کراچی کو مرکزی اور صوبائی حکومت کیوں نظر انداز کرتی ہے ؟
موجود حکومت نے کراچی سے 95ارب کے محصولات وصول کر کے صرف دس ارب کے ترقیاتی منصوبے دیئے
وفاقی اورصوبائی بجٹ میں ملک کے سب سے بڑے صنعتی، کمرشل اورآبادی کے لحاظ سے بڑے شہرکراچی، جس کومنی پاکستان بھی کہاجاتاہے، کومکمل طورپرنظراندازکردیاگیاہے۔ پاکستان مسلم لیگ کے شہر لاہورکی ترقی اورشہری سہولیات کاموازانہ جب کراچی سے کیاجائے توحیرت انگیزفرق واضح ہوتاہے۔ اس وجہ سے شہرکے دعویدارایم کیوایم اورپیپلزپارٹی کے مشترکہ دعووں کی حقیقت کھل کرسامنے آتی ہے تویہ الزام مرکزپرپنجابی اشرافیہ کی گرفت کی طرف منتقل کرتے نظرآتے ہیں۔ کراچی کے باسی جب کراچی کاموازانہ لاہوراوراسلام آباد سے کرتے ہیں توانھیں اپنے لاوارث ہونے کااحساس ہوتاہے۔ بہت سارے لوگ کراچی کی پسماندگی کواس کے منقسم مینڈیٹ اوریہاں قومیتی ولسانی تقسیم کوقراردیتےہیں۔ یہ ایک شہرکئی لحاظ منقسم بھی ہے: طبقاتی، سماجی وثقافتی،قومیتی ولسانی، اورسیاسی لحاظ سے تقسیم کا شکار۔
حکومت سندھ کےبجٹ برائے سال 2017-18 میں کراچی کے لئے 10بلین روپے رکھے گئے۔ اخبارات کے مطابق کوئی اسپیشل پیکج کا اعلان نہیں ہوا۔ کراچی کے لئے بجٹ میں مختص دس ارب روپے بڑے انفراسٹکچر پرخرچ ہوں گے جس میں تین فلائی اوورزکی تعمیر، انڈرپاس اورکئی بڑی سڑکوں کی تعمیرہے۔حیرت انگیزطورپرکراچی میں سرکلرریلوے جس کوپھرسے رواں کرنے کاذکرکیاجارہاتھا، کے لئے کوئی رقم نہیں رکھی گئی۔ لیکن کراچی میں اورنج لائن اورریڈلائن جیسے ٹرانسپورٹ منصوبوں کے لئے 4بلین روپے مختص کئے گئے ہیں۔
کراچی کے میئر وسیم اختر، جن کا تعلق ایم کیوایم سے ہے، نے کراچی سٹی کونسل کی تجویزکردہ 143ترقیاتی اسکیموں کونظراندازکرنے پرحکومت سندھ کوتنقید کانشانہ بنایا۔ وسیم اخترنے کہاکہ کراچی شہرکی میونسپل کارپوریشن (کے ایم سی) نے جواسکیمیں تجویزکی اس کی کل لاگت 25بلین روپے تھی۔ اس کے بقول کے ایم سی کی کوئی بھِی اسکیم منظورنہیں کی گئی جوشہری کونسل کے مقامی نمائندوں کی بے عزتی کے مترادف ہے۔ انہوں نے کہاکہ ہم نے ان اسکیموں کوکراچی کی تمام چھ ضلعی کارپوریشنوں کی باہمی مشاورت سے تیارکیا تھا۔
مئیرکراچی کا کہناہے کہ سندھ کے بجٹ میں کراچی کونظراندازکیاگیاجبکہ یہ شہرصوبے کو70فی صد دیتاہے۔ اس نےسندھ پیپلزپارٹی کی حکومت پروارکرتے ہوئے کہاکہ یہ اس کامسلسل 10واں بجٹ ہے مگرہرطرف خراب طرزحکمران کا دوردورہ نظرآتا ہے۔ لیکن وسیم اخترنے اس امرکوبالکل نظراندازکیاکہ سالہاسال تک ایم کیوایم اورپیپلزپارٹی نے مل کرحکومت کی اوراس پورے عرصے میں شہری علاقے ایم کیوایم کے گورنرعشرالعباد کے زیرکنٹرول رہے۔
حساب دو!
کراچی کے مئیرکوشکایت ہے کہ حکومت سندھ، کراچی شہرکی کارپوریشن (کے ایم سی) سےتقاضاکرتی ہے کہ وہ اپنے لئے خود سے پیدا کردہ وسائل پرانحصارکوبڑھائیں جبکہ خودصوبائی حکومت اپنے وسائل بڑھانے میں ناکام ثابت ہوئی ہے۔ جس کااندازاس کی بیلنس شیٹ سے لگایاجاسکتاہے۔ حکومت سندھ نے محض 17فی صد رقم جمع کی جبکہ وفاقی حکومت سے 83فی صد حاصل کئے۔
کراچی کے ساتھ ناانصافی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مئیرکراچی نے کہاکہ حکومت نے کراچی سے 95بلین کے قریب بٹورے ۔ان کاکہناہے کہ 440اسکیموں میں سے کراچی کا حصہ 122اسکیموں کابنتاہے ۔
انہوں نے اس پرافسوس کااظہارکیاکہ کراچی کے میگاپروجیکٹ میں کراچی سنیٹرل کے لئے کوئِی اسکیم شامل نہیں۔ یہ ضلع مکمل طورپرایم کیوایم نے جیتاہے اوراس میں صرف ایک وائس چیرمین پی پی پی کاہے، باقی سب ایم کیوایم سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کاکہناہے کہ کراچی کومکمل طورپرنظراندازکیاگیا ہے ۔اگلے 10سال میں کراچی کی ترقی کے لئے ہرسال 100بلین روپے کی ضرورت ہے۔
میئر کراچی وسیم اخترکی پریس کانفرنس میں پی پی پی کے شہری نمائندوں کے علاوہ دیگرتمام اہم جماعتوں جیسے مسلم لیگ ن، تحریک انصاف، جمعیت العلمائے اسلام کے نمائندے موجود تھے۔ اس طرح تمام بڑی جماعتیں سمجھتی ہیں کہ صوبائی حکومت کراچی کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کیاجارہاہے۔
کراچی بمقابلہ اندرون سندھ
کراچی کے لئے مختص کئے گئے ترقیاتی بجٹ کے 10ارب کا اگراس سے نسبتاکم آبادی کے ڈویژن سے مقابلہ کیاجائے تومعاملہ کچھ واضح ہوتاہے۔ کراچی کوحال ہی میں 6اضلاع میں تقیسم کیاگیاہے۔ حیدرآباد ڈویژن کے 9 اضلاع کے لئے 37.13بلین، میرپورخاص ڈویژن کے 3اضلاع کے لئے 18.72بلین، شہید بے نظیر آباد (نواب شاہ )ڈویژن کے 3اضلاع کےلئے 15.59بلین رکھے گئے ہیں۔ لاڑکانہ دویژن کے 5اضلاع اورسکھرڈویژن کے 3آضلاع کے لئے بالترتیب 18.15اور14.5بلین رکھے گئے ہیں۔
کراچی کی انتظامی تقسیم کی سیاست
شہرمیں ٹاون، جنرل مشرف دورمیں بنے۔ یہ ملک بھرمیں نچلی سطح تک اقتدارکی منتقلی کے منصوبے کا حصہ تھا۔ جس میں اضلاع کی سطح پرنمائندگی کوختم کردیاگیااورضلعی انتظامیہ سے اختیارات ٹاون کومنتقل کردئے گئے۔ لیکن موجودہ پی پی پی کی حکومت نے جس طرح سے معاملات بڑھائے ہیں اس میں ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشن (ڈی ایم سی) اوریونین کمیٹی شہری سطح پر اورڈسٹرکٹ کونسل کراچی اوراس کی 38یونین کونسل ہیں۔ لیکن معامالات کچھ پیچیدہ بھی ہیں۔ مثال کےطورپرضلع ملیر کاکچھ حصہ ڈی ایم سی ملیر(یعنی شہری) اوربڑاحصہ ڈسٹرکٹ کونسل کراچی میں شامل ہے۔ پیپلزپارٹی نے شہری علاقہ کوکمزورکرنے کیلئے شہری علاقے تک کوڈسٹرکٹ کونسل کراچی کاحصہ بنادیا۔ اس طرح سے پیپلزپارٹی دیگرپارٹیوں کے حلقوں کوخراب کرتی ہے اوراپنے حلقوں کومضبوط بناتی ہے۔
شہرکراچی میں حلقہ بندیاں بہت اہمیت کی حامل ہیں۔ کیونکہ شہرکئی قومی گروہوں پرمشتمل ہے جس میں مہاجر، پشتون، بلوچی، سندھی، کچھی وغیرہ بڑے گروہ ہیں۔ یہ قومیتی گروہ مخصوص علاقوں میں مرتکزہیں۔ ان کے الگ الگ پاکٹ ہیں۔ اسی طرح پی پی پی کو بلوچ اورسندھی علاقوں میں زیادہ طاقتورتصورکیاجاتاہے جو لیاری کے علاوہ شہرکے اردگرد دیگرصوبے کے اضلاع جیسےٹھٹھہ، نوری آباداوردادوبلوچستان سے متصل ہیں۔ یہ قدیم ترین آبادیاں ہیں۔ اوریہیں پربلوچی اورسندھی آبادہیں۔ البتہ لیاری شہرکی ایک بہت ہی قدیم بستی ہے جوکراچی پورٹ اورفنانشنل اورصوبائی سیکٹریٹ سے قریب ترین آبادی ہے جس میں بلوچ، کچھی اورپشتونوں کے علاوہ مہاجررہتےہیں۔ یہاں پیپلزپارٹی کوبہت مسائل کاسامناہے۔ ماضی میں یہاں پیپلزپارٹی مضبوط ہواکرتی تھی۔ بے نظیرکی شادی کی تقریب یہیں پرہوئی تھی وہ یہاں سے منتخب بھی ہوئی تھی۔
پیپلزپارٹی کی ہمیشہ سے کوشش رہی ہےکہ کراچی میں مہاجرکوایک طرف کرکے بلوچ اورسندھیوں کے لئے الگ طرح کاانتظام تشکیل دیاجائے۔ اس کی ابتداء کراچی میں ڈسٹرکٹ ایسٹ میں ضلع ملیرکاقیام تھا۔ تب ضلع ملیر جس میں بلوچ، سندھی اورپشتون زیادہ تصورکئے جاتے تھے کوخصوصی اہمیت دی گئی۔ پورے کراچی کی عدالتیں ایک ساتھ کراچی سٹی کورٹ کےاحاطہ میں واقع ہیں لیکن پیپلزپارٹی نے ضلع ملیرکی کچہری الگ ملیرمیں بنادی۔ یہی نہیں بلکہ کراچی ڈویلپمنٹ اٹھارٹی (ڈی ایم سی) کےمقابلے میں ملیرڈویلمنٹ اتھارٹی کے نام سےالگ ترقیاتی ادارہ بنایا۔ اسی طرح لیاری ڈویلمنٹ اتھارٹی کا قیام بھی عمل آچکاہے۔
شہری عدم توازن
لیکن معاملہ محض پیپلزپارٹی تک محدودنہیں ہے۔ مشرف دورمیں اوّل جماعت اسلامی اوراس کےبعد ایم کیوایم نے بھی مہاجرعالاقوں اورآبادیوں کواہمیت دی اورکراچی کے بلوچ، سندھی اورپشتون آبادیوں کومکمل طورپرنظراندازکیاگیا۔ جماعت اسلامی کےناظم نعت اللہ خان اوراس کے ناظمین کی کوشش تھی کسی طرح سےمہاجرعلاقوں کوترقی دی جائے۔ ان کااستدلا ل اورکوشش یہی تھی کہ مہاجرعلاقوں میں ترقیاتی کاموں سےوہ ایم کیوایم کے ووٹ کاٹ دیں گے۔ جماعت اسلامی سمجھتی تھی کہ وہ غیرمہاجرعلاقوں سے سیٹ نکال دی گی۔ لیکن اصل معاملہ مہاجروں کوجیتناہے۔ صدرجنرل مشرف کےسب سےپسندیدہ ناظم نے اسی طرح مہاجرعلاقوں پربھاری رقوم خرچ کرنی شروع کیں جس طرح بعدمیں ایم کیوایم نے کی۔ اس طرح ایک طرف شہرکی ترقی نظرآتی تو دوسری طرف شہرکے اردگرد کے پشتون، سندھی اوربلوچ علاقے کھنڈرات کا منظرپیش کرتے۔ لیکن پیپلزپارٹی اورایم کیوایم دونوں کی پالیسیوں کا سب سے زیادہ اثران آبادیوں پرپڑا جہاں پشتون اکثریت میں ہیں یا جوپشتون علاقے شمارہوتے ہیں۔ یہ سب سےزیادہ پسماندہ رہ گئیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں نہ ایم کیوایم کے ووٹ ہیں اورنہ ہی پیپلزپارٹی ان کوپوری طرح اپنی سمجھتی ہے۔ پیپلزپارٹی کی وفاقی اورصوبائی حکومت کی توجہ اگرشہرکے دیہی علاقے رہے توایم کیوایم نے پوری توجہ مہاجرعلاقوں پرمرکوزرکھی۔ پشتون زیادہ ترکچی آبادیوں میں رہتے ہیں جواب شہرکی 60فی صد آبادی ہے۔ اس طرح سے نصف شہرکونظرانداز کرکے فنڈزکابڑاحصہ ایک بہت ہی محدودحصہ پرخرچ ہوتانظرآتاہے۔ اس سے شہرمیں ایک عدم توازن پیدا ہوگیاہے۔
شہری ڈھانچہ
پیپلزپارٹی کی موجودہ حکومت نے کراچی سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ اوراس کے 18ٹاون جو کہ 180یونین کونسلوں پرمشتمل تھاکوختم کرکے اس کو6اضلاع اورایک کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن اورایک ڈسٹرکٹ کونسل میں تبدیل کردیاہے۔ کراچی میں پیپلزپارٹی کی سب سے اہم تبدیلی ایک بارپھرسے ڈسٹرکٹ کونسل کی تشکیل ہے۔ ڈسٹرکٹ کونسل شہرکے گرد دیہات کے نام پرقائم کی گئی ہے۔ یوں شہرمیں تین بڑی انتظامی معاملات کی تقسیم نظرآتی ہے۔
اوّل؛کراچی کی شہری انتظامیہ ہے جو کے ایم سی کے نام سے کام کرتی ہے۔ اس کے زیرکنٹرول محض شہرکا 34فی صد حصہ ہے۔ اوریہی مئیرکراچی کے زیرانتظام بھی آتاہے۔ اس کے علاوہ شہرکے اردگرد دیہی علاقہ اوریہاں تک شہری علاقے بھی ڈسٹرکٹ کونسل کراچی کاحصہ بنادئے گئے ہیں، اس کی سربراہی ڈسٹرکٹ کونسل کاچئرمین کرتاہے۔شہری کاایک حصہ ایک طرح سےفوجی انتظامیہ کے زیرکنٹرول آتاہے جوزیادہ ترکنٹونمنٹ بورڈ کی شکل میں پایاجاتاہے۔
کراچی اور18ویں ترمیم
18وِیں ترمیم میں اخیتارات مرکزسے صوبوں کومنتقل ہوگئے ہیں، اس کابڑا اثرکراچی پرپڑا۔ صحت، تعلیم جیسے اداروں میں اب صوبائی حکومت یعنی پیپلزپارٹی کا عمل دخل مزیدبڑھ گیا۔ مقامی آبادی (مہاجراورپشتون) شہرمیں خود کو اب پہلے سے زیادہ کنارےلگی ہوئی محسوس کرتی ہے۔ اندرون سندھ سے افسران یہاں لاکرتعینات کئے جارہے ہیں. یہ عمل اب پہلے سے تیزترہوگیاہے۔ پیپلزپارٹی نے پہلے جب ایم کیوایم سے مخاصمت پیداکی توبہت سارے اخیتارات گورنر اورکراچی کے میئرسے صوبائی اسمبلی میں اپنی عددی اکثریت کوبروئے کارلاتے ہوئے چھین لئے اورشائد سندھ کا گورنردیگرصوبوں کے مقابلے میں آئینی طورپراب اتنا بااخیتارنہیں رہا۔
پی پی پی اورایم کیوایم نے شہری اوردیہی کی تقیسم کررکھی تھی۔ جب پی پی پی 2008میں مرکزاورسندھ میں برسراقتدارآئی تو ایک باہمی فارمولے کے تحت ایم کیوایم کوکراچی سمیت دیگر شہر حوالے کئے گئے۔ ایم کیوایم یہ اختیارگورنرسندھ (عشرت العباد) کے ذریعے استعمال کرتا۔ جبکہ باقی علاقے وزیراعلی سندھ (قائم علی شاہ) کے دائرہ اختیارمیں ہوتےاختیارات کی تقسیم ایک عرصہ تک کارگررہی۔ لیکن بعدازاں پیپلزپارٹی نے کئی ایک ترمیمات کرکے گورنر اوریوں شہری علاقوں کے اختیارات پروارکرناشروع کیا جوایک طرح سے ہنوزجاری ہے۔ پیپلزپارٹی جانتی ہے کہ اب مرکزمیں اس کی حکومت آنے کے امکانات محدوم ہوتے جارہے ہیں۔ یہی حال کراچی کی شہری حکومت کا ہے جس پرمہاجربالادستی ہے۔ جبکہ صوبائی اسمبلی پراس کاکنٹرول یقینی ہے اس لئے صوبائی اسمبلی کی طاقت اوراٹھارویں ترمیم کی آڑ لیتے ہوئے اخیتارات گورنراورمئیرکراچی سے صوبائی حکومت کے پاس منتقل کئے جاتے رہے ہیں۔
شہری چیلنج
ملک میں نئی مردم شماری اورا س کے نیتجہ میں سیاست پرجہاں سب سے زیادہ اثرپڑنے کا امکان ہے شائد وہ کراچی ہوگا۔ کراچی میں پشتون اب مہاجروں کےبعد سب سے بڑی تعدادمیں ہیں۔ ان کی تعداد اندازوں کے مطابق 40لاکھ سے تجاوزکرگئی ہے۔ لیکن شہرمیں ان کی ہرقسم کی نمائندگی نہ ہونے کے برابرہے۔ جوں جوں پیپلزپارٹی، سندھ تک محدودہورہی ہے اس کی پالیسی سندھی قوم پرستی کی طرف جھکتی جارہی ہے۔ اوریہ کراچی سمیت سندھ کے شہری علاقوں میں مقیم غیرمقامی سب سے زیادہ محسوس کرتے ہیں۔
لیکن کراچی جیسے شہرکومحض پیپلزپارٹی یا ایم کیوایم کاسمجھناغلطی ہوگی۔ مثال کے طورپرانٹرنیشنل کرائسیس گروپ اپنے فروری 2017کی ایک رپورٹ میں کہتاہے کہ شہرکی محض 10فی صد آبادی سندھی بولتی ہے۔ پیپلزپارٹی کے غیرسندھی نمائندے جیسے بلوچ کوشش کرتے ہیں کہ مردم شماری میں زبان کے خانے میں سندھی لکھی جائے۔ بلوچوں کی ایک بڑی اکثریت سندھی بولتی اورسمجھتی بھی ہے۔ یوں یہ چاہتے ہیں کہ شہرمیں سندھی بڑی تعداد میں دکھائے جائیں اوریہ ایک سندھی شہرنظرآئے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اندرون سندھ سے بھی کراچی میں نقل مکانی کا سلسلہ زوروں پرہے۔ پھرسندھ بھرکے تعلیمی اداروں سے فارغ ہونے والے مڈل کلاس نوجوانوں کی پہلی خواہش کراچی منتقل ہوناہے۔ یہی حال بڑے ڈاکٹرز، انجنئرز، بیوروکریٹ اورپولیس افسران کی ہے۔ یہی نہیں بلکہ زراعت کی بربادی سے بڑی تعدادمیں دیہی آبادی کراچی منتقل ہورہی ہے۔ لیکن کراچی کے اپنے پرانے مقامی بلوچ اورسندھی جہاں اس کوتوازن قائم کرنے والی قوت کے طورپردیکھتے ہیں وہاں یہ ان ’’اترادیوں‘‘ کوتحسین کی نظرسے بھی نہیں دیکھتے۔
مسائل کی آماجگاہ
کراچی شہرمسائل کی آماجگاہ ہے۔ یہ امریکی مورخ مائیکل ڈیوس کا ’’دی پلینٹ آف سلمز’‘‘کی تصویرہے۔ کچی آبادی شہرکاسب سے بڑاحصہ ہے۔ پلاننگ نام کی چیزیہاں ناپیدہے۔ اس شہرمیں سرمایہ کاری اورسرمایہ کی بہتات اورارتکاز جہاں اس کومنافع بنانے کے لئے سب سے بہتر مقام بناتاہے وہاں یہاں ہرقسم کے جرائم پیشہ افراد سرکارکی باقاعدہ سرپرستی میں کام کرتے ہیں. ہرقسم کاجعلی مال شہرکی کچی آبادیوں میں بنتاہے۔ شہرایم کیوایم کی دسترس سے نکل بہت پھیل گیاہے۔ نیولبرل پالیسیوں کی وجہ سے ریاست دیگرعلاقوں کی طرح یہاں بھی عوام کوپانی، بجلی، صحت اورتعلیم دینے سے ہاتھ کھینچ چکی ہے۔ شہرکے مسائل کا اندازہ اس امرسے لگایاجاسکتاہے کہ صوبائی حکومت اوربلدیات شہرکی صفائی ہی نہیں کرسکتی۔ شہرمیں روزانہ 1200ٹن فضلہ ٹھکانے لگانا اس وقت سب سے بڑا مسئلہ بناہوا ہے ۔
مسلم لیگ ن کی وفاقی حکومت لاہوراورپنجاب کے شہروں کوترقی دینے پرتوجہ مرکوزکئے ہوئی ہے۔ جبکہ پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت اندرون سندھ کی ترقی کواہمیت دے رہی ہے۔ ایم کیوایم جوشہرکی دعویدارتھی کنارے لگی ہوئی ہے۔ اوراس کے کراچی کے منتخب مئیرکے اختیارات سلب کردئے گئے ہیں۔ یوں کراچی اب لاوارث ہے۔
مضمون نگارکراچی میں مقیم محقق ہیں۔
Tweet: @sartajku
فیس بک پر تبصرے