بکھرتی ہوئی داعش اور دہشت گردوں کے فریب

801

دولت اسلامیہ نہ صرف عراق وشام میں فوجی محاذ کھو رہا ہے بلکہ پاکستان میں بھی ا س کی نظریاتی چکا چوند ماند پڑ رہی ہے

دہشت گرد گروہ کئی بار عوام اور سیکورٹی اداروں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اب یہ ایک روایت بن چکی ہے کہ ہر حملے کے بعد کئی گروہ اس کی ذمہ داری قبول کر لیتے ہیں جن میں دولت ِ اسلامیہ ، جماعت الاحرار کے ساتھ لشکر جھنگوی العالمی کا ایک دھڑا بھی شامل ہے ۔ ہر حملے کے بعد ان میں ذمہ داری قبول کرنے کی دوڑ لگ  جاتی ہے ۔ صرف بات یہیں تک نہیں رکتی بلکہ کراچی میں پولیس پر  حملے میں ایک نیا گروہ انصار الشریعہ پاکستان  سامنے آیا جس نے اس کی ذمہ داری قبول کی ۔ یہ حملہ رمضان کے آخری ہفتے میں پاکستان بھر میں خوف و دہشت پھیلانے والے تین حملوں میں سے ایک تھا۔ دہشت گردوں نے کوئٹہ اور پارا چنار میں  جو کارروائیاں کیں اس کی چوٹ ہر جگہ محسوس کی گئی ۔

ان وارداتوں کی ذمہ داری صرف اسی صورت تسلیم کی جاتی ہے جب کوئی گروپ اس آپریشن کی تفصیلات بھی  وڈیوز اور تصاویر کی شکل میں جاری کرتا ہے ۔ بعض اوقات کچھ بڑے گروہ  اپنی  حکمت کے تحت ذمہ داری قبول نہیں کرتے اور چھوٹے گروپوں کو کہتے ہیں کہ وہ یہ ذمہ داری لے لیں ۔سیکورٹی ادارے بھی  اسی کو مصدقہ مان لیتے ہیں اور اس کے بعد وہ ان چھوٹے گروہوں کے نام پر نام نہاد سیکورٹی الرٹ بھی جاری کرنا شروع کر دیتے ہیں ۔ ظاہر  ہے کے ان حملوں پر جب تحقیقات ہوتی ہیں تو وہ اپنے آغاز میں ہی غلط سمت چلی جاتی ہیں ۔

پارہ چنار حملے  میں لشکر ِ جھنگوی العالمی کے دعوے کو ہی دیکھ لیں ۔اس گروپ کا علاقے میں کوئی آپریشنل نیٹ ورک نہیں ہے لیکن پھر بھی کئی سیکورٹی حکام نے ان کے ا س دعوے کو اہمیت دی کیونکہ اس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ  یہ دولت ِ اسلامیہ کو علاقائی شراکت دار ہے جس نے حال ہی میں خرم ایجنسی اور خیبر پختونخواہ سے متصل تورا بورا کے سرحدی علاقوں میں اپنی قوت مجتمع کر لی ہے ۔

جیسے جیسے دہشت گرد حملے بڑھتے ہیں تو ان کو اپنی اس  حکمت عملی میں آسانی ہو جاتی ہے اور اس سے انہیں اپنادائرہ کار بڑھانے میں بھی مدد ملتی ہے ۔پاکستان کےحالیہ عسکری منظر نامے میں ہونے والی تبدیلیاں  جن میں حالیہ دہشت گرد حملے اور اور ان کے دعووں کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایک نیا مرحلہ شروع ہو رہا ہے  جس میں دہشت گرد گروہوں کی نئی صف بندیاں ہو رہی ہیں ۔

دہشت گرد گروہوں میں نظر آنی والی تقسیم ان کے رہنماؤں کی  الگ الگ جغرافیائی حکمت عملیوں کی وجہ سے ہے ۔عمومی طور پر اس کے چار عوامل ہیں ۔ پہلا ہے پیسہ ،اگر وسائل کی فراوانی ہو گی تو گروپ کی قیادت پر اختلاف پیدا ہوں گے جیسا کہ افغان روس جنگ میں  مجاہدین کے گروہوں میں  ہوتا رہا ہے ۔دوسری   وجہ طاقت اور اقتدار کے حصول کا معاملہ ہے کالعدم تحریک ِ طالبان اس لئے مسائل کا شکار رہی کیونکہ اس کے رہنماؤں میں قیادت کی جنگ رہی ۔ ایک اور وجہ  نظریہ بھی ہے جو جماعت الاحرار اور دولت ِ اسلامیہ جیسے گروہوں کے بننے کی وجہ بنا ۔اسی طرح مختلف گروہوں کی آپریشنل حکمت عملیاں بھی ان میں تقسیم یا دوسروں کے لئے  مثال بنتی ہیں ۔مثال کے طور پر القاعدہ کی آپریشنل صلاحیتیوں کی وجہ سے اسے دیگر تنظیموں پر فوقیت رہی ۔

داعش کا بکھرنا

اگر ان عوامل کا جائزہ خطے میں عسکری منظر نامے کے تناظر میں لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ داعش کے بکھرنے سے کئی نئی تبدیلیوں کا راستہ کھل جائے گا ۔عربی لفظ داعش جس کا مطلب دولت اسلامیہ ہے یہ نہ صرف عراق وشام میں فوجی محاذ کھو رہا ہے  بلکہ پاکستان میں  بھی ا س کی نظریاتی چکا چوند ماند پڑ رہی ہے  کیونکہ یہ اپنی فطرت میں فرقہ وارانہ ہے جس کی وجہ سے اس کی حیثیت کم ہو رہی ہے ۔

ایک وقت وہ تھا جب پاکستان میں دہشت گرد گروہ مشرق ِ وسطی ٰمیں نام نہاد خلافت کے دعوے دار گروپ داعش سے اپنا تعلق استوار کرنا چاہتے تھے اب وہی گروپ تیزی سے خود کو اس سے دور رکھنا چاہتے ہیں ۔ان میں داعش کا جغرافیائی اتحادی لشکر جھنگوی العالمی بھی ہے ۔

سیکورٹی اداروں نے بلوچستان کے ضلع مستنگ  کی اسپلنجی غاروں میں گزشتہ ماہ  اغوا شدہ چینی باشندوں کی بازیابی کے لئے   ایک بھر پور  آپریشن کیا۔سرکاری طور پر آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری ہونے والے اعلامیہ میں    لشکر جھنگوی العالمی سے وابستہ 12 دہشت گردوں کی ہلاکت کا بتایا گیا۔جس کے فوری بعد  گروپ نے اس کی تردید کی جس نے کئی  لوگوں کو حیران کر دیا۔ تردید میں کہا گیا کہ مرنے والوں کاتعلق داعش سے تھا کیونکہ لشکر جھنگوی العالمی نے دوبارہ افغان طالبان کی امارات ِ اسلامیہ افغانستان  (افغان طالبان کی جانب سے بنائی گئی کالعدم  ریاست کا سرکاری نام )   کے ساتھ حلف اٹھا لیا ہے ۔گروپ نے مزید کہا کہ اس نے افغان طالبان کے رہنما ملا ہیبت اللہ کو امت کے مر کزی رہنما کے طور پر تسلیم کر لیا ہے ۔

لشکر ِ جھنگوی العالمی کی اس تردید سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ داعش کی آپریشنل حکمت عملیوں سے مطمئن نہیں ہے ۔مئی میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما مولانا عبد الغفور حیدری پر ہونے والا حملہ جس میں 26 مدرسہ طالبعلم مارے گئے تھے اس سے  لشکر جھنگوی العالمی کو داعش سے اپنے راستے جدا کرنے کا موقع ملا ۔پاکستان میں داعش کے بکھرنے کی ایک اور مثال نیا وجود میں آنے والا گروپ انصار الشریعہ پاکستان ہے جس نے کراچی میں پولیس پر حملے کی ذمہ داری قبول کی ۔ایک حالیہ میڈیا رپورٹ کے مطابق اس گروپ میں کراچی اور جنوبی پنجاب سے وہ افراد شامل ہیں جو داعش کا حصہ بننے کے لئے شام گئے اور وہاں سے مایوس ہو کر لوٹ  آئے ۔

کچھ سیکورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ گروپ مقامی داعش نیٹ ورک سے الگ ہونے والوں نے بنایا ہے جن کا خیال تھا کہ گروپ کا سخت فرقہ وارانہ مؤقف نہ صرف شیعہ بلکہ کچھ دوسرے سنی مسالک کے بھی خلاف ہے ۔عام شہریوں پر بلا امتیاز حملے بھی  عسکریت پسندوں میں اختلافات کی وجہ بنے ہیں ۔

اگرچہ داعش کمزور ہو رہی ہے تاہم پھر بھی عراق اور شام سے واپس آنے والے عسکریت پسندوں سے لاحق خطرات بہت زیادہ ہیں ۔یورپ میں ہونے والے واقعات نے ان خدشات کو مزید ابھارا ہے جہاں کئی نوجوان داعش کے شانہ بشانہ لڑنے کے لئے عراق اور شام روانہ ہوئے اور جب وہ واپس آئے تو وہ نہ صرف تشدد پسند ہو گئے بلکہ ان میں سے کچھ دہشت گردی میں ملوث پائے گئے ۔تشدد پسندانہ رجحان رکھنے والے یہ لوگ ملک میں داعش کے نیٹ ورک میں اضافے کا باعث بن سکتے ہیں ۔اور اس بات کا بھی امکان ہے کہ یہ خود کو افغانستان میں موجود دولت ِ اسلامیہ خراسان سے منسلک کر لیں ۔اسی طرح وہ افراد جو کہ داعش سے مایوس ہو کر عراق اور شام سے لوٹے ہیں وہ القاعدہ اور تحریک طالبان کے مختلف دھڑوں کا بھی حصہ بن سکتے ہیں ۔ اگر ایسا ہوا تو القاعدہ دوبارہ مضبوط ہو جائے گی ۔داعش کے وہ لوگ جو ماضی میں القاعدہ کا حصہ رہے وہ بھی واپس القاعدہ میں آ سکتے ہیں ۔اسی طرح شدت پسند زوال سے دوچار داعش کی بجائے القاعدہ کو ترجیح دیں گے ۔ تاہم بڑے نظریاتی اور سیاسی ایجنڈے  پر مشتمل ایک نئی عسکری گروپ کے قیام کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا ۔

(بشکریہ ڈان ، ترجمہ : سجاد اظہر )

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...