شناخت پر قومی مکالمہ

(پشاور، لاہور اور کراچی میں متنوع شناختوں پر ہونے والی مکالماتی نشستوں کا احوال)

997

قیامِ پا کستان کے بعد پاکستان کی یکجہتی اور بقا کے خیال کے پیشِ نظر اہلِ ا قتدار نے پاکستانی سماج کو وطنیت کی بنیادوں پر ایک یکساں قومی شناخت کے تصور سے ہم آہنگ کر نے کی کوشش کی، ان کا خیال تھا کہ اس طرح پاکستان کو مستحکم رکھنا ممکن ہو سکے گا ، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان کے دولخت ہونے میں جس مسئلے نے اہم کردار دا کیا ، وہ بنگالی شناخت سے جڑا ہے۔ آج بھی موجودہ پاکستان میں حقوق کی متعدد آوازیں اپنی علاقائی و لسانی شناختوں کے ساتھ سراپا صدا ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ ریاست دراصل ہماری شناخت کو تسلیم نہ کرنے کی پالیسی اختیار کیے ہوئے ہے اور اسی کی بدولت ہمیں ہمارے بنیادی حقوق سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ ایسے میں پاکستانی معاشرے میں شناخت کا مسئلہ انتہائی اہم ہو جاتا ہے اور اسی اہمیت کے پیشِ نظر پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز اسلام آباد نے ملک بھر میں شناختی تنوع اور بقاے باہمی کے عنوان سے مکالماتی نشستوں کا آغاز کیا جن میں بالخصوص مختلف طبقہ ہاے فکر کی نمائندہ نوجوان شخصیات کے مابین شناخت کے موضوع پر باہمی مکالمے کا اہتمام کیا گیا۔ ان نشستوں میں مختلف اہلِ علم نے بھی اظہارِ خیال کیا اور یکساں شناخت کی صورت گری کی کوششوں کے مضمرات و نتائج پر سیر حاصل گفتگو کی۔ ان نشستوں کا احوال ’تجزیات‘ کے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے۔

پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز، اسلام آباد کی جانب سے شناختی تنوع اور بقاے باہمی کے عنوان سے مارچ 3سے مارچ 13تک مختلف اوقات میں پشاور ،لاہور اور کراچی میں چار مکالماتی نشستوں کا اہتمام کیا گیا جس میں متنوع شعبوں سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کو مدعو کیا گیا ۔ چونکہ پاکستان میں کئی بڑے اور اہم مسائل شناخت کے قضیے کے ساتھ جڑے ہیں اور اس پر آزادی کے ساتھ سنجیدہ وعلمی گفتگو بھی بہت کم ممکن ہوتی ہے ،خصوصا نوجوانوں کو اپنی رائے دینے سے محروم رکھا جاتا ہے اس لیے ان نشستوں میں بالخصوص نوجوانوں کو مدعو کیا گیا تھا یہ جاننے کے لیے کہ وہ کیا محسوس کرتے ہیں اور ان کا نقطہ نظر کیا ہے۔یہ ایک صحت مند مکالمہ تھا جس میں کئی مختلف خیالات پر ایک ہی مجلس میں بات چیت کی گئی۔نوجوانوں نے احترام اوردلیل کے ساتھ اختلاف کیا اور اپنی آرا پیش کیں۔ان نشستوں میں بطور مہمان ڈاکٹر قبلہ ایاز،قاضی جاوید،وسعت اللہ خان اور ڈاکٹر سید جعفر احمد کو کومدعو کیا گیا تھا۔
پشاور میں ڈاکٹر قبلہ ایاز نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اسلام متنوع شناختوں کو احترام دیتا ہے اور ہر شہری کو یہ آزادی بھی فراہم کرتا ہے کہ پرامن طور پروہ اپنی پہچان کا قولی و عملی اظہار کرسکے۔اگر مذہب کی حقیقی تعلیمات کو دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ وہ شناخت کے مسائل کو حل کرتا ہے،الجھاتا نہیں ہے۔
معروف دانشور اور مصنف قاضی جاوید نے لاہور کی نشست میں شرکت کی ۔انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ہم مقامی تاریخی تشخص کو زندہ کریں اور اپنی تاریخی تہذیب کے ساتھ اپنا رشتہ مضبوط کریں۔انہوں نے شناخت کے بحران کا ذمہ دار ریاست اور متشدد بیانیوں کے حامل طبقات کو ٹھہرایا ۔ان کا کہناتھا کہ اس بحران سے باہر نکلنے کاراستہ یہ ہے کہ نوجوان تعینِ شناخت میں اپنا حصہ ڈالیں اور اس حق سے دستبردار نہ ہوں۔جب تک وہ اپنا کردار ادا نہیں کریں گے اس وقت تک مسائل باقی رہیں گے۔
کراچی کی پہلی نشست سے صحافی وکالم نویس وسعت اللہ خان نے شناخت کے مسئلے کو ریاست سے الگ کرتے ہوئے کہا کہ شناخت کا بحران محض ریاست کے کردار کی وجہ سے پیدا نہیں ہوا،ریاست تو اِس کھیل میں بہت دیر سے شریک ہوئی ،جبکہ ہم تو کئی سو سال پہلے سے ایک دوسرے کے ساتھ تصادمی کیفیت میں ہیں۔ایک دوسرے کو کافر کہہ رہے ہیں۔ شناخت کا بحران نیا نہیں ہے بلکہ ہماری ثقافت اور تاریخ کا حصہ ہے ۔ اس کے حل کے لیے ریاست کو بھی بلاشبہ ذمہ داری ادا کرنی ہے لیکن اس سے زیادہ خود سماج کوکردار ادا کرنے کی ضرورت ہے ۔ انہوں نے دوقومی نظریے کو پہلے کی دوئیت زدہ نفسیات کا تسلسل قرار دیا۔ان کا کہنا تھا کہ دو قومی نظریے کو قبول کرنے میں اس لیے مشکل پیش نہیں آئی کہ تقسیم کی نفسیات پہلے سے ہی موجود تھیں اور جب اٹھارہ سو ستاون کے بعد برصغیر کی قوم کو ہندو مسلم قرار دے کر لکیر کھینچی گئی تو اس پر حیرانی کا اظہار نہیں کیا گیابلکہ اسے خوش آئند سمجھاگیا۔
کراچی کی دوسری نشست میں ڈاکٹر سید جعفر احمد نے آئیڈیالوجی کو سنگین مسئلہ قرار دیا ۔ ان کا کہنا تھا کہ جب ریاست سماج کے قومی،لسانی وثقافتی مسائل کو حل کرنے میں ناکام ہوئی تو اس نے آئیڈیالوجی کا سہارا لیا ۔ایسا ہر وہ ریاست کرتی ہے جوسماج کو اس کے حقوق دینے اور زمینی مسائل حل کرنے کی بجائے اپنی گرفت مضبوط کرنا چاہتی ہے۔
مکالمہ میں شریک نوجوانوں نے شناخت کے جوہرپر اظہارخیال کرتے ہوئے کہا کہ شناخت جہاں ایک پیچیدہ مسئلہ ہے وہاں سادہ بھی۔یہ کب پیچیدہ ہوتا ہے اور کس وقت سادہ وآسان ،اس کا تعلق تعامل سے ہے۔ اگر اسے ایک سماجی نوعیت کا مسئلہ سمجھا جائے اور اس کے انتخاب کی انفرادی واجتماعی سطح پر آزادی دی جائے تو پھر اس حوالے سے کوئی مسائل جنم نہیں لیتے۔ لیکن اگر شناخت کو کسی بیانیے کے ساتھ جوڑ کر اسے مسلط کرنے کی کوشش کی جائے تو پھر یہ معاشرے کا سب سے بڑا مسئلہ بن کر ظہور کرتی ہے کیونکہ تشخص انسان کے ہر قول وعمل کے ساتھ ساتھ چلتاہے اور اپنے اثرات بھی مرتب کرتا ہے۔ جامد اور ناقابل تغیر شناختیں بقاے باہمی پر یقین رکھتی ہیں نہ ان کے اندر برداشت کا عنصر موجود ہوتا ہے۔
نوجوان شرکا کے سامنے جب یہ سوال رکھا گیا کہ پاکستان کے نوجوان کس شناخت کواولیت دیتے ہیں ؟ اس پر زیادہ ترنے جواب دیاکہ مذہبی تشخص کو ملک میں اولیت حاصل ہے، نوجوان اپنا پہلا تعارف اسی سے کراتے ہیں ۔ دوسرے درجے پر یہ رائے سامنے آئی کہ وہ قومی ، لسانی وعلاقائی شناختوں کو ترجیح دیتے ہیں، انہی سے اپنا تعارف کرانا پسند کرتے ہیں۔ جبکہ اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں نے کہا کہ اُن کی پہچان صرف پاکستان ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ یہ شناخت تمام شہریوں کو ایک دوسرے کے قریب لاسکتی ہے۔مختلف پہچانوں میں ترجیح کے قضیے پر ایک رائے یہ بھی سامنے آئی کہ عالمگیریت کے دور میں جہاں مارکیٹ اور معیشت بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں وہاں انسان کا پروفیشن اور ذریعہ معاش اولین شناخت کی صورت میں سامنے آتا ہے۔پاکستان سے باہر تو یہی ہوتا ہے لیکن اب پاکستان کا نوجوان بھی باقی ہر شے کو ثانوی درجہ دیتے ہوئے پروفیشن اور ذریعہ معاش کو اہمیت دینے لگا ہے ۔اس کا ثبوت یہ ہے کہ پاکستان سے باہر کی طرف ہجرت کرنے والا نوجوانوں کا ایک بڑاطبقہ شناخت کے بحران کو نہیں بلکہ معاشی مسائل کو سبب بتاتا ہے۔
جب ان سے شناخت کے بحران میں ریاست کے کردارکی نوعیت سے متعلق سوال کیا گیا تو اکثریت کی رائے یہ تھی کہ ریاست شناخت کے بحران کو پیدا کرنے کی ذمہ دارہے ۔ ان کا کہنا تھاکہ ریاست نے مذہبی سیاسی بیانیے کو اولیت دی جس کی وجہ سے پاکستان کے اس طبقے کو، جو ملک کو ایک قومی فلاحی ریاست بنانے کا خواہاں تھا، نظرانداز کیا گیا۔ نتیجے میں اس کے اندر جہاں مایوسی نے جنم لیا وہاں وہ ملک کے ان شہریوں سے بھی بدظن ہوا جو مذہبی بیانیے کے مبلغ تھے۔یہ صرف دو بیانیوں کا اختلاف نہیں تھا بلکہ ایک سماج کی تقسیم تھی جس میں ریاست کے کردار کی وجہ سے اس پر بے اعتمادی بھی شامل رہی۔انہوں نے تعینِ شناخت میں ریاستی عملداری کے تسلسل پر تشویش کا اظہار بھی کیا۔ چونکہ ریاست سماج کے تشخص کی تشکیل کرتی رہی ،اس لیے اب معاشرے کی یہ ذہنیت بن گئی ہے کہ شناخت کو ریاست سے الگ کرکے دیکھاجا تاہے نہ ہی ریاست خود کو اس سے جدا کرنے کے لیے تیار ہے۔
نوجوان شناخت کے انتخاب کی آزادی کو اپنا انفرادی حق نہیں سمجھتے بلکہ وہ اپنی ذات کو ریاست کے پر تو میں دیکھتے ہیں اور تصور کرتے ہیں کہ ہماری شناخت وہی ہوگی جو ریاست طے کرے گی ۔ اپنے اِس حق سے دستبرداری تمام مسائل کی جڑ ہے ۔ یہی وہ حد ہے جہاں سے ہم غلطی کی ابتدا کرتے ہیں، اس کے بعد کئی بحران پے در پے سرکتے چلے آتے ہیں اور فلاح وتعمیر کے دروازے پر پتھر بن کر ٹھہر جاتے ہیں۔البتہ ریاست اور شناخت کے قضیے پر پارلیمان میں اٹھارویں ترمیم کی منظوری کو اچھا اقدام خیال کیا گیاکہ اس سے صوبائی شناختوں کے تنوع کو تحفظ اورآزادی کا احساس ملے گا۔
نوجوانوں سے سوال کیا گیاکہ کیا پاکستان کا آئین وعمرانی معاہدہ ان کی شناخت کو تحفظ دیتا ہے، تو اس پر رائے منقسم نظر آئی ۔بعض کا خیال تھا کہ آئین وعمرانی معاہدہ تو حفاظت کرتے ہیں لیکن اصل مسئلہ قانون کی عملداری کا ہے ۔تاہم کچھ کی رائے یہ تھی کہ پاکستان کے آئین کا مجموعی مزاج یہ ہے کہ وہ تنوع کی حوصلہ شکنی کرتا ہے جبکہ تنوع کو احترام دیے بغیر شناخت کے بحران کا حل ممکن نہیں ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ مہذب معاشروں میں تنوع کے احترام کی باقاعدہ تعلیم دی جاتی ہے اور اس بات کا خصوصی خیال رکھا جاتا ہے کہ سماج میں موجود ہر قسم کی شناختوں کا تحفظ یقینی بنایا جاسکے ۔ ہم بنیادی طور پر اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ اتحاد صرف اسی وقت قائم کیا جاسکتا ہے جب یکسانیت ہو، حالانکہ اگر تنوع کے ساتھ احترام ہمقدم ہو تو یہ ہم آہنگی اتحاد کی مضبوط ترین شکل ہوتی ہے۔
مذہبی طبقے اور شناخت کے مسئلے پر جوآرا سامنے آئیں ان کے مطابق مدارس میں شناخت کو سماجی قضیہ نہیں خیال کیا جاتا بلکہ اگر بغور جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ وہاں کے طلبہ ومعلمین عام لوگوں کی نسبت اس حوالے سے زیادہ الجھن کا شکار ہیں۔ ان کے سامنے ایک طرف حب الوطنی ہوتی ہے اور دوسری جانب اعتقادی ذہنیت۔ اس طرح وہ شناخت کے انتخاب اور اظہاریے میں مشکل کا شکار ہوجاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس ملک کا ہر شہری محب وطن ہے اور برابر حقوق رکھتا ہے لیکن اس کے بعد اعتقادی ذہنیت انہیں اس پر بھی ابھارتی ہے کہ وہ اپنی خاص پہچان پر اصرار کریں اور اسے ایک سماجی مسئلہ سمجھنے کی بجائے عقیدہ خیال کریں،اس کے بعد عملی طور پر تفریق شروع ہوجاتی ہے اور مطالبہ کیا جاتا ہے کہ ریاست سمیت ملک کا ہر شہری اس پر ایمان لائے۔
صوبائی سطح پر شناخت کے بحران کی بابت نوجوانوں کی اکثریت کاخیال تھا کہ مختلف ثقافتوں وزبانوں کے حامل صوبے قریب آنے کی بجائے ایک دوسرے سے دُور ہو رہے ہیں،ان کے نزدیک اس کی دو وجوہات ہوسکتی ہیں۔ ایک تو معاشی عدمِ مساوات ، جس کی بناپر کہیں احساسِ محرومی تو کہیں احساسِ تقویت کے جذبات پیدا ہو رہے ہیں۔ دوسرا سبب نصاب میں صوبائی ثقافتوں کا متوازن وجاذب تعارف نہ ہونا ہے۔اِس بُعد کا ایک مظہر یہ بھی ہے کہ نشست میں کراچی کے بعض نوجوانوں نے اِس شہر کی طرف تیزی سے بڑھتی ہوئی نقل مکانی پر خدشات کا اظہارکیا اور کہا کہ اس سے کراچی کی مقامی ثقافت اور پہچان متأثر ہو رہی ہے ۔
پنجاب میں سماجی تحریکوں کوبطورِخاص زیرِ بحث لایا گیا۔ ان تحریکوں کے بارے میں مثبت آرا سامنے آئیں۔شرکا کا کہنا تھا کہ ان کی وجہ سے لوگوں کا اپنی زمین کے ساتھ تعلق مضبوط ہوا۔البتہ مقامی استبدادی کلچر جسے جاگیرداری بدمعاشی کے نام سے تعبیر کیا گیا،کو آزادی کی راہ میں رکاوٹ قرار دیا گیا،جس کی وجہ سے کمزور کی شناخت کو زک پہنچتی ہے اور اسی کے سبب بہت سارے لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوتے ہیں ۔ سندھ اور بلوچستان کی نمائندگی کرنے والے نوجوانوں نے بھی اپنے صوبوں میں اس کلچر کے وجود کا اعتراف کیا اور اس پر تحفظات کا اظہار بھی کیا۔
بلوچستان سے آئے ہوئے نوجوانوں کا کہنا تھا کہ شناخت کے حوالے سے پاکستان کے دیگر حصوں کی نسبت ان کے صوبے میں زیادہ حساسیت پائی جاتی ہے۔ جب اُن سے اسباب کی بابت پوچھاگیاتو انہوں نے کہاکہ دراصل شناخت کا مسئلہ اس وقت زیادہ اُبھر کر سامنے آتا ہے جب استحصال ہوتا ہے،جب معاشی اور ثقافتی سطح پر خطرات لاحق ہوتے ہیں تو انسان سوچنے پر مجبور ہوتا ہے کہ اس کی ذات کہاں ہے اور اس کے تشخص کی حیثیت کیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ بلوچستان کے نوجوان شدید نفسیاتی مسائل کا شکار ہیں ۔انہیں یہ لگتا ہے کہ ریاست اور سماج نے انہیں مسترد کردیا ہے ۔اُن کے تشخص پر سب سے بڑا سوالیہ نشان اُس وقت لگتا ہے جب انہیں سفر کے دوران چیک پوسٹ پر روک کر الگ کر دیا جاتاہے اور ان سے امتیازی سلوک برتا جاتا ہے۔
خیبر پختونخوا میں نوجوانوں نے اظہارِخیال کرتے ہوئے کہا کہ شناخت کے مسائل اگرچہ سماج میں بے چینی پیدا کرتے ہیں ،جیساکہ پورے پاکستان میں محسوس کیا جاسکتا ہے ۔لیکن اس کے ساتھ انہوں نے کہا کہ ان مسائل کی وجہ سے ہمارا صوبہ جہاں بری طرح متأثر ہوا ہے وہاں اس کا یہ فائدہ ضرور ہوا کہ ہم روایتی ذہنیت سے باہر نکلے ہیں اورمسلط کی ہوئی شناختوں سے آزاد ہونے کی سعی کر رہے ہیں ۔ انہوں نے اس حوالے سے حالیہ سماجی تحریک پشتون تحفظ تحریک پر بعض وجوہ کی بِنا پر خدشات کا اظہار کیا لیکن اسے ان عوامل میں سے ایک عامل بھی بتایا جن کی وجہ سے صوبے کے نوجوانوں نے شناخت کے قضیے پر نظرثانی کی ۔
پشاور کی نشست میں فاٹا سے بھی نوجوانوں کی نمائندگی شامل تھی ۔انہوں نے بدامنی اور پشتون ثقافت کے ساتھ ربط پیدا کیے جانے پر تحفظات کا اظہار کیا کہ مسلسل ابترحالات اور جغرافیائی اتفاق کی وجہ سے پشتون کلچر کو دہشت گردی کے ساتھ جوڑ دیا گیا، جو حقیقت نہیں ہے۔ لیکن اس کے ساتھ انہوں نے خیبر پختونخواہ کے ساتھ الحاق کو خوش آئند قرار دیا کہ اس سے وہ ایک مضبوط اور بڑی شناخت کے ساتھ منسلک ہوگئے ہیں۔
شرکا نے ان مکالماتی نشستوں کے انعقاد پر ڈائریکٹر پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز محمد عامر رانا کو خراجِ تحسین پیش کیا اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ ایسے حساس اور اہم سماجی موضوعات پر مکالموں کامسلسل اہتمام کیا جانا چاہیے تاکہ شناخت کے حوالے سے نوجوانوں میں موجود ابہام اور کنفیوژن دور ہو سکے اور وہ اس حوالے سے اپنی سمت متعین کرنے کے قابل ہو سکیں۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...