’’سرائیکی علاقے کے لوگوں میں کسی کے لیے کوئی نفرت اور تعصب نہیں‘‘
وفاقی وزیر اور معروف سیاستدان میاں ریاض حسین پیرزادہ سے گفتگو
)میاں ریاض حسین پیرزادہ وفاقی وزیر بین الصوبائی رابطہ وکھیل ہیں،جنوبی پنجاب کے اہم سیاست دانوں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔اُن کی سیاست کئی دہائیوں کے عمل پر محیط ہے۔جنوبی پنجاب سے تعلق ہونے کی وجہ سے ،وہاں کے مسائل سے باخوبی آگاہ ہیں اور اپنے تئیں وہاں کی محرومیوں کو ختم کرنے کی مساعی بھی کرتے رہتے ہیں۔تجزیات کے قارئین کے لیے اُن سے جنوبی پنجاب کی سیاست اور معاشرتی مسائل پر بات چیت کی گئی۔(
تجزیات:جنوبی پنجاب کی سیاست ،پنجاب اور ملکی سیاست میں کیا حیثیت رکھتی ہے ؟
میاں ریاض حسین پیرزادہ:جنوبی پنجاب کا علاقہ بہت بڑا ہے،یہ علاقہ زیادہ تر دریاؤں کے اُوپر ہے ،جہاں دریا ہوں گے وہاں فطری طور پر لوگوں کے پاس پیٹ بھرنے اور تعلیم حاصل کرنے کے لیے پیسے ہوں گے ۔یہی وجہ ہے کہ جنوبی پنجاب کے لوگ زیادہ تر پڑھے لکھے ہیں اور اس علاقے کی لیڈر شپ تقریباًباہر کی پڑھی لکھی ہے اور ملکی سیاست میں ابتدا ہی سے یہاں کے لوگوں کی نمائندگی بھی رہی ہے ۔البتہ سرائیکی علاقہ غربت اور یہاں کے لوگ ملازمت کے حصول میں ہمیشہ سے پیچھے ر ہے ہیں ۔اس کی وجہ یہ تھی کہ ابتدا میں کچھ علاقہ ریاست کی صورت تھا جس کی باگ ڈور نواب کے پاس تھی۔انگریزوں نے بھی ایسے لوگوں کو تعلیم دی جو نیچے والوں پر حکمرانی کر سکیں ۔بعدازاںیہاں کے سیاست دانوں نے بھی جان بوجھ کر ایسے نعرے لگائے ہیں کہ لو گ اُن کے پیچھے آنکھیں بند کر کے چل پڑیں ،مگر شاید اب وقت تبدیل ہو چکا ہے۔ایک بار ہی ایک نعرہ چل سکتا ہے ،ہر بار نہیں چل سکتا،جیسے روٹی کپڑے اور مکان کا نعرہ بار بار تو نہیں چل سکتا تھا۔سیاسی حیثیت کے حوالے سے بھی اور ایگری کلچر کے لحاظ سے بھی، یہ علاقہ پاکستان کی Backbone ہے۔سرائیکی علاقے کی سیاست ہمیشہ Dominate کرتی آئی ہے ۔جب پی پی پی اپنے عروج پر تھی تو اُس کی مرکزی طاقت جنوبی پنجاب کی ہی سیاست تھی،تاہم اب یہ طاقت پی پی پی کھو چکی ہے ۔اب ہماری سیاست پر تاجر پالیسی زیادہ حاوی ہوتی جارہی ہے اور ہمارے ملک کا انحصار زیادہ تر زراعت پر ہے اور Agriculturist معاشرے میں استحصال بہت آسانی کے ساتھ ہوتا ہے اور پھر جب تاجر پالیسیاں ملک میں بن جائیں تو یہ استحصال تیزی کے ساتھ شروع ہو جاتا ہے ،ٹیکس کے نام پر لگان لیا جاتا ہے ۔جو فصل پیدا ہی نہیں ہو رہی ،اُس پر بھی ٹیکس لیا جارہا ہے۔یہ صورتِ حال سرائیکی علاقے کے لیے مسائل پیدا کررہی ہے اور آنے والی سیاست پر اس کا بڑا اثر ہو گا۔اس اثر کو دُور کرنے کے لیے نہ سوچا گیا تو مسائل گمبھیر ہو جائیں گے ،پھر جیسا سیاسی جماعتیں سوچتی ہیں وہ بہت محدود ویژن ہوتا ہے،سرائیکی علاقے کے بارے میں حکومتوں کا ویژن طویل المدتی کبھی بھی نہیں رہا۔جس قانونی اور آئینی حیثیت اور جس انداز سے اس علاقے کو ڈیل کرنا چاہیے ،اُس انداز سے نہیں کیا جارہا۔ہمارے جیسے لوگ جو gross root level سے سیاست میں آئے اور استحصال زَدہ علاقے کی نمائندگی کی ،اُن کو خود اپنے لیے راستہ بنانے کے لیے مختلف اداروں کی طرف سے تنقید کے ساتھ ساتھ استحصال کا سامنا بھی رہا۔سرائیکی علاقوں کے عام لوگ تو زیادہ استحصال کاشکار رہے ہیں ،اُنہیں زیادہ مشکلات اُٹھانا پڑیں،اُنہوں نے اس کی قیمت بھی اد ا کی،چونکہ یہاں زیادہ غربت بھی تھی ،تو یہاں زیادہ Exploitation بھی ہوئی ،پیسے کے زور پر بڑھنے والی دہشت گردی اور طالبانائزیشن کے لیے یہاں کے لوگ فطری طور پر زیادہ Vulnerable تھے۔ہمارے یعنی سرائیکی علاقے میں اسی وجہ سے زیادہ دہشت گردی پروان چڑھی۔
تجزیات:جنوبی پنجاب سیاسی سطح پر انتہائی اہمیت کا حامل ہے ،آپ چونکہ اس پورے علاقے کی نمائندگی کرتے ہیں،کیا سمجھتے ہیں کہ سماجی شعور کی سطح جنوبی پنجاب کے لوگوں میں کس حد تک بلند ہے ؟
میاں ریاض حسین پیرزادہ:دیکھیں !سماجی شعور کے حوالے سے جنوبی پنجاب پورے ملک سے آگے ہے۔جنوبی پنجاب کا روایتی معاشرہ ہے ،اس معاشرے نے کہیں سے کچھ نہیں لیا ،اس کا جو کچھ بھی ہے اپنا ہے ،یہاں کے لوگ مل جل کر رہتے ہیں ،جس کا نتیجہ یہ ہے کہ یہاں برداشت بہت زیادہ ہے ۔سرائیکی علاقے میں جتنا مہاجر آیا،سرائیکیوں نے اُنہیں ویلکم کہا اور آج تک سرائیکی مہاجر تصادم نہیں ہوا۔غریب الوطن لوگوں کو سرائیکیوں نے اپنے ہاں جگہ دی۔یہ سب سماجی شعور کا ہی نتیجہ تھا،چونکہ برداشت کا کلچر تھاتومختلف مذاہب کے لوگوں کو قبول کرنے کا رویہ بھی یہاں پر موجود تھا۔سماجی سطح پر سرائیکی معاشرہ باانصاف معاشرہ تھا۔سماجی سطح پر جنوبی پنجاب کے معاشرے کو دیگر معاشروں سے خود کو بہتر سمجھنا چاہیے۔دیکھیں پٹھانوں،بلوچوں او ر سندھیوں کی بھی سرائیکیوں کی بھی اپنی روایات ہیں ،ان روایات کی حامل تمام قومیتوں کا یہاں استحصال ہوا ہے۔
تجزیات: سرائیکی صوبے کے قیام سے ،اگر ایسا ہوجاتا ہے ،آنے والے کسی وقت کے اندر ، کیاسرائیکی لوگوں کے اندر مہاجر آبادی کے لیے تعصب پھوٹ سکتا ہے؟
میاں ریاض حسین پیرزادہ:نہیں ایسا نہیں ہوگا،تصادم اور تعصب پیدا نہیں ہوگا،تاہم جو ناانصافیاں یہاں کے لوگوں کے ساتھ مختلف حکومتوں نے کی ہیں ،اُن کے خلاف ایک نفرت موجود ہے ۔مہاجر کے خلاف کوئی نفرت نہیں ہے ،پنجابی کے خلاف کوئی نفرت نہیں ،پنجاب کا جو بے زمین کاشت کار تھا،وہ ان علاقوں میں آکر بسا ہے ،یہی پر وہ چوھدری بنا ہے،یہاں آکر بسنے والے بہت معتبر نام بنے ہیں ،وہ لوگ سیاست میں آئے ہیں ،جن کے پاس کھانے کو کچھ نہیں تھا ،وہ باثروت ہوگئے۔سرائیکی علاقے نے تو ہمیشہ اُن کو بھی عزت دی ہے ۔
تجزیات:کیا سرائیکیوں نے اپنی شاندار روایات جن کا آپ نے ذکر بھی کیا ،برقرار رکھا ہوا ہے ؟
میاں ریاض حسین پیرزادہ:دیکھیں !غربت سب سے بری چیز ہے ۔ ہم Subjugateہوئے ہیں، معاشرتی طور پر اور قومی پالیسی چونکہ تاجرانہ بن گئی ،دیہات سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں اور پھر سرائیکی علاقہ سارا کاشتکاری کا ہے ،تمام دریا یہاں بہتے ہیں ،اس کے باوجود یہاں پر غربت ہے ۔جب معاشی مسائل رہیں گے تو روایات بھی متاثر ہوں گی۔
تجزیات:جنوبی پنجاب سیاسی اور سماجی شعور کے حوالے سے ملک میں اہم حیثیت کا حامل علاقہ ہے،لیکن پھر بھی پسماندہ ہے؟ایسا کیوں؟
میاں ریاض حسین پیرزادہ :غربت کی وجہ سے یہ علاقہ Exploitation کا زیادہ شکار ہو اہے۔پھر ہماری گذشتہ دور کی حکومتوں میں تعلیم ،صحت اور کاشتکاری کو ترجیح نہیں دی گئی،زراعت کے حوالے سے کوئی نئے بیج پیدا کیے گئے نہ ہی کوئی ریسرچ کی گئی۔ایک سوچی سمجھی حکمتِ عملی کے تحت کاشتکار کو hand to mouth رکھا گیا۔
تجزیات:ان علاقوں کے کچھ لوگ ایوانِ اقتدار میں رہے،اُنہوں نے بھی کچھ نہیں کیا؟
میاں ریاض حسین پیرزادہ:جی بالکل!پھر سیاسی نمائندگی اس ملک میں بہت کم عرصہ چلی ہے،یہاں پر سیاست دان کم فیصلے کر سکے ،کاریگروں نے زیادہ فیصلے کیے۔
تجزیات:کیا سرائیکیوں کو الگ صوبے کی ضرور ت ہے؟
میاں ریاض حسین پیرزادہ:ہم نے بعض مرتبہ یہ بھی دیکھا ہے کہ فلاں تحصیل فلاں ضلع بنا دو کا مطالبہ اُٹھتا ہے،پھر وہ مطالبہ پورا بھی ہو جاتا ہے ،لیکن آج تک اُن نئے بننے والے اضلاع میں دفتر تک نہیں بن سکے۔صوبہ بنانا ،گورننس کو بہتر کرنا بہت ضرور ی ہوتا ہے ۔لیکن صوبہ ہم محض اس شوق میں بنا دیں کہ کچھ لیڈر ایسا چاہتے ہیں ؟ خواہش اور ضرورت محسوس کرنے والے صوبہ بنانے کے لیے کوئی روڈ میپ دیں ۔صوبہ بنے تو اچھی بات ہے ،کیونکہ الگ صوبے کے نام پر یہاں کے لوگوں کا سیاسی استعمال کیا جاتا ہے ۔لیکن اگر ساتھ یہ معاملہ سر اُٹھا لے کہ سرائیکی صوبے کے ساتھ دیگر صوبے بھی بنائے جائیں تو یہ صوبہ کالا باغ ڈیم کی طرح سازشوں کا شکا رہو جائے گا۔سرائیکی صوبہ ایک ایسا مطالبہ تھا جسے فوری طور پر پورا ہو جانا چاہیے تھا۔لیکن اب یہ مطالبہ بھی سازشوں کا شکار نظر آرہا ہے۔سرائیکی علاقے اور صوبے کی بہت اہمیت ہے،سرائیکی علاقہ ہی پاکستان ہے۔نواب آف بہاولپور نے قائداعظم کو جو خط لکھا تھا ،اُس میں اُنہوں نے کہا تھا کہ اگر پاکستان کے قیام کے لیے کہیں بھی زمین نہ ملے توبہاول پور آپ کا پاکستان ہے۔لہٰذا پاکستان تو ہم سرائیکی علاقے کے لوگ ہیں ۔سرائیکی علاقے کی اہمیت مرکزی ہے،اگر اس علاقے کو مضبوط رکھا جائے تو وحدت نہیں بکھرے گی۔صوبے کے قیام کے لیے ایک کھری اور پختہ سیاسی سوچ اور فلسفے کی ضرورت ہے ،اس کے قیام کے لیے استحصال کرنے والی لیڈر شپ کی ضرورت نہیں ہے۔
تجزیات:اب جب ہمارا سیاسی کلچر پروان چڑھ رہا ہے،تبدیلی کے نعرے بھی لگ رہے ہیں ،مگر جنوبی پنجاب میں وہی موروثی سیاسی کلچر نظر آتا ہے،کچھ خاندان ہیں جن کی اجارہ داری نظر آتی ہے، کیا خیال ہے آپ کا ؟
میاں ریاض حسین پیرزادہ:جنوبی پنجاب میں خاندانی موروثی سیاست ہے ،یہ ایک منفی سوچ ہے ۔اگر رسم ورواج موروثی ہیں ،اگر اپنے بزرگوں کے رسم و رواج کا خیال رکھا جائے اور روایات کی پاسدار ی کی جائے تو اُس میں کیا برائی ہے؟روایتی علاقوں میں روایات وہاں کے لوگوں کی سرشت میں ہوتی ہیں ۔اگر ایک بلوچ سردار قومی سیاست کے دھارے میں آتا ہے تو وہاں دوسری طرف سفید پوش جمشید دستی بھی ہے،مظفر گڑھ کے دیگر سیاستدان بھی کچھ ہیں ۔اب اس کا کیا مطلب لیا جائے کہ یہاں خاندانی نظامِ سیاست کارفرما ہے؟میرا سیاسی کیرئیر سب کے سامنے ہے ،ہم تو پسے ہوئے طبقے سے آئے ہیں ۔میرادادا تو پارلیمنٹ کا ممبر نہیں تھا۔پارلیمنٹ میں آنے کے لیے سی ایس ایس کا امتحان نہیں دینا پڑتا ،لوگ انتخاب کرتے ہیں ۔جب لوگوں نے انتخاب کرنا ہے پھر لوگ تو اُسی کو منتخب کرتے ہیں جن کو وہ اچھا سمجھتے ہیں ۔پھولن دیوی کو بھی لوگوں نے منتخب کیا تھا،آپ کی صحافت کی زبان میں اُسے ڈاکو کہا جاتا تھا۔لیکن غریب لوگ یہ سمجھتے تھے کہ یہ مظلوم عورت ہے ،اس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے ۔جمہوری نظام میں پانچ دس لاکھ لوگ فیصلہ کرتے ہیں ،اتنی بڑی عوامی عدالت موروثی کیسے ہو سکتی ہے ۔جنوبی پنجاب میں کچھ قبیلے ہیں ،جب قبیلے اپنے نمائندے کو منتخب کرتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ وہاں تو موروثی سیاست ہے۔اگر لوگ میرے کردار کو پسند کرتے ہیں اور وہ پھر میرے بیٹے کو بھی پارلیمنٹ کا ممبر بنا دیں تویہ جمہوریت ہے،یہ لوگوں کا فیصلہ ہے۔اس سے زیادہ اچھا فیصلہ کیا ہوگا کہ لوگ سوچتے ہیں کہ یہ اچھے کریکٹر کا ہے لہٰذا اس کے بیٹے کو بھی ووٹ دیا جاناچاہیے۔یہ محض کریکٹر کی بات ہے۔کچھ شہری جماعتوں کے نمائندے بھی پارلیمنٹ میں کہہ رہے ہوتے ہیں کہ یہ جاگیر دار ہے ،سرمایہ دار ہے ۔مَیں اُن سے پوچھتا ہوں کہ کون سا سرمایہ دار؟آج تو سرمایہ دار وہ ہے جو میرج ہال چلا رہا ہے،جو لاکھوں کماتا ہے۔ایسا کون سا جاگیر دار ہے جو لاکھوں کما رہا ہے؟
تجزیات:آپ کہتے ہیں کہ سرائیکی علاقے کے لوگ روایات کی پاسداری کرتے ہیں ،کیا روایات کی پاسداری کرنے والے حقوق سے محروم رہیں ؟اُن کے بچوں کے پاس اچھے تعلیمی ادارے اور علاج کے لیے ہسپتا ل نہ ہوں؟رحیم یار خان اور لیہ سے بچے لاہور اور اسلام آباد آکرمہنگی تعلیم حاصل کرتے ہیں ۔جن کے لیے وہ روایات کی پاسدار ی کررہے ہیں ،وہ اُن کو کچھ حقوق تودلوائیں۔
میاں ریاض حسین پیرزادہ:بنیادی طور پر ہماری ریاستی پالیسی کبھی بھی ویلفیئر سٹیٹ کی نہیں رہیں۔استحصال یہاں زیادہ ہوا ہے۔اگر سرائیکی علاقوں میں مسائل ہیں ،جو کہ ہیں،اس کی ذمہ داری حکومتی پالیسیاں ہیں ۔سرائیکی علاقے کے ساتھ بلوچستان جو مشکلات اور مسائل میں گھِرا ہوا ہے ،تو اُس میں غیر ملکی سازشیں شامل ہیں ۔صحیح معنوں میں تو بلوچ اور پٹھان علاقے زیادہ مصائب کاشکا رہیں جہاں خون بہتا رہتا ہے ۔وہاں کے غریب لوگوں کازیادہ استحصال ہو ا ہے۔آگ اور خون کا کھیل رچانے کے لیے کئی سازشیں کی گئی ہیں ۔جن علاقوں کا استحصال ہوا اور ہورہا ہے ،اُن علاقوں کے لوگ جان چکے ہیں کہ ہمارا استحصا ل کون اور کیسے کر رہا ہے ،اب اُن کے اندر یہ شعور پروان چڑھ رہا ہے۔مَیں نے ہمیشہ یہ اپنا فرض سمجھا ہے کہ اگر مجھ سمیت کسی کے بھی حقوق سلب ہوئے ہیں تو اُس کے لیے آواز اُٹھانی چاہیے۔مَیں نے آواز اُٹھائی بھی ہے۔میرے کچھ بیانات میں بغاوت ہوتی ہے ،مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ مَیں اپنی پارٹی سے ناراض ہوں ،یا قیادت سے ناراض ہوں۔وجہ صرف یہ ہے کہ مَیں اپنے علاقے کی محرومیوں کی وجہ سے بعض مرتبہ بہت بے زار ہو جاتا ہوں ۔میرے پاس کوئی طاقت نہیں کہ لوگوں کے مسائل حل کروں ،میرے پاس طاقت عوامی ہے۔جب وہ مجھ سے میری یہ طاقت چھین لیں گے،مَیں تو پھر کہیں نہیں ہوں گا۔
تجزیات:جنوبی پنجاب میں دہشت گرد عناصر ہیں ؟
میاں ریاض حسین پیرزادہ:دیکھیں جی!اس میں چھپانے والی تو کوئی بات نہیں ۔ایک ڈیڑھ سال کا ضربِ عضب ہر جگہ سے دہشت گردی کا قلع قمع تو نہیں کرسکتا۔ہماری لیڈر شپ تو پیسے کھاتی رہی ہے اور دہشت گردی کو طاقت دیتی رہی ہے ۔افغانستان اور پاکستان کے لیے یہ آخری موقع ہے کہ وہ دہشت گردی سے جان چھڑوائیں ،ضربِ عضب کی وجہ سے پاکستان میں ہی نہیں افغانستان میں بھی دہشت گردی میں بہت فرق آیا ہے۔جنرل راحیل شریف نے دونوں ملکوں کی لیڈر شپ کو موقع دیا ہے کہ وہ اس عفریت پر قابو پائیں ۔ہم عارضی طور پر خوش ہیں،ہمیں اس سے نجات پانا ہوگی۔
فیس بک پر تبصرے