اپنوں کواپنا بنانا ہو گا

833

پاڑا چنار کے مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اُنھوں نے سرحدی علاقوں میں داعش اور طالبان کی موجودگی دیکھی ہے

افغان سرحد سے ملحقہ پاکستان کے قبائلی علاقے کرم ایجنسی کے مرکزی شہر پاڑا چنار کے تین اطراف میں افغانستان ہے جب کہ ایک سمت میں وفاق کے زیرانتظام پاکستان کے قبائلی علاقے ہیں۔

اس شہر کی اکثریت آبادی کا تعلق شیعہ طوری برادری سے ہے۔ کرم ایجنسی کا علاقہ طویل عرصے تک فرقہ واریت کی لپیٹ میں رہا اور 2005 کے بعد کئی سالوں تک پاڑا چنار کے لوگ افغانستان کے راستے ایک طویل سفر طے کرنے کے بعد پشاور اور دیگر شہروں تک پہنچتے تھے۔

کیوں کہ فرقہ وارانہ کشیدگی کے باعث پاڑا چنار سے تعلق رکھنے والوں کی گاڑیوں کو پاکستانی قبائلی و نیم قبائلی اور دیگر علاقوں سے گزرتے وقت نشانہ بنایا جاتا۔

تاہم طویل کوشش کے بعد پولیٹکل انتظامیہ کی کوششوں سے مری میں ایک امن معاہدہ طے پایا، جس پر اوائل میں تو عمل درآمد نا ہوا لیکن بعد میں صورت حال معمول پر آنا شروع ہوئی اور قبائلیوں کے درمیان شیعہ سنی واقعات تقریباً ختم ہو گئے۔

واضح رہے کہ پاڑا چنار کے درہ پیوار سے ہو کر ایک اہم راستہ افغانستان کو جاتا ہے، جس سے اس علاقے کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔

رواں سال اگرچہ ملک بھر بشمول قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں کمی آئی لیکن کرم ایجنسی کا شہر پاڑا چنار وہ واحد علاقہ ہے جہاں اس سال اب تک دہشت گردی کے تین واقعات ہو چکے ہیں اور اُن میں ہلاک ہونے والوں کی اکثریت کا تعلق شیعہ برادری ہی سے ہے۔

یہ بات بھی اہم ہے کہ رواں سال کے اوائل میں پشتو زبان میں چھاپے گئے پمفلٹ بھی اس قبائلی علاقے میں پھینکے گئے، جن کے ذریعے ’داعش‘ نے کرم، اورکزئی، ہنگو اور ڈیرہ اسماعیل خان میں آباد  شیعہ برداری سے تعلق رکھنے والوں کو نشانہ بنانے کی دھمکی دی تھی۔

پاڑا چنار کے مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اُنھوں نے سرحدی علاقوں میں داعش اور طالبان کی موجودگی دیکھی ہے۔

لیکن اہم بات یہ ہے کہ پاڑا چنار کیوں نشانے پر ہے، اس کی ایک بڑی وجہ بظاہر یہ ہے کہ یہاں کی شعیہ برداری کو نشانہ بنا کر ایک مرتبہ پھر ملک میں فرقہ واریت کو ہوا دی جا سکتی ہے۔

عیدالفطر سے محض تین روز قبل طوری مارکیٹ میں خریداری میں مصروف شعیہ برادری سے تعلق رکھنے والے قبائلیوں کو نشانہ بنانے کے بعد جس طرح پاڑا چنار اور وفاقی دارالحکومت میں احتجاج ہو رہا ہے اور جس انداز میں اس معاملے پر ’’سوشل میڈیا‘‘ پر بحث کا سلسلہ چل نکلا، اس سے یہ بات تو واضح ہے کہ کسی نا کسی حد تک بعض عناصر نے ’’فرقہ واریت‘‘ کو ہوا دینے کی کوشش کی۔

اس خطرے کو پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ اور وفاقی حکومت نے بھی محسوس کیا۔

آرمی چیف نے تو ایک بیان میں یہاں تک کہہ دیا کہ دشمن انٹیلی جنس ایجنسیاں حالیہ واقعات کو بنیاد بنا پر پاکستان میں فرقہ واریت اور لسانی منافرت کو ہوا دے رہی ہے۔ بلکہ یہاں تک کہ فوج کے سربراہ کو یہ بھی کہنا تھا پڑا کہ کسی بھی مسلک سے تعلق رکھنے والے ’’شہید‘‘ ہوں وہ ہمارے ہیں۔

جب کہ وزیر داخلہ چوہدری نثار نے وفاقی تحقیقاتی ادارے ’ایف آئی اے‘ کو ہدایت کہ سوشل میڈیا کے ذریعے فرقہ واریت کو ہوا دینے کا سراغ لگا کر اُن کے خلاف کارروائی کی جائے۔

یہ تشویش اپنی جگہ لیکن صرف سوشل میڈیا پر جاری ’فرقے اور لسانی‘ منافرت کی مبینہ مہم کو ہی دوش دیا جانا درست ہو گا۔

یہ اچھا نا ہوتا کہ دھماکے کے فوراً بعد اعلیٰ سیاسی اور عسکری قیادت یا اُن کے نمائندے پاڑا چنار پہنچ کر متاثرین کے دل کی بات سنتے اور اُنھیں بیانات کے ذریعے نہیں بلکہ  سینے سے لگا کر یہ بتایا جاتا کہ ’’آپ بھی ہمارے اپنے ہیں‘‘۔

کیوں کہ احتجاج میں شامل افراد آج بھی یہ ہی کہہ رہے ہیں کہ ہمیں ’’اپنا سمجھو‘‘ اور تحفظ دو۔

جب اپنوں کو یہ یقین دہانی نا کروائی جائے کہ وہ بھی اہم ہیں تو پھر دوریاں بڑھنے لگتی ہیں اور خدشات گہرے ہونا شروع ہو جاتے ہیں، جس فائدہ یقیناً دشمن اٹھا تو سکتا ہے۔

لیکن تمام تر خرابی کی ذمہ داری دشمن پر ڈال دینے سے نا تو مسائل حل ہوئے ہیں اور نا ہی ہوں گے۔ خامیوں کو دور کرنا ہو گا اور اپنوں کا اپنا بنانا ہو گا۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...