطین سے متعلق نشریات دیکھتے ہوئے غم وغصے کی جذباتی کیفیت میں آبدیدہ دیکھا تھا۔ مسلمانوں کی تذلیل کے خلاف اُن کا یہی غم و غصہ بعدازاں اُن کے شام میں لڑنے والے ہم مذہب نوجوان فدائیان کی صورت میں سامنے آیا تھا جو اپنے اس دین کے احیاء وتحفظ کے لیئے جہاد کررہے تھے جو اُن کی نظر میں دنیا بھر میں مستضعف ہے اور نشانہ بنایا جاتا ہے اور وہ اس امید میں تھے کہ وہ دولت اسلامیہ(داعش) میں ابتدائی عہد کی اسلامی تہذیب کی رجعت پسندانہ تعمیر کرسکیں گے۔
جمہوری ممالک میں بھی ہتک آمیز امتیازی رویے کے خلاف ناگواری زور پکڑ چکی تھی۔ فرگوسن (مسوری)، بالٹمور، نیویارک اور دیگر شہروں میں پے در پے پولیس کے ہاتھوں مارے جانے والے افریقی النسل امریکیوں کے قتل کی تشہیر نے ’بلیک لائیوز میٹر موومنٹ‘ تحریک کو جنم دیا تھا جس نے بیرون دنیا کی توجہ پولیس کے غیر پیشہ ورانہ تشدد کا نشانہ بننے والے متاثرین کی جانب مبذول کروالی تھی۔ ملک بھر میں کالج کیمپسوں اور دفاتر میں جنسی حملے اور جنسی ہراسانی کے واقعات اس تأثر کی تائید میں دیکھے جانے لگے تھے کہ مرد خواتین کو اپنے برابر اور سنجیدہ نہیں سمجھتے۔ اچانک خواجہ سرا صنف کی بھی اشک شوئی کی جانے لگی حالانکہ قبل ازیں اس صنف کو درپیش ہتک آمیز امتیازی سلوک کا سامنے کرنے کے مسئلے کا پایا جانا بھی تسلیم بھی نہیں کیا جاتا تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو ووٹ دینے والوں کی اکثریت نے ماضی کے اُس بہتر وقت کو یاد کیا تھا جب اُن کی اپنے معاشروں میں حیثیت نسبتاً زیادہ مستحکم تھی اور ڈونلڈ ٹرمپ کو ووٹ دینے سے ’’عظیم تر امریکا‘‘ کے خواب دیرینہ کو حقیقت میں بدلنے کی کوشش کی تھی۔ وقت اور مقام کے تفاوت کے تناظر میں روس میں مغربی اشرافیہ کی خودپسندی کو دھتکارنے پر پیوٹن کی حمایت کرنے والے روسیوں کی کیفیت اُن امریکیوں جیسی ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ امریکا کے ساحلی علاقوں میں رہنے والی اشرافیہ اور اُس کا پروردہ میڈیا انہیں اور ان کے مسائل کو نظرانداز کرتا چلا آرہا ہے۔ ناراضی کی سیاست کے علم برداران ایک دوسرے کو قابلِ ا عتنا سمجھتے ہیں۔ ولادیمیرپیوٹن اور ڈونلڈ ٹرمپ ایک دوسرے کے لیئے جو ہمدردی رکھتے ہیں وہ ذاتی تعلقات کی بجائے دونوں کی ہم مِثل قوم پرستی کی مشترکہ اقدار ہیں۔ ویکتور اربان کی بیان کردہ نظری مثالوں کے مطابق ’’متعدد تھیوریاں مغربی دنیا میں اور امریکی منصب صدارت پر رونما ہونے والی تبدیلیوں کو اُس جدوجہد کی تجسیم قرار دیتی ہیں جو عالمی سیاسی اکھاڑے میں بین لاقوامی عالمی اشرافیہ اور محب وطن قومی اشرافیہ کے مابین جاری کشمکش کا مظہر قرار پاتی ہے‘ جن میں ان کی مثال پہلے والی ہے۔
روس اور چین جیسی کوئی گریٹ پاورہو یاپھر امریکا اور برطانیہ کے ووٹرز ہوں متعلقہ معاملات میں یہ سمجھ جارہے ہیں کہ شناخت کو بطور پہچان درکار مسلمہ حیثیت نہ تو بیرون ملک میں قومیت کی نسبت سے دی جارہی ہے اور نہ ہی ایک ملک کے اندر کسی سماجی گروہ کے رکن کی نسبت سے تسلیم کی جارہی ہے۔ قوم، مذہب، نسل اور صنف کی نسبتوں سے شناختوں کی پہچان قابل عمل اور ناقابلِ یقین حد تک مختلف بھی ہوسکتی ہیں اور یہ ساری بحث شناخت پسند سیاست کی توضیحات کا مظہر ہے۔
’شناخت‘ اور ’شناخت پسند سیاست‘ (identity politics) کی اصطلاحات کا مصدر زیادہ پرانا زمانہ نہیں ہے۔’شناخت‘ کی اصطلاح کو ماہرِ نفسیات ایِریک اریکسون کی بدولت 1950ء کی دہائی میں شہرت ملی تھی اور ’شناخت پسند سیاست‘ کی اصطلاح 1980ء اور 1990ء کی دہائیوں میں شناخت کے مسئلہ پر سیاسی رجحانات سے ظہور پذیر ہوئی تھی۔’شناخت‘ کی اصطلاح آج کئی معنوں میں مستعمل ہے۔ کئی معاملات میں ’شناخت‘ سے مراد سماجی درجہ بندی اور سماجی کردار ہیں اور کئی معاملات میں ’شناخت‘ سے مراد کسی کی اپنے بارے بنیادی معلومات ہے(مثلا یہ کہنا کہ ’’میری شناخت چرا لی گئی ہے‘‘ ) اس اعتبار سے شناخت ہمیشہ موجود رہتی ہے۔
یہاں، شناخت کی اصطلاح پر بحث عصرِحاضر کی سیاست میں اس کی اہمیت سے متعلقہ سیاق و سباق میں استعمال کی جارہی ہے۔شناخت پہلے مرحلے میں کسی فرد کے اندر کی داخلی باطنی روح پرور موضوعی کیفیت سے ابھرتی ہے اور اُس کی خارجی دنیا میں سماجی ضابطوں اور روایات کی اُن معروضی ظاہری شناختی گروہ بندیوں سے تشکیل پاتی ہیں جو انسان کی ذاتی موضوعی باطنی شناختوں کو دورخورِ اعتنا بھی نہیں سمجھتیں۔ انسانی تاریخ میں افراد نے اپنے آپ کو اپنے معاشروں میں سمانے کی کوشش میں خود کو مختلف پاتے ہوئے بھی ڈھالا ہے لیکن دورِ جدید میں اس نکتہ نظر نے قبولیت پائی ہے کہ انسان کے اندر کی باطنی خودشعوری قابلِ قدر ہے اور خارجی سماج کی ظاہری شناختوں کا نظام باطنی خودآگہی کی تشخیص کرنے میں غیرمنصفانہ اور غیرمستعد واقع ہوا ہے۔ لہٰذا انسان کے اندر کے اپنے پن کو سماج کے مطابق بادلِ نخواستہ ڈھلنے پر مجبور کیے جانے کی بجائے سماج میں ایسی کشادہ نظری لائے جانے کی ضرورت ہے جو فرد کو اُس کے باطنی مزاج کے مطابق خود میں سمونے کی وسعت اور لچک رکھتی ہو۔
فرد کی باطنی خودشعوری شرفِ انسانی کی بنیاد ہے تاہم اس شرف کی نوعیت تغیرپذیر ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلی ہوچکی ہے۔ اکثر ابتدائی ثقافتوں میں شرف معدودے چند لوگوں کا خاصا سمجھا جاتا تھا اور کئی میں صرف ارادتاً اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر جنگ و جدل کی فدائی سرگرمیوں میں حصہ لینے والوں کو ذی شرف سمجھا جاتا تھا۔ بیشتر سماجوں میں بنی نوع انساں کے ہر انسان کو ذی شرف قرار دیا جاتا ہے۔ اور اکثر معاملات میں سانجھی یادوں اور سانجھے معاملات رکھنے والے گروہ کی رکنیت رکھنے والے کو بھی شرف دار سمجھا جاتا ہے۔
حتمی طور پرشرف کا ادراک کرنے کی انسانی حسِ باطنی بھی شرف بارے شناخت کی خودشناسی کی کسوٹی کو تسلیم کیے جانے کا تقاضا کرتی ہے۔ کسی کی اپنی قدر بارے خودسرائی تب تک ناکافی ہے جب تک کہ لوگ کھلم کھلا اسے تسلیم یا مسترد نہیں کرلیتے یا پھر اس سے بھی برا یہ کہ اس پر تنقید یا اُس کے پائے جانے کے انکاری نہیں ہوجاتے۔ اپنے اندر خودداری کا احساس بھی تب ہی محسوس ہوتا ہے جب دوسروں کی جانب سے عزت دی جاتی ہے۔ انسان فطری طور پر اپنے وجود کو تسلیم کیے جانے کے اعتراف کا متقاضی ہوتا ہے لہٰذا شناخت کا جدید احساس ارتقا پاتے پاتے جلد ہی شناخت پسند سیاست کی صورت متشکل ہوگیا ہے جس میں افراد اپنی لیاقت کو سرکاری سطح پر تسلیم کیے جانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ شناخت پسند سیاست جمہوری انقلابات سے لے کر سماجی تحریکوں تک بشمول قوم پرستی اور اسلام پسندی سمیت دورِحاضر کی امریکی یونیورسٹیوں کے کیمپسوں تک عصرحاضر کی سیاسی جدوجہد کے بیشتر پہلوں کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔درحقیقت فلاسفر ہیگل بھی یہ نکتہ آرائی کرتا ہے کہ تسلیم کیے جانے کی جدوجہد انسانی تاریخ کی روانی دوانی کی بنیادی قوتِ محرکہ ہے جو جدید دنیا کے متشکل ہونے کے عمل کو سمجھنے کی کلید ہے۔جبکہ گلوبلائیزیشن کے گزشتہ پچاس برس سے زائد عرصہ میں منظر پر آنے والی معاشی عدم مساوات عصر حاضر کی مادی تعبیروں کا محرک ہے اور اقتصادی محرومیوں پر شکوؤں کو جب کبھی بے توقیری اور ہتک آمیز احساسات سے جوڑا جائے تو ان شکووں میں شدت آجاتی ہے۔ زیادہ سے زیادہ کمانے کی جس ترغیب کو ہم معاشی سمجھتے ہیں وہ درحقیقت دولت اور وسائل کے ارتکاز کی سیدھی سادھی خواہش کا مظہر نہیں ہوتی بلکہ دراصل پیسے کو سماج میں رتبہ پانے اور عزت بنانے کا کارساز وسیلہ سمجھا جاتا ہے۔جدید اقتصادیاتی تھیوری اس مفروضے پر مبنی ہے کہ انسان ایک حیوانِ ناطق ہے اور ہر انسان اپنی افادیت بڑھانے اور زیادہ سے زیادہ افادہ حاصل کرنے کی تگ ودو میں رہتا ہے اور یہ انسانوں کی مادی خوشحالی ہے۔ نیز یہ کہ سیاست افادہ کو پھیلانے کے رویے کا ہی ایک توسیعی محاذ ہے۔تاہم اگر ہم کبھی عصرحاضر میں اصلی انسانی رویے کی درست تشریح کرنے کی کوشش کرنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں انسان کے نفسی میلانات بارے اپنی سمجھ بوجھ کو مباحثوں میں حاوی رہنے والے سیدھے سادھے معاشی ماڈل سے ماورا ہوکر وسیع پیمانے پر وسعت دینا ہوگی۔ کوئی بھی اس بارے انکاری نہیں ہوگا کہ بنی نوع انسان منطقی رویہ رکھتے ہیں اور نہ ہی کوئی اس کا انکاری ہے کہ افراد خودغرضانہ مفاد پرستی کی تکمیل میں زیادہ سے زیادہ دولت اور وسائل تک رسائی رکھنے کی تگودو میں رہتے ہیں۔ درحقیقت انسانی نفسیات سادہ ذہن معاشی ماڈل کی اختراعات سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔ موجودہ شناخت پسند سیاست کو سمجھنے سے پہلے ہم یہ بھی کرسکتے ہیں کہ سیاسی حرکیات سے قطعِ نظر انسانی ترغیبات اور رویے کو سمجھنے کی بہتر تفہیم وضع کریں۔ سادہ الفاظ میں یہ کہ ہمیں انسانی روح کو سمجھنے کی ایک بہتر تھیوری کی ضرورت ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...