احمد پور شرقیہ کے لاپتہ افراد

1,294

صادق آباد کی ایک خاتون اپنے بچوں کے ساتھ عید منانے اپنے سسرال جا رہی تھی اسی دوران اس نے ڈرائیور سے کہہ کر گاڑی سڑک پر ٹینکر کے قریب رکوائی اور وہیں سے پٹرول بھرنے والے ایک شخص سے 1 ہزار روپے میں 2 گیلن خریدے

25 جون کو بہاولپور کی تحصیل احمد پور شرقیہ کے پکا پل پر جو آئل ٹینکر حادثہ ہوا ، وہ سالوں بھلایا نہیں جا سکتا ہے یہ وہ بدترین حادثہ تھا جس کی کوریج میں خود بھی کر رہی تھی ، تمام دن جائے حادثہ پر کوریج کرنے کے بعد رات گئے وقت ملا اور سوشل میڈیا کو چیک کیا ہر جانب اسی حادثے کی آہ و بکا تھی ، لوگ حکومت کو ذمہ دار قرار دے رہے تھے ، کہیں افسوس تھا تو کہیں افسوس کے ساتھ گھر بیٹھے افراد کے وہ جذباتی تجزیے ، جو وہ ٹیلی ویثرن اسکرین کو دیکھ کر ، کر رہے تھے ، شائد میرا تجربہ موقع پر موجود ہونے کی وجہ سے ان لوگوں سے مختلف ہو ، پکا پل ، پنہچنے کا راستہ ہمارے شہر سے تقریبا 3 گھنٹے کا ہے ۔ دوران سفر تمام راستے یہی سوچتی رہی ، جتنا بڑا یہ حادثہ ہے اب کئی دن تک میتیں سنبھالیں نہ جا سکیں گی ۔ ہر جانب جلی لاشوں کی بو ہو گی ۔ جائے حادثہ پر پنہچے تو سامنے رش دیکھ کر جگہ کا اندازہ ہو گیا ۔ موٹر وے اور پنجاب پولیس نے علاقہ کو سیل کر رکھا تھا اور ٹریفک کو کنٹرول کررہی تھی ، دوسری جانب پاک فوج نے دو رویہ سڑک کی دونوں جانب سے آنے والی ٹریفک بائیں سڑک پر منتقل کر دی تھی اور دائیں جانب جہاں آئل ٹینکر کا آدھا حصئہ  پل پر اور آدھا کھیتوں میں گرا ہوا تھا وہاں سے صرف ریسکیو 1122 ، ایدھی کی ایمبولینسز زخمیوں کو منتقل کر رہی تھیں ۔  سڑک کی ایک جانب اسی مقصد کے لئے مکمل خالی رکھی گئی تھی ، حادثہ کی جگہ پر رش کے باعث امدادی کارروائیاں متاثر نہ ہوں مسلح فوج کے جوان بھی کھڑے تھے وہیں کالعدم تنظیم سے منسلک فلاح انسانیت فاونڈیشن کے عہدیدار بھی امدادی سرگرمیوں میں بھرپور حصئہ لے رہے تھے ۔ گاڑی سے اترتے ہی لگا ، دوزخ کے کنارے پر کھڑی ہوں ماہ جون کا آگ برساتا سورج ، اور دہکتی زمین ، گرمی اور حبس کی یہ شدید کیفیت آئل ٹینکر کی آگ کی وجہ سے مزید بڑھ چکی تھی ، میرے پنہچنے تک ریسکیو کے فائر ٹینڈرز 40 ہزار لیٹر آئل کے باعث ٹینکر میں لگنے والی آگ پر قابو پا چکے تھے ، امدادی ٹیمیں میتیں پلاسٹک کے تھیلوں میں لے جا کر اسپتال کے سرد خانوں تک منتقل بھی کر چکی تھیں جس جگہ ٹینکر دھماکہ ہوا وہاں ، تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشن کی جانب سے مسلسل پانی کا چھڑکاو کر کے ،آگ کی تپش کم کی جا رہی تھی ، روزے کے باوجود حادثے میں جاں بحق افراد اور زخمیوں کے لواحقین کے لئے برف ملا پانی بڑی مقدار میں دستیاب تھا ۔ اسی دوران اطلاع موصول ہوئی کہ بہاولپور کے وکٹوریہ اسپتال اور تحصیل ہیڈ کوارٹر اسپتال احمد پور شرقیہ میں بستر کم پڑ گئے ہیں ، تمام زخمی جھلسے ہوئے تھے جن کا علاج عام اسپتالوں میں ممکن نہیں انہیں پنجاب کے ان اسپتالوں میں فوج کے ہیلی کاپٹرز کے ذریعے منتقل کیا جائے گا جہاں برن یونٹ کی سہولت تھی ۔ فیصلہ ہوتے ہی چند لمحوں بعد زخمیوں کو بذریعہ ایمبولینس بہاولپور ائیر پورٹ پنہچایا گیا ، ملتان میں اٹلی کے تعاون سے بننے والے 67 بستروں کے برن یونٹ میں ، زخمیوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا ، ملتان ائیر پورٹ سے برن یونٹ کا فاصلہ 3 سے 4 کلومیٹر سے زائد نہیں ہو گا ۔ ائیر پورٹ سے برن یونٹ تک سڑک پر جب تک تمام زخمی برن یونٹ منتقل نہ ہوئے روڈ کوعام ٹریفک کے لئے بند رکھا گیا جس میں ریسکیو کی 26 ایمبولینسز نے حصئہ لیا ۔ حادثے کے روز 45 زخمیوں کو ملتان برن یونٹ منتقل کیا گیا اس دوران ، عام ٹریفک متبادل راستوں سے اپنی منزل پر پنہچتی رہی کسی نے بھی انسانی ہمدردی کے تحت راستہ بند ہونے پر ناگواری کا اظہار نہ کیا ۔ دوسری جانب جاں بحق افراد کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا ، جو اب تک جاری ہے ، یہ کالم لکھنے کے دوران میں اب بھی 3 زخمیوں کے دم توڑنے کی خبر اپ ڈیٹ کر چکی ہوں ، حادثے میں وفات پانے والے افراد کی کل تعداد 213 تک جا پنہچی ہے جو خدانخواستہ مزید بھی بڑھ سکتی ہے ۔ اتنے بڑے سانحہ پر ہمیں ضرور حکومت کو جہاں غفلت سامنے آئے ذمہ دار ٹھہرانا چاہیے ، وہ اپنی خامیاں دور کریں یا نہیں ، لیکن نشاہدہی ضروری ہے تاہم اگر اس واقعہ پر صرف حکومتی اور سرکاری غفلت کو ذمہ دار ٹھہرایا جائے تو یہ غلط ہو گا ، ہم بطور انسان اپنے سماجی اور معاشرتی رویوں کو تبدیل کیوں نہیں کر پائے جس کی ذمہ داری ہمارے گھر سے شروع ہوتی ہے ، پٹرول آگ پکڑتا ہے ، اس بات کا کس کو علم نہیں ؟ یہ وہ غربت کا مارا بھی جانتا ہے جو  تنگ آ کر اپنی زندگی اسی پٹرول سے اپنے جسم کو آگ لگا کر ختم کر لیتا ہے ۔ ہزاروں لیٹر پٹرول جو آئل ٹینکر سے خارج ہو رہا تھا اس کو بھرنے والے صرف غریب ہی نہ تھے ،  پکا پل کا رہائشی ارسلان بتاتا ہے کہ صادق آباد کی ایک خاتون اپنے بچوں کے ساتھ عید منانے اپنے سسرال جا رہی تھی اسی دوران اس نے ڈرائیور سے کہہ کر گاڑی سڑک پر ٹینکر کے قریب رکوائی اور وہیں سے پٹرول بھرنے والے ایک شخص سے 1 ہزار روپے میں 2 گیلن خریدے ، اور اپنی کار کے ڈرائیور سے انہیں بھرنے کو کہا ، یہی منظر دیکھتے ہوئے ارسلان کچھ آگے جا چکا تھا ، کہ اچانک دھماکے کی آواز آئی پیچھے مڑ کر دیکھا تو آگ کا ایک بڑا گولا تھا جس میں اس خاتون کی گاڑی بھی ہوا میں اڑ رہی تھی جس میں وہ اپنے بچوں کے ساتھ سوار تھی ، ایک بڑے دھماکہ کے بعد کئی چھوٹے دھماکوں کی آوازیں آدھ گھنٹے تک سنائی دیتی رہیں ، پہلی ہی اطلاع میں 123 افراد جاں بحق ہو چکے تھے جن کے لواحقین اس روز انہیں لاپتہ ہونے کی وجہ سے تلاش کر رہے تھے کوئی یہ ماننے کو تیار نہ تھا ان کے پیارے ناقابل شناخت ہو چکے ہیں ، امدادی کارروائی کا جائزہ لینے والے ہوا میں پھڑ پھڑاتے ، وزیراعلی پنجاب کے ہیلی کاپٹر کو سینکڑوں گز دور سے بستی نذیر آباد کے باسی اپنے پیاروں کی تصویریں ہاتھوں میں اٹھا کر اپیل کر رہے تھے کہ ہمارے لاپتہ تلاش کر دو ، وہ کہیں نہیں مل رہے ، جیسے ہی ہیلی کاپٹر ان کے سر سے گزرتا وہ تصویر فضا میں بلند کرتے ، یہ وہ  بے بسی تھی جو اپنے سے بچھڑنے والوں کے بعد ہر جگہ مختلف انداز میں نظر آئی ، اس حادثے کے تیسرے اور عید کے دوسرے روز ہی زخمیوں اور مرنے والوں کے لواحقین میں امدادی چیکس تقسیم کر دئیے گئے ، جو زخمی دوسرے شہروں لاہور کے جناح اورملتان برن یونٹ میں زیر علاج تھے ان کے رشتہ داروں کے لئے رہائش اور کھانے کا حکومت کی جانب سے باقاعدہ انتظام کیا گیا ، اس حادثے کو دیکھ کر ہر بار یہ سوچا کہ ایسا واقعہ پھر کھبی نہ ہو ، لیکن ساتھ ہی شکر پڑھا کہ یہ غم پنجاب نے تو سہ لیا ،  کسی اور صوبے میں ہو جاتا تو ایسی امدادی کارروائیاں ممکن نہ تھیں ، دوسرے صوبوں کی ذمہ داری پنجاب پر تو نہیں ڈالی جا سکتی ، لیکن بہاولپور وہ شہر ہے جو شہباز شریف صاحب اور ان کے بڑے بھائی کی پسندیدہ شکار گاہ ہے ، فرصت کے ایام وہ اکثر یہیں بسر کرتے ہیں اور اپنے غیر ملکی دوستوں کو شکار کی دعوت پر یہاں بلاتے ہیں ، اگر کھبی ان کی توجہ بہاولپور میں اپنے دوستوں کو خوش کرنے سے تھوڑی دیر ہٹ جاتی اور بہاولپور وکٹوریہ اسپتال میں جاری برن یونٹ کے منصوبہ کے فنڈز جاری کر دیتے تو چند زخمیوں کو کم سے کم فوری طبی امدادی وہیں فراہم کر دی جاتی اور انہیں ہوائی سفر کی تکلیف برداشت نہ کرنی پڑتی ، اگرچہ اتنے زخمیوں کو ایک اسپتال میں بھی سنبھالنا مشکل تھا ۔  تاہم وفاق کو اپنی ذمہ داریوں کا تعین کرنا چاہیے کہ وہ تمام صوبوں کو برابر حقوق دے ، پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے 2010ء میں صوبوں کو خود مختار کر دیا تھا صوبائی حکومتیں بھی ، اب وفاق کی جانب دیکھنے کی بجائے اپنے وسائل کو استعمال کریں اور کچھ تو ایسا کر جائیں گے آئندہ کھبی کسی ، مشکل سے نمنٹنے کے لئے لاشیں اور زخمی ریڑھیوں پر اسپتال منتقل نہ کرنے پڑیں ورنہ آپ کا شمار بھی ناقابل شناخت اور لاپتہ افراد میں ہو گا ۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...