بلوچستان کے سرکاری سکولوں سے درسی کتب غائب

1,090

بلوچستان میں تعلیم کے نام پر ہر سال ایمرجنسی نافذ کی جاتی ہے۔ موجودہ حکومت نے بھی سابقہ حکومت کی روایات پر عمل پیرا ہو کر گزشتہ سال تعلیم کے نام پر ایمرجنسی نافذ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ ایجوکیٹر سسٹم کے تحت 10 ہزار اساتذہ کی بھرتی، یونین کونسل کی سطح پر اسکولوں کا قیام، ماڈل اسکولوں کو کالج کا درجہ دینے کے علاوہ صوبے کے 10 ہزار اسکولوں کو صاف پانی کی فراہمی اور انہیں بیت الخلا کی سہولت دینے کے لیے 1 بلین روپے کی منظوری دی گئی۔ اساتذہ و طلبا کی حاضری یقینی بنانے کے لیے منیجمنٹ کمیٹی کا قیام بھی عمل میں لایا گیا۔ لیکن ابتدا ہی میں  ایجوکیٹر سسٹم کے تحت بھرتیوں کی شفافیت پر سوال اٹھنا شروع ہوگئے اور بلوچستان ہائی کورٹ میں حکومتی فیصلہ چیلنج کردیا گیا۔ عدلیہ نے بھرتیوں کے نئے طریقہ کار کو غیرشفاف قرار دیتے ہوئے حکومتی فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا اور بھرتیاں بلوچستان پبلک سروس کمیشن کے ذریعے کرانے کی سفارش کی گئی۔ اساتذہ بھرتیوں سے متعلق حکومت کی جانب سے تاحال کوئی  نئی پالیسی سامنے نہیں آئی ہے۔

نئے تعلیمی سال کا آغاز یکم مارچ سے ہو چکا ہے اورمحکمہ تعلیم و دیگر اداروں کی جانب سے داخلہ مہم کا سلسلہ بھی شروع کیا جا چکا ہے لیکن اس کے ساتھ تشویش کی بات یہ ہے کہ بیشتر اضلاع سے کم کتابوں کی دستیابی کی شکایتیں موصول ہو رہی ہیں۔ ہائی اسکول منہ زیارت گزشتہ سال کتابوں کی کمی کا شکار رہا اِس سال بھی  کم کتب  دستیاب  ہوسکیں۔ اس حوالے سے اسکول استاد محمد حنیف  کہتے ہیں  کہ ’’محکمہ تعلیم کی جانب سے دیے جانے والے سروے فارم میں ہم اسکول میں طلبہ کی تعداد کے لحاظ  سے کتب کا مطالبہ کرتے ہیں لیکن اس پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی اور ضرورت سے کم کتابیں فراہم کی جاتی ہیں‘‘  کتابوں کے حصول کے لیے انہیں خود محکمہ تعلیم کے ضلعی دفتر جانا پڑا اور سفری اخراجات  بھی خود سے برداشت کرنے پڑے۔

پرائمری اور مڈل اسکول پہلے ضلعی آفیسر تعلیم کے ماتحت آتے تھے لیکن گزشتہ تین سالوں سے طریقہ کار تبدیل کیا گیا اور کلسٹر سسٹم متعارف کرایا گیا۔ اب مڈل اور پرائمری اسکول ہائی اسکولوں کے زیرانتظام آچکے ہیں۔ ہائی اسکول منہ زیارت  ایک کلسٹر بن چکا ہے، کلسٹر میں اس وقت 18 پرائمری اور مڈل اسکول ہیں، داخل بچوں کی تعداد 1700 ہے جبکہ فراہم کردہ کتابیں 1300 طالبعلموں کے لیے ہیں جن میں نرسری جماعت کی ریاضی، پہلی  کا اردو قاعدہ، چہارم کی معاشرتی علوم و اردو، پنجم کی  اردو، ششم کی ریاضی، ہفتم کی اسلامیات، تاریخ و جغرافیہ، ہشتم کی ریاضی، جنرل سائنس اور اسلامیات، نہم کی اسلامیات اور دہم کی انگریزی، اسلامیات اور مطالعہ پاکستان کے مضامین کی کتب غائب ہیں۔ اس غفلت وغیرذمہ دارانہ رویے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ  بچوں کا پورا سال انتظار میں گزر جاتا ہے اور سال کے آخر میں  امتحانی پیپر نقل سے پاس کیے جاتے ہیں۔

عابد میر کا کہنا تھا: یہ بلوچستان کے یرغمال اداروں میں سے ایک ہے جسے ایک نجی پبلشر نے برسوں سے یرغمال بنایا ہوا ہے۔ کوئی وزیر کوئی سیکرٹری اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکا

اسکولوں کو کم کتابوں کی فراہمی سے متعلق ایڈیشنل ڈائریکٹر تعلیم منیر احمد نودیزئی سے سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’’کتابوں سے متعلق جو مطالبہ ضلعی آفیسر تعلیم کی طرف سے آتا ہے ہم اس کے مطابق انہیں کتابیں فراہم کردیتے ہیں، اب ان سے پوچھنا پڑے گا کہ سکولوں کے پاس کم کتب کیوں پہنچتی ہیں‘‘ محمد حنیف کہتے ہیں کہ بلوچستان ایجوکیشن منیجمنٹ انفارمیشن سسٹم کی ویب سائٹ پر ہر اسکول کی مکمل تفصیلات موجود ہیں جنہیں سامنے رکھ کر اداروں کو کتب فراہم کی جاسکتی ہیں، ضلعی آفیسر تعلیم کو واسطہ بنانے کی کیا ضرورت ہے۔ کتابوں کی کم فراہمی کا معاملہ صرف زیارت تک محدود نہیں ہے، ایسی شکایات بلوچستان کے بیشتر اضلاع سے موصول ہو تی رہتی  ہیں۔ اس کی وجہ سے بچوں کا تعلیمی سال متأثر ہو تاہے۔ ماہرتعلیم بلوچستان برکت اسماعیل  اسے تعلیمی بدانتظامی گردانتے ہوئے کہتے ہیں ’’جب استاد کو کتابیں نہیں ملیں گی تو وہ بچوں کو پڑھائیں گے کہاں سے؟ جب نہیں پڑھاسکیں گے تو لامحالہ بچوں کو امتحانات میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا اور ان کا وقت ضائع ہوجائے گا‘‘۔

بلوچستان ٹیکسٹ بک بورڑ کا قیام  1972ء میں عمل میں لایا گیا تھا۔ ادارے کے انتظامی معاملات 1977ء تک محکمہ تعلیم بلوچستان کے سپرد رہے۔ اسی سال بلوچستان ٹیکسٹ بک بورڑ آرڈینینس کے تحت اسے خودمختار ادارے کا درجہ ملا۔ ادارے کا بنیادی مقصد محکمہ تعلیم کو غلطیوں سے پاک اور معیاری کتابوں کی فراہمی ہے۔ یہ ادارہ محکمہ تعلیم کو اس کے مطالبات پر کتابیں فراہم کرتاہے۔ اِس ادارے کے موجودہ چیر مین یحییٰ مینگل کے سامنے جب کتب کی کمی کی شکایت رکھی گئی انہوں نے خود کو اس قضیہ سے لاتعلق ظاہر کیا، ان کا کہنا تھا ’’ہم محکمہ تعلیم اور پبلشر کے درمیان پُل کا کردار ادا کرتے ہیں، ڈائریکٹر تعلیم کی جانب سے جو مطالبہ موصول ہوتا ہے ہم اسی کے مطابق کتابوں کی چھپائی کی درخواست پبلشر کو دیتے ہیں اور چھپنے کے بعد محکمہ تعلیم کو ارسال کر دیتے ہیں۔ اب اسکولوں کو کم کتابیں کیسے پہنچتی  ہیں، اس کے ذمہ دار ہم نہیں ہیں‘‘۔

آرچر روڑ کتابوں کی مارکیٹ کی وجہ سے مشہور ہے۔ یہاں نصاب اور مقابلے کے امتحانات کی کتب ملتی ہیں۔ رات کو وقت زیادہ ہوگیا ہے مگر مارکیٹ کھلی اور شاہراہ کی رونقیں بحال ہیں۔ لوگ آتے ہیں کتابیں کاپیاں خریدتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔ لیکن بورڑ کی کتب کے حصول کے لیے یہاں کیوں آئے ہیں؟ اس پہ ایک دوکاندار کا کہنا تھا ’’بچوں کو سرکاری اسکولوں سے کتابیں نہیں ملتی ہیں تو لینے کے لیے یہاں آتے ہیں اور زیادہ تر خریدار وہ ہیں جن کی اپنی اسٹیشنری اور کتابوں کی دوکانیں ہیں، وہ یہاں سے خریداری کرتے ہیں  اور اپنے علاقوں میں جاکر بیچتے ہیں‘‘ تو آپ لوگ بلوچستان ٹیکسٹ بک بورڑ کی کتابیں کس سے خریدتے ہیں؟ ’’نیو کالج والوں سے‘‘ کچھ دور جانے پر ایک گلی آتی ہے اسی گلی کے اندر نیو کالج کا کتاب گھر واقع ہے۔ یہ کتاب گھر پرائیوٹ تعلیمی اداروں کے لیے کتابیں چھپواتا ہے لیکن اس کے ساتھ یہ اب بلوچستان ٹیکسٹ بک بورڑ کی کتابیں بھی شائع کررہا ہے۔ نیو کالج کتاب گھر کے اسٹاک میں اس وقت گورنمنٹ اداروں  کی نصابی کتب دستیاب نہیں ہیں۔ کتابیں کب دستیاب ہوں گی؟’’ 25 مارچ کو‘‘ کاؤنٹر پر بیٹھے ایک نوجوان نے متوجہ ہوئے بغیر کہا۔ چند روز قبل مقامی اخبارات میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق بلوچستان ٹیکسٹ بک بورڑ صوبے میں کچی سے بارہویں جماعت تک 1 کروڑ کتابیں فراہم کرنے میں ناکام ہوگیا۔ 2 اگست 2018 کو ڈائریکٹر تعلیم بلوچستان نے بلوچستان ٹیکسٹ بک بورڑ کو ارسال کردہ خط  میں 1 کروڑ 25 لاکھ 95 ہزار کتابوں کا مطالبہ کیا تھا جبکہ ٹیکسٹ بک بورڑ صرف 60 لاکھ 90 ہزار کتابیں فراہم کر سکا۔ وجہ کیا ہے؟ اس پر مصنف اور کالم نگار عابد میر کا کہنا تھا ’’ یہ بلوچستان کے یرغمال اداروں میں سے ایک ہے جسے ایک نجی پبلشر نے برسوں سے یرغمال بنایا ہوا ہے۔ کوئی وزیر کوئی سیکرٹری اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکا‘‘ وہ کہتے ہیں کہ ٹیکسٹ بک بورڑ اپنا پرنٹنگ پریس لگائے اور جب تک پرنٹنگ پریس نہیں لگتا تب تک بااعتماد پبلشرز سے پرنٹنگ کا کام لے، تاکہ پرنٹنگ پہ اجارہ داری نہ ہو۔

 اگست 2018 میں ڈائریکٹر تعلیم بلوچستان نے بلوچستان ٹیکسٹ بک بورڑ کو ارسال کردہ خط  میں 1 کروڑ 25 لاکھ 95 ہزار کتابوں کا مطالبہ کیا تھا جبکہ ٹیکسٹ بک بورڑ صرف 60 لاکھ 90 ہزار کتابیں فراہم کر سکا

بلوچستان ایجوکیشن منیجمنٹ انفارمیشن سسٹم کے اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان میں اس وقت 14835 اسکول ہیں جن میں داخل طلبا کی تعداد 960668 ہے جبکہ اساتذہ کی تعداد 56180 ہے۔ ایمرجنسی کے نفاذ اور داخلہ مہم کے باوجود بلوچستان میں ڈراپ آؤٹ ریشو 70 فیصد سے کم سطح پر نہیں آتا جو چونکا دینے والا تناسب ہے۔ کتابوں کی فراہمی میں ناکامی اور کتابوں کے بغیر حصولِ تعلیم حکومتی اعلانات اور اقدامات کی  سنجیدگی پر سوالیہ نشان کھڑا کرتے ہیں۔ اتنی بڑی کوتاہی پر حکومت ذمہ داران کے خلاف کاروائی کرے اور کتابوں کی بروقت فراہمی کے لیے  ہنگامی اقدامات کرے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...