ایک تختی بلاول کے لئے
تھوڑی دیر آنکھ اس وقت لگ جاتی جب سنگ مرمر پر چینی اور ہتھوڑی کے ذریعے لکھائی شروع کرتے ہیں تو اس میں اتنی موسیقیت اور لے ہوتی ہے کہ نیند خود بخود آنکھوں میں اتر جاتی ہے۔ یہ دکانیں ہر نوع کے سنگ تراشی کے نمونے تیار کرتے ہیں لیکن ان میں زیادہ ترقبروں کے کتبے ہوتے ہیں.
1۔ یہ تصویر اپنی کہانی خود سنا رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کے چیئر پرسن جناب بلاول بھٹو سے درکواست ہے کہ بائیس سال پرانی اس تختی کو اگر اس کی اصل جگہ پر لگوادیں تو یہ ایک اچھی بات ہوگی۔
گزشتہ دنوں جب کراچی میں وبائی مرض چکن گونیا کا شکار ہوا تو بوجھل طبیعت کے ہاتھوں ایک ہفتہ گھر پر گزارنا پڑا جو کسی عذاب سے کم نہ تھا۔ میرے گھر کی گلی میں سنگ تراشوں کی دکانیں ہیں ۔ ایک روز کھڑکی سے جھانکتے ہوئے میری نگاہ ان دکانوں پر ایک کتبے پر پڑی جو کسی پیاری دادی جان کے نام سے موسوم تھا۔ یہ انکشاف بھی بعید از دلچسپ نہ ہوگا کہ ان دکانوں پر سنگ تراشی کے کام کے شروع ہوتے ہی میری آنکھ کھل جاتی تھی لیکن تھوڑی دیر آنکھ اس وقت لگ جاتی جب سنگ مرمر پر چینی اور ہتھوڑی کے ذریعے لکھائی شروع کرتے ہیں تو اس میں اتنی موسیقیت اور لے ہوتی ہے کہ نیند خود بخود آنکھوں میں اتر جاتی ہے۔ یہ دکانیں ہر نوع کے سنگ تراشی کے نمونے تیار کرتے ہیں لیکن ان میں زیادہ ترقبروں کے کتبے ہوتے ہیں۔اس کے علاوہ مختلف شخصیات کی جانب سے منصوبوں کے افتتاح کی تختیاں بھی بناتے ہیں تاہم ان میں سے کئی کتبے اور تختیاں ایسی ہیں جنہیں برسوں سے کوئی واپس نہیں لے کر گیا۔ دکان والوں کو بھی اب اس کی کوئی امید نہیں کہ یہ تختیاں یا کتبے کوئی واپس بھی لے کر جائے گا ان کتبوں پر لگی ہوئی ان کی رقم بھی ڈوب جاتی ہے۔ان میں ایک تختی ایسی بھی ہے جو محترمہ بے نظیر بھٹو کے نام سے ہے بحیثیت وزیراعظم انھیں ایک منصوبے کا افتتاح کرنا تھا۔ حیرت انگیز طور پر ان دکانوں پر زیادہ تر قبروں کے کتبے تیار ہوتے ہیں لیکن کسی بھی دکان پر قبروں کے کتبوں کی تیاری کا ذکر نہیں۔ یہ تمام تفصیل ہم اپنے اس بلاگ میں شامل کریں گے لیکن آےئے اس سے قبل اردو کے عظیم افسانہ نگار غلام عباس کے ایک افسانے ’’کتبہ‘‘ کی تقلیب adaption کا مطالعہ کریں
ایک دکان پر اس کی نظر سنگ مرمر کے ایک ٹکڑے پر پڑی۔جو معلوم ہوتا تھا کہ مغل بادشاہوں کے مقبرے یا بارہ دری سے اکھاڑا گیا ہے۔اس کا طول کوئی سوا فٹ تھا۔عرض ایک فٹ،شریف حُسین نے اس ٹکڑے کو اٹھا کر دیکھا۔یہ ٹکڑا ایسی نفاست سے تراشا گیا تھا۔کہ اس نے محض یہ دیکھنے کے لیے کہ بھلا کباڑی اس کے کیا دام بتائے گا۔قیمت دریافت کی۔
تین روپے !کباڑی نے اس کے دام کچھ زیادہ نہیں بتائے تھے ۔مگر آخر اسے اس کی ضرورت ہی کیا تھی۔اس نے ٹکڑا رکھ دیااورچلنے لگا۔
’’کیوں حضرت چل دیے؟آپ بتائیے کیا دیجئے گا!‘‘
وہ رک گیا۔ اسے یہ ظاہر کرتے ہوئے شرم سی آئی کہ اسے اس چیز کی ضرورت نہ تھی۔ اور اس نے محض اپنے شوق تحقیق کو پورا کرنے کے لیے قیمت پوچھی تھی۔ اس نے سوچا۔ دام اس قدر کم بتاؤ جو کباڑی کو منظور نہ ہوں۔ کم از کم وہ اپنے دل میں یہ تو نہ کہے۔کہ یہ کوئی کنگلا ہے۔ جو دکانداروں کو وقت ضائع اور اپنی حرص پوری کرنے آیا ہے۔
’’ ہم تو ایک روپیہ دیں گے۔‘‘ یہ کہہ کر شریف حسین نے چاہا۔ کہ جلد جلد قدم اٹھاتا ہوا کباڑی کی نظروں سے اوجھل ہو جائے۔ مگر اس نے اس کی مہلت ہی نہ دی:
’’ اجی سنیئے تو۔کچھ زیادہ نہیں دیں گے؟ سوا روپیہ بھی نہیں۔۔۔۔۔اچھا لے جایئے۔‘‘
شریف حسین کو اپنے آپ پر غصہ آیا۔ کہ میں نے بارہ آنے کیوں نہ کہے ۔اب لُٹنے کے علاوہ چارہ ہی کیا تھا۔قیمت ادا کرنے سے پہلے اس نے مرمریں ٹکڑے کو اٹھا کے دوبارہ دیکھا بھالا کہ اگر ذرا سا بھی نقص نظر آئے ۔ تو اس سودے کو منسوخ کر دے۔ مگر وہ ٹکڑا بے عیب تھا۔ نہ جانے کباڑی نے اسے اس قدر سستا بیچنا کیوں قبول کیا۔
رات کو جب وہ کھلے آسمان کے نیچے اپنے گھر کی چھت پر اکیلا بستر پر کروٹیں بدل رہا تھا۔ تو اس سنگ مرمر کے ٹکڑے کا ایک مصرف اس کے ذہن میں آیا۔ خدا کے کارخانے عجیب ہیں۔وہ بڑا غفورالرحیم ہے۔کیا عجب اس کے دن پھر جائیں۔وہ کلرک درجہ دوم سے ترقی کرکے سپرنٹنڈنٹ بن جائے۔اس کی تنخواہ چالیس سے بڑھ کر چار سو ہوجائے۔۔۔۔۔۔یہ نہیں تو کم سے کم ہیڈکلرکی ہی سہی۔پھراسے ساجھے کے مکان میں رہنے کی ضرورت نہ رہے۔بلکہ وہ کوئی چھوٹا سا مکان لے لے اور اس مرمریں ٹکڑے پر اپنا نام کندہ کراکے کے دروازے کے باہر نصب کردے۔
مستقبل کی یہ خیالی تصویر اس کے ذہن پر اس طرح چھا گئی ۔کہ کہاں تو وہ اس ٹکڑے کو بے مصرف سمجھتا تھا۔اب اسے ایسا محسوس ہونے لگا۔گویا وہ ایک عرصے سے اس قسم کے ٹکڑے کی تلاش میں تھااور اگر اسے نہ خریدتا تو بڑی بھول ہو تی۔
یہاں تک کہ جب مہینہ ختم ہوا اور اسے تنخواہ ملی اس نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ اس سنگ مرمر کے ٹکڑے کو شہر کے ایک ماہر سنگ تراش کے پاس لے گیا۔جس نے چابک دستی سے اس پر اس کا نام کندہ کر کے کونوں میں چھوٹی چھوٹی خوش نما بیلیں بنا دیں۔
اس سنگ مرمر کے ٹکڑے پر اپنا نام کھدا ہوا دیکھ کر اسے ایک عجیب سی خوشی ہوئی ۔زندگی میں یہ پہلا موقع تھاکہ اس نے اپنا نام اس قدر جلی حروف میں لکھا دیکھا ہو۔
یہ توتھے شریف حُسین کے خیالات لیکن اس کی حسرتیں دل ہی میں رہیں ۔آخر اس کتبے کے ساتھ کیا ہوا غلام عباس کہانی کے آخر اس کا احوال یوں بیان کرتے ہیں:
اس کی موت کے بعد اس کا بڑا بیٹا مکان کی صفائی کرارہا تھاکہ پرانے اسباب کا جائزہ لیتے ہوئے ایک بوری میں اسے وہ کتبہ مل گیا بیٹے کو باپ سے بے حد محبت تھی ۔کتبے پر باپ کا نام دیکھ کر اس کی آنکھوں میں بے اختیار آنسو بھر آئے ۔وہ دیر تک محویت کے عالم میں اس کی خطاطی اور نقشں ونگار کو دیکھتارہا۔اچانک اسے ایک بات سوجھی ۔جس نے اس کی آنکھوں میں چمک پیدا کر دی۔
اگلے روز وہ کتبے کو لے ایک سنگ تراش کے پاس لے گیااور اس سے کتبے کی عبارت میں تھوڑی سی ترمیم کرائی اور پھراسی شام اسے اپنے باپ کی قبر پر نصب کر دیا۔











فیس بک پر تبصرے