جب برطانیہ نے راولپنڈی میں کیمیکل ہتھیاروں کے تجربات کیے
سانحہ جلیانوالہ باغ کو سو سال ہوچکے ہیں مگر انگریز سرکار نے ابھی تک اس قتل عام کی معافی نہیں مانگی۔ شاید محکوم قوموں کے ساتھ غاصب ریاستیں اسی طرح کا سلوک روا رکھتی آئی ہیں۔ سانحہ جلیانوالہ باغ کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ تاریخ کے صفحات پر انگریز دور کی سفاکی کے کئی باب ابھی تک مقفل پڑے ہیں جنہیں کھولنے کی بات ابھی تک نہیں ہوئی۔ ان میں سے ایک باب’’راولپنڈی تجربات‘‘(Rawalpindi Experiments) کا ہے۔ اس بات کا انکشاف سب سے پہلے برطانیہ کے معتبر اخبار ”گارڈین” نے اپنی یکم ستمبر 2007ء کی اشاعت میں کیا تھا۔ اخبار کو یہ معلومات ان قومی دستاویزات سے ملی تھیں جن کو پہلی بار افشا کرتے ہوئے ان تجربات کے بارے میں بتایا گیا۔ تب ہندوستانی فوج برطانوی کمانڈ میں تھی اور ہندوستان برطانوی کالونی تھا۔ علی خان کی کتاب Rawul Pindee, The Raj Yearsمطبوعہ 2015ء میں اس حوالے سے ایک پورا باب دیا گیا ہے۔
یہ تجربات 1930ء سے 1940ء کے درمیان اس جگہ کیے گئے جہاں آج ملٹری ہسپتال ہے۔ کیمیکل ہتھیاروں کے لئے بنائے گئے خصوصی چیمبرز میں ہندوستانی فوجیوں پر Mustard Gas چھوڑی گئی۔ اس مقصد کے لئے کتنے فوجی استعمال کئے گئے اس کا پورا اندازہ تو نہیں لیکن کہاجاتا ہے کہ ان کی تعداد سینکڑوں میں تھی۔ مسٹرڈ گیس کینسر اور کئی دوسری خطرناک بیماریوں کی وجہ بنتی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ جو برطانوی سائنسدان ان تجربات پر مامور تھے انہوں نے پلٹ کر پوچھا تک نہیں کہ ان ہندوستانی فوجیوں کے ساتھ کیا بیتی۔ جن فوجیوں پر یہ تجربات کئے گئے ان کی جلد جل گئی جس میں ان کے جسم کے حساس حصے بھی شامل تھے۔ وہ کئی دن تک اپنے زخموں سے کراہتے رہے۔ ان میں بعض کو ہسپتال داخل کرایا گیا۔
ان دستاویزات کے مطابق، جب ہندوستانی فوجیوں کو ان چیمبرز میں بھیجا جاتا جہاں ان پر زیریلی گیس چھوڑی جاتی تھی تو ان کو کسی مخصوص لباس کی بجائے صرف گیس ماسک پہنا دیے جاتے تھے۔ جب ایک ہندوستانی فوجی کا ماسک چیمبر میں اتر گیا تو اس کے چہرہ جھلس گیا اور آنکھیں جل گئیں
یہ تجربات پہلی جنگ عظیم کے دوران اور اس سے پہلے دس سال تک راولپنڈی میں جاری رہے۔ کئی برطانوی فوجی بھی ان تجربات کے عینی شاہد ہیں، ان کی صحت پر بھی اس کی وجہ سے بہت موذی اثرات پڑے۔ جو سائنسدان ان تجربات پر مامور تھے ان کا تعلق Wiltshireکاؤنٹی سے تھا۔ انہیں ان تجربات کے لئے خصوصی طور پر برصغیر تعینات کیا گیا تاکہ وہ جاپانیوں کے خلاف زہریلی گیس تیار کرسکیں۔ یہ ادارے Porton Down chemical warfare کی جانب سے تیار کئے جانے والے کیمیکل ہتھیاروں کا ایک معمولی شعبہ تھا، جو زہریلی گیسیں بڑے پیمانے پر تیار کر رہا تھا۔ ادارے نے ایسی گیسیں تیار کرنے کا کام برطانیہ میں 1916ء سے لے کر 1989ء تک جاری رکھا۔
ان دستاویزات کے مطابق، جب ہندوستانی فوجیوں کو ان چیمبرز میں بھیجا جاتا جہاں ان پر زیریلی گیس چھوڑی جاتی تھی تو ان کو کسی مخصوص لباس کی بجائے صرف گیس ماسک پہنا دیے جاتے تھے۔ جب ایک ہندوستانی فوجی کا ماسک چیمبر میں اتر گیا تو اس کے چہرہ جھلس گیا اور آنکھیں جل گئیں۔ ان تجربات کا مقصد اس بات کا تعین کرنا تھا کہ کتنی شدت کی گیس میدان جنگ میں جان لیوا ہو سکتی ہے۔ 1942ء میں ان تجربات پر مامور سائنسدانوں نے لکھا کہ یہ تجربات خاصے کامیاب رہے ہیں لیکن اس گیس سے ہندوستانی فوجیوں کو شدید زخم آئے، حتیٰ کہ بعض کو ہسپتال بھی داخل ہونا پڑا۔ جن فوجیوں کو شدید زخم آئے ان کی زندگی قابل رحم تھی۔ جبکہ وہ فوجی جنہوں نے گیس چیمبرز میں ڈرل والی وردی یا پینٹ شرٹس پہنی ہوئی تھی انہیں زیادہ زخم آ ئے، ان کی آنکھیں تک جل گئیں۔ ان تجربات میں اس بات کا بھی جائزہ لیا گیا کہ کیا یہ گیس سفید جلد کو زیادہ نقصان پہنچاتی ہے یا گندمی جلد کو، اس مقصد کے لئے 500 برطانوی اور ہندوستانی فوجیوں کو گیس چیمبرز میں بھیجا گیا۔
Alan Care ایک وکیل ہیں جس نے ادارے کی جانب سے کئے گئے ان تجربات پر برطانوی فوجیوں کے کیس لڑے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’مجھے یہ حیرانی ہوئی کہ اس وقت ان تجربات میں شامل ہونے والے فوجیوں سے ان کی شمولیت بارے میں کوئی اجازت نامہ نہیں لیا گیا، اگر انہیں اس کے نقصانات کے بارے میں پیشگی معلوم ہوتا تو شاید وہ اس کے لئے ہرگز تیار نہ ہوتے‘‘۔ تاہم ان تجربات کے مرتکب ادارے کا کہنا ہے کہ یہ تجربات اس وقت کے مخصوص حالات میں کئے گئے جنہیں آج کے معیارات اور اصولوں پر پرکھا نہیں جانا چاہئے۔ برطانیہ کی وزارتِ دفاع نے یہ موقف بھی نہیں اپنایا کہ اس وقت کی ہندوستانی فوجیوں نے ان تجربات کے لئے خود کو رضاکارانہ طور پر پیش کیا تھا، بلکہ یہ کہا ہے کہ ہندوستان میں کیمیکل ہتھیاروں کے جو تجربات کئے گئے تھے وہ دفاعی نوعیت کی تحقیق سے متعلق تھے جن کا مقصد برطانیہ سے باہر کے ماحول میں ان کی صلاحیت کو جانچنا تھا۔
برطانیہ کے کیمیکل ہتھیاروں سے متعلق ادارہ Porton Down کا قیام 1916ء میں عمل میں لایا گیا تھا جس کا شمار کیمیکل ہتھیاروں پر تحقیق کرنے والے دنیا کے سب سے اولین ادارے میں کیا جاتا ہے اور 1950ء تک اس ادارے نے مسٹرڈ گیس اور اعصاب کو مفلوج کرنے والے ہتھیار تیار کر لیے تھے۔ جبکہ بیالوجیکل ہتھیار اس کے علاوہ تھے جن میں انتھراکس بموں کی ابتدائی شکل بھی شامل تھی۔ آج کل یہ ادارہ کیمیکل اور بیالوجیکل ہتھیاروں سے بچاؤ کا ساز و سامان تیار کرتا ہے اور اس کا شمار اس حوالے سے دنیا میں خاصا مشہور ہے۔
فیس بک پر تبصرے