مطالعہ کائنات

کارل ساگان مترجم: حذیفہ مسعود

1,495

کارل ساگان امریکی ماہرِ فلکیات و کونیات ہیں۔ وہ سائنسی علوم پر دسترس رکھتے اور سائنسی فکر کے فروغ کے حوالے سے جانے جاتے ہیں۔ متنوع فلکیاتی و کونیاتی موضوعات پر لکھی گئی متعدد کتابوں کے مصنف ہیں، زیرِ نظر مضمون ان کی کتاب Cosmosکا خلاصہ ہے جس میں وہ کائنات کی لامحدود وسعتوں اور زمین پر رہنے والے بنی نوع انسان کے دیگر سیاروں سے روابط اور وہاں تک پہنچنے کے امکانات و نتائج کو انتہائی آسان اور عام فہم پیرائے میں زیرِ بحث لاتے ہیں۔ کارل ساگان کی خوبی یہ ہے کہ وہ بڑی سے بڑی مشکل کو انتہائی آسانی سے حل کر لیتے ہیں۔ ذیل کے مضمون میں ہم کارل ساگان کی معیت میں زمانہ ما قبل تاریخ سے لے کر بیسویں صدی میں وسعتِ خلا کی تسخیر تک زماں و مکاں میں انسانی دلچسپیوں کا سفر کریں گے۔

کبھی کبھار ہنگامہ ہاے زیست وجودِ ذات پرغالب آجاتے ہیں۔ جب کبھی آپ اپنی بہن کوہوائی اڈے سے لانا بھول گئے ہوں یاآپ ایک اور امتحان میں ناکا م ہو گئے ہوں، ایسے ہی کئی اوقات میں آپ کو لگتا ہے کہ آپ کا سفرِ حیات بس ختم ہوا چاہتا ہے اور خطہِ ارضی کی ساری توانائیاں بھسم ہونے کو ہیں۔ لیکن یقیناً یہاں اربوں لوگ اور بھی بستے ہیں۔ اور جہاں تک خود زمین کی بات ہے تو یہ مسلسل پھیلتی ہوئی کائنات میں خاک کے کسی ذرے کے برابر حیثیت رکھتی ہے۔یہاں کیا ایسا ہے جس سے آپ پریشان ہوں؟ کئی وجوہات کی بنا پریہ کہنا بالکل موزوں ہے کہ کونیات سے وسیع کوئی شے نہیں ہے۔ کائنات کا مطالعہ ہمیشہ علمِ ریاضی کی طرح گنجلک نہیں ہوتا، یہ ایک سائنسی سبق سے زیادہ تاریخی سبق کی حیثیت رکھتا ہے۔
یہاں ہم سیکھ سکیں گے:
۱۔ غیر مرئی مخلوقات ہمارے بارے میں کیا سوچتی ہیں؟
۲۔ کس یونانی نے اولاً یہ خیال پیش کیا کہ زمین گول ہے؟
۳۔ آئن اسٹائن کے تخیلاتی تجربات میں سے ایک کا احوال

زمین حقیقتاً بہت چھوٹی ہے۔
انسانی تاریخ ہمیشہ سے زمین تک محدود رہی ہے۔ چنانچہ ہمارے لیے ہماری کل کائنات یہی ہے۔ تاہم اگر تمام کائنات سے زمین کا موازنہ کیا جائے توہماری زمین ریت کے ذرے سے بھی حقیر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کائنات کو اپنی تمام تر وسعتوں کے ساتھ احاطہِ تخیل میں لانا تقریباً نا ممکن ہے۔درحقیقت یہ اس قدر وسیع ہے کہ ہمیں اس کے لیے پیمائشی اکائی کی تخلیق روشنی کی رفتار کو بنیاد مان کر کرنا پڑی۔ روشنی کائنات کی تیز رفتار شے ہے۔ یہ محض ایک ثانیے میں186000 (ایک لاکھ چھیاسی ہزار) میل یا پھر300,000 (تین لاکھ) کلو میٹر فاصلہ طے کرتی ہے۔ سادہ الفاظ میں یہ ایک ثانیے میں زمین کے گرد سات چکر کاٹ سکتی ہے۔ اسی بنا پر جب سائنس دان کونیات سے متعلق گفتگو کرتے ہیں تو وہ نوری سال کا سہارا لیتے ہیں۔ یہ وہ فاصلہ ہے جو روشنی ایک سال میں طے کرتی ہے۔ یہ فاصلہ ساٹھ کھرب میل یا پھر 100کھرب کلو میٹر بنتا ہے۔ اگر یہ آپ کے لیے اس قدر حیرت انگیز نہیں ہے تو دیکھیے کہ کائنات میں ایک کھرب کہکشائیں ہیں، اور ہر کہکشاں میں اتنے ہی ستارے اوراتنے ہی سیارے پائے جاتے ہیں۔ اگر آپ ریاضی جانتے ہیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ ہماری زمین کھربوں سیاروں میں سے ایک ہے۔
کائنات حیرت انگیز حد تک ناقابلِ یقین ہے
زمین کی طبیعاتی ساخت سے متعلق انسان کا علم بہت قدیم ہے۔ آج سے2000 (دو ہزار) سال قبل ماہرین اس کی ساختیات سے متعلق تحقیق و جستجو کررہے تھے حتیٰ کہ انہوں نے یہ بھی جان لیا کہ زمین چپٹی ہے نہ ہی لا محدود۔ تیسری صدی قبل مسیح میں مصر کے تاریخی اسکندریہ کتب خانے کے ناظم الامور اریتوستھینز نے یہ دریافت کیا کہ زمین دراصل کُرّوی یا گول ہے۔پپائرس کے پتوں پر ثبت تاریخی یادداشت پر نظر دوڑاتے ہوئے ایک دن اریتوستھینز کو معلوم ہوا کہ نیل کنارے مصر کے شہر صین، موجود ہ اسوان میں دوپہر کو کسی لکڑی کا سایہ بالکل نہیں بنتا جس کا مطلب تھا کہ اس وقت سورج صین کے عین اوپر ہوتا ہے۔ انہوں نے ایک تجربہ کیا، انہوں نے اسکندریہ میں ایک لکڑی زمین میں گاڑی اور مشاہدہ کیا کہ دوپہر کو اسکندریہ شہر میں سایہ بنتا ہے، جبکہ صین میں سایہ نہیں بنتا۔

اس تجربے سے انہوں نے اخذ کیا کہ زمین چپٹی نہیں ہو سکتی، اس کی سطح میں ڈھلوان موجود ہے اور اگر سطحِ ارضی چپٹی ہوتی تو دونوں شہروں میں سایہ یا تو نہ بنتا یا پھر دونوں شہروں میں بننے والے سایے کا زاویہ اور لمبائی ایک جتنی ہونی چاہیے تھی۔انہوں نے یہیں پر بس نہیں کی، بلکہ انہوں نے سایوں کی لمبائی میں فرق کی مدد سے زمین کا بالکل صحیح محیط معلوم کیا اور اس کام کے لیے انہوں نے محض ایک شخص کی خدمات مستعار لیں جس نے انہیں ان کے حلِ مساوات کے لیے درکار اسکندریہ اور صین کا درمیانی فاصلہ (1000کلو میٹر کی مسافت طے کر کے) ماپنے میں مدد فراہم کی۔یہ ایک غیر معمولی دریافت تھی جس کی بدولت کتنے ہی سیاحت کے شوقین افراد نے خطہِ ارضی کے پوشیدہ رازوں کی کھوج میں اپنی کشتیاں سمندروں میں ڈال دیں، ہم نہیں جانتے کہ وہ زمین کو کتنا مسخر کرپائے تاہم تلا ش و جستجو کا وہ سفرِ شوق سائنس کی بدولت آج تک جاری و ساری ہے۔ اسی شوقِ جستجو میں آج مصنوعی سیارچوں کی صورت جہاز خلا میں تیر رہے ہیں!
سیارے اور ستارے ہمیشہ سے ہمیں بلاتے رہے ہیں، وہ زمین کے بارے میں ہم سے باتیں کرتے اور کائنات میں زمین کی اصل حیثیت اورمقام کے بارے میں رہنمائی کر تے آئے ہیں۔

زمانہ ماقبل تاریخ سے ہی انسان شبِ تاریک میں آسمانوں پر موجود چمکتے ذرات کے خیرہ کن حسن سے نگاہِ ذوق کی تسکین کرتا اور ان میں پنہاں رازوں کے کھوج کی خواہش سنبھالے رہا ہے۔ نہ صرف یہ کہ وہ ان سے تسکینِ نظر کا سامان کرتا رہا ہے بلکہ اس کو یہ ادراک بھی رہاکہ وہ انہیں کام میں بھی لا سکتا ہے۔ آج سے کوئی 40,000 نسلوں قبل ہمارے آبا و اجداد دوسرے خطوں کے کسی قبیلے سے سالانہ ملاقات و میل جول کا دن ستاروں کے مقام کو دیکھ کر متعین کیا کرتے تھے۔ وہ ستاروں ہی کی مدد سے موسمیاتی تغیرات کا اندازہ لگاتے تھے، انہی کی مدد سے سبزی پھلوں کے پکنے اور درختوں سے اتارنے کے اوقات کاتعین کرتے تھے اور انہی کے ذریعے ہی مال مویشیوں کی نقل مکانی کے بارے میں جان پاتے تھے۔ اجرامِ فلکی کی مستقل اورمعلوم حرکات و مسافرت کے سبب یہ سبھی کچھ ممکن ہے۔

درحقیقت اگر آپ سیاروں کی حرکت کے بارے میں جان لیں تو آپ دیکھیں گے کہ یہ ایک ہی راستے پرآسمان کے گرد پے در پے چکر کاٹ رہے ہیں۔ یہی مشاہدہ دوسری صدی عیسوی میں مصر کے اسکندریہ کتب خانے میں کام کرنے والے یونانی ریاضی دان بطلیموس کے لیے یہ نظریہ پیش کرنے کا محرک بنا کہ کائنات کا مرکز زمین ہے اور باقی تمام اجرامِ فلکی اسی کے گرد حرکت کررہے ہیں۔ یہی نظریہ صدیوں تک دنیا پر رائج رہا۔بہت بعد، یعنی1543ء میں نکولس کوپرنیکس نے اس نظریے کو رد کرتے ہوئے یہ نظریہ پیش کیا کہ کائنات کا مرکز سورج ہے اور تمام اجرامِ فلکی بشمول ہماری زمین سورج کے گرد محوِ گردش ہے۔ اب سورج کو کائنات کا مرکز مانا جانے لگا۔

ساٹھ برس بعد اس نظریے میں کچھ ترمیم کی گئی اور ایک جرمن ماہرِ فلکیات جان کپلرکے ہاتھ ڈنمارک سے تعلق رکھنے والے مشاہداتی ماہرِ فلکیات آں جہانی تائکو براہی کی جانب سے بڑی جانفشانی سے مرتب شدہ اعداد و شمار ہاتھ آئے جن کی بنا پر جان کپلرنے یہ تصور پیش کیا کہ سورج کے گرد اجرامِ فلکی کے مدار دائروی صورت میں نہیں، جیسا کہ پہلے خیال کیا جاتا تھا بلکہ ان کی ہئیت بیضوی ہے۔ یہ نظریہ ان کی جانب سے پیش کردہ سیاروی حرکت کے تین اصولوں میں سے پہلے اصول کی بنیاد بنا اور یہ اصول آج تک فلکی طبیعات میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ جان کپلر نے ایک اور بھی دلچسپ نظریہ پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ باہم فاصلے پر پڑے اجسام ایک دوسرے پردباؤڈالتے ہیں۔ دباؤ کی اس قوت کو انہوں نے ’’مقناطیسیت‘‘ کا نام دیا۔ اس نظریے کی مدد سے اس بات کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ سورج کے پاس سے گزرتے ہوئے سیاروں کی رفتار کیوں بڑھ جاتی ہے۔ اگر ہمیں یہ بات کچھ مانوس لگتی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ آئزک نیوٹن سے قریب نصف صدی قبل جان کپلر بنیادی طور پرعالمی ثقالت کے نظریے کی پیش گوئی کر چکے تھے۔

زہرہ رہنے کے لیے جہنم ہے، ہاں البتہ مریخ پر زندگی کا وجود ممکن ہے۔
صدیوں پرانا مقولہ ہے کہ’’مردوں کا تعلق مریخ اور عورتوں کا زہرہ سے ہے‘‘۔ اس مقولے کی بنیاد ایک رومی نظریہ ہے جس کے مطابق زہرہ محبت کی دیوی جبکہ مریخ جنگ کا دیوتا ہے۔ اظہار کا یہ پیرایہ کس قدر خوبصورت ہے، تاہم طبیعات ایک الگ شے ہے۔ یہ کہنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے کہ ہمارے نظامِ شمسی میں زہرہ جہنم کی تمثیل ہے۔ کیوں کہ یہ سیارہ زمین کی نسبت سورج سے چھ(6) کروڑ کلو میٹر قریب ہے اور اتنا ہی زیادہ گرم۔ اس کی سطح کا درجہ حرارت900 فارن ہائیٹ سکیل یا430 سلسئس سکیل تک پہنچ سکتا ہے۔ جب ہم اس کے کرہ ہوائی کاتجزیہ کرتے ہیں تو یہ مزید خوفناک محسوس ہوتا ہے۔زہرہ پر منعکس ہونے والی شعاعوں کا فلکیاتی دوربینوں سے لیا گیا جائزہ بتاتا ہے کہ اس کی فضا کا چھیانوے (96) فیصد حصہ صرف کاربن ڈائی آکسائڈپر مشتمل ہے۔اور اس کی سطح سے اوپر منڈلاتے بادل مرتکز گندھکی تیزاب (سلفیورک ایسڈ) بناتے ہیں۔ یہ عمل گرین ہاؤ س اثر کا باعث بنتا ہے جس کے سبب سیارے کا درجہ حرارت حد درجے بڑھ جاتا ہے۔ زہرہ یقینی طور پر ایسی جگہ نہیں ہے کہ رومانوی سفرکے لیے اس کا انتخاب کیا جائے۔

مریخ کی بات الگ ہے۔ممکن ہے یہ جگہ بھی کسی رومانوی سفر کے لیے قابلِ التفات نہ ہو تاہم یہ زمین سے بہت حد تک مماثلت رکھتی ہے۔ مریخ زمین کا قریب ترین سیارہ ہے اور کئی ایک وجوہات کی بنا پر اس سے مماثل بھی۔ اس پربرفانی چوٹیاں اور سفید بادل پائے جاتے اورساتھ ہی گرد آلود طوفان چلتے رہتے ہیں، حتیٰ کہ یہاں کا ایک دن چوبیس (24) گھنٹوں کا ہی ہوتا ہے۔انہیں مماثلتوں کی بنا پر غالباً ہم یہ سوچتے ہیں کہ خلائی مخلوق دراصل مریخ سے تعلق رکھتی ہے۔ مریخی مخلوق کے خیال کا تعلق ایریزونا میں1849ء میں قائم کی گئی لوول رصدگاہ کے بانی بوستانی باشندے پرسیول لوول سے جڑا ہوا ہے۔ انہوں نے اپنے تئیں مریخ پر پانی کی نہروں کے اثرات کا سراغ لگایااور متصور کرلیا کہ یہ نہریں ضرور وہاں موجود کسی ذہین مخلوق نے کھودی ہیں۔ بعد ازاں اگرچہ ان کایہ خیال کلیتاًغلط ثابت ہوا تاہم مریخی(خلائی) مخلوق کا یہ تصورایک مقبول روایت کی طرح ہنوز قائم ہے۔
یہ کوئی بچگانہ خیال نہیں ہے کہ ہم ایک دن مریخ پر رہنے کے قابل ہو جائیں گے۔یہ سیارہ زمین سے کسی درجے سرد ہے اور اس کاد رجہ حرارت صفر سلسئس اسکیل(32 فارن ہائیٹ)سے منفی اسّی سلسئس(منفی 112 فارن ہائیٹ)تک رہتا ہے تاہم یہ قطب جنوبی سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے جہاں انسان رہ سکتے اور رہ رہے ہیں۔مریخ پر رہنے والے انسانوں کو درپیش سب سے اہم مسئلہ وہاں ذرائع آب کی تلاش و بحالی ہوگا۔وہاں سطحِ مریخ پر پانی دستیاب ہے نہ ہی فضا میں بخارات کی صورت اس کا کوئی وجود ہے۔ تاہم یہ کام اس قدر آسان نہیں ہے۔ یہاں کا فضائی دباؤ زمین کے مقابلے میں بہت نچلی سطح پر رہتا ہے جس کے باعث پانی کا نقطہ کھولاؤ زمین کے مقابلے میں یقیناً بہت حد تک کم ہو گا۔ اگر ہم وہاں موجود برفانی چوٹیوں کو پگھلا کر کسی طرح پرسیول لوول کی طرف سے دیکھی گئی مریخی نہروں کو بھرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو ممکن ہے ایک دن خود انسان ہی مریخی مخلوق کہلانے لگے۔ ممکن ہے دیگر سیاروں پر بھی زندگی کا وجود ممکن ہو، تاہم کسی اڑ ن طشتری کے ذریعے وہاں سے زمین تک کا سفردراصل ممکنات میں سے نہیں ہے۔حتمی بات یہی ہے کہ اگر ایک دن کسی خلائی مخلوق کو وجود ملنے والا ہے تو یقیناً وہ انسان ہی ہوں گے۔ تاہم یہ حقیقت ہمارے لیے دیگر ممکنہ سوالات اٹھانے میں مانع نہیں ہو سکتی۔ جیسا کہ کیا دوسرے سیاروں یا کہکشاؤں پر کسی اور مخلوق کا کوئی وجود ہے؟

ہم یقینی طور پر کچھ نہیں کہہ سکتے، ہاں مگر منطقی طور پر ہمیں ایک جو اطمینان حاصل ہے وہ یہی کہ دوسری دنیاؤں کی مخلوقات ہم سے بہت مختلف ہوں گی۔ ایک لمحے کو زمین پر بسنے والی مخلوقات کو تصور میں لائیے اور دیکھیے کہ کس طرح ارتقا یک خلوی جانداروں، کیڑے مکوڑوں، وہیل اور انسان کی شکل میں کثرت و تنوع کا باعث بنا ہے۔ مسلسل اور غیر مستقل تغیرات کا یہ عمل بہت طویل اور سست رفتاری سے جاری اور دراصل کیفیاتِ ارضی پرمنحصر رہا ہے۔ نتیجتاً ایسا سوچنے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے کہ دیگر دنیاؤں پر موجود زندگی حیاتِ ارضی کا ہی عکس ہوگی۔آخر کار اس دوسرے سیارے کی کیفیت و حالت اور وہاں کی ارتقائی تاریخ یہاں سے مختلف ہوگی۔ لیکن اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں ہے کہ ہمیں دوسرے سیاروں کی مخلوقات کی ہئیت و ساخت کے بارے میں سوچنا بھی نہیں چاہیے۔

مشتری کے بارے میں کیا خیال ہے؟ مشتری گیسوں کا ایک دیوہیکل گولا ہے اور اس کی فضا میں آکسیجن اور ہیلیم کی کثرت ہے۔ اگر وہاں زندگی کا کوئی وجود ہے تو یہ دیوپیکر گیس بھرے غباروں کی صورت میں موجود ہوگی جن کا حجم ممکنہ طور پر کلو میٹر ز تک پھیلا ہوا ہوگا مزیدیکہ وہ گیس کے جھکڑوں کے اخراج کی مدد سے اپنے آپ کو گھسیٹ پاتے ہوں گے اوراپنی خوراک کا بندو بست نباتاتِ ارضی کی مانند ضیائی تالیف کے عمل سے کرتے ہوں گے۔

اگر ہم اس طرح کی کسی غیر مرئی مخلوق سے رابطے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں تو یہ یقینی بات نہیں ہے کہ ہم پہلے پہل ان میں سے کسی فرد سے رابطہ کرپائیں، ممکن ہے کہ ہمارا پہلا باہمی رابطہ ریڈیائی لہروں کی مدد سے ہو کیوں کہ ریڈیائی لہریں طویل فاصلوں تک رابطہ کرنے کا سب سے سستا، آسان اور تیزترین ذریعہ ہیں۔ کوئی بھی ترقی یافتہ خلائی تہذیب یہ جان لے گی کہ کسی دوسرے سیارے پر بسنے والی کوئی بھی ہم سی ’’سادہ‘‘ مخلوق کم از کم ریڈیائی لہروں کا بنیادی علم تو رکھتی ہے اور وہ اسے کسی ریڈیائی اشارے کو سمجھنے یا وصول کرنے کے لیے استعما ل میں لے آئے گی۔ سو ممکنہ طور پروہ ہمیں کوئی ریڈیائی اشارہ ہی بھیجیں گے۔تاہم سوال یہ ہے کہ وہ کس طرح کا پیغام بھیجنا چاہیں گے؟ غالباً اس کے لیے مفرد اعداد کا کوئی سلسلہ زیادہ سودمند رہے گاکیوں کہ ایک موثر اور قابلِ فہم پیغام کے لیے ضروری ہے کہ وہ واضح طور پر اس بات کی عکاسی کرے کہ وہ ایک ذہین نوعِ حیات کی جانب سے دانستہ طور پربھیجا گیا ہے۔

اور ہم؟ ہمارا اپنے بارے میں کیا خیال ہے؟ کیا ہم کسی خلائی مخلوق سے طبعی طور پر مل پائیں گے؟یہ نظری طور پر ممکن ہے مگرعالمی سیاست کاری عملاً ایسا ہونے میں مانع ہے۔1958ء میں جبار(Orion) کے نام سے ایک منصوبے کا آغاز کیا گیا جس کے تحت ایک طیارہ خلا میں ستاروں کے درمیان بھیجنے کے لیے تیار کیا جانا تھاجسے توانائی کی بہت زیادہ مقدار کے ذریعے خلا میں بھیجا جاتااور اس طیارے کواتنی مقدار میں توانائی کی فراہمی ایک جوہری دھماکے کی مدد سے ہی ممکن تھی۔ لیکن ایسا نہ ہوا۔1963ء میں امریکا اور سوویت یونین کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا جس کے تحت ’’خلا میں جوہری ہتھیار استعمال نہ کرنے‘‘ پر اتفاقِ رائے عمل میں آیا۔بہ ایں وجہ ستاروں تک پہنچنے کی خواہش تشنہِ تکمیل رہ گئی۔

جدید سائنس اتنی بھی جدید نہیں ہے۔اس کے اولین موجد قدیمی ایونیائی باشندے ہیں مگر ان کی خدمات کو صدیوں تک فراموش کیا جاتا رہا ہے۔
بیشتر لوگوں کا خیال ہے کہ جدید سائنس دراصل کوپر نیکس اور لیونارڈو ڈوانچی کی مرہونِ منت اور عہدِ روشن کا ماحصل ہے جبکہ یہ تمام بجائے خود سولہویں صدی عیسوی کی نشاۃِ ثانیہ کی پیداوار ہیں۔ درحقیقت جدید سائنس کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ یونان کے ایونیائی اس کے موجد ہیں۔ایونیا مشرقی روم کاایک علاقہ تھا جسے ہم آج کل مشرقی یونانی جزائر اور ترکی کی مغربی ساحلی پٹی کے نام سے جانتے ہیں۔زمانہ قدیم میں یہ خطہ متنوع تہذیبوں کی گزرگاہ تھا۔ یہ خطہ نہ صرف تجارتی مرکز تھا بلکہ اس میں مصری، بابلی و دیگر عظیم تہذیبوں کے اثرات بھی موجود تھے۔ ان تمام تہذیبوں کے اپنے اپنے دیوتا تھے جن کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا تھا کہ وہی ان علاقوں کے حاکم و بادشاہ ہیں۔ اس صورتِ حال نے ایونیائی باشندوں کو مخمصے میں ڈال دیا کہ وہ یونانیوں کے زیوس کی پرستش کریں یا پھر بابلیوں کے مردوک کو خدا مانیں۔اس کشمکش کا نتیجہ بہت تعجب خیز نکلا اور وہ یہ نظریہ تھا کہ یہ کائنات قوانینِ فطرت اور اصول ہاے طبیعات کے تحت چل رہی ہے۔ اس طرح ایونیائی باشندوں نے تجربیت کا آغاز کیا اور سائنسی ارتقا میں اپنا مقام پیدا کیا۔ معروف حوالے کے ساتھ غالباً جوہر(ایٹم) کا تصور سب سے پہلے قریباً 430 قبل از مسیح میں یونانی فلسفی دیموقریطوس نے پیش کیا تھا۔ ایٹم ایک یونانی لفظ ہے جس کا مطلب ’’ناقابلِ تقسیم‘‘ ہے۔انہوں نے کہا تھا کہ جب ہم سیب کاٹتے ہیں تو دراصل چھُرّی جواہر کے مابین موجود خلا میں سے گزرتی ہے۔ نتیجتاً انہیں یہ ادراک ہوا کہ کائنات کی ہر شے مادے کے سب سے چھوٹے ذرے، یعنی جوہر اور ان کے درمیان موجود خلا پر مشتمل ہوتی ہے۔

تاہم صد افسوس کہ ایونیائی سائنس دانوں کی تجربیت و علمیت کو صدیوں تک پردے میں رکھا گیا۔ ہم اس کا ذمہ داریونانی ریاضی دان فیثا غورث کو ٹھہرا سکتے ہیں۔ فیثا غورث اور ان کے ہم خیالوں کا یقین تھا کہ کامل اور الوہی تخلیق ہونے کے ناطے کائنات طے شدہ ہندساتی قوانین کی مطیع ہے۔ان کی علمیت کا دارو مدار محض سوچ بچار پر تھا اور اس تدریسی روایت میں تجربیت کوکوئی دخل نہیں تھا۔کلاسیکی دنیا کے عظیم ترین فلاسفہ بشمول ارسطو و افلاطون بنیادی طور پر فیثا غورث کے خیالات ونظریات سے متاثر تھے۔

چوتھی اور پانچویں صدی قبل ازمسیح میں انہوں نے یہ منطق پیش کرنا شروع کردی کہ تجربہ گاہ میں کام کرنا دراصل غلاموں کے کھیتوں میں کام کرنے جیسا عمل ہے اور یہ کہ فکری و منطقی کام اس کے برعکس دراصل نظری نوعیت کا حامل ہے۔ مسیحیت کے زمانہِ عروج میں کائنات کی الوہیت و کاملیت کے فیثا غورثی عقیدے کو دوام رہا ، نتیجتاً اس اعتقاد کے بارے میں تشکیک کا باعث بننے والی سائنسی ایجادات و مساعی کی حوصلہ شکنی کی جاتی رہی۔یہ پابندی اور جبر تادیر علم و فن کو اپنے حصار میں لیے رہا یہاں تک کہ سولہویں صدی میں سائنسی منہجِ تحقیق میں تجربے اور مشاہدے کا احیا ہوا۔

روشنی ہماری کائنا ت میں خصوصی اہمیت کی حامل ہے۔
ہم اپنی آنکھوں یا دوربینوں سے جو کچھ بھی دیکھتے ہیں اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ کائنات مسحور کن، حیرت انگیز اور پراسرار ہے۔ستاروں کا پیہم جنم اور مرگ، کائناتی غبار، دم دار ستارے اور رنگ برنگ سیارے بجائے خود ناقابلِ یقین ہیں۔ اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ کائنات میں اس قدر توسع و تنوع پایا جاتا ہے کہ ہم اس کی توضیح تو کرسکتے ہیں مگر دیکھ نہیں سکتے۔سب سے دلچسپ اورعمدہ مظہر بذاتِ خود روشنی ہے۔اگرچہ اس کی رفتار کسی کو بھی ورطہِ حیرت میں ڈالنے کے لیے کافی ہے مگر اس سے بھی حیران کن چیز یہ ہے کہ یہ ایک مستقل (Constant) مقدار ہے اور اس سے سریع کسی شے کا کوئی وجود نہیں ہے۔البرٹ آئن اسٹائن نے ان خصوصیات کا کھوج بیسویں صدی میں ’’تخیلاتی تجربات‘‘ کے ذریعے لگا لیا تھا۔ ان تجربات کو انہوں نے جرمن زبان میں Gedanken Experiments کا نام دیا تھا۔
فرض کیجیے آپ ایک موٹر کار میں ہیں اور ریلوے پھاٹک کے قریب پہنچ چکے ہیں اور آپ سے ٹھیک زاویہِ قائمہ پر ریل گاڑی بھی ریلوے پھاٹک پر پہنچا چاہتی ہے، لیکن جوں ہی آپ ریلوے پھاٹک سے گزرنے کو ہوتے ہیں، آپ کو خیال آتا ہے کہ ٹھیک اسی لمحے ریل گاڑی پھاٹک پر پہنچ جائے گی جب آپ پھاٹک عبور کررہے ہوں گے، یہ سوچتے ہی آپ اپنی رفتار کم کردیتے ہیں تاکہ کسی حادثے سے بچا جا سکے۔ اب آپ تصور کریں کہ ریلوے پھاٹک کی دوسری طرف سڑک پر، جو آپ والی سڑک سے کچھ نچلی سطح پر واقع ہے، آپ کا کوئی دوست موجود ہے اور آپ کو اپنی جانب آتا دیکھ رہا ہے۔ اب ایک تخیلاتی تجربہ کیجیے کہ اگر آپ اور ریل گاڑی روشنی کی رفتار سے سفر کررہے ہوتے تو کیا ہوتا؟ آپ کا دوست آپ کی گاڑی سے منعکس ہونے والی روشنی کے طفیل آپ کو دیکھ پاتا ۔اگر روشنی کی رفتارایک متغیر مقدار ہوتی تو آپ کی طرف آنے والی روشنی کی رفتار کار اور روشنی کی رفتار کا مجموعہ ہوتی۔ جبکہ ریل گاڑی، جو آپ کی سمت نہیں آرہی سے منعکس ہونے والی روشنی کی رفتار محض روشنی کی رفتار سے آپ تک پہنچتی۔ سادہ الفاظ میں یہ کہ آپ کے دوست کو محسوس ہوتا کہ آپ ریل گاڑی سے پہلے پھاٹک تک پہنچ سکتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ آپ اور آپ کے دوست یعنی دو مختلف اطراف میں ٹھہرے ہوئے لوگ ایک ہی واقعے کو مختلف انداز سے کیسے دیکھ سکتے ہیں؟ آئن اسٹائن کو احساس ہوا کہ اس طرح کی صورتِ حال سے صرف اس صورت میں بچا جا سکتا ہے جب درج ذیل اصول لاگو ہوتے ہوں۔ اولاً یہ کہ قطع نظر اس کے کہ دیکھنے والا کون ہے روشنی ہمیشہ ایک ہی رفتار سے حرکت کرتی ہے اور ثانیاً یہ کہ کوئی بھی چیز روشنی سے زیادہ تیز رفتاری سے حرکت نہیں کر سکتی۔

ووئجر1اور ووئجر2خلا میں ہمارے تہذیبی نمائندے ہیں۔
جب سے اریتوستھینز نے یہ دریافت کیا کہ زمین چپٹی نہیں بلکہ گول ہے، اس وقت سے لے کر آج تک سیرو سیاحت اور تلاش و جستجو کا شوق رکھنے والے افراد نئی حقیقتوں کی تلاش کے لیے سائنس کی مدد لیتے آئے ہیں۔ کائنات میں غیر انسانی خلائی جہاز، جو خلا میں ہمارے نظامِ شمسی میں سفر کررہے ہیں سے زیادہ کوئی چیز ہمارے شوقِ جستجو کی احسن طریقے سے عکاسی نہیں کر سکتی۔ ناسا (NASA) کی طرف سے 1977ء میں اگست اور ستمبر میں بالترتیب ووئجر2اور ووئجر1 کو خلا میں بھیجا گیا۔ یہ خلائی جہاز بہت مہارت سے تیار کیے گئے تھے۔ اس کے لاکھوں پرزوں میں سے ہر ایک پرزہ ایک سے زیادہ تعداد میں اس طرح جوڑا گیا کہ اگر کوئی پرزہ خراب ہو جائے تو اس کے کام اور معمولات میں کوئی تعطل لائے بغیر دوسرا فعال ہوجائے۔ مثال کے طور ایک خلائی جہاز کے اندر تین طرح کے کمپیوٹر جڑے ہیں اور ان میں سے ہر ایک کمپیوٹر کی متبادل نقل موجود ہے۔ ان کے لیے درکار توانائی کا ذخیرہ لا محدود وکافی ہے۔ یہ اس طرح ہے جیسے ان کے ساتھ ’’ایک چھوٹا جوہری توانائی گھر‘‘ جڑا ہو ا ہے اور انہیں مسلسل توانائی فراہم کیے جارہا ہے۔یہ توانائی ’’ایک تابکار عنصر پلوطونیم کی گولیوں کے مسلسل تنزل‘‘ سے پیدا ہوتی رہتی ہے۔
دونوں خلائی جہاز ہمیں کئی طرح کے اعداد و شمار بشمول تصاویر بھیجتے رہتے ہیں جو ہم تک ریڈیائی لہروں کے ذریعے پہنچتا ہے۔ لنڈا مرابطو، جو ووئجر ٹیم کا حصہ تھیں 1977 ء میں کچھ تصاویر کی مدد سے مشتری کے چاند آیو (Io)پر موجود ایک فعال آتش فشاں کا سراغ لگانے میں کامیاب ہوئی تھیں۔ ووئجر ہمیں صرف ریڈیائی اشارے نہیں بھیجتے بلکہ وہ انسانیت کے بہتر پہلوؤں سے متعلق معلومات بھی رکھتے ہیں۔سائنسدانوں نے اس سے متعلق بہت احتیاط سے فیصلہ لیا تھا۔ انہیں معلوم تھا کہ غیر مرئی مخلوقات زمین پر بھیجے گئے ریڈیائی اشاروں میں خلل ڈال سکتی ہیں، وہ دراصل مخمصے کا شکار ہو سکتی ہیں۔ممکنہ طور پر انہیں جو ریڈیائی اشارے ملیں گے وہ ریڈیو یا ٹیلی ویژن کے نشریاتی پروگراموں سے متعلق ہوں گے۔ اس طرح ان کا زمین کے بارے میں تاثر موٹر کاروں، صابن سرف کے اشتہارات اورجنگ و قحط کے زمانے کے حربی پیغامات کاملغوبہ لیے ہوئے ہوگا۔ وہ ہمارے بارے میں کیا سوچیں گی؟

اب ہم ان اشاروں کے بارے میں کچھ نہیں کر سکتے، اب تو وہ بھیجے جا چکے ہیں۔
تاہم ووئجر ٹیم نے ہر دو جہازوں کے ساتھ تانبے سے بنا صوت نگار آلہ (Phonograph) جس کے اوپر زریں پرت چڑھایا گیا ہے اور اس کے ساتھ روشنائی کا ایک کارتوس اور نقالہ(Stylus)بھی جوڑا گیا ہے،حتیٰ کہ المونیم کیrecord sleevesپران نگارشات کوچلانے کے بارے میں ہدایات درج ہیں، تمام قُرصوں (Discs)میں زمینی آوازیں، جنہیں ناسا نے دلچسپ اور منفرد سمجھا، محفوظ کی گئی ہیں۔یہ معلومات دماغ کی جھلی اور ہمارے اعصابی نظام سے متعلق ہیں۔60 مختلف زبانوں میں تہہ نیتی پیغاما ت بھی محفوظ کیے گئے ہیں، مزیدیکہ ایک گھنٹے پر محیط دنیا بھر کی تمام ثقافتوں کے نمائندہ روایتی گیت اور مختلف مصنوعی وقدرتی آوازیں بھی ان میں شامل ہیں۔ یہ مشمولات یقینی طور پر قابلِ تعریف ہیں۔ممکن ہے کہ اس طرح غیر مرئی مخلوقات ہماری کامیابیوں سے متاثر ہوں یا پھر یہ بھی کہ وہ اس میں سے کچھ بھی نہ سمجھ پائیں لیکن اطمینان کی بات یہ ہے کہ ہم نے کوشش کی ہے۔

ہماری کائنات وسیع ہی نہیں، وسیع تر ہے جسے ہم احاطہِ ادراک میں نہیں لا سکتے لیکن ہم اتنا جانتے ہیں کہ یہ سحر انگیز اور دلچسپ اشیا سے بھری ہوئی ہے۔صدیوں کے طویل سفر کے بعد اورسائنسی تحقیقات کی بدولت ہم یہ جان چکے ہیں کہ ہماری زمین اس لا محدود و بے پایاں کائنات کا ایک حقیر سا حصہ ہے۔اگرچہ اب ہم کائنات میں اپنی حیثیت اور اپنے مقام سے آگاہ ہیں تاہم فلکی طبیعات پرت در پرت اس کے اخفا رازوں سے پردہ اٹھانے میں ہماری معاون و مددگار ہو سکتی ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...