پاک افغان مصالحت میں چینی کردار
دنیا میں چین کے بڑھتے ہوئے سفارتی اور سیاسی اثر و رسوخ کا تقاضا ہے کہ وہ علاقائی اور عالمی تنازعات کے حل میں بھی اپنا کردارا دا کرے ۔افغانستان کا تنازعہ چین کے لئے ایک ٹیسٹ کیس ہے
افغانستان میں قیام امن کی خاطر اربوں ڈالر صرف کئے گئے ، فوج کشی کی گئی ،سیاسی حکمت عملیاں ترتیب دی گئیں ،مفاہمتی کوششیں بھی ہوئیں مگر پھر بھی وہاں قیام ِ امن ایک خواب ہی ہے ۔ تقریباً ڈیڑھ دہائی سے زیادہ عرصہ بیت چکا دنیا افغانستان کی گتھی سلجھانے میں لگی ہوئی ہے مگر کوئی سرا پکڑائی نہیں دیتا۔اب چین بھی ان کوششوں میں شامل ہو گیا ہےشاید اس کے پاس یہ تنازعہ حل کرنے کا کوئی فارمولہ ہو۔یہ بات صحیح ہے یا غلط کہ پاکستان کو ہی افغانستان میں امن اور استحکام کی ضمانت قرار دیا جاتا ہے ۔پاکستان بھی افغانستان میں کچھ تزویراتی مفادات (جو ایک عام پاکستانی کو بہرحال نظر نہیں آتے ) کی خاطر یہ بھرم قائم رکھنا چاہتا ہے جس سے اس گمان کو تقویت ملتی ہے کہ افغانستان میں امن کا راستہ اسلام آباد سے ہو کر جاتا ہے ۔
چین کے وزیر خارجہ حال ہی میں اسلام آباد آئے جس کا مقصد پاکستان اور افغانستان کے درمیان اعتماد کی بحالی تھی ۔اگرچہ چین کے ’’ون روڈ ون بیلٹ ‘‘ منصوبے کے لئے علاقائی سلامتی اور استحکام ناگزیر ضرورت ہے لیکن افغانستان میں امن اور استحکام کا تعلق چین کی داخلی سلامتی کے معاملے سے بھی ہے ۔امریکہ بھی شاید افغانستان کے سلسلے میں کی جانےوالی ہر کوشش جو ا س کی ناکامیوں کا بھی بار اٹھائے اسے خوش آمدید ہی کہے گا ۔
قبل ازین چین افغانستان میں بحالی امن کی شدید خواہش رکھنے کے باوجود کوئی واضح کردار ادا کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار رہا ہے ۔بیجنگ نے خفیہ طور پر کچھ کوششیں ضرور کیں تاکہ افغان طالبان کو مزاکرات پر آمادہ کیا جا سکے تاہم اس نے اس چار رکنی گروپ جس میں چین کے علاوہ امریکہ ،افغانستان اور پاکستان شامل ہیں، میں قائدانہ کردار اد انہیں کیا ۔جب چار رکنی گروپ کی کوششیں ثمر آور ثابت نہیں ہو سکیں تو اس کے بعد چین نے روس کے ساتھ مل کر افغانستان میں قیام امن کی مزید کوشش کرنے کی ٹھانی ۔اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے یہ توآنے والا وقت ہی بتائے گا ۔
حال ہی میں چین نے ایک اہم سفارتی قدم اٹھاتے ہوئے پاکستان اور افغانستان کے باہمی تعلقات کو معمول پر لانے کے لئے ایک معاہدہ کرانے کی کوشش کی۔ یہ علاقائی سلامتی کی جانب ایک اہم قدم ہے ۔چین نے دونوں ممالک کی مدد کی وہ دو طرفہ بحران کوختم کریں بجائے اس کے کہ وہ ایک دوسرے سے قطع تعلق کر لیں ۔بہت سوں کا خیال ہے کہ یہ چین کی جانب سے علاقائی سلامتی کے لئے اٹھایا جانے والااہم قدم ہے کیونکہ یہ وقت کی ضروت ہے اور دنیا میں چین کے بڑھتے ہوئے سفارتی اور سیاسی اثر و رسوخ کا تقاضا ہے کہ وہ علاقائی اور عالمی تنازعات کے حل میں بھی اپنا کردارا دا کرے ۔افغانستان کا تنازعہ اپنے متنوع داخلی ،علاقائی اور عالمی تناظر میں چین کے لئے ایک ٹیسٹ کیس ہے ۔ابتدائی طور پر افغانستان اور پاکستان کے درمیان گہری بد اعتمادی ختم کرنا ہو گی بالخصوص بھارت کے تناظر میں یہ کام چین کے لئے آسان ہر گز نہیں ہے ۔
ایک طرف چین اور پاکستان علاقائی اور عالمی سطح پر معاشی اور تزویراتی شراکت دار بن کر ابھر رہے ہیں تو دوسری جانب افغانستان نے بھی چین کے ساتھ تزویراتی شراکت داری کا معاہدہ کر لیا ہے ۔تاہم افغانستان ابھی اس شراکت داری کی عملی شکل سے کافی دور ہے ۔اس کے بھارت کے ساتھ بھی قریبی تعلقات ہیں اور بھارت ،چین پاکستان اقتصادی راہداری کے منصوبے کو پسند نہیں کرتا ۔
تاہم یہ ایک بڑی کامیابی ہے کہ پاکستان اور افغانستان اپنے تعلقات معمول پر لانے کے لئے متفق ہو گئے ہیں اور اس کے لئے چین ، پاکستان اور افغانستان کے وزرائے خارجہ کا مکالماتی فورم بنا دیا گیا ہے ۔اس سہ رکنی فورم کے پلیٹ فارم سے افغان طالبان کو بھی دعوت دی جائے گی کہ وہ افغانستان کے مفاہمتی عمل کا حصہ بنیں ۔
طالبان کے سربراہ مولوی ہیبت اللہ نے اپنے سالانہ پیغام میں اپنے سابقہ مؤقف کا عادہ کرتے ہوئے کہا کہ امن مزاکرات میں شمولیت افغانستان سے نیٹو افواج کے مکمل اخراج سے مشروط ہے ۔تاہم یہ معلوم نہیں کہ حالیہ خفیہ مزاکرات میں طالبان نے کیا مؤقف اختیار کیا ہے ۔اگر طالبان شوری ٰ مزاکرات میں شمولیت پر راضی بھی ہو گئی تو بھی ان کے اندر اتفاق ِ رائے میں خاصی مشکلات ہوں گی ۔افغانستان میں حملوں کی حالیہ لہر کو بھی مزاکرات کے مخالف طالبان کی جانب سے اس کوشش کا حصہ قرار دیا جا رہا ہے تاکہ کابل حکومت دباؤ میں آ کر خود ہی مزاکرات کے خاتمے کا اعلان کر دے۔
اس میں کچھ دیگر روکاوٹیں بھی حائل ہیں جن میں افغانستان کا بگڑتا ہوا سیاسی بحران،افغان سیکورٹی اداروں کا گرتا ہوا مورال اور مفاہمتی عمل میں عالمی طاقتوں کی ریشہ دوانیاں شامل ہیں ۔حتی ٰ کہ جیسے ہی چین اور روس نے کابل کو طالبان کے ساتھ مفاہمتی عمل پر قائل کرنے کی کوششیں کیں تو امریکہ نے افغانستان میں مزید فوج بھیجنے کا اعلان کر دیا جو اس بات کا اشارہ ہے کہ نئی انتظامیہ طالبان کا مقابلہ فوج کے ذریعے کرنا چاہتی ہے ۔ایک اور تشویش ناک امر یہ بھی ہے کہ علاقائی سلامتی کے حوالے سے امریکہ اور بھارت ایک دوسرے کے قریب آ رہے ہیں جس سے بھارت کو شہ مل رہی ہے کہ وہ افغانستان کو پاکستان حتی ٰ کہ چین کے خلاف بھی استعمال کرے ۔
پاکستان کا المیہ یہ بھی ہے کہ کئی دہائیوں سے دنیا اسے افغانستان کے تناظر میں دیکھتی چلی آ رہی ہے ۔دوسری جانب پاکستان کے عرب دوستوں نے پاکستان سے فوجی تعاون کی امیدیں لگا رکھی ہیں ۔تاہم انہوں نے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بحالی کے لئے کوئی کردار اد انہیں کیا ۔پاکستان اور افغانستان دونوں جانتے ہیں کہ ان کے باہمی تعلقات کیسے بحال ہو سکتے ہیں مگر دونوں میں بد اعتمادی اس سطح پر ہے کہ کوئی کوشش نہیں ہو سکتی ۔دونوں ممالک کے درمیان تجارت اور معاشی تعاون کے وسیع امکانات موجود ہیں بالخصوص چین پاکستان اقتصادی راہداری کو اگر وسطی ایشیائی ریاستوں سے منسلک کیا جائے تو ان امکانات میں اور بھی اضافہ ہو جاتا ہے ۔ایک وقت تھا جب دونوں ممالک کئی پرتوں پر مشتمل سیکورٹی تعاون کا طریقہ کار وضع کرنے میں لگے ہوئے تھے مگر کچھ قوتیں اسے عملی شکل دینے کی راہ میں حائل ہو گئیں ۔سرحدوں کو محفوظ بنانے میں باہمی تعاون کی ناکامی کے بعد پاکستان نے اس جانب بہت وسائل صرف کئے ہیں ۔مگر افغانستان کے تعاون کے بغیر پاکستان کے لئے بہت مشکل ہے کہ وہ اپنی سرحدیں افغانستان سے آنے والے دہشت گردوں سے محفوظ بنائے ۔
کیا چین دونوں ممالک کو تعاون پر آمادہ کر لے گا ؟پاکستان اور افغانستان ماضی میں سرحدوں کو محفوظ بنانے کے لئے انٹیلی جنس شیئرنگ کے امکانات اور اس کے طریقہ کار پر بات چیت کر چکے ہیں اور اس سلسلے میں قابل عمل تجاویز کو حتمی شکل بھی دی گئی تھی ۔ اگلے مرحلے میں چین دونوں ممالک کے درمیان اس پر عمل در آمد کروائے ۔ افغان سیکورٹی فورسز کی صلاحیتوں کو سامنے رکھتے ہوئے سرحدی علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف مشترکہ آپریشن کے امکانات کو بھی عملی شکل دی جا سکتی ہے ۔
(بشکریہ ڈان ، ترجمہ : سجاد اظہر )
فیس بک پر تبصرے