پروپیگنڈا اور انسانی نفسیات سے کھلواڑ
کہتے ہیں میٹھے بول میں جادو ہے۔ وہ تو ہے۔ یہ بھی کہتے ہیں کہ بعض کلام جادو اثر ہوتا ہے۔ یہ بھی ٹھیک ہے۔ سنتے ہیں محبت فاتح عالم ہے، بالکل ہے۔ لیکن کیا تیکھے بول میں بھی جادو ہے؟ نمکین بات میں بھی جادو ہے؟ کڑوے لفظ میں بھی جادو ہے؟ نفرت بھرے سخن میں بھی جادو ہے؟ اگر تو جادو کا مطلب کسی کے دل و دماغ کو مسخر کرکے اپنی راہ پر لگانا ہے تو ہر طرح کا کلام یہ کام کرتا آیا ہے، شرط صرف یہ ہے کہ انسان کی دکھتی رگوں پر ہاتھ رکھ کر کلام کیا جائے۔ اگر مارٹن لوتھر کنگ کی ایک تقریر غلامی کی زنجیریں توڑ سکتی ہے، کالے اور گورے میں مالک اور غلام کی صدیوں کی مساوات کو تبدیل کرسکتی ہے تو ہٹلر کا ایک خطاب بھی کسی پوری نسل کو تباہ و برباد کرکے رکھ سکتا ہے، لاکھوں انسانوں کی جانیں لے سکتا ہے، انہیں بھٹیوں میں جلا سکتا ہے، آروں پر چیر سکتا ہے، زہریلی گیسوں میں غبار بنا کر اڑا سکتا ہے۔
یہ ماضی بھی گو کوئی اتنا پرانا نہیں، یہی کوئی ایک صدی سے بھی کم، ستر، اسی، نوے سال اُدھر۔ لیکن آپ چاہیں تو نیا ماضی دیکھ لیں، بوسنیا دیکھ لیں، عراق دیکھ لیں، شام دیکھ لیں، فلسطین دیکھ لیں۔ کشمیر دیکھ لیں۔ چلیں چھوڑیں اپنے گھر میں جھانک لیں، مشال خان کا واقعہ دیکھ لیں، چار سدہ کالج میں پرنسپل کا قتل دیکھ لیں، بہاولپور کالج میں استاد پر خنجروں کے وار دیکھ لیں، ہندو بچیوں کے اغوا دیکھ لیں۔ یہی نہیں مشرق کی طرف ہندوستان میں بے شمارانسان سوزی کے واقعات دیکھ لیں، مغرب کی طرف افغانستان میں خون کی ارزانی دیکھ لیں۔
محبت نے بھی شاید کچھ عالم فتح کیے ہوں لیکن نفرت نے جو ستم ڈھائے ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ صدیوں سے یہی ہوتا آیا ہے کہ کلام کی طاقت سے انسانی نفسیات کا کھلواڑ کیا گیا ہے
محبت نے بھی شاید کچھ عالم فتح کیے ہوں لیکن نفرت نے جو ستم ڈھائے ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ صدیوں سے یہی ہوتا آیا ہے کہ کلام کی طاقت سے انسانی نفسیات کا کھلواڑ کیا گیا ہے۔ زبان کی طراری اور مفاد حاصل کرنے کی چالاکی کے ہنر کو استعمال کرتے ہوئے منفی پراپیگنڈے کے ذریعے کچھ طبقوں، گروہوں، قوموں یا نسلوں کے خلاف نفرت پیدا کی جاتی ہے اور پھر اس نفرت کی طاقت سے کچھ لوگوں کو انسانیت کے درجے سے گرا کر ان کے خلاف ہتھیار استعمال کیے جاتے ہیں۔ ان کی دولت لوٹ لی جاتی ہے اور پھر غریبوں، لاچاروں، کمزوروں کے مٹی کے مزاروں پر سنگ مرمر کے محل تعمیر کیے جاتے ہیں۔ دنیا اسی طرح فتح کی جاتی رہی ہے۔ مجھ پر یقین نہیں تو تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں۔ یہ سب کیسے ہوتا ہے؟ کچھ لوگ طاقت ور کیسے ہوجاتے ہیں؟ دولت اور وسائل اپنے گھر کیسے بدلتے ہیں، چیزیں کیسے بکتی ہیں؟ ضمیر کیسے خریدے جاتے ہیں؟ اور بھی وجوہات ہوں گی لیکن ایک بڑی وجہ ہے منفی پروپیگنڈا اور کلام، جس کا ایک بڑا مظہر آج کے دور میں میڈیا کی انڈسٹری ہے، کا اپنے مفادات کے حصول کے لیے بے رحمانہ استعمال ہے، جو اکثر سچ، حق، محبت، نرمی، مساوات، اعلی اقدار، ہمدردی اور سلامتی کے نام پر کیا جاتا ہے۔ پروپیگنڈا مثبت بھی ہوسکتا ہے اور منفی بھی۔ یہ جب صحت، تعلیم، سماجی حقوق، شہری ذمہ داری، ہم آہنگی، ہمدردی اور بھلائی پھیلانے کے لیے استعمال کیا جائے جس سے بلا تفریقِ رنگ و نسل و مذہب و قومیت انسانوں کی مشکلات کم ہوں تو مثبت ہے لیکن دوسروں کو گرا کر مفادات کے حصول اور نفرت کے پرچار کے لیے استعمال کیا جائے تو منفی ہے۔ زیادہ تر پروپیگنڈے کا ہتھیار حکومتیں استعمال کرتی آئی ہیں لیکن سیاسی، سماجی، مذہبی تنظیمیں، مفاداتی گروہ اور تجارتی ادارے بھی آگاہی، لابنگ، کیمپیننگ اور مارکیٹنگ کے نام پر یہ حربہ استعمال کرتے ہیں۔
دنیا بھرمیں مثبت یا منفی پروپیگنڈے کے لیے سات سے دس حربے استعمال کیے جاتے ہیں۔ ہم ان تکنیکوں یا حربوں کو سمجھ کر پروپیگنڈا کے درست، غلط، مثبت یا منفی ہونے کا کسی حد تک اندازہ کرسکتے ہیں۔ ان میں پہلا حربہ اپنے مخالفین کو برے نام اور القاب دے کر لوگوں کی نظروں سے گرانا ہے۔ یہ ایسے نام ہوتے ہیں جو لوگوں کے نزدیک بدی کو کسی انسان یا گروہ سے وابستہ کردیتے ہیں۔ اس طرح ان لوگوں کی کامیابیوں اور اچھائیوں کو چھپا کر انہیں انسانیت کے درجے سے بھی گرا دیا جاتا ہے۔ چونکہ انسان خود انسان ہونے کے ناطے انسانیت کا لحاظ کرتا ہے اس بِنا پر کسی سے نفرت کرنے کے لیے اسے انسانیت سے گرانا ضروری ہے۔ اس طرح اس کی جان، مال، آبرو کو حلال کرلینا آسان ہوجاتا ہے۔ ہٹلر نے یہودیوں کے ساتھ یہی کیا تھا کہ انہیں انسانیت پر ایک داغ اور بوجھ بنا کر پیش کیا اور پھر نفرت انگیز پروپیگنڈے کی بنیاد پر انہیں مردود ٹھہرا دیا، دوسری طرف اپنے ہمنواؤں میں نسلی برتری کا ایسا احساس پیدا کردیا کہ انہیں انسانیت کی بھلائی اور تحفظ اسی میں نظر آنے لگا کہ ایسے بد کرداروں کو جہنم رسید کردیا جائے جو سازش اور دھوکے سے انسانیت کے وسائل ہڑپ کرتے جارہے ہیں اور نئی نسلوں کے اخلاق کو بگاڑ رہے ہیں۔ کسی کو غدار، کسی کو بدکردار، کسی کو غاصب، کسی کو کافر، کسی کو سنپولیا، کسی کو مچھر، کسی کو لال بیگ، کسی کو کیڑا مکوڑا کسی کو بچھو قرار دینے کے پیچھے یہی حربہ نظر آسکتا ہے۔
تفصیل کا موقع نہیں لیکن اس کے دیگر حربوں میں چند یہ بھی شامل ہیں: (۲) کسی ایک مجموعی طور پر قابل قبول چیز یا سچائی کا اطلاق کھینچ تان کرکے جذباتی اپیل کے ساتھ دوسرے ایسے مطالبات پر کرنا جن سے اپنا کوئی مفاد وابستہ ہو، (۳) کچھ حقائق کے بارے میں وسیع تر عمومیت سے کام لینا اور ایک شے کے اعتبار کو دوسری شے پر منطبق کرنا، (۴) عام لوگوں کی ہمدردی حاصل کرنے کے لیے وقتا فوقتا ان جیسی وضع قطع اختیار کرلینا۔ مثال کے طور پر زیادہ تر امریکی صدور امیر کبیر خاندانوں سے رہے ہیں لیکن عوام کے سامنے کبھی اوباما پارک میں سیر کرتے اور کبھی بل کلنٹن میکڈونلڈ کا عام سا برگر کھاتے نظر آئے، کبھی عوامی پسند کے سستے ناول پڑھتے دکھائی دیے۔ جارج بش مچھلیاں پکڑتے تصویر بنواتے ہیں تاکہ عام لوگوں جیسے نظر آئیں، رونلڈ ریگن کلہاڑے سے لکڑیاں چیرتے نظر آتے ہیں، اور جمی کارٹر جارجیا کے ایک عام کسان کے روپ میں دکھائی دیتے ہیں۔ عمران خان کی کسی کچی مسجد میں نماز پڑھنے، زمین پر سو جانے، ڈھابے پر کھانا کھانے کی تصاویر بہت مشہور ہوئیں۔ شیخ رشید موٹر سائکل چلاتے اور ریڑھی سے پائے کھاتے نظر آتے ہیں اور شہباز شریف لمبے بوٹ پہن کر سیلابی پانی میں اترتے ہیں یا پارک میں ہاتھ کا پنکھا جھلتے ہوئے کھلے عام اجلاس منعقد کرتے ہیں۔ ایسے ہی پراپیگنڈے کی کچھ مزید شکلیں یہ بھی ہیں کہ (۵) کسی واقعے کے ثبوت کو آدھا چھپا کر آدھے سچ کو پورا بنا کر اپنے حق میں استعمال کرنا، یعنی کچھ حقائق دکھانا اور کچھ چھپا لینا، (۶) معاشرے کے معتبر لوگوں کی گواہی ڈلوانا اور اس طرح اپنے مقصد کے حق میں رائے عامہ ہموار کرنا، (۷) زیادہ لوگوں یا گروہوں کی طاقت کو حق و سچ کے معیار کے طور پر استعمال کرنا، (۸) اپنی مظلومیت کا دھنڈورا پیٹنا اور انتقام کا جواز پیدا کرنا، (۹) لوگوں کے خوف یا خوابوں کو اپنے حق میں استعمال کرنا، (۱۰) ایسی تشبیہوں اور استعاروں کو بدیہی حقیقت کے طور پر استعمال کرنا جو دوسروں کو برا ثابت کردیں جیسے بھیڑیا تاک میں ہے، آستین کا سانپ، ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور، بغل میں چھری منہ میں رام رام وغیرہ، (۱۱) جھوٹی اور گمنام خبروں کو وثوق کے ساتھ یوں پھیلانا کہ لوگوں کے کسی خوف یا خواہش کا استحصال کیا جاسکے۔
ڈھونڈیں گے توپروپیگنڈا کے ان تمام حربوں کی بہت سی مثالیں مل جائیں گی۔ کچھ دوستوں کا اصرار ہے کہ تعلیم اور تنقیدی فکر کے فروغ سے ایسے پروپیگنڈوں کا توڑ ہوسکتا ہے تاکہ لوگ خود اپنے ذہن سے حقائق کی پرکھ سکیں اور کچھ پیش کردہ حقائق کے پس پردہ مفادات کو بھی سمجھ سکیں۔ اس پر اتفاق ہے لیکن سوال یہ ہے کہ پہلے فکری آزادی کے بغیر تنقیدی سوچ بھی آخر کیوں کر پروان چڑھے؟
فیس بک پر تبصرے