مغربی سماج کی بنیادیں انفرادی حقوق کے احترام پر استوار ہیں۔ بغیر کسی بیرونی دباؤیا مداخلت کے انفرادی خواہشات ا ورعزائم کی آزادانہ تکمیل یہاں کی اہم سماجی قدروں میں سے ایک ہے۔اگرچہ یہ چیزدنیا کو ایک بہترجگہ بناتی ہے تاہم پھر بھی کچھ حدودو قیود لاگو ہوتی ہیں۔جان وین کے عجیب و غریب کرداروں کی طرح انفرادیت پسندی بھی پردہِ سیمیں پرجتنی خوشنما نظر آتی ہے اتنی حقیقتاً نہیں ہے۔ ہم اکثر بھول جاتے ہیں کہ نمو پانے اور پنپنے کے لیے ’’میں‘‘ کی بجائے ’’ہم‘‘ ہونا لازم ہے اور یہیں سے ہی تمام مسائل کے سوتے پھوٹتے ہیں۔سباستیان جنگر اپنی تصنیف ’’قبیلہ‘‘ میں اسی رائے کو لے کر آگے بڑھتے ہیں۔اولین نو آبادیاتی امریکہ کے تاریخی حوالوں، قدرتی تباہ کاریوں کی سماجیاتی علل اور افغان جنگ میں خود ان کے ذاتی تجربات کی بنیاد پر وہ اس بات سے پردہ اٹھاتے ہیں کہ ’’ہم‘‘انسانی آسودگی کے لازمے کے طور پر دراصل کیسے دکھائی دیتے ہیں۔
اس کتاب کے مشمولات کی درج ذیل جھلکیاں ہمیں سوچنے پر مجبور کرتی ہیں اور ہمارے قبیلہ جاتی مزاج میں راسخ زندگی سے متعلق اجتماعیت پسند ذہنی احساسات کی عکاسی کرتی ہیں۔ ان جھلکیوں میں ہم دیکھ سکیں گے:
۔ برطانوی آبادکاروں کی کثیر تعداد نے مقامی امریکی قبائل کے ساتھ آباد کاری کا انتخاب کیوں کیا؟
۔ بزرگ لندنی شہری Blitz کو کیوں یاد کرتے ہیں؟
۔ تباہ کاریاں اور جنگیں ہمارے اندر بہتری کیوں لا سکتی ہیں؟
اولین برطانوی آبادکاروں میں سے کئی خاندانوں نے مقامی امریکی قبائل کے ساتھ سکونت اختیار کی۔
سترہویں صدی عیسوی میں جب پہلے پہل برطانوی آباد کار امریکہ آئے تو انہوں نے یہاں کی آب و ہوا کو اپنی متروکہ سرزمین کی آب و ہوا سے بہت مختلف پایا۔ان کا نیا وطن وسیع و عریض صحرا کی مانند تھا اور یہاں انتہائی قدیم بودوباش کے حامل مختلف قبائل آباد تھے،لیکن ان حالات سے ان کے حوصلے پست نہیں ہوئے بلکہ اس کے برعکس ان میں سے اکثر اس سرزمین کے گرویدہ ہو گئے۔وہ دراصل قبائلی طرزِ حیات سے متاثر ہوئے تھے اور یہی وجہ ہے کہ ان میں سے بیشتر نے انہی مقامی امریکی قبائل کے ساتھ سکونت اختیار کی۔ یہاں کی مقامی آبادی اور جدید یورپی دنیا، جہاں سے یہ آباد کار تعلق رکھتے تھے، ہر دو کے طرزِ بودوباش میں ڈرامائی فرق موجود تھا۔ انیسویں صدی میں یہ خلیج پہلے سے بھی گہری ہوچکی تھی۔ نیو یارک اور شکاگو جیسے شہر گنجان آباد صنعتی شہروں میں ڈھل چکے تھے جہاں مختلف کارخانوں اور گنجان آبادیوں کی بہتات تھی جبکہ مقامی امریکی باشندے تاحال کلہاڑیوں اور نیزوں سے لڑ رہے تھے۔
کئی امریکیوں نے موخر الذکر طرزِ حیات کا انتخاب کیا، مقامی امریکیوں کی روایات کو اپنا یا اور ان قبائل میں شادیاں رچائیں۔اس سے مختلف رجحان کا تقریباً کوئی وجود نہیں تھا۔ معاصرین کو پریشانی یہ تھی کہ مقامی امریکی باشندوں کی انتہائی قلیل تعداد ایسی تھی جواپنے قبائل کو خیرباد کہہ کر یورپی روایات اپنا نے پر آمادہ تھی۔ بانیانِ امریکہ میں سے بنیامین فرینکلن ان افراد میں سے ایک تھے جو اس عمل سے پریشان تھے۔ انہوں نے لکھا کہ یورپی خاندانوں کے ہاں پرورش پانے والے امریکی بچے جدید ثقافت سے شاذ و نادر لگاؤ رکھتے تھے اور ان میں سے بیشترنے واپس اپنے قبائل میں جانے کو ترجیح دی۔ مزید یہ کہ مقامی امریکی باشندوں کے ہاں قید امریکیوں کی صورتِ حال مجموعی طور پر اس کے برعکس تھی۔ ان میں سے اکثر و بیشتر اپنے قبیلے کے ساتھ رہنے کے علاوہ کچھ نہیں چاہتے تھے، وہی قبیلے جہاں وہ قیدی بنا کر لائے گئے تھے۔
یہ بات اس وقت سامنے آئی جب 1763ء میں ایک سوئس فوجی جرنیل ہنری بوکیٹ نے مقامی امریکی قبائلی علاقے پرانگریز فوج کی مدد سے پیش قدمی کی۔ یہ پیش قدمی یورپی آبادیوں میں مسلسل اور سرعی توسیع پر مختلف امریکی قبائل کے پے درپے حملوں کا جواب تھی۔بوکیٹ کا یہ حملہ ایک فوجی کامیابی تھی اور اس کے بعد اس نے پہلا مطالبہ یہ رکھا کہ مفتوح مقامی امریکی قبائل قید کیے گئے یورپی باشندوں کو نو آبادیوں میں واپس بھیجیں۔تاہم ’’قیدیوں‘‘ کی طرف سے اس نویدِ ’’آزادی‘‘ کا گرم جوش خیرمقدم نہیں کیا گیا تھا۔وہ آزردہ دل اور متذبذب تھے۔وہ اپنے پرانے خاندانوں کی جانب واپس جانے میں دل چسپی نہیں رکھتے تھے۔ مقامی امریکی باشندے ان نئے قبائلی اراکین کے چھوڑ جانے پر افسردہ تھے۔یہ بجھے دلوں کے ساتھ اپنے باسیوں کو الوداع کہنے گھوڑوں کی پیٹھ پر بیٹھے ان کے ساتھ گئے یہاں تک کہ وہ بادلِ نخواستہ یورپی نو آبادیوں میں داخل ہو گئے۔ تاہم کئی طرح سے اس بات کے قوی امکانات تھے کہ وہ دوبارہ مل جائیں گے۔قبائلی طرزِ بودوباش کو چھوڑ کر جانے والے باشندے زیادہ دیر نو آبادیوں میں نہیں رہ پائے اور ان علاقوں کو چھوڑ چھاڑ کر دوبارہ مقامی امریکی قبائل کے ساتھ رہنے لگے۔
یورپی سماج کی نسبت انسانی مساوات کی بہتر صورتِ حال کے سبب قبائلی زندگی پر کشش معلوم ہوتی تھی۔
اس نوعیت کی کہانیاں واضح طور پر یہ ظاہر کرتی ہیں کہ یورپی آبادکاروں کو مقامی امریکی سماج میں کچھ ایسا نظر آیا جو انہیں اپنے گھر پر میسر نہیں تھا۔ کئی طرح سے مقامی امریکی سماج یورپی اقوام کے لیے ایک آئینہ تھا جس میں وہ اپنی کجیوں کو دیکھ سکتے تھے۔ایک فرانسیسی آبادکار ہیکٹر کرویچر1782ء میں اس مسئلے کی تہہ تک پہنچ گئے۔ انہوں نے جان لیا کہ ان قبائل کا سماجی ڈھانچہ درحقیقت ان کو دیگر افراد کے لیے پر کشش بنا دیتا ہے۔آباد کار بہت پہلے سے ہی قبائلی زندگی کے سحر میں گرفتار ہو چکے تھے۔ 1612ء میں جب ورجینیا نو آبادی کو بسے چند برس ہی گزرے تھے، 50 فیصد افراد مقامی امریکیوں سے شادیاں کر چکے تھے۔
توسوال یہ ہے کہ کیا واقعتاً یہ قبائلی ڈھانچہ ہی تھا جس سے یہ طرزِ زندگی مسحورکن بن چکی تھی؟ہم اس کو سمجھنے کے لیے1755ء میں سینیکا قبیلے کے ہاتھوں گرفتار ہونے والی ایک عورت میری جیمیسن کی مثال لیتے ہیں۔جب کھوجی اس خاتون کو ’’بازیاب‘‘ کرانے کے لیے گئے تووہ چھپ گئی۔ وہ یہاں سے واپس نہیں جانا چاہتی تھی کیوں کہ اس کے آبائی گھر میں اس پر پابندیاں لاگوتھیں اور اسے ایک ملازم پیشہ فرد کی طرح زندگی بسر کرنا پڑتی تھی جبکہ یہاں قبائلی زندگی میں اپنی مرضی سے اور اپنی خوشی کے لیے رنگ ہائے حیات کا لطف لینے کی مکمل آزادی تھی۔اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قبائلی افراد کام نہیں کرتے تھے بلکہ ان کے کام کرنے کا طریقہ زیادہ آسودہ اورپر سکون ہوتا تھا۔میری جیمیسن کہتی ہیں کہ امن کے دنوں میں قبائلی زندگی سراپاراحت تھی۔یعنی اس کشش کی وجہ عموماً یہ تھی کہ یہاں کا رہن سہن نو آبادیوں کے طرزِ بودوباش سے سہل اور آسان تھا۔
مثال کے طور پر شکار کرنا کھیتوں میں مشقت و محنت کرنے سے زیادہ پر لطف تھا۔یورپی نو آبادیوں کی نسبت یہاں کسی قدر جنسی آسودگی بھی زیادہ میسر تھی۔ان قبائل میں پروٹسٹنٹس کا یہ حوالہ مضحکہ خیز سمجھا جاتا تھا کہ اگر کوئی لڑکا کسی اجنبی لڑکی سے بات کرے تو اسے کوڑے لگائے جائیں۔اس کے علاوہ بھی کچھ چھوٹی چیزیں اس کشش کا سبب تھیں جیساکہ یہاں کے باشندوں کا لباس نو آبادکاروں کے پہناووں سے بہت زیادہ آرام دہ تھا۔لیکن ان سب وجوہات میں نمایاں ترین یہاں کا تصورِ مساوات تھا جو عملاً یہاں دیکھا جاسکتا تھا۔تقریباً سبھی کے پاس اناج گندم ایک جتنا ہوتا تھا او ریورپی سماج میں موجود طبقاتی فرق یا مالی تفاوت کا یہاں ان قبائل میں نام ونشان تک نہ تھا۔ یہی حال سماجی مقام و مرتبت کا بھی تھا۔ کوئی بھی فرد شکار یا جنگ میں شمولیت کرنے سے سماجی رتبہ اور پہچان حاصل کرسکتا تھا۔اسی طرح یہاں کی خواتین بھی یورپی معاشرے سے تعلق رکھنے والی خواتین سے زیادہ آزادی و خودمختاری سے زندگی گزاررہی تھیں۔ یورپی سماج کی نسبت قبائلی معاشرے فطرت کے زیادہ قریب تر تھے اور یہاں انسانی آزادی بھی کہیں زیادہ میسر تھی۔
آج کا یورپی معاشرہ غیر معمولی حد تک متمول اور دولت مند ہے۔ ان کے پاس بے انتہا دولت ہے، انہیں راحت و آسودگی میسر ہے، وہ آزادی و تعیش اپنی زندگی میں برت رہے ہیں۔ انہیں اور کیا چاہیے؟ مزید آزادی، اور یہ یا اسی طرح کا شعور انہیں قبائلی زندگی بخش سکتی ہے۔ جنوبی افریقا کے کالاہاری صحرا کے کونگ خانہ بدوش قبیلے کی مثال لیجیے۔ 1960ء میں کی گئی ایک تحقیق کے دواران یہ بات سامنے آئی تھی کہ یہاں کے باشندے اپنے طرزِ بودوباش کو برقرار رکھنے کے لیے ہفتے میں محض بارہ گھنٹے کام کرتے ہیں۔محقق رچرڈ لی نے ان ایامِ تحقیق میں یہ مشاہدہ کیا کہ قبائلی افراد شکار کرنے اور سامانِ خوردونوش اکٹھا کرنے جاتے ہیں اور قبیلے میں واپسی پر سبھی میں برابر بانٹ دیتے ہیں۔ ان کے پاس اگرچہ فراوانی نہیں ہے مگر ان کی ضرورت پورا کرنے کے لیے کافی ہے۔
اس کا موازنہ اب یورپی معاشرے سے کیجیے جہاں ایک متوسط افسر ایک ہفتے میں40 گھنٹے کام کرتا ہے۔ممکن ہے یہ کونگ افراد کی نسبت صاحبِ ثروت ہو تاہم اس دولت کی قیمت اسے شخصی آزادی و فرصت کی قربانی کی صورت چکانا پڑتی ہے۔اگرکسی کو بھی اپنی خوشی و رغبت سے اپنا راستہ چننے کی میسر�آزادی کی بات کی جائے تو یورپی معاشروں کا بلاشبہ کوئی مقابلہ نہیں ہے تاہم یہ ایک طرح کی قید ہے۔ حیاتِ انسانی کو انفرادیت پسندی کی بھینٹ چڑھانے کے لیے پیدانہیں کیا گیا۔دوسری طرف کونگ قبائل کا طرزِ زندگی بعینہ اسی طرح ہے جیسا زرعی زمانے سیقبل، یعنی آج سے10,000برس پہلے ہمارے آباواجداد کا رہا کرتا تھا۔ لیکن کسی بھی نوعِ حیات کو جنیاتی طور پرکسی نئے ماحول سے مطابقت پیدا کرنے کے لیے52,000 برس درکار ہوتے ہیں۔چنانچہ باوجود اس کے کہ ہم صنعتی و ٹیکنالوجی کے پیچیدہ دور میں رہتے ہیں لیکن ابھی تک ہماری طبائع و جنیات شکارخور اجداد جیسی ہی ہیں۔
مادی آسودگی ہمیں اگرچہ حالیہ انفرادی طرزِ حیات جاری رکھنے پر آمادہ کیے رکھتی ہے تاہم اپنیجنیاتی مادے کی بدولت ہم میں یہ خواہش موجود رہتی ہے کہ اپنے آبا کی طرح گروہ یا قبیلے کی شکل میں رہیں۔ اس عدمِ مطابقت اور تفاوتِ طبع وماحول کی بہت بھاری قیمت (سماجی عدمِ شناخت اور بے توجہی کے باعث)تنہائی اور اکیلے پن کی بڑھتی ہوئی وبا کی صورت ہمیں چکانا پڑرہی ہے۔ یورپی معاشرے ذہنی امراض کے حوالے سے تاریخِ انسانی کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکے ہیں۔
جنگ انسانوں میں بہتری لاتی اور دلچسپ نفسیاتی اثرات کی حامل ہوتی ہے۔جنگِ عظیم دوم میں برطانوی حکومت کو درپیش سب سے اہم مسئلہ یہ تھا کہ جنگی بمباری پر عوامی ردِ عمل کیا ہو گا؟ سب سے بڑا خدشہ یہ تھا کہ عوام میں کہیں ہیجان انگیزی جنم نہ لے لے۔تاہم جب بمباری شروع ہوئی توایسا کوئی ردِ عمل پیدا نہیں ہوا۔بیشتر افراد نے ذمہ داری کا ثبوت دیا۔یہ بظاہر عجیب لگتا ہے لیکن جنگ لوگوں کی پوشیدہ صلاحیتوں کو سامنے لانے میں مددگار ہوتی ہے۔جرمن جنگی طیاروں نے لندن پر ۷ ستمبر ۰۴۹۱ء کو بمباری شروع کی جن میں عوامی مقامات کو نشانہ بنایا گیا اور سینکڑوں کی تعداد میں اموات ہونے لگیں۔تاہم مجموعی طور پرحالات پر سکون اور شہری معتدل رہے۔اس یلغار کے دوران جسے بعد ازاں Blitz کا نام دیا گیا لندنی شہری معمول کے کاموں میں مصروف رہے۔ جب بھی گھنٹیاں بجنا شروع ہوتیں تمام افراد بغیر کسی افراتفری کے محفوظ مقامات پر چلے جاتے۔شہریوں کی نفسیاتی لچک اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز تھی۔حکومت کا اندازہ تھا کہ کم از کم 40 لاکھ افراد جنگی خوف سے نکالنے کے لیے نفسیاتی ہسپتالوں میں داخل کرنا پڑے گا۔اس حملے کے دوران علاج گاہوں کے نفسیاتی شعبہ جات میں جگہ کم پڑ جانی چاہیے تھی لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ جو کچھ ہوا وہ اس کے برعکس تھا۔ نفسیاتی شعبہ جات خالی ہوتے جارہے تھے۔سوال یہ ہے کہ اس کی وجہ دراصل کیا تھی؟
جنگیں نفسیات پر اچھے اثرات مرتب کرسکتی ہیں۔ فرانسیسی ماہرِ سماجیات امیل درخیم، جنہوں نے گزشتہ صدی کے آغاز میں اس بارے میں تحقیق کی اور انہوں نے درج بالا حقیقت سے پردہ ہٹایا۔ انہوں نے مشاہدہ کیا کہ جب بھی فرانس کو جنگ کا مرحلہ درپیش ہوا وہاں کی نفسیاتی علاج گاہوں میں مریضوں کی تعداد میں کمی واقع ہوجاتی، اسی طرح کے حالات کا مشاہدہ بعدازاں اسپین خانہ جنگی جیسے دیگر ادوار میں بھی سامنےآیا۔خودکشی کے واقعات بھی ایامِ جنگ میں بہت کم ہو جاتے ہیں۔آئرش ماہرِ نفسیات ایچ اے لییون کہتے ہیں کہ شمالی ائر لینڈ میں بیلفاسٹ شورش کے دوران اپنی ہی زندگی کے درپے افراد کی تعداد میں حیرت انگیز طور پر 50 فیصد کمی دیکھنے میں آئی تھی۔ اسی طرح شہر میں پرتشدد واقعات میں بھی خاطر خواہ کمی واقع ہوئی۔اس کے برعکس دورانِ امن لوگوں میں مایوسی اور تناؤ کی شرح زیادہ ہوجاتی ہے۔ شاید اس لیے کہ اس دوران انہیں اپنے آپ کو پر سکون رکھنے کے لیے کسی لڑائی میں حصہ نہیں لے سکتے۔جنگ کے مثبت نفسیاتی اثرات پر بات کرنا الگ اور ان اثرات کی توضیح الگ چیز ہے۔درج ذیل صفحات میں ہم یہ دیکھیں گے آخر ایسا کیوں کر ہوتا ہے؟
قدرتی آفات انسانوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کا موجب بنتی ہیں کیوں کہ یہ زندگی میں آسانی پیدا کرتی ہیں۔
جنگ و حرب کے ان اثرات کے بظاہر عجیب اورحیرت انگیز مشاہدات کے بعد محققین نے ان وجوہات کی جستجو شروع کردی جن کے سبب اس طرح کا دلچسپ ردِ عمل جنم لیتا ہے۔ انہوں نے اس تحقیق کا دائرہ کار قدرتی آفات تک بڑھا دیا تاکہ ان واقعات و حادثات میں عوامی ردِ عمل کے بارے میں جان سکیں۔انہوں نے جلد ہی یہ دریافت کر لیا کہ مشکل اوقات میں سماجی اتصال اور باہمی ربط و تعلق کو فروغ ملتا ہے۔ماہرِ سماجیات چارلس فرٹز نے امریکا میں قدرتی آفات کا شکار علاقوں کا دورہ کیاجہاں انہوں نے 90,000 متاثرہ افراد سے اس بابت بات چیت کی ۔اس دوران انہیں معلوم ہوا کہ قدرتی آفات سماجی افراتفری اور انتشار کا باعث نہیں بنتیں بلکہ کسی بھی آفت کی صورت میں لوگ اپنے گردو نواح اور اپنیقوم قبیلے کی مددو نصرت کے جذبے سے سرشار ہو جاتے ہیں۔ کیوں کہ آفات سے زندگی کی پیچیدگیاں ختم ہوکر اسے انتہائی سادہ و آسان شکل میں بدل جاتی ہیں۔
چارلس فلٹز نے یہ نظریہ1961ء میں پیش کیا کہ جدید طرزِ حیات نیبنی نوع انسان کے انفرادی و سماجی ہم آہنگی و یکجہتی کے لیے ضروری سماجی ربط کو تباہ کردیا ہے۔تاہم قدرتی آفات کے وقوع کے وقت یہ ربط دوبارہ قائم ہو جاتا ہے اور لوگوں میں احساس ابرتا ہے کہ ہماری بقا باہمی ربط و تعلق میں ہے۔مالی و نسلی تفاوت غیر متعلق ہو جاتا ہے۔1970ء میں آنے والے پیرو زلزلے نے اس نظریے کو سچ ثابت کردیا۔ اس زلزے نے ینگے شہر کو تقریباً ملیا میٹ کردیا اور اس دوران شہر کے 90 فیصد باشندے لقمہِ اجل بن گئے۔چٹانوں کے ٹوٹ کر پھسلنے سے پیدا ہونے والے گردو غبار نے کئی دنوں تک امدادی ہیلی کاپٹرز کو شہر میں اترنے سے روکے رکھا۔متاثرین کا کوئی پرسانِ حال نہیں تھا۔ انہیں اپنی بقا کے لیے اپنی مدد آپ درکار تھی۔ انہوں نے یہی کیا، اپنے وسائل جمع کیے اورطبقاتی تقسیم کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مل بانٹ کر استعمال کرنے لگے۔مگر جوں ہی امدادی ساز وسامان وہاں پہنچارائج سماجی نظم دوبارہ سے قائم ہونے لگا اور یک جہتی ہوا ہو گئی۔
جنگ میں شمولیت کا ذاتی تجربہ زندگی کے بارے میں انسان کا نظریہ بدل دیتا ہے۔
دور دراز علاقے میں نرم و گداز بستر پر بیٹھ کر جنگ کی مذمت کرنا بہت آسان ہے تاہم بذاتِ خود جنگ میں شمولیت کا تجربہ اس سے کافی مختلف نوعیت کی چیز ہے۔سباستیان جنگر کی مثال لیجیے جو افغان جنگ میں شامل رہے۔2000ء میں وہ شمالی اتحاد کے سربراہ احمد شاہ مسعود کے ساتھ طالبان کے خلاف دو ماہ تک لڑتے رہے۔احمد شاہ مسعود ان دنوں دریاے آمو کے ایک سیرابی علاقے پر اپنے پیر جمائے رکھنے کی تگ ودو کررہے تھے۔ یہ علاقہ شمالی اتحاد کی جنگی ضرورت کے لیے انتہائی بنیادی اہمیت کا حامل تھا، اس کے بغیر اپنے فوجیوں کو موسمِ سرما میں دریا کے خشک ہونے تک آگے بھیجنا نا ممکن ہو جاتا۔طالبان جنگجو علاقے پر گہری نظر رکھے ہوئے تھے اسی لیے آگے کی طرف پیش قدمی بڑے نقصان کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی تھی۔ احمد شاہ مسعود کے سپاہیوں کی تعداد انتہائی قللی تھی اور افرادی قوت کی فراہمی میں کافی کمی واقع ہو چکی تھی۔ایک حملے کے دوران انہوں نے طالبان کو پسپائی پر مجبور کیا اور ان کی جگہ قبضہ جمانے میں کامیابی حاصل کر لی۔ اور پھر طالبان کی جانب سے جوابی وار کیا گیا۔جنگی سازوسامان کی تنگی کے باعث انہوں نے زوردار گولہ باری اور راکٹ بازی کے دوران اپنے غاروں میں پناہ لی مگر آخر کار وہاں سے نکل کر پسپا ہونے پر مجبور ہو گئے۔
یہ انتہائی تلخ تجربہ تھا۔امریکا واپسی پر ان میں Post۔traumatic stress disorder (PTSD) کی تشخیص ہو ئی۔اس کی پہلی علامت ایک زیرِ زمین ریلوے اسٹیشن پر خوف زدگی کے ایک دورے کی صورت سامنے آئی۔ سباستیان جنگر اچانک ارد گرد لوگوں کے ہجوم، ریل گاڑیوں کے بے ہنگم شور اور چندھیاتی روشنیوں سے مغلوب الحال ہوگئے۔ایک نفسیاتی معالج نے تشخیص کیا کہ انہیں Post۔traumatic stress disorder (PTSD)کا عارضہ لاحق ہے۔یہ علامات دورانِ جنگ انتہائی اہمیت کی حامل ہوتی ہیں۔ مثلاً خطرے کی حالت میں حددرجے ہوشیار اور تمام تر حسیات کا فعال و بیداررہنا، مدہم سی آوازوں پر ردِ عمل دینا اورہلکی نیند میں سونا موت و حیات کی کشمکش میں مفید ہو سکتے ہیں۔اس تناظر میں غصہ بھی ایک مثبت فعل ہے جو آپ کو لڑائی پر آمادہ کرنے میں انتہائی اہم کردار ادا کرتا ہے۔اسی طرح نا امیدی و اداسی بھی وقفہِ جنگ میں اپنی توانائیاں ضائع نہ کرنے میں آپ کے لیے ممدو معاون ہوتی ہے۔ یہ خاصیتیں کچھ بھی ہو سکتی ہیں مگر جدید مغربی سماجیاتی زندگی میں ان کی اہمیت دو چند ہو جاتی ہے۔یہ وہ چیزیں ہیں جو جنگ پلٹ فوجی بہت مشکل سے سیکھتے ہیں۔دراصل عام زندگی میں واپسی ایک تھکا دینے والا عمل ہے۔
درج ذیل صفحات میں ہم ان کے تجربات کا عمیق مطالعہ کریں گے۔
جنگوں سے مخصوص سماجی ربط پیدا ہوتا ہے جس کی وجہ سے جنگ پلٹ سپاہیوں کو عام زندگی میں واپسی پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ہم پہلے ہی دیکھ چکے ہیں کہ جنگوں اور قدرتی آفات میں انسانی نفسیات پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں تاہم سوال یہ ہے کہ جنگ سے واپس آنے والے سپاہیوں کو اعصابی و نفسیاتی دباؤ اور تناؤ کا سامنا کیوں رہتا ہے؟درحقیقت جنگیں اور آفات انسانی سماج میں ایسا ربط و تعلق قائم کرنے کا موجب بنتی ہیں جو جدید سماج سے مطابقت نہیں رکھتا۔ سپاہیوں کی مثال لیجیے، بھائی چارہ ان کے جنگی تجربات کا آئینہ دار ہوتا ہیاورایک ہی محاذ پر خدمات سرانجام دینے والے سپاہیوں کا باہمی تعلق انہیں ایک قبیلے کی صورت باہم منسلک رکھتا ہے۔ایک امریکی فوجی وین اسٹریک نے اپنے ایک انٹرویو میں یہ بات کہی تھی کہ ایک بندوق کو چلانے کے لیے پندرہ سپاہیوں کو ذمہ داری سونپی گئی تھی اور ان میں سے بیشتر کے لیے یہ ایک انوکھا تجربہ تھا جس میں مسابقت و تقابل کو کوئی دخل نہیں تھا، سبھی برابر کے حصہ دار تھے۔ یہ چیز سپاہیوں میں فوج کے لیے محبت بٹھائے رکھتی ہے۔مشترکہ دشمن سے لاحق خطرات عوام میں ایک طرح کی بے تکلفی و انسیت پیدا کردیتے ہیں جو دیگر تناظرات میں عنقا ہوتی ہے۔بقا کا مطلب اپنی زندگی کیلیے دوسروں پر اعتبار کرنا ہوتا ہے۔اسی طرح کے بے تکلف اور مانوس ربط کی وجہ سے بزرگ لندنی شہری بلٹز معرکے کو یاد رکھے ہوئے ہیں۔
تاہم یہ چیز محض جنگ کے ساتھ خاص نہیں ہے۔1980ء میں ایڈز کا شکار ہونے والے افراد سے بات چیت میں بھی اسی طرح کی تصویر سامنے آئی تھی۔اس جان لیوا بیماری نے انہیں ایک مستحکم اور مربوط نظم میں پرو دیا تھا۔ ان میں سے بیشتر ان دنوں وجود میں آنے والی یکجہتی و ہم آہنگی کو بہت یاد کرتے ہیں، آج کے انفرادیت پسند معاشرے میں جس کا تصور بھی محال ہے۔مضبوط سماجی آہنگ کی عدم موجودگی سپاہیوں کی عام زندگی میں واپسی کو دشوار بنا دیتی ہے۔ان کے سماجی طرزِ حیات اور فوجی طرز زندگی میں بعد الطرفین پایا جاتا ہے۔انہیں یکدم احساس ہوتا ہے کہ وہ ایک ایسے سماج میں رہ رہے ہیں جہاں اشتراک و اتفاق کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور یہی چیز انہیں ذہنی دباو? کا شکار بنادیتی ہے۔بیشتر تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ سماجی ربط و معاونت کا میسر نہ ہونا PTSD کا خطرہ بڑھا دیتا ہے۔لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ سپاہیوں میں موجود خوف و وحشت کی وجہ محض جنگ کو قراردینا صحیح نہیں ہے بلکہ اس کی ذمہ داری عام زندگی کے سماجی پہلوؤں پربھی عائد ہوتی ہے۔
مغربی معاشرے مقامی امریکیوں کے ہاں مروج جنگ کے خاتمے کی رسومات سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔
مقامی امریکیوں نے دیگر قومیتوں کی نسبت زیادہ جنگی خد مات سر انجام دی ہیں۔اس کی وجہ ان کی ثقافت میں جنگ کی غیر معمولی اہمیت ہے اور یہی چیز جنگ سے معمول کی زندگی میں واپس آنیمیں ان کی معاونت کرتی ہے۔یہاں رائج جنگ کے خاتمے یا جنگ سے واپس لوٹنیکی رسومات ہی کو دیکھ لیجیے،سبھی مقامی امریکی قبائل کو ایک سے حالات کا سامنا نہیں تھا، ان میں سے کچھ سنگین جنگی حالات کا شکار رہے اور کچھ معمول کی زندگی گزراتے رہے۔تاہم ان میں سے ہر ایک قبیلہ جنگ کے لیے اپنے آپ کو تیار رکھتا تھا اور وہ جنگ سے واپس لوٹنے والوں کو واپس معمول کی زندگی میں لانے کی اہمیت سے آشنا تھے۔
جنگ سے واپس لوٹنے والے کسی بھی فرد کے لیے سولہ دن پر مشتمل تطہیری رسومات ادا کی جاتی تھیں مگر وہ افراد تنِ تنہا ایسا نہیں کرتے تھے۔قبائل کا یقین تھا کہ اگرچہ جنگ میں ایک ہی فردشریک ہوتا ہے تاہم سارا قبیلہ حالتِ جنگ میں رہتا ہے۔اس کا مطلب تھا کہ ہر ایک کو ان رسومات میں شمولیت اختیار کرنا ہوتی تھی۔کئی مقامی امریکی قبائلی افراد انہیں رسومات کے سبب معمول کی زندگی گزارنے میں کامیاب رہے۔1980ء میں ان قبائل نے اپنی رسومات کا دائرہ وسیع کردیا اور وہ دیگر قومیتوں سے تعلق رکھنے والے جنگ پلٹ افراد کوبھی اوکلا ہومامیں منعقد ہونے والی اپنی روایتی ثقافتی رسم ’پوو(Powwww)‘، ایک روایتی سماجی ا کٹھ میں مدعو کرنے لگے۔اس طرح کی رسومات مغربی معاشروں کے لیے رہنمایانہ کردار ادا کرسکتی ہیں۔
سیکولر امریکا نہ صرف ان روایتی رسومات بلکہ مجموعی سماج کی تفریح و درماں کے لیے کئی طرح کی تقریبات کا اہتمام کر سکتا ہے۔اس سلسلے میں اولین اور اہم قدم ایسی مجالس کا اہتمام ہو سکتا ہے جہاں جنگ پلٹ سپاہی اپنے جنگی تجربات کو عوام کے سامنے بیان کر سکیں،تاہم بدقسمتی سے جدید سماج میں ایسی چیزوں کی گنجائش نہ ہونے کے برابر ہے۔ایک طریقہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جنگی سپاہیوں کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے دن فوجیوں کو موقع فراہم کیا جائے کہ وہ عوام سے اپنی خدمات کے بارے میں بات کر سکیں کیوں کہ بولنا اور سنے جانا دراصل جنگی صدمے سے چھٹکارے کی پہلی سیڑھی ہے۔
فیس بک پر تبصرے