سی پیک گلگت بلتستان کے لئے موزوں نہیں ؟

1,027

اب اگر حکومت یہ مؤ قف اختیار کر رہی ہے کہ سی پیک کاروباری منصوبہ ہے اور گلگت بلتستان اس میں فِٹ نہیں آتا تو عوام یہ سوالات اُٹھانے میں حق بجانب ہیں کہ کیا گلگت بلتستان والوں کا پاک چین تجارت میں حصّہ لینا شجرِ ممنوعہ ہے؟ا

وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمٰن نے قانون ساز اسمبلی کے بجٹ شیشن میں بحث کو سمیٹتے ہوئے اپنے بیان میں کہا کہ ہم نے باریک بینی سے جائزہ لیا تو معلوم ہواکہ پاکستان چائنا اقتصادی راہداری کا منصوبہ کاروباری منصوبہ ہے جس میں گلگت بلتستان فِٹ نہیں آتا ۔ لہذا سی پیک کی کاروباری سرگرمیاں گلگت بلتستان میں ممکن نہیں ۔اس صورتِحال کے باعث وفاقی حکومت گلگت بلتستان میں پی ایس ڈی پی کے منصوبوں کے لئے98 ارب روپے دے رہی ہے۔
ماضی میں وزیر اعلیٰ سمیت حکومتی اعلیٰ عہدہ دار یہ دعویٰ کرکے نہیں تھکتے تھے کہ گلگت بلتستان سی پیک کا گیٹ وے ہونے کے ناطے اس منصوبے سے سب سے زیادہ فائدہ گلگت بلتستان کو ہی پہنچے گا۔ اور یہ بھی دعویٰ ہوتا رہا کہ گلگت بلتستان میں سی پیک کا اکنامِک زون بھی بنے گا ۔اگرچہ سال قبل سی پیک سے متعلق قومی سطح پر موجودپارلیمانی کمیٹی کے چیئرمین سید مشاہد حسین سید نے گلگت بلتستان کے نمائندوں سے ایک ملاقات میں کہا تھا کہ گلگت بلتستان کا سی پیک میں کوئی حصّہ ہونا تو دور کی بات گلگت بلتستان کو سی پیک میں حصّہ دینے کی کبھی بات تک نہیں ہوئی ۔اُن کا کہا تھا کہ سی پیک اور گلگت بلتستان کا تعلق صرف اتنا ہی ہے کہ پاکستان اور چین کے مابین بچھنے والی آپٹیکل بائبر لائن نے گلگت بلتستان سے گزرنا ہے۔ پچھلے سال اکتوبر میں دورہ چین کے بعد ڈپٹی سپیکر جعفراللہ خان نے بھی کہا تھا کہ سی پیک میں گلگت بلتستان شامل نہیں صرف یہاں سے آپٹیکل فائبر نے ہی گزرناہے۔ سی پیک کو کامیاب بنانے کے لئے گلگت بلتستان کے لوگوں کے تحفظات دور کرنے ہوں گے ۔

اس عرصے میں اگرچہ سی پیک کے حوالے سے جاری شدہ نقشوں میں بھی گلگت بلتستان میں کوئی اکنامک زون سمیت دیگر اہم مقامات نہ ہونے کی اطلاعات میڈیا اور سوشل میڈیا پر لوگ شیر کرتے یا ان حالات کے پیشِ نظر گلگت بلتستان کے مختلف اضلاع میں عوام سڑکوں پر آکر احتجاج بھی کرتے رہے۔ لیکن ان تمام مراحل پر وفاقی اور صوبائی حکومت کا مؤقف یہی رہا کہ گلگت بلتستان کو سی پیک میں دوسرئے صوبوں کے برابر حصّہ مِلے گا ۔دو سال کا عرصہ گزرنے کے بعد اب جا کے وزیر اعلی صاحب خود سے یہ کہنے لگے ہیں کہ سی پیک اور گلگت بلتستان کا آپس میں کوئی تعلق نہیں۔وزیراعلیٰ صاحب اگرچہ کہہ رہے ہیں کہ سی پیک گلگت بلتستان کے لئے موزوں نہیں۔

مؤقف میں یہ تبدیلی اتفاقاً نہیں بلکہ اس کی وجہ گلگت بلتستان کے حوالے سے وفاقی حکومت کے مؤقف میں تبدیلی ہے ۔وفاق کی یہی تبدیل شدہ پالیسی ہے جس کی بنیاد پر وزیر اعظم  نےاپنے دورہ چین کے موقع پر گلگت بلتستان کے وزیر اعلیٰ کو ساتھ لینے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ ایک اعلیٰ حکومتی  عہدہ دار نے بھی وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان کا وزیر اعظم کے دورہ چین میں ساتھ نہ ہونے کی وجہ یہی قرار دیا بلکہ ان کا کہنا تھا کہ اب سی پیک کے منصوبے کوبھی ون بیلٹ ون روٹ سے لکھا اور پُکارا جائے گا نیز دیامر بھاشا ڈیم کا نام بھی اب مختصر کر کے بھاشاڈیم سے ہی تعبیر کیا جائے گا۔بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کا بھی اب نظریہ ضرورت کے تحت تعین کیا جا رہا ہے۔ یوں تو وزیر اعظم نے آج سے دو سال قبل مشیر خارجہ سرتاج عزیز کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی تھی جس کے ذمّے یہ تھا کہ گلگت بلتستان میں آئینی اصلاحات سے متعلق سفارشات مرتب کر کے تین ماہ کے عرصے میں وزیر اعظم کو پیش کی جائیں۔کمیٹی انہی مصلحتوں کی بنیا د پر دوسال میں بھی ان سفارشات کو حتمی شکل نہیں دے پائی ہے۔اب سے کچھ عرصہ قبل تک تو کمیٹی کی جانب سفارشات تیار ہی نہیں کی جاسکی تھی اب اطلاعات ہیں کہ کمیٹی نے سفارشات تیار کی ہیں اور وزیر اعظم سیکرٹریٹ منظوری کے لئے بھجوا دی گئی ہیں۔ لیکن ابھی تک ان سفارشات پر وزیر اعظم نے کوئی فیصلہ نہیں لیا ۔جب فیصلہ ہوگا تب مجوزہ اصلاحات نے حتمی منظوری کے لئے وفاقی کابینہ میں جانا ہے تب جا کر عمل در آمد کے مرحلے پہ پہنچے گا۔ تو کہا جاسکتا ہے کہ ’ہنوز دلی دور است‘۔ اس تاخیر کی بھی وجہ یہی ہے کہ حکومت گلگت بلتستان کو اس کی تاریخی اور قانونی حیثیت کے مطابق آئینی حیثیت دینے سے قاصر ہے اور اس مسئلے کے حل کے لئے بھی مصلحت آمیز حل نکالا جا رہا ہے۔گلگت بلتستان کی قانونی و آئینی حیثیت واضح ہے ۔آزادی سے قبل کی مفصل تاریخ دستیاب ہے اور آزادی کے بعد پاکستان میں شمولیت کے بعد کی تاریخ بھی سب پر آشکار ہے۔ پھر ان خطوں کی پاکستان کے ساتھ الحاق کی دستاویزات بھی موجود ہیں۔جن کی روشنی میں یہاں کے بچے بچے کا مطالبہ ہے کہ اُنھیں آئینی طور پر پاکستانی تسلیم کیا جائے اور گلگت بلتستان کو مُلک کا پانچواں صوبہ بنایا جائے ۔ حکومتوں نے پھر بھی تسلی کرانا چاہی کہ گلگت بلتستان کے تمام طبقوں سے پوچھا جائے کہ وہ گلگت بلتستان کے مستقبل کا تعین کس انداز میں دیکھنا چاہتے ہیں ۔ اس مقصد کے لئے ماضی کی اسمبلی نے تین بار اور موجودہ اسمبلی نے ایک بار متفقہ قرارداد کے ذریعے وفاق سے مطالبہ کیا کہ گلگت بلتستان کو ملک کا پانچواں آئینی صوبہ بنایا جائے ۔ ان قراردادوں کو حکومتوں نے ذرا برابر بھی اہمیت نہیں دی۔ موجوہ وزیر اعلیٰ نے اس منطق کے ساتھ کہ قانون ساز اسمبلی میں چونکہ بعض جماعتوں کی نمائندگی نہیں لہذا ان سے بھی مشاروت کرنے اور ان کو بھی اعتماد میں لینے کے لئے کُل جماعتی کانفرنس بُلانے کا فیصلہ کیا ۔ جس میں تمام سیاسی و دینی جماعتوں کے علاوہ قوم پرست جماعتوں کو بھی دعوت دی کی گئی با لخصوص ایسی جماعتوں کو اہمیت دی گی جن کی اسمبلی میں نمائندگی موجود نہیں۔ وزیر اعلیٰ کی سربراہی میں منعقد ہونے والی اس کُل جماعتی کانفرنس نے اپنے مشترکہ اعلامیے میں متفقہ طور پر مطالبہ کیا کہ گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کے تعین کے لئے قانون ساز اسمبلی کی قراردادوں پر عمل کیا جائے ۔ جیسا بتایاگیا کہ قانون ساز اسمبلی گلگت بلتستان کو ملک کا آئینی صوبہ بنانے کی قرارداد منظور کر چُکی ہے۔ان تمام صورتحال کے باوجود حکومت کی جانب سے گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کے تعین میں تاخیر سمجھ سے بالاتر ہے ۔بلکہ زیادہ تشویش ناک صورت حال یہ ہے کہ سرتاج عزیز کمیٹی کی جانب سے مرتب کردہ سفارشات کو بھی خُفیہ رکھا جا رہا ہے ۔اب تک مختلف ذرائع سے جو اطلاعات منظر عام پر آتی رہی ہیں اُس کے مطابق حکومت غیر منطقی انداز میں گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کا تعین کرنے جارہی ہے ۔بلتستان ، استور اور گلگت شہر کو متازعہ ریاست جموں و کشمیر کا مبینہ حصّہ قرار دیتے ہوئے ان خطوں کو موجودہ پوزیشن میں رکھا جائے گا اور دیامر ،غذر اور ہنزہ نگر کو پاکستان کا حصہ قراردیتے ہوئے قومی دھارے میں شامل کرایا جائے گا ۔ اس مبینہ تجویز پر عمل درآمد کے کیا نتایج برآمد ہوسکتے ہیں اور اس کے قومی مفاد پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں ان کی تفصیلات پر آئندہ کسی کالم میں جائزہ لیا جائے گا یہاں یہ نکتہ اُجاگر کرنا مقصود ہے کہ جس مصلحت کے تحت گلگت بلتستان کو سی پیک منصوبے سے اب دور رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے اور دیامر بھاشا ڈیم کا نام بھاشا ڈیم کیا جاریا ہے اُسی مصلحت کے تحت گلگت بلتستان کی واضح آئینی و قانونی حیثیت کے باوجود اس کے مستقبل کے تعین میں غیر معمولی تاخیر کا مظاہرہ کیا جارہاہے۔اور سفارشات کو بھی خفیہ رکھنے کی نوبت آرہی ہے وگرنہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان سفارشات کو حتمی شکل دینے سے پہلے قانون ساز اسمبلی اور گلگت بلتستان کونسل سے اسکی توثیق کرائی جاتی ۔ ان سفارشات کو خُفیہ رکھنے کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ گلگت بلتستان میں اگر اصلاحات کے نفاذ پر کام کرنے پر حکومت آمادہ ہوئی ہے تو اس میں حکومت کا گلگت بلتستان کے عوام کے ساتھ ہمدردی کا پہلو کم بلکہ سی پیک پر فوری عمل درآمد کی ضرورت کا عمل دخل زیادہ ہے۔ لہذا تاریخی حقایق اور عوامی خواہشات کا مدِنظر رکھا جانا ضروری نہیں۔

اب اگر حکومت یہ موقف اختیار کر رہی ہے کہ سی پیک کاروباری منصوبہ ہے اور گلگت بلتستان اس میں فِٹ نہیں آتا تو عوام یہ سوالات اُٹھانے میں حق بجانب ہیں کہ کیا گلگت بلتستان والوں کا پاک چین تجارت میں حصّہ لینا شجرِ ممنوعہ ہے؟اس وقت بھی شاہراہِ قراقرم کے ذریعے پاک چین تجارت جاری ہے جو کہ یک طرفہ ہے گلگت بلتستان کے لوگ چین سے ہر سال سینکڑوں کنٹینروں میں مال گلگت بلتستان اور ملک کے دوسرے شہروں میں لاتے ہیں لیکن گلگت بلتستا ن سے حتیٰ کہ تازہ پھل تک چین لے جانے کی اجازت نہیں۔اس سی پیک پر عمل در آمد کے بعد بھی یہ تجارت یک طرفہ ہی رکھی جائے گی؟گلگت بلتستان نایاب اور قیمتی پتھروں اور معدنیات کے حوالے سے دنیا بھر میں مشہور ہے تو کیا یہاں ان معدنیات اور قیمتی پتھروں کے پروسیسینگ یونٹس لگا کر ان کو چین سمیت دنیا کے مختلف ملکوں میں برآمد کرنے کا حق نہیں رکھتے؟ اگر ان ساری ضرورتوں کے باوجود یہ کہا جائے کہ سی پیک گلگت بلتستان کے لئے موزون نہیں ہے تو گلگت بلتستان کے بعض ذمہ دار حلقوں کے یہ خدشات حقائق کے عین مطابق ہیں کہ سی پیک جیسے بڑئے منصوبے سے گلگت بلتستان کے لوگوں کے حصے میں یہاں روزانہ کی تعداد میں گزرنے والے سینکڑوں کنٹینروں کے دھوئیں کے سوا کچھ نہیں ۔ سی پیک کا منصوبہ ایک طرف پورے  ملک کے لئے گیم چینجر قرار دیا جا رہا ہے اور اس منصوبے کا گیٹ وے  گلگت بلتستان ہونے کے باوجود ہمیں یہ سوچنے یہ مجبور کیا جارہا ہے کہ یہ منصوبہ ہمارے خطہ کے لئے موزون نہیں توہم یہ سوچ کر اپنے آپ کو اس منصوبے سے دور رکھیں کہ انگور کھَٹے ہیں۔۔۔۔۔۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...