’’پاکستان میں مسلکی حرکیات کی تفہیم‘‘
پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کے زیرِ اہتمام منعقدہ یک روزہ سیمینار کی روداد
پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز گزشتہ کئی سالوں سے پاکستان میں بین المذاہب و بین المسالک ہم آہنگی کے لیے فکری و علمی مکالمے کا اہتمام جاری رکھے ہوئے ہے ۔اسی سلسلے میں دسمبر 2018ئمیں ایک قومی سیمینار کا اہتمام کیا گیا جس کا عنوان ’’پاکستان میں مسلکی تفہیم کی حرکیات‘‘ تھا۔ جس میں نامور مفکرین نے شرکت کی ۔پاکستان میں جرمنی کے سفیر مارٹن کوبلر نے اپنے افتتاحی خطاب میں کہا کہ وہ اپنے سفارتی دورانیے میں آٹھ سال عراق ، افغانستان اور دیگر مسلم ممالک میں تعینات رہے ہیں جہاں انہوں نے مسلکی تشدد کے مظاہردیکھے ہیں۔ ہمارا ملک، جرمنی بھی ایسے حالات سے دوچار رہا ہے جہاں یہودیوں کے خلاف ہولوکاسٹ ہوئی، ہم نے نسلی تعصب کی بنیاد پر فرانس سے جنگیں لڑیں ،پہلی اور دوسری جنگ عظم میں قائدانہ کردار ادا کیا تاہم بعد ازاں ہم یہ سوچنے پر مجبور ہوئے کہ نفرت اور تشددکو ختم کر کے ہم آہنگی کو فروغ دیا جائے ۔انہوں نے کہا کہ جذباتی لیڈر شپ عوام میں نفرت کے بیچ بوتی ہے اور غربت محدود مواقع کو جنم دیتی ہے جس کے بعد معاشرے میں تعصب پھیلنے لگتا ہے ۔پاکستان میں اقدار کا بھی بحران ہے ۔اسلام روشن اقدار کا مذہب ہے علما عوام میں اسلام کی اصل اقدار اجاگر کریں ۔عوام ایک ایسے میثاق پر عمل پیرا ہوں جہاں کسی کو اس کی نسل ،مذہب ، مسلک یا عقیدے کی بنیاد پر تعصب کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔اس سے قبل صفدر سیال نے خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں اس سال گزشتہ سالوں کے مقابلے میں مسلکی تشدد میں نمایاں کمی دیکھی گئی ہے ۔2008ء میں پاکستان میں مسلکی تشدد کے 12واقعات میں 51افراد جاں بحق ہوئے جبکہ اس کے مقابلے میں 2013ء میں مسلکی تشدد کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 687تھی ۔تاہم ملکی سطح پر عوامی رویوں میں یہ تقسیم مسلسل بڑھ رہی ہے جو تشویشناک ہے اور یہ اب بھی پاکستان کی داخلی سلامتی کو درپیش ایک بڑا چیلنج ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نیشنل ایکشن پلان میں ا س کے خاتمے کے لیے منافرانہ اظہار پر پابندی کا قانون رکھا گیا ہے ۔اس کے ساتھ انتہا پسندی کے خاتمے ، اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ اور مدارس میں اصلاحات کا بھی اعادہ کیا گیا ہے۔حکومتی کوششوں کے ساتھ یہ معاشرے کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ مسلکی ہم آہنگی کے راستے میں حائل رکاوٹوں کو دور کرے ۔
پاک انسٹی ٹوٹ فار پیس اسٹڈیزکے ڈائریکٹر محمد عامر رانا نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہم آہنگی کا فروغ کیسے ممکن ہے ؟ ا س سلسلے میں ایک تجویز یہ بھی آئی ہے کہ تنوع کو اپنی طاقت بنا کر پیش کیا جائے۔پاکستان ثقافتی ، نسلی ، لسانی ،مسلکی اور مذہبی حوالے سے ایک متنوع ملک ہے ،اس لیے اگر اپنی اپنی شناختوں کے ساتھ دوسرے کی شناخت کو تسلیم کرنے کا رواج پروان چڑھے تو یہی ہم آہنگی ہے ۔ہم ہم آہنگی کی بنیاد پر یکسانیت نہیں چاہتے ۔ آئین عوام کے درمیان ایک میثاق کا نام ہے مگر عوام کے باہمی رویے بھی ایک میثاق ترتیب دیتے ہیں ،اس کے لیے علما کو آگے آنا چاہیے ۔انہوں نے کہا کہ وہ معاشرے جہاں ہم آہنگی ہوتی ہے وہ سماجی و ترقیاتی شماریوں میں اوپر ی درجوں پر ہوتے ہیں ۔
نامور و مفکر اور اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق چیئر مین ڈاکٹر خالد مسعود نے اپنے کلیدی خطاب میں کہا کہ مسلم امہ میں خود احتسابی کی تحریکیں اٹھارویں صدی میں شروع ہوئیں مگر ا س کے ساتھ ہی نوآبادیاتی دور آ گیاچنانچہ ساری توانائیاں ا س بات پر صرف ہونے لگیں کہ اگر مسلمانوں کے پا س اقتدار آ جائے تو سارے مسائل حل ہوجائیں گے اور مسلمانوں کے باہمی مسائل میں بھی اغیار کی سازشیں تلاش کی جانے لگیں ۔مسلک بھی انہیں میں سے ایک تھے اور انہیں بھی پراکسی وارز سمجھا گیا ۔قرآن میں سب سے زیادہ زور تبدیلی ، تنوع اور اختلاف پر ہے ،اختلاف کو پہلی دو صورتوں میں رحمت تصور کیا جاتا ہے ۔اسی طرح فقہا کا اختلاف تعبیر کا ہے ۔پاکستان کے آئین میں مسلک کا لفظ اچھے معنوں میں استعمال ہوا ہے مگر 1980ء میں آنے والی ترمیم کے بعد اسے فرقہ واریت کا رنگ دے دیا گیا، جب یہ کہاگیا کہ قرآن و سنت کی تعبیر مسلکی نقطہ نظر سے ہو گی ۔اسلیے پاکستان کے آئین ، تعلیمی نظام اور مدارس میں مسلکی تقسیم کی بنیادوں کو ختم کیا جائے ۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئر مین ڈاکٹر قبلہ ایاز نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ’’ پیغامِ پاکستان‘‘ میں بین المذاہب ، بین المسالک ہم آہنگی کی راہ متعین کر دی گئی ہے اور اس پر تمام مکاتبِ فکر کے علما کا اتفاق بھی ہے ۔پاکستان میں شیعہ سنی اختلاف پراکسی وار ہے ۔سعودیہ اور ایران نے اپنے اپنے مکاتبکو سپانسر کیا ہے لیکن حال ہی میں سعودیہ میں ایک کانفرنس ہوئی جس میں ایران سے سنی اور شیعہ علما بھی شریک ہوئے ہیں۔ یہ بات اب تسلیم کی جانے لگی ہے کہ سعودیہ ایران تضاد مسلکی سے زیادہ ایک سیاسی مسئلہ ہے ۔
نامور کالم نگار اور مفکر خورشید ندیم نے اپنے خطاب میں کہا کہ مسلمانوں میں فرقہ واریت کی ابتدا اسلام کی سیاسی تفہیم سے ہوئی۔سانحہ کربلا کے بعد امامت و خلافت کی بحث شروع ہوئی اور سیاسی مؤقف کو مذہبی مؤقف بنا کر پیش کیا گیا ۔مسلمانوں میں تاریخی اعتبار سے تین فرقے ہیں سنی ، شیعہ اور خوارج ۔ مذہب اور ریاست کے باہمی تعلق کی تشکیل جدید کی ضرورت ہے۔
جامعہ الصادق کوئٹہ کے وائس پرنسپل اکبر زیدی نے کہا کہ بلوچستان میں شیعہ اور سنی علما کاآپس میں گہرا رابطہ موجود ہے ۔انہوں نے کہا کہ انہوں نے کئی ایسے نکاح پڑھائے جہاں لڑکی ایک مسلک سے تھی تو لڑکا دوسرے سے مگر دونوں کے مابین کبھی طلاق کی وجہ ان کا مسلک نہیں بنا ۔پاکستان میں مسلکی اختلاف اس وقت تشدد کی طرف گیا جب ریاست نے مسلکی بنیاد پر پشت پناہی شروع کی ۔
بینظیر بھٹو ویمن یونیورسٹی پشاور کی شعبہ اسلامیہ کی استاد ڈاکٹر خدیجہ عزیز نے اپنے خطاب میں کہا کہ مدارس کا انحصار چندے پر ہے جس کی وجہ سے علما عوام کے جذبات سے کھیلتے ہیں اور انہیں تقسیم کی طرف راغب کرتے ہیں۔
پشاور یونیورسٹی کے شعبہ اسلامیہ میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر رشید احمد نے کہا کہ قرآنی آیات و نصوص کو اس وقت کے حالات کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے ۔مدارس فرقہ واریت کو فروغ دے رہے ہیں م، وہاں ساری توانائیاں مسلک کے لیے دلائل گھڑنے پر صرف کی جاتی ہیں ۔
جماعت اسلامی بلوچستان کے رہنما مولانا عبد الحق ہاشمی نے کہا کہ مدارس میں اصلاحات کی ضرورت ہے، بین المدارس طلبا کے اندرروابط بڑھائے جائیں اور میانہ روی کی فقہ کو رواج دیا جائے ۔
ادارہ فکر جدید لاہور کے پرنسپل صاحبزادہ امانت رسول نے کہا کہ دوہزار سے زیادہ علما کے پیغام پاکستان پر دستخط ہیں، مگر المیہ یہ ہے کہ جنہوں نے دستخط کیے ہیں ان کے گفتار میں بھی مسلکی ہم آہنگی کی جھلک نہیں ملتی ۔جو بیانیہ پیغام پاکستان میں دیا گیا ہے ہمارا نظامِ تعلیم اسے رد کرتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ درس نظامی میں اصلاحات کی جائیں ۔
گلگت سے اسلامی مفکر مولانا عطا ء اللہ شہاب نے کہا کہ گلگت میں جب مسلکی اختلاف پر لاشیں گرائی جا رہی تھیں توہم نے تمام مکاتب فکر سے مشاورت کے بعد ایک میثاق بنایا جس کے بعد سے وہاں امن ہے اس ماڈل کو پورے ملک میں لاگو کیا جانا چاہیے۔
کراچی سے جامعہ بنوریہ کے مہتمم سید احمد بنوری نے کہا کہ پاکستان میں شناخت کا بحران ہے اس لیے لوگ اپنے مسائل کے ازالے کے لیے مختلف شناختوں سے منسلک رہتے ہیں تاکہ ان کی کہیں شنوائی ہو سکے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ جب تک ان پر کسی مکتبِ فکر کی چھاپ نہیں ہو گی تو ان کا معمولی مسئلہ بھی حل نہیں ہو گا۔
البصیرۃ ٹرسٹ کے چیئرمین ثاقب اکبر نے کہا کہ فرقہ واریت کے پیچھے عالمی محرکات ہیں ۔یہ نہیں ہو سکتا کہ تمام مسالک تاریخی واقعات کی ایک توجیح پر متفق ہو جائیں ،الگ الگ نقطہ نظر کے ہوتے ہوئے ایک دوسرے کو تسلیم کرنا ہو گا اور مدارس کے الگ الگ بورڈز کے بجائے ایک ہی بورڈ ہونا چاہیے ۔
سیمینار کے تیسرے حصے کی صدارت اقبال انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ریسرچ اینڈ ڈائیلاگ ،انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر حسن الامین نے کی، انہوں نے کہا کہ ہم نے ایک مشق کی اور تمام مسالک کے اساتذہ اور طلبا کو معلوماتی و تفریحی دوروں پر لے گئے وہ شام تک ایک دوسرے کے دوست بن جاتے تھے اس طرح وہ سمجھتے ہیں کہ اصل مسئلہ باہمی روابط کا فقدان ہے اس لیے مسلک کی بنیاد پر بننے والے مدارس اور مساجد کی حوصلہ شکنی کی جائے تاکہ تمام لوگ بلالحاظِ مسلک اپنی عبادات مشترکہ طور پر کریں ساتھ ہی حکومت بنگلہ دیش کی طرز پر علما کیانفرادی فتووں پر پابندی لگائے ۔
ہری پور یونیورسٹیمیں شعبہ اسلامیات کے سربراہ ڈاکٹر عبد المہیمن نے کہا کہ جب ایک یہودی کا جنازہ جا رہا تھا تو رسولِ کریم ؐ احتراماً کھڑے ہو گئے ،پوچھا گیا تو فرمایا کہ کیا یہ انسان نہیں ہے ؟ اس طرح ہمیں بھی احترامِ آدمیت کو فروغ دینا ہو گا ۔یہی دین کی اصل روح ہے جس سے ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا جذبہ بیدار ہو گا ۔
مذہبی سکالر مولانا امجد عباس نے سیمینار سے اپنے خطاب میں کہا کہ مدارس اور یونیورسٹیوں کے اسلامی شعبوں کی بنیاد ہی مسالک پر ہے جس مسلک کا ڈین ہوتا ہے اسی مسلک کا اسٹاف رکھا جاتا ہے۔ اس طرح مدارس تو ایک طرف سرکاری یونیورسٹیاں بھی مسالک کو فروغ دے رہی ہیں ۔کسی مدرسے کی رجسٹریشن اس وقت تک نہیں ہوتی جب تک اس کی شناخت بطور مسلک نہیں ہوتی ۔
پیس اینڈ ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے مجتبیٰ راٹھور نے کہا کہ مسلکی اختلاف تو ختم نہیں ہو سکتے، ہمیں ان اختلاف سے جنم لینے والے رویوں کو بدلنا ہو گا ۔علما ان مفروضات کو ختم کریں جو ایک مسلک دوسرے مسلک کے بارے میں رکھتا ہے ۔
مذہبی سکالر اور کالم نگار ضیاء الحق نقشبندی نے اپنے خطاب میں کہا کہ مدارس کے دار الافتا کو کنٹرول کیا جائے تاکہ ایک دوسرے کے خلاف کفر کے فتوے نہ آئیں ۔مدارس میں مہتمم کو جو اہمیت حاصل ہے اس کی وجہ سے شیخ الحدیث حضرات احساسِ کمتری میں مبتلا ہیں۔
انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کے استاد محمدراشد نے کہا کہ برِ صغیر کے لوگ تاریخی طور پر عصبیت پسند ہیں مولویوں سے زیادہ معتقدین جذباتی ہوتے ہیں ۔ان میں اختلافات تو ختم نہیں ہو سکتے ضرورت اس امر کی ہے کہ اختلافات کوقائم رکھتے ہوایک دوسرے کا احترام کیا جائے ۔
فیس بک پر تبصرے