’’ہجر تیرا جے پانی منگے‘‘ زاہد حسن کی کہانیوں کا نیا مجموعہ ہے جو حال ہی میں شائع ہو ا ہے۔ زاہد حسن پنجابی فکشن لکھتے ہیں، چارناولوں؛ عشق لتاڑے آدمی، غلیچا انن والی، قصہ عاشقاں اور تسّی دھرتی سمیت اس افسانوی مجموعہ کو ملا کر اب تک ان کی دس کتب شائع ہو چکی ہیں۔ اردو اور پنجابی میں تحقیق، ترجمہ اور شاعری پر ان کا کام اس کے علاوہ ہے۔ کسی بھی زبان اور کسی بھی صنف میں لکھتے ہوئے اپنی بنیادی پہچان بنانا پہلا کام ہے جو کسی بھی لکھنے والے کے لیے مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ اسلوب، تکنیک، موضوعات اور زبان و بیان کے حوالے سے منفرد حیثیت حاصل کرنا دوسرا کام ہے جو بہت کم لکھنے والوں کے نصیب میں آتا ہے۔ تاہم ’’انفرادی حیثیت کا حامل ‘‘ اور ’’منفرد لکھنے والا‘‘ جیسے یہ وہ صیغے اور سابقے اور لاحقے ہیں جو عام طور پر ہمارے یہاں ہرلکھنے والے کو کمال مہربانی کے ساتھ عطا کر دئیے جاتے ہیں اور انھیں حاصل کرنے والے لکھاری بھی اس پر فرحاں و شاداں رہتے ہیں اور اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی آئندہ کی تخلیقات کو بھی ان کی نظر کرتے چلے جاتے ہیں۔ یہ ہمارے یہاں مشرق کی اکثر زبانوں میں لکھنے والوں کا ہی المیہ ہے یا پھر پوری دنیا میں یہ صورتِ حال روا رکھی جاتی ہے۔ اس سلسلے میں یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
جہاں تک بات ہے ہمارے خطّے کی زبانوں میں لکھے جانے والے ادب کی، پاکستان میں خاص طور پر پنجابی میں فکشن کی روایت زیادہ مضبوط نظر نہیں آتی۔ جو شو افضل الدین، عبدالمجید بھٹی، اکبر بھٹی، سجاد حیدر، پروین ملک، فرخندہ لودھی، افضل احسن رندھاوا، رفعت، نواز، نذیر کہوٹ، میر تنہا یوسفی، ملک مہر علی، خالد دھاریوال، جمیل احمد پال، الیاس گھمن، مقصود ثاقب، علی انور احمد، زبیر احمد، نین سکھ، کرامت مغل، عائشہ اسلم، نزہت گردیزی، نذر حسین جانی، ظفر لشاری، فرزند علی، نصیر احمد چیمہ، آصف خاں، مسرت کلانچوی، نادر علی، ناصر بلوچ، محمد منشا یاد، اشفاق احمد، راشد جاوید احمد، بانو قدسیہ، حسین شاہد، حسین شاد، کہکشاں ملک، کہکشاں کن59ول، عذرا وقار اور بعض دوسرے نام ہیں جو اس وقت ذہن کے پردے سے سرک گئے ہیں ان میں سے بھی بعض نام ایسے ہیں جو اردو اور پنجابی میں بیک وقت لکھ رہے ہیں، پاکستان کی پچھلی ستّر، اکہتّر برس کی پنجابی ادب کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو یہ صورتِ حال زیادہ مثبت دکھائی دیتی ہے نہ ہی اسے امید افزا قرار دیا جاسکتا ہے۔ ایسی صورتِ حال میں پنجابی فکشن سے وابستہ ان لوگوں کا دم غنیمت نظر آتا ہے۔ جو بعض اوقات ایک آدھ کہانی یا پھر ایک کتاب افسانوں کی یا ایک ناول لکھ کر غائب نہیں ہو جاتے بلکہ منظر پر نہ صرف یہ کہ موجود رہتے ہیں بلکہ اپنا تخلیقی سفر بھی جاری و ساری رکھتے ہیں۔
’’ہجر تیرا جے پانی منگے‘‘ کے کہانی کار کا شمار بھی ہم ان لکھنے والوں میں کر سکتے ہیں جو منظر پر نہ صرف یہ کہ موجود رہتے ہیں بلکہ اپنے تخلیقی سفر اور تخلیقی عمل کو حرز جاں بھی بنائے رکھتے ہیں اور موضوعاتی اور تخلیقی معیار میں بہتری کی صورت پیدا کرتے رہتے ہیں۔ زیرِ مطالعہ افسانوی مجموعہ کو پڑھتے ہوئے اگر ان کے گذشتہ تخلیقی سفر پر نظر کی جائے تو ان کی یہ کہانیاں ارتقائی سفر کا نمونہ دکھائی دیتی ہیں۔ موضوعاتی معاملے سے صرف نظر کرتے ہوئے کہ زاہد حسن کے یہاں پنجاب، پنجابی تہذیب و تمدن، زبان، لوگ اور پنجاب کی سرزمین بنیادی اور اہم موضوع کے طور پر ہمیشہ موجود رہتے ہیں۔ ان کہانیوں میں انھوں نے زبان و بیان کے حوالے سے بعض عمدہ تجربے کیے ہیں اور ان تجربات کے دوران اُن کے زندگی بھر کے مشاہدے کی گہرائی اور بین الاقوامی ادب کے مطالعہ نے ان کی کہانیوں میں ایک طرح کا نکھار پیدا کر دیا ہے۔
زیرِ مطالعہ مجموعہ میں ان کی بارہ کہانیاں شامل ہیں۔ شروع میں ’’کھوہ نیناں دے‘‘ کے نام سے پروفیسر ڈاکٹر معین نظامی کا دیباچہ ہے جس میں انھوں نے کہانیوں کے حوالے سے نہایت اختصار لیکن عمدگی کے ساتھ تجزیہ پیش کیا ہے وہ ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’(ترجمہ) ’’یوں لگتا ہے کہ زاہد حسن کہانیوں کی گڑھتی لے کر پیدا ہوا ہے۔ ان کے ساتھ ہی لُکن مٹی کھیلتا، لاہور آن داخل ہوا ہے، ابھی تک کہانی کے ساتھ ’جڑی سنگت بھی نہیں ٹوٹی اس کی پھر ایسے آدمی کا کہانیوں کے ساتھ میل ملاپ اور بھائی چارہ تو ہونا ہی تھا۔ چھوٹی لیکن اچھی کہانی لکھنا اتنا ہی مشکل ہے جتنا کلاسیکی فارسی اور اردو صنف رباعی کا حق ادا کرنا۔ ان میں بات کو طول دینے کی گنجائش نہیں ہوتی۔ زاہد حسن، ان کہانیوں میں بھی شاباش لینے کا حق دار ٹھہرا ہے۔‘‘ (صفحہ۱۰)
پھر اگلے دو صفحات مصنّف نے اپنی بات کے لیے مختص کیے ہیں اور بتایا ہے کہ کم و بیش بیس برس میں اس نے یہ کہانیاں تخلیق کی ہیں یہ کہانیاں اتنی کم کیوں ہیں، اس کے جواز کے طور پر اس کا کہنا یہ ہے کہ اس دوران اس نے نہ صرف یہ کہ تین چار ناول تخلیق کیے، بلکہ تحقیق، ترجمے سمیت مختلف نوع کا کام کرتا رہا، جس میں ایک کام کتابی سلسلہ ’’کہانی گھر‘‘ کا اشاعتی منصوبہ بھی اس میں شامل تھا۔
جہاں تک ان کہانیوں کے موضوعات کا تعلّق ہے ان میں سے بعض کہانیاں انسانی باطن کا احوال بیان کرتی ہیں جیسے’’لوئی‘‘ ’’ہجر تیرا جے پانی منگے‘‘ اور مِتھ کے لکھی ہوئی کہانی‘‘ تو ساتھ ہی ساتھ پنجاب کا دیہی اور
شہری کلچر بھی ان میں جیتا جاگتا اور ثابت و سالم دکھائی دیتا ہے۔ خاص طور پر مجموعے میں شامل کہانی ’’سایاں نال بھریا صندوق‘‘ ایک مجرّد انسان کی زندگی کی نفسیات، روز مرّہ اور تخلیقی اُپج کو اُبھارتی ہے۔ جس مہارت، کاری گری اور چابکدستی کے ساتھ کہانی کے مرکزی کردار علیا پروکا کے خدّوخال تشکیل دئیے گئے ہیں لگتا ہے ایک جیتا جاگتا کردار ہمارے سامنے اپنے شب و روز گُزار رہا ہے۔ اسی طرح ایک اور کہانی ’’دھوڑ تے پرچھائیاں‘‘ ہے۔ ’’سایاں نال بھریاصندوق‘‘ میں جن مافوق الفطرت اشیا اور جانداروں کا تذکرہ ملتا ہے۔ ’’دھوڑ تے پرچھائیاں‘‘ میں گویا اس کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا گیا ہے۔ جس طرح کا ماحول، کردار اور حالات و واقعات اس میں بیان کیے گئے ہیں پنجاب کے دیہاتوں میں اس طرح کی پُراسرار اور تجسّس سے بھرپور کہانیاں اکثر سننے کو مل جاتی ہیں۔ لیکن ان کو اس فنکارانہ سلیقے سے تخلیق کرنا ایک دوسرا عمل ہے اور یہ عمل بہتر طور مشکل ہے۔
’’ہجر تیرا جے پانی منگے‘‘ کی ایک اور ہمہ پہلو کہانی ’’اُڈیاں کُونجاں‘‘ ہے جو اس مجموعے کی آخری اور بارھویں کہانی ہے اس کہانی میں کہانی کار نے عجیب و غریب کرتو دکھایا ہے۔ جس میں اس نے دو آدمیوں یعنی باپ اور بیٹی کے ایک ہی وقت میں ایک ہی خواب جو کونجوں کے بارے میں ہے دکھایا ہے، کونج جو پنجاب میں ایک پردیسی پرن59دہ ہے اور سردیوں کے موسم میں سائبیریا سے پنجاب کا رُخ کرتا ہے۔ باپ اپنی بیٹی کو اس کے بارے میں بتاتا ہے تو وہ ضد کرتی ہے کہ وہ اسے ویسے ہی دیکھنا چاہتی ہے جیسے اپنے بچپن میں اس کا باپ اسے دیکھتا رہا ہے۔ وہ ہر کوشش کر کے تھک ہار جاتا ہے پھر اُسے ایک عجیب بات سُوجھتی ہے وہ اپنے اور اپنی بیٹی کو نیند کے دوران خواب میں اسے کونج دکھانے کا سوچتا ہے۔ بالآخر جس میں کامیاب ٹھہرتا ہے۔ مجموعی طور پر یہ کہانی پرندوں سے محبت کی مظہر اور قابل مطالعہ ہے۔
زاہد حسن کی کہانیوں کا یہ مجموعہ کہانیوں کے موضوعات،ز بان وبیان اور اسلوب کے حوالے بے حد اہمیت کا حامل ہے۔
جہاں تک بات ہے ہمارے خطّے کی زبانوں میں لکھے جانے والے ادب کی، پاکستان میں خاص طور پر پنجابی میں فکشن کی روایت زیادہ مضبوط نظر نہیں آتی۔ جو شو افضل الدین، عبدالمجید بھٹی، اکبر بھٹی، سجاد حیدر، پروین ملک، فرخندہ لودھی، افضل احسن رندھاوا، رفعت، نواز، نذیر کہوٹ، میر تنہا یوسفی، ملک مہر علی، خالد دھاریوال، جمیل احمد پال، الیاس گھمن، مقصود ثاقب، علی انور احمد، زبیر احمد، نین سکھ، کرامت مغل، عائشہ اسلم، نزہت گردیزی، نذر حسین جانی، ظفر لشاری، فرزند علی، نصیر احمد چیمہ، آصف خاں، مسرت کلانچوی، نادر علی، ناصر بلوچ، محمد منشا یاد، اشفاق احمد، راشد جاوید احمد، بانو قدسیہ، حسین شاہد، حسین شاد، کہکشاں ملک، کہکشاں کن59ول، عذرا وقار اور بعض دوسرے نام ہیں جو اس وقت ذہن کے پردے سے سرک گئے ہیں ان میں سے بھی بعض نام ایسے ہیں جو اردو اور پنجابی میں بیک وقت لکھ رہے ہیں، پاکستان کی پچھلی ستّر، اکہتّر برس کی پنجابی ادب کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو یہ صورتِ حال زیادہ مثبت دکھائی دیتی ہے نہ ہی اسے امید افزا قرار دیا جاسکتا ہے۔ ایسی صورتِ حال میں پنجابی فکشن سے وابستہ ان لوگوں کا دم غنیمت نظر آتا ہے۔ جو بعض اوقات ایک آدھ کہانی یا پھر ایک کتاب افسانوں کی یا ایک ناول لکھ کر غائب نہیں ہو جاتے بلکہ منظر پر نہ صرف یہ کہ موجود رہتے ہیں بلکہ اپنا تخلیقی سفر بھی جاری و ساری رکھتے ہیں۔
’’ہجر تیرا جے پانی منگے‘‘ کے کہانی کار کا شمار بھی ہم ان لکھنے والوں میں کر سکتے ہیں جو منظر پر نہ صرف یہ کہ موجود رہتے ہیں بلکہ اپنے تخلیقی سفر اور تخلیقی عمل کو حرز جاں بھی بنائے رکھتے ہیں اور موضوعاتی اور تخلیقی معیار میں بہتری کی صورت پیدا کرتے رہتے ہیں۔ زیرِ مطالعہ افسانوی مجموعہ کو پڑھتے ہوئے اگر ان کے گذشتہ تخلیقی سفر پر نظر کی جائے تو ان کی یہ کہانیاں ارتقائی سفر کا نمونہ دکھائی دیتی ہیں۔ موضوعاتی معاملے سے صرف نظر کرتے ہوئے کہ زاہد حسن کے یہاں پنجاب، پنجابی تہذیب و تمدن، زبان، لوگ اور پنجاب کی سرزمین بنیادی اور اہم موضوع کے طور پر ہمیشہ موجود رہتے ہیں۔ ان کہانیوں میں انھوں نے زبان و بیان کے حوالے سے بعض عمدہ تجربے کیے ہیں اور ان تجربات کے دوران اُن کے زندگی بھر کے مشاہدے کی گہرائی اور بین الاقوامی ادب کے مطالعہ نے ان کی کہانیوں میں ایک طرح کا نکھار پیدا کر دیا ہے۔
زیرِ مطالعہ مجموعہ میں ان کی بارہ کہانیاں شامل ہیں۔ شروع میں ’’کھوہ نیناں دے‘‘ کے نام سے پروفیسر ڈاکٹر معین نظامی کا دیباچہ ہے جس میں انھوں نے کہانیوں کے حوالے سے نہایت اختصار لیکن عمدگی کے ساتھ تجزیہ پیش کیا ہے وہ ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’(ترجمہ) ’’یوں لگتا ہے کہ زاہد حسن کہانیوں کی گڑھتی لے کر پیدا ہوا ہے۔ ان کے ساتھ ہی لُکن مٹی کھیلتا، لاہور آن داخل ہوا ہے، ابھی تک کہانی کے ساتھ ’جڑی سنگت بھی نہیں ٹوٹی اس کی پھر ایسے آدمی کا کہانیوں کے ساتھ میل ملاپ اور بھائی چارہ تو ہونا ہی تھا۔ چھوٹی لیکن اچھی کہانی لکھنا اتنا ہی مشکل ہے جتنا کلاسیکی فارسی اور اردو صنف رباعی کا حق ادا کرنا۔ ان میں بات کو طول دینے کی گنجائش نہیں ہوتی۔ زاہد حسن، ان کہانیوں میں بھی شاباش لینے کا حق دار ٹھہرا ہے۔‘‘ (صفحہ۱۰)
پھر اگلے دو صفحات مصنّف نے اپنی بات کے لیے مختص کیے ہیں اور بتایا ہے کہ کم و بیش بیس برس میں اس نے یہ کہانیاں تخلیق کی ہیں یہ کہانیاں اتنی کم کیوں ہیں، اس کے جواز کے طور پر اس کا کہنا یہ ہے کہ اس دوران اس نے نہ صرف یہ کہ تین چار ناول تخلیق کیے، بلکہ تحقیق، ترجمے سمیت مختلف نوع کا کام کرتا رہا، جس میں ایک کام کتابی سلسلہ ’’کہانی گھر‘‘ کا اشاعتی منصوبہ بھی اس میں شامل تھا۔
جہاں تک ان کہانیوں کے موضوعات کا تعلّق ہے ان میں سے بعض کہانیاں انسانی باطن کا احوال بیان کرتی ہیں جیسے’’لوئی‘‘ ’’ہجر تیرا جے پانی منگے‘‘ اور مِتھ کے لکھی ہوئی کہانی‘‘ تو ساتھ ہی ساتھ پنجاب کا دیہی اور
شہری کلچر بھی ان میں جیتا جاگتا اور ثابت و سالم دکھائی دیتا ہے۔ خاص طور پر مجموعے میں شامل کہانی ’’سایاں نال بھریا صندوق‘‘ ایک مجرّد انسان کی زندگی کی نفسیات، روز مرّہ اور تخلیقی اُپج کو اُبھارتی ہے۔ جس مہارت، کاری گری اور چابکدستی کے ساتھ کہانی کے مرکزی کردار علیا پروکا کے خدّوخال تشکیل دئیے گئے ہیں لگتا ہے ایک جیتا جاگتا کردار ہمارے سامنے اپنے شب و روز گُزار رہا ہے۔ اسی طرح ایک اور کہانی ’’دھوڑ تے پرچھائیاں‘‘ ہے۔ ’’سایاں نال بھریاصندوق‘‘ میں جن مافوق الفطرت اشیا اور جانداروں کا تذکرہ ملتا ہے۔ ’’دھوڑ تے پرچھائیاں‘‘ میں گویا اس کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا گیا ہے۔ جس طرح کا ماحول، کردار اور حالات و واقعات اس میں بیان کیے گئے ہیں پنجاب کے دیہاتوں میں اس طرح کی پُراسرار اور تجسّس سے بھرپور کہانیاں اکثر سننے کو مل جاتی ہیں۔ لیکن ان کو اس فنکارانہ سلیقے سے تخلیق کرنا ایک دوسرا عمل ہے اور یہ عمل بہتر طور مشکل ہے۔
’’ہجر تیرا جے پانی منگے‘‘ کی ایک اور ہمہ پہلو کہانی ’’اُڈیاں کُونجاں‘‘ ہے جو اس مجموعے کی آخری اور بارھویں کہانی ہے اس کہانی میں کہانی کار نے عجیب و غریب کرتو دکھایا ہے۔ جس میں اس نے دو آدمیوں یعنی باپ اور بیٹی کے ایک ہی وقت میں ایک ہی خواب جو کونجوں کے بارے میں ہے دکھایا ہے، کونج جو پنجاب میں ایک پردیسی پرن59دہ ہے اور سردیوں کے موسم میں سائبیریا سے پنجاب کا رُخ کرتا ہے۔ باپ اپنی بیٹی کو اس کے بارے میں بتاتا ہے تو وہ ضد کرتی ہے کہ وہ اسے ویسے ہی دیکھنا چاہتی ہے جیسے اپنے بچپن میں اس کا باپ اسے دیکھتا رہا ہے۔ وہ ہر کوشش کر کے تھک ہار جاتا ہے پھر اُسے ایک عجیب بات سُوجھتی ہے وہ اپنے اور اپنی بیٹی کو نیند کے دوران خواب میں اسے کونج دکھانے کا سوچتا ہے۔ بالآخر جس میں کامیاب ٹھہرتا ہے۔ مجموعی طور پر یہ کہانی پرندوں سے محبت کی مظہر اور قابل مطالعہ ہے۔
زاہد حسن کی کہانیوں کا یہ مجموعہ کہانیوں کے موضوعات،ز بان وبیان اور اسلوب کے حوالے بے حد اہمیت کا حامل ہے۔
فیس بک پر تبصرے