خوشیاں، جعلی نوٹ اور عید مبارک
یہ توکسی بھی سقراط بقراط کو پتہ نہیں کہ انسان پہلے دکھی ہوا تھا یا خوش؟ لیکن خوش رہنے کا ہنر سیکھنے میں وہ ابھی تک مشغول ہے۔ وصل و قرار کی خوشی، فصل کی بوائی کٹائی، شکار اور قبضہ کی خوشی یا پھر بچے کے پیدا کرنے ہونے کی خوشی۔ الغرض عید بقر عید اور تہواروں کے ساتھ وابستہ رنگا رنگ خوشیاں۔ یہ بہانے اور مواقع انسان کے خوش ہونے کے لیے کافی ہیں البتہ اس میں خوش رہنے کی ضمانت شامل نہیں۔ جنوبی ایشیا میں بات سمجھانے کے لیے شعر سنا کر اپنی بات سمجھانے کی جو خوشی ہوتی ہے اس کا بدل نہیں، تو لیجئے سن لیجئے کہ جن باتوں پر خوش ہوا جاتا تھا ان پر کیسے خوش نہ ہونے کی وجہ بھی ہے:
وصل کا دن اور اتنا مختصر۔۔۔۔۔؟؟
دن گنے جاتے تھے اس دن کے لیے
بھائی! کہنے کا مقصد ہے جب بھی بات انسان کی ہو تو یہ ایک نوعی مثال ہے اس کے خوش ہونے اور غمزدہ ہونے پر جو بھی بات ہوگی وہ محض اتفاقیہ نہیں بلکہ تعمیم کے اصولوں پر مسلمہ ہے۔ انسان کی خوشی اتنی سستی ہے اورخوش ہونا اتنا آسان ہے کہ ایک عطائی ڈاکٹر بھی فوری مشورہ یہی دے گا کہ (کوشش کریں) خوش رہا کریں۔ یہ آپ کی صلاحیتوں کا امتحان ہے کہ خوش خوش کیسے رہنا ہے۔ ڈاکٹر کے پاس اس کی کوئی گولی یا شربت نہیں ہے، یعنی یہ واقعی پیسوں سے نہیں ملتی۔ اصل میں بلکہ حتیٰ کہ ڈاکٹر وں کو بھی پتہ چل گیا ہے کہ خوشی ہزار وجہ تندرستی ہے اور اس کا نہ ہونا بہت ساری بیماریوں کا سبب ہے۔ لیکن ڈاکٹر یہ بتا نہیں پائے کہ خوش رہنے کے طریقے کیا کیا ہوسکتے ہیں۔ ماہرین نفسیات کے ہاں اس کا قطعی حل ہوتا تو نقل کرنے اور اسے سینہ بہ سینہ منتقل کرنے میں ہمیں تو ید ِطولیٰ حاصل ہے سو وہ ہم کرلیتے اور خوش رہتے۔ جیسا کہ ہم دوائیوں کے ڈبوں اور پیکنگ کا رنگ بتا بتا کر بڑے سے بڑے مرض کا علاج اگلوں کو تجویز کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ ایسا خوش ہونے اور کرنے میں بھی کرسکتے تھے جو ہم نہیں کرسکتے۔
بھوٹان وہ واحد ملک ہے اور جنوبی ایشیا کا ایک غریب ملک بھی ،جس کے ایک بادشاہ نے اپنا نظریہ 1970میں’’ بنیادی قومی خوشی‘‘ کا پیش کیا
آپ کو تو پتہ ہے کہ فلمیں کسی سماج کا عکاس ہوتی ہیں۔ ہنسی مذاق، شعر و موسیقی، کہانیاں اور المیے اور طربیے سبھی فلموں میں نظر آنی چاہیئے۔ ہمارے ہاں جو فلمیں بنتی ہیں ان میں یہ ساری عکاسیاں نجانے کہاں چلی جاتی ہیں۔ وہاں بھی خوشی کا تعلق کسی کا مذاق اڑانا، دشمن کا قیمہ بنانا اور اگر انتہائی خوشی دکھانی ہو تو ہیرو بیچارے کی شادی کرانے پر بات ختم ہوجاتی ہے۔۔۔ وہ جو کہتے ہیں کہ پھر وہ ہنسی خوشی رہنے لگے۔ یہ بات کسی حدتک مانی بھی جاسکتی ہے کہ اس کے بعد پردے پر پڑی روشنی گل کردی جاتی ہے۔ لوگ آہیں بھر کر، تالیاں اور سیٹیاں بجا کر اپنے آپ کو ہیرو سمجھتے ہوئے اسی چال ڈھال میں سینما ہال سے باہر نکلتے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد سینما ہال کی لائٹیں بھی بند کی جاتی ہیں۔
دنیا بھر کی قوموں نے خام ملکی پیداوار اور خام قومی پیداوار کی شرح کو دیکھ کر اپنی خوشی کے اظہار کی تقریب کی ہے ۔ بھوٹان وہ واحد ملک ہے اور جنوبی ایشیا کا ایک غریب ملک بھی، جس کے ایک بادشاہ نے اپنا نظریہ 1970میں ’’بنیادی قومی خوشی‘‘ کا پیش کیا۔ یہاں gross national happines کا ترجمہ بالقصد کیا گیا ہے۔ بعد میں اس میں نکھار پیدا کرتے کرتے اس کو باقاعدہ آئین کا بھی حصہ بنا دیا گیا۔جس کے الفاظ یہ ہیں:the State shall strive to promote those conditions that will enable the pursuit of Gross National Happiness
خلاصہ کلام، یہ جو خوشی ہے اس کی ذمہ داری بھی ریاست پر عاید ہوتی ہے۔ بے غم ہوکر اور گھوڑے بیچ کر سوجائیں کہ اب آپ کو خوشی کے لیے تھیٹروں کے ٹکٹ صرف اس وجہ سے خریدنے نہیں پڑیں گے کہ وہاں سستی اور ناقابل تحریر خوش کردینے والی جگتیں سننے کو ملیں گی۔ بالفاظ دیگر خوشی ایک قومی اعزاز ہوگی جو ہر شہری کو ملتی رہے گی۔ نہ اس کا بل آئے گا اور نہ خوشی کی لوڈشیڈنگ ہوگی۔ بس جب جب آنکھ ملتے ہوئے صبح صبح بستر سے اٹھیں گے تب تک اچھا خاصا خوشی بیلنس آپ کے اکاؤنٹ جمع ہوتا رہے گا۔۔۔۔ لیکن ٹھہریئے یہ اب تک آپ کا آئینی حق نہیں بن سکا ہے۔ انتظار کریں اور جائیں کوئی سستی تفریح کا اہتمام کر لیجیئے۔
بھوٹان کے بادشاہ نے اس کا خیال نہ بھی پیش کیا ہوتا تب بھی یہ اپنی جگہ ایک مضبوط حقیقت ہی رہتی۔ ہمیں خوشی سے انکار نہیں لیکن اس کے حصول کو کبھی ہم نے اجتماعی مقصد کے طور پر نہیں اپنایا ہی نہیں کہ خوشی سے مرنا تو ہماری ثقافتی ایثارانہ بے اعتمادی کی علامت ہے:
ترے وعدے پہ جیے ہم تو یہ جان تو یہ جان جھوٹ جا نا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا۔۔۔۔۔
یہ جو حضرت غالب نے اگر اعتبار ہونے کو وعدے کے ایفا ہونے کی خوشی کے ساتھ مشروط کیا ہے تو کیا یہ ہم سب پر صادق نہیں آتا ہے۔ یقیناًایسا ہی ہے ہاں دوست ایسا ہی ہے۔ بے اعتباری کا یہ عالم ہے کہ آنے والے کو بھی خوش آمدید نہ معلوم کب کہیں لیکن ہم اسے پہلے سے یہ ضرور بتادیتے ہیں کہ آؤ ہمارے سینے پر ہاتھ رکھو کہ کہیں ایسا نہ ہو تمہارے آنے کی’’خوشی‘‘میں ہمارا دم نکل جائے۔۔۔ توبہ ہے ہم جیسے نازک خیالوں کی کہ ہماری خوشی بھی کسی نہ کسی المیے سے مشروط ہو ہی جاتی ہے۔
لینن نے کہیں لکھا تھا کہ معاشرہ جب اپنے ارتقائی مراحل طے کر رہا ہوتا ہے تو اولین مرحلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے سیاسی سماجی مسائل کو ہنسی مذاق اورتھیٹروں میں طنزو مزاح وغیرہ میں اڑا دیتا ہے پھر وہ آہستہ آہستہ سنجیدگی سے آگے بڑھتا رہتا ہے۔ جی ہاں وہی کچھ جو ہمارے میڈیا میں ہورہا ہے، پیروڈی، جگت بازی اور پتہ نہیں کیا کیا کچھ؟! البتہ ہمارے ہاں اس میں جو انداز اور جس طرح کی زبان استعمال کی جارہی ہے اس سے یہی لگتا ہے اس کا سنجیدہ حل نہیں نکلنے والا بلکہ معاشرتی انفعالیت اور اجتماعی بے حسی میں مزید اضافہ ہوگا۔ اس کا سبب یہی ہے کہ ابھی بھی مسخرے اور بھانڈ ہمارے ہیروہیں اور جو ہمارے سماج میں بگاڑ اور تباہی کا باعث بن چکے ہیں انہیں ملزم کے طور پرکبھی بھی نہیں بلکہ ایک مزاحیہ کردار کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔
نجانے مجھے کیوں لگ رہا ہے کہ ان سیاسی اور اجتماعی کرداروں کے ساتھ ہمارا comfort zoneپیدا کیا جارہا ہے جس سے ان سے بدظن ہونے کی بجائے ان سے ہمدردانہ جذبات ابھرتے جاتے ہیں۔ اگر کہا جائے کہ ہمیں قومی طور پر Stockholm syndrome میں مبتلا کیا چکا ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ جہاں ہمیں اپنے ہی اغواء کاروں سے محبت بھی ہوگئی ہے۔ اب حقیقی خوشی کا INDEXکوئی بنا کر دکھائے!؟
لوگوں نے مجھ سمیت سوشل میڈیا پر عید کی خوشیوں پر سوال اٹھایا کہ عید کیسے منائیں؟ جب ملک کے حالات ابتر ہوں اور لوگ دکھی ہوں۔ سوال انصاف کا ہے اس انصاف کا جس سے خوشیاں لوگوں کو نصیب ہوسکتی ہیں، وگرنہ ضروری نہیں کہ صرف وہ نوٹ ہی جعلی ہوں جن پر لکھا ہوتا ہے ’’عید مبارک‘‘۔۔۔۔۔
فیس بک پر تبصرے