پاکستان میں متنوع شناختیں اور بقائے باہمی

پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کی جانب سے منعقدہ سیمینارز کی رُوداد

886

کیا پاکستان میں شناخت کا بحران ہے؟ اگر ہے تو اس کی وجوہات کیا ہیں ؟ مختلف مذہبی ،قومی، لسانی اور تہذیبی پہچانیں ایک دوسرے کو کس زاویے سے دیکھتی ہیں،کیا وہ متصادم ہیں یا بقائے باہمی پر یقین رکھتی ہیں؟عالمگیریت کے عہدمیں پاکستان کی نظریاتی اور اعتقادی شناختیں خود کو کتنا محفوظ تصور کرتی ہیں یا ان کا مسقتبل کیا ہے؟یہ اور شناخت کے مسئلہ سے جڑے دیگر کئی سوالات پر بات چیت کرنے کے لیے پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کی جانب سے 3 مارچ سے 13مارچ تک پشاور،لاہور اور کراچی میں ’’متنوع شناختیں اور بقائے باہمی‘‘ کے عنوان سے مختلف اوقات میں چار مکالماتی نشستوں کا اہتمام کیا گیا۔

چونکہ پاکستان میں کئی بڑے اور اہم مسائل شناخت کے قضیہ کے ساتھ جڑے ہیں اور اس پہ آزادی کے ساتھ سنجیدہ وعلمی گفتگو بھی بہت کم ممکن ہوتی ہے ،خصوصا نوجوانوں کو اپنی رائے دینے سے محروم رکھا جاتا ہے اس لیے ان نشستوں میں بالخصوص نوجوانوں کو مدعو کیا گیا تھا یہ جاننے کے لیے کہ وہ کیا محسوس کرتے ہیں اور ان کا نقطہ نظر کیا ہے۔ان میں تعلیمی ،فکری،صحافتی،سیاسی ،مذہبی اورادبی شعبوں سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کی نمائندگی شامل تھی۔جبکہ بطور مہمان ڈاکٹر قبلہ ایاز ،قاضی جاوید،وسعت اللہ خان اور سید جعفر احمد شریک رہے جنہوں نے اپنی مختصر گفتگو میں اس اہم موضوع پر اظہارخیال کیا اور شرکاء کے سوالات کے جوابات بھی دیے۔

نوجوانوں نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مختلف پہچانوں پر کوئی قدغن نہیں ہونی چاہیے ۔شناخت ایک سماجی مسئلہ ہے اور اس کی حیثیت میں تقدس و تشدد کا ایساعنصر موجود نہیں ہونا چاہیے جس سے ہیجان یا ناہمواریت پیدا ہو۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ شناخت کے بحران سے شہریت اور سماجی معاہدے پر منفی اثرات پڑتے ہیں،اس حالت کے اندر ملک میں کوئی ایسی فعال شہریت نہیں پرورش پاسکتی جو ملک کو بہتر راستے کی طرف گامزن کرسکے اور نہ کوئی ایسا مؤثر سماجی معاہدہ وجود میں آسکتا ہے جس کو معاشرے میں متفقہ قبولیت حاصل ہو۔نوجوانوں میں سے بعض نے صوبائی شناختوں پر بھی بات کی ، ان کی رائے تھی کہ بین الاقوامی شناختوں کے تناظر میں تو کھچاؤنظر آتا ہے جو عالمگیریت کے مرحلہ میں نہیں ہونا چاہیے لیکن المیہ یہ ہے کہ پاکستان کے اندر صوبائی شناختوں میں ہم آہنگی نہیں ہے اور اس کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب ایک صوبے کا طالب علم دوسرے صوبے میں پڑھنے کے لیے جاتا ہے تو اسے اپنی ثقافت کے تحفظ کی الجھن کاسامنا کرنا پڑتا ہے ۔کوئی فرد جب ایک علاقے سے دوسرے علاقے کی طرف جاتا ہے تو ظاہر ہے وہ اپنے کلچر اور ثقافت کے ساتھ جاتا ہے اور اس کا یہ حق ہے وہ اس کا عملی اظہار بھی کرسکے لیکن ایسا ممکن نہیں ہوپاتا ۔سیمینار میں شناحت اور سوشل میڈیا کے نقطہ پر بھی مکالمہ ہوا۔شرکاء کا کہنا تھا کہ پاکستان میں کچھ نوجوان  شناختوں کے بارے میں کنفیوزن کا شکار ہیں ،وہ اپنی حقیقی پہچانوں کو ظاہر کرنے سے کتراتے ہیں ،اس کی کئی نفسیاتی وسماجی وجوہات ہوسکتی ہیں جن پر کھل کے بات چیت کرنے کی ضرورت ہے۔

متنوع پہچانوں کے حامل سماج کے اندر ’’ہم‘‘ اور ’’غیر‘‘(other)کی تقسیم کو بھی خطرناک قرار دیا گیا ،نوجوانوں کا کہنا تھا کہ تقسیم کی یہ خلیج محض اظہاریہ نہیں ہوتی بلکہ ایک معاشرہ کو عملی طور پہ ایک دوسرے کے مقابل کھڑا کردیتی ہے۔

ان سے جب سوال کیا گیا کہ کیا پاکستان کا آئین وعمرانی معاہدہ ان کی شناخت کی حفاظت کرتا ہے تو بعض کا کہنا تھا آئین وعمرانی معاہدہ تو تحفظ دیتا ہے لیکن اصل مسئلہ عملدرآمد اور قانونی کمزوریوں کا ہے تاہم کچھ کی رائے یہ تھی کہ پاکستان کے آئین کا مجموعی مزاج یہ ہے وہ تنوع کی حوصلہ شکنی کرتا ہے جبکہ تنوع کو احترام دیے بغیر شناخت کے بحران کا حل ممکن نہیں ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ مہذب معاشروں میں تنوع کے احترام کی باقاعدہ تعلیم دی جاتی ہے اور اس بات کا خصوصی خیال رکھا جاتا ہے کہ سماج میں موجود ہر قسم کی شناختوں کا تحفظ یقینی بنایا جاسکے ۔ ہم بنیادی طور پر اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ اتحاد صرف اسی وقت قائم کیا جاسکتا ہے جب یکسانیت ہو حالانکہ اگر تنوع کے ساتھ احترام ہمقدم ہو تو یہ ہم آہنگی اتحاد کی مضبوط ترین شکل ہوتی ہے۔

مکالمہ کے دوران پنجاب میں سماجی تحریکوں اور شناخت کے تعلق ،کراچی میں نقل مکانی کے مقامی تشخص پر اثرات،اندرون سندھ میں وڈیرہ سسٹم اور پہچان کی آزادی،بلوچستان میں بدامنی وگوادر پروجیکٹ پر تحفظات اور مقامی ثقافت کی بقااور پختونخواہ میں مذہب،ثقافتی روایات اور حالیہ سماجی تحریکوں کے نوجوانوں پر اثرات کو بھی زیربحث لایا گیا۔

مکالمہ میں شامل تمام مہمانوں اورنوجوانوں نے اس اہم موضوع پر سیمینار منعقد کرانے پر پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کو خراج تحسین پیش کیا اور یہ تجویز دی کہ اس مسئلہ پر عام آدمی کے ساتھ بھی بات چیت اور مکالمہ کیا جائے تاکہ شناختوں میں تشدد کے عنصر کو ختم کیا جاسکے۔

ان نشستوں کی تفصیلی رپورٹ پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز جلد شائع کرے گا۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...