بچوں کا جنسی استحصال اور ہماری ذمہ داریاں

905

خیبر پختونخوا کے شمالی ضلع ہری پور سے تعلق رکھنے والا سات سالہ عمر دوپہر کو اپنے گھر سے نکلا لیکن واپس نہیں آیا۔ خاندان والے اسے ڈھونڈتے رہے لیکن کچھ پتہ نہ چل سکا۔ صبح گھر کے قریب کچرے کے ڈھیر سے اس کی لاش ملی۔ پولیس حکام کے مطابق ملزم نے بچے کو جنسی زیادتی کےبعد  گلے میں پھندا ڈال کر قتل کیاہے۔ یہ ضلع  ہری پور میں پچھلے پانچ مہینوں میں پانچواں کیس ہے۔ مذکورہ واقعہ سے چند روز قبل شمالی پہاڑی ضلع بٹگرام سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان لڑکے نے چند اہل محلہ کی جانب سے جنسی تشدد اور اس کی ویڈیو بنائے جانے کے بعد خودکشی کرلی تھی۔ اس قسم کے واقعات ماضی قریب میں صوابی، نوشہرہ اور مردان میں بھی پیش آچکے ہیں۔

خیبر پختونخوا میں بچوں کو جنسی طور پر ہراساں، قتل اور ان کو بلیک میل کرنے کے واقعات میں شدید اضافہ ہوا ہے جو قانون نافذ کرنے والے اداروں اور معاشرے کیلئے ایک بڑا چیلنچ  ہے۔ تشوشناک امر یہ بھی ہے کہ جتنے کیسز رپورٹ ہور ہے ہیں ان میں ملوث پائے جانے والے افراد زیادہ تر رشتہ دار اور دیگر قریبی احباب نکلتے ہیں۔ اگر ان واقعات کا جائزہ لیاجائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بچوں کو بروقت شعور اور آگاہی فراہم نہ کرنے کے باعث وہ انسان کی شکل میں موجود بھیڑیوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں اس حوالے سے خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ہر سکول میں عمر کے لحاظ سے بچو ں کی درجہ بندی کی جانی چاہیے جس میں ہم عمر بچوں کو ایک  کلاس میں پڑھایا جائے۔ مدارس میں بھی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ کچھ مدارس ایسے ہیں جن میں تمام عمر کے بچے ایک ساتھ ہی تعلیم حاصل کرتے ہیں اور ایک ساتھ رہتے ہیں۔ ان کے درمیان عمر کے لحاظ سے درجہ بندی کم نظر آتی ہے۔ بڑی عمر کے نوجوان، بچوں کو مختلف حربے استعمال کرکے اول دوستی کرتے ہیں اور بعدازاں انہیں اپنی ہوس کا نشانہ بناتے ہیں۔ بعض اوقات تعلیمی اداروں کے معلمین بھی ایسے جرائم میں ملوث پائے جاتے ہیں۔

سات سال کے دوران صرف ان بارہ یونٹس میں تیس ہزار چار سو کیسز رجسٹرڈ ہوئے تھے جن میں 26500 مقدمات چائلڈ لیبر، جنسی تشد د، قتل اور بھکاریوں کے مسائل سے متعلق تھے

یہ درست ہے کہ اس مسئلہ کی وجہ صرف تعلیمی اداروں کا نظام نہیں، متعدد واقعات میں بچوں کو ان کے عزیز و اقارب نے اپنی ہوس کا نشانہ بنایا اور کئی بار تو پکڑے جانے کے خوف سے انہیں قتل بھی کردیا گیا۔ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے والدین پر بہت زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں والدین کے پاس بچوں کی بات سننے کی فرصت ہی نہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ سکول، اکیڈمی اور مدرسے کی فیسیں ادا کردینے سے ان کی ذمہ داری پوری ہوجاتی ہے۔ بچوں کی والدین کے ساتھ  قربت نہ ہونے کے باعث وہ کوئی بھی بات انہیں بتانے سے کتراتے یا ڈرتے ہیں۔ پھر جب والدین کو خبر ہوتی ہے تب تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ بچوں کی جسمانی ساخت میں تبدیلیاں رونما ہونا ایک فطری عمل ہے۔ اس مرحلہ میں بھی ان کو  گھر یا اسکول سے کوئی راہنمائی نہیں ملتی جس کی وجہ سے وہ کئی نفسیاتی مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں، یا انہیں غلط لوگوں سے غلط معلومات ملتی ہیں جس سے ان کی صحت مند پرورش نہیں پاتی۔ بچوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے کام کرنے والے ادارے کے سربراہ عمران ٹھکر کہتے ہیں کہ اس قسم کے واقعات کی روک تھام کیلئے قوانین تو موجود ہیں مگر ان پر عملدرآمد نہیں ہے جس کی وجہ سے یہ جرائم تواتر سے دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ حال ہی میں صوبے کی پہلی چائلڈ پروٹیکشن کورٹ کا بھی افتتاح کیا  گیاہے مگر جب تک قانون کا استعمال نہ ہو اس وقت تک مسائل کو ختم تو نہیں کیا جاسکتا۔

عوامی نیشنل پارٹی اور پاکستان پیپلز پارٹی کے دورحکومت میں خیبر پختونخوا میں بچوں کے تحفظ اور فلاح و بہبود کیلئے 2010 میں ایک قانون بنایا گیا تھا جس کے تحت 2012 کے اواخر تک صوبے بھر کے نو اضلاع میں دفاتر قائم کئے گئے تھے جو یونیسف کی مالی تعاون سے چل رہے تھے۔ لیکن اب اس ادارے کی جانب سے فنڈز کی بندش کے بعد بچوں کے حقوق کے تحفظ اور فلاح و بہبود کے لیے قائم کئے گئے دفاتر کو بند اور اس میں کام کرنے والے اہلکاروں کو فارغ کردیا گیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکوت نے چائلڈ پروٹیکشن یونٹس کو پورے صوبے میں قائم کرنے کا وعدہ کیاتھا۔ تاہم 2013 کے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے اب تک یونیسف کے مالی تعاون سے صرف تین اضلاع میں دفاتر قائم کئے  تھے۔ یونیسف کی جانب سے فنڈنگ 31 مارچ 2018  تک تھی مگر بعد میں صوبائی حکومت کی درخواست پر یونیسف نے فنڈنگ میں ایک سال کی توسیع کردی تھی۔ بجائےاس کے کہ اس یونٹ کو فعال رکھنے کیلئے بروقت اقدامات کیے جاتے اور ان میں توسیع کی جاتی مگر ایسا نہیں ہوا، فنڈنگ کی معطلی کے ساتھ کام بھی بند کردیا گیا۔ سات سال کے دوران ان بارہ یونٹس میں تیس ہزار چار سو کیسز رجسٹرڈ ہوئے تھے جن میں 26500 مقدمات چائلڈ لیبر، جنسی تشد د، قتل اور بھکاریوں کے مسائل سے متعلق  تھے۔ عمران ٹھکر تجویز دیتے ہیں کہ ان دفاتر کو ختم کرنے کے بجائے بہتر تھا کہ انہیں کم درجہ میں ہی سہی لیکن بچوں کے حقوق کے تحفظ کے کاموں کے لیے باقی رکھا جاتا تو بہتر تھا۔

بدقسمتی سے ان مسائل کی روک تھام کے لیے نہ حکومتیں کوئی مؤثر کردار ادا کرتی ہیں اور نہ سماج۔ ایسے مسائل میں اضافہ کے پیچھے جس طرح متعدد عوامل ہیں اسی طرح اس کے حل کا بھی ایک رُخ طے نہیں کیا جاسکتا۔ بچوں کو محفوظ بنانے کے لیے کئی جہات پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بچوں کو یہ تعلیم دی جائے کہ وہ خود کو کس طرح محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ ہم غیر واقعی تحفظات کا شکار ہوکر انہیں بنیادی جنسی تعلیم سے دور رکھتے ہیں اور ان کی زندگی کو معاشرہ میں غیرمحفوظ بنادیتے ہیں۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...