گلیشیرز کی سرزمین پانی کو ترستی ہے
گلگت بلتستان کو قدرت نے بے شمار قدرتی وسائل سے نوزا ہے جن میں سے ایک خزانہ یہاں پر واقع دنیا کے بڑے گلیشیرز کا سلسلہ ہے۔ بالخصوص بلتستان میں قطبین کے بعد دنیا کے سب سے بڑے گلیشیرز پائے جاتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس علاقے میں جتنے بڑے اور وسیع گلیشیرز موجود ہیں وہ اس کے کُل رقبے کا 28 فیصد بنتے ہیں۔ بڑے گلیشرز میں سیاچن، بلتورو، بتورا، بلافونڈ، ہسپر، گوڈوآسٹن، چھوغو لینگسہ اور بیافو وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ سب سے بڑا سیاچن ہے جو 75 کلومیٹر کے طویل علاقے پر پھیلا ہوا ہے۔ جبکہ بتورا گلیشر تقریباً 54 کلو میٹرپر مشتمل ہے۔ ایسے گلیشرز کی تعداد 100 سے زائد ہے جو 10 کلو میٹر سے زیادہ رقبے پر پھیلے ہیں۔
گلگت بلتستان چونکہ قراقرم، ہمالیہ اور ہندو کش کے پہاڑی سلسلوں کے درمیان واقع ہے اس لیے اس کے اونچے پہاڑ سال بھر ٹنوں برف سے ڈھکے رہتے ہیں۔ ان گلیشیرز سے یوں تو کئی بڑے اور مشہور دریا نکلتے ہیں لیکن پہاڑوں پر موجود برفانی ذخیروں کے باعث ان گنت نئے ندی نالے بھی وجود میں آتے رہتے ہیں۔ پہاڑوں کے دامن میں جا بجا مشہور، خوبصورت اورصاف و شفاف پانی سے بھری گہری جھیلیں واقع ہیں جن کی وجہ سے وادیوں میں میٹھے پانی کے چشمے بھی اُبلتے ہیں جو یہاں حیاتِ انسانی کی بقا کا بنیادی ذریعہ ہیں۔ پورے ملک کو سیراب کرنے والا دریائے سندھ اسی علاقے سے گزرتا ہے۔ گلیشیرز اور بڑے پہاڑی سلسلوں سے نکلنے والے درجنوں دریا دریائے سندھ میں شامل ہوکر اس کی موجوں اور بہاؤمیں اضافہ کرتے ہیں۔ دریا ئے سندھ کے پانی سے تربیلا ڈیم سمیت پاکستان میں پانی کے دیگر ذخائر بھرے ہوئے ہیں جو ملک کو سر سبز و شاداب بنانے کے ساتھ ساتھ توانائی کی ضروریات پورا کرنے کے کام آتے ہیں۔ چونکہ مستقبل میں پانی وتوانائی کی ضرورت پورا کرنے کے لیے تمام تر انحصار انہی گلیشیرز اور دریاؤں پر ہے۔ اس لیے انہیں موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں رونما ہونے والے منفی اثرات سے محفوظ رکھنے کے لئے متعلقہ ادارے فکر مند ہیں اور منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔
ڈیم پرمنظور شدہ رقم سے کئی گنا زیادہ اخراجات کے باوجود سکردو میں 17 ہزار ایکڑ بنجر اراضی سیراب ہو سکی، نہ ہی 19 میگاواٹ بجلی پیدا کی جاسکی۔ ڈیم کی تعمیر کوتقریباً 7 سال بیت گئے لیکن اسے ابھی تک ایک دفعہ بھی بھرا نہیں جاسکا ہے۔ حالیہ عرصہ میں تواس کا پانی انتہائی سطح سے بھی نیچے جا چکا ہے
عظیم گلیشیرز، بڑئے دریاؤں اورگہری جھیلوں کی سرزمین ہونے کے باوجود گلگت بلتستان میں ان سے کوئی خاطر خواہ استفادہ نہیں کیا جا سکا ہے۔ ایک طرف دریاؤں کے کٹاؤ سے سالانہ ہزاروں کنال زرعی زمینیں دریا بُرد ہو رہی ہیں تو دوسری جانب گلگت بلتستان کے باسی خود اپنی ضروریات کے لیے پانی کی شدید قلت کا سامنا کر رہے ہیں۔ کئی علاقوں میں تو لوگ پینے کےپانی کی بوند بوند کو ترستےہیں۔ زمین کا خاطر خواہ حصّہ پانی دستیاب نہ ہونے کے باعث بنجر پڑا ہوا ہے۔ گلگت بلتستان کا کل رقبہ 72496 مربع کلو میٹر پر مشتمل ہے جس کے 66.3 فیصد رقبے پر پہاڑ، جھیلیں، دریا اور گلیشیرز ہیں لیکن اس کے باوجود صرف 78000 ہیکٹرز پر کاشت کاری ممکن ہے۔ 90000 ہیکٹر رقبہ پانی دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے بے کار پڑا ہوا ہے۔ ماضی میں وسائل کی کمی اور جدید زرعی اُصولوں سے آگہی نہ ہونے کے باوجود جتنی زمین پر کاشت کاری ہوتی تھی آج اتنی بھی نہبں ہو رہی۔ جس کی ایک وجہ شہرکاری بھی ہوسکتی ہے لیکن پانی کی عدم دستیابی کا عمل دخل زیادہ ہے۔
گلگت بلتستان میں پن بجلی کے منصوبوں سے 60 ہزار میگاواٹ تک توانائی پیدا کی جاسکتی ہے اور یہاں پن بجلی کے فی یونٹ اخراجات بھی ملک بھر کی نسبت کم ہیں۔ بجلی پیدا کرنے کا فی کلو واٹ خرچہ 3.50 روپے ہے جس کی بنیاد پر ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پورے ملک کی بجلی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے گلگت بلتستان میں پن بجلی کے بڑے منصوبے لگائےجاتے۔ کم ترین نرخ پر پیدا ہونے والی توانائی سے سارے ملک کو فائدہ پہنچایا جاسکتا تھا لیکن المیہ یہ ہے کہ گلگت بلتستان کا اپنا ایک ضلع بھی ایسا نہیں جہاں پوری بجلی فراہم کی جاتی ہو۔ یہاں رات کے وقت ہفتے میں صرف چار دن دو گھنٹے بجلی مہیا جاتی ہے۔ گلگت بلتستان کا توانائی سسٹم ابھی تک قومی گرڈ کے ساتھ منسلک نہیں ہے اور نہ ہی اس کے اضلاع علاقائی گرڈ کے تحت باہم منسلک ہو سکےہیں۔ وزارت پانی و بجلی کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت یہاں بجلی کی مانگ تقریباً 300 میگاواٹ ہے جبکہ پن بجلی گھروں کی مجموعی پیداوری صلاحیت 150 میگاواٹ ہے اور عملی طور پہ پانی کی کمی کی و دیگر فنی وجوہات کی بنا پر بمشکل 100 میگاواٹ توانائی کا حصول ممکن ہوپاتا ہے۔
سکردو شہر کے لئے 1993ء کے بعد کوئی نیا بجلی گھر نہیں بنایا گیا ہے۔ واپڈا نے 6 ارب روپے سے زیادہ کی لاگت سےسدپارہ ڈیم بنایا لیکن یہ میگا منصوبہ ناکام ثابت ہو چکا ہے۔ ڈیم پرمنظور شدہ رقم سے کئی گنا زیادہ اخراجات کے باوجود سکردو میں 17 ہزار ایکڑ بنجر اراضی سیراب ہو سکی، نہ ہی 19 میگاواٹ بجلی پیدا کی جاسکی۔ ڈیم کی تعمیر کوتقریباً 7 سال بیت گئے لیکن اسے ابھی تک ایک دفعہ بھی بھرا نہیں جاسکا ہے۔ حالیہ عرصہ میں تواس کا پانی انتہائی سطح سے بھی نیچے جا چکا ہے۔ آبپاشی اور بجلی پیدا کرنے لئے پانی ملنا تو در کنار سکردو میں لوگ پینے کے پانی کے لئے بھی ترس رہے ہیں۔ یہ حکام کی نا اہلی اور ناقص منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے کہ دنیا کے بڑے گلیشیرز کی سر زمین پانی کو ترستی ہے۔
فیس بک پر تبصرے