طبی غفلت: قانون و تدارک

1,546

ریاض بی بی راولپنڈی کے رہائشی ایک غریب ٹیکسی ڈرائیور لال ضمیر کی بیوی تھی۔ 36 سالہ ریاض بی بی کو 31 مئی 2001 کو راولپنڈی کنٹونمنٹ اسپتال میں زچگی کے سلسلے میں داخل کروایا گیا۔ ریاض بی بی کا 2 جون 2001 کو آپریشن کے ذریعے ایک صحتمند بچہ پیدا ہوا مگر آپریشن کے دوران ڈاکٹر غزالہ کی غفلت سے صفائی و جذب کرنے والا ایک تولیہ (abdominal sponge) ریاض بی بی کے پیٹ میں ہی رہ گیا جو بعد ازاں انفیکشن پیدا کر کے شدید گینگرین کا باعث بنا۔ 11 جون 2001 کو ریاض بی بی کو اسپتال سے ڈسچارج کر دیا گیا اور وہ غریب اپنے پیٹ میں شدید درد کی شکایت کرتی ہی رہ گئی۔ ڈاکٹر نے یہ کہہ کر ریاض بی بی کو گھر بھجوا دیا کہ روٹین میں آپریشن کا درد ہے جو وقت کے ساتھ خود ہی ختم ہوجائے گا۔ درد کی شدت بڑھنے کی وجہ سے 13 جون 2001 کو ریاض بی بی کا شوہر لال ضمیر اسے الٹراساونڈ کروانے کے لئے ایک نجی لیبارٹری میں لے گیا۔ الٹراساونڈ رپورٹ نے واضح طور پر پیٹ میں ایک بڑے سائز کی شے کی موجودگی کی طرف اشارہ کیا اور اس رپورٹ کو ریاض بی بی کا آپریشن کرنے والی ڈاکٹر غزالہ کو بھی دکھایا گیا۔ ڈاکٹر غزالہ نے ریاض بی بی کے مزید علاج سے انکار کر دیا تو مریضہ کو پہلے راولپنڈی جنرل اسپتال اور اس کے بعد شفاء انٹرنیشنل اسلام آباد لایا گیا مگر غربت کی ماری ریاض بی بی کو جگہ پمز اسپتال اسلام آباد میں ہی ملی۔ 14 جون 2001 کو ریاض بی بی کا پمز اسپتال میں آپریشن ہوا اور اس کے پیٹ سے آپریشن کے دوران رہ جانے والا صفائی و جذب کرنے والا تولیہ نکال دیا گیا! 15 جون 2001 کو ریاض بی بی کا ایک اور آپریشن کیا گیا تاکہ گینگرین کے پھیلاؤ سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں سے نپٹا جاسکے مگر ریاض بی بی اس کے ساتھ ہی کوما میں چلی گئی۔ 27 اگست 2001 کو ریاض بی بی انتقال کر گئی!

اس سارے عرصے کے دوران ریاض بی بی کے شوہر لال ضمیر نے غیر معمولی حوصلے کا ثبوت دیا۔ اس نے علاج کے اخراجات کے لئے اپنے ٹیکسی تک بیچ ڈالی اور ہمت کر کے ریاض بی بی کا آپریشن کرنے والی ڈاکٹر غزالہ اور اسپتال کے خلاف طبی غفلت کا ایک کیس بھی عدالت میں دائر کردیا۔ لال ضمیر کی طرف سے باطش محمود ٹیپو ایڈووکیٹ مرحوم اس کیس کی پیروی کرتے رہے اور بالآخر 91 عدالتی پیشیوں کے بعد 31 دسمبر 2005 کو روالپنڈی کی ایک مقامی عدالت نے لال ضمیر کے حق میں فیصلہ سناتے ہوئے ڈاکٹر غزالہ اور کنٹونمنٹ اسپتال کو 1.19 ملین روپے ہرجانہ ادا کرنے کا حکم دیا۔ اس حکم کے خلاف اپیل دائر کر دی گئی اور پہلے سے سالوں پر محیط عدالتی کاروائی بھگتنے والے لال ضمیر کی ہمت آخرکار جواب دے گئی اور معاملے کو فریقین نے عدالت سے باہر نپٹا دیا۔ ریاض بی بی مر گئی اور لال ضمیر شائد آج بھی زندگی کی سانسیں لیتا ہوگا مگر مجھے ہمیشہ یہ احساس رہا کہ ریاض بی بی کا وہ نومولود بچہ آج کیا سوچتا ہوگا جس کی ماں اس کی پیدائش کے دوران طبی غفلت کی بھینٹ چڑھ گئی اور وہ ہمیشہ کے لئے ممتا کی شفقت سے محروم رہا!

آپ میں سے کچھ لوگوں کو شائد ایمانے ملک کا نام یاد ہوگا۔ اگر یاد نہیں ہے تو فیس بک پر جسٹس فار ایمانے ملک پیج کو ضرور دیکھ لیں۔ 3 سالہ ایمانے ملک عید کے دوسرے دن 29 نومبر 2009 کو کھیلتے ہوئے بازو پر گرم پانی پڑنے سے جھلس گئی تھی۔ اس کے والدین ایمانے کو ڈاکٹرز اسپتال لاہور لے گئے جہاں غلط انجیکشن لگنے کے باعث ایمانے ملک کی حالت بگڑ گئی۔ ڈیوٹی ڈاکٹر کو جب اس کا احساس ہوا تو بجائے ایمانے کی والدین کو بتانے کے انہوں نے اپنے طور پر مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی۔ حالت جب زیادہ بگڑی تو ایمانے ملک کے والدین کو پتا چلا اور وہ اپنی بچی کو لے کر بچوں کے اسپتال پہنچے تو معلوم ہوا کہ ایمانے ملک دنیا سے جا چکی ہے!

ایمانے ملک کے والدین نے اس کیس کو اٹھایا اور تقریبا ہر فورم پر قانونی چارہ جوئی کی گئی۔ پنجاب ہیلتھ کئیر ایکٹ 2010 کی منظوری میں بھی ایمانے ملک کیس کا اہم کردار ہے۔ یہ معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچا اور عدالت جسٹس عظمت سعید کی سربراہی میں اس معاملے کی سماعت کرتی رہی۔ شروع میں فیس بک پر ایمانے ملک پیج پر اس حوالے سے اپ ڈیٹس کو شئیر کیا جاتا رہا مگر رفتہ رفتہ یہ کیس بھی میڈیا کی نظروں سے اوجھل ہوگیا اور اس کے بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں پتا چلتا۔

ریاض بی بی اور ایمانے ملک کے واقعات طبی غفلت کے ان گنت کیسز میں سے محض دو مثالیں ہیں۔ کل سے آپ کراچی میں پیش آنے والے دو واقعات کے بارے میں پڑھ اور سن رہے ہوں گے کہ کس طرح طبی غفلت کے نتیجے میں انسانی جانوں کا ضیاع ہوا۔ نشوہ کا واقعہ بار بار ٹی وی اسکرینوں پر اٹھایا جا رہا ہے۔ چند دن مزید یہ چلے گا اور اس کے بعد ہم پھر اس مسئلے پر کسی اور ریاض بی بی’ ایمانے ملک اور نشوہ کے نشانہ بننے پر شور شراپا کریں گے ۔

پاکستان میں طبی غفلت کے واقعات کے تدارک اور ان سے نپٹنے کا کوئی ایک موثر قانون موجود نہیں ہے۔ ایسے واقعات ہونے کے بعد عام طور پر ڈاکٹرز اور اسپتالوں کے خلاف یا تو فوجداری قوانین کے تحت کیسز درج کروانے کی کوشش کی جاتی ہے یا پھر پی ایم ڈی سی کے ذریعے تادیبی کاروائی کی سعی لاحاصل سامنے آتی ہے۔ پی ایم ڈی سی اگر کسی ڈاکٹر کا لائسنس وقتی طور پر معطل کر بھی دے تو یہ زیادہ عرصے قائم نہیں رہ سکتا اور اس ساری کاروائی کا کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلتا۔ ہیلتھ کئیر کمیشن وغیرہ بننے سے البتہ یہ ہونا شروع ہوا ہے کہ میڈیکل فیسلیٹی اور اسپتالوں کو کسی نہ کسی سطح پر ریگولیٹ کیا جانے لگا ہے اور لائسنسوں کو اجرا شروع ہوا ہے۔ مگر یہ سارے قوانین اور ریگولیشنز طبی غفلت سے جڑے مسائل کو حل کرنے میں ناکام ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان قوانین کا زور (اگر ایسا کچھ ہے بھی تو!) تدارک پر زیادہ ہے کہ کوالٹی کنٹرول اور سسٹم کو اس طرح پروان چڑھائا جائے کہ طبی غفلت کے واقعات سرے سے وقوع پذیر ہی نہ ہوں۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ اس طرح کے واقعات رونما ہوجائیں اور جیسا کہ ہمارے ہاں آئے روز ہوتے ہیں تو ان سے کیسے نپٹا جائے؟ کل ٹی وی پر سندھ ہیلتھ کئیر کمیشن کے ایک ذمہ دار صاحب فرما رہے تھے کہ ہم کاروائی صرف اس وقت کر سکتے ہیں جب باقاعدہ شکایت ہمارے پاس آئے! اس سے آپ قانون کے رخ اور اپروچ کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔

طبی غفلت کے کیسز سے نپٹنے کا کوئی موثر طریقہ ہمارے ہاں نہ ہونے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ذرا سا بھی شک پڑ جائے تو مریضوں کے لواحقین ڈاکٹرز اور میڈیکل عملے پر تشدد کا راستہ اختیار کرتے ہیں جو کسی طور پر درست نہیں۔ ڈاکٹرز کو بھی یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ طبی غفلت کے بارے میں بات کرنے کا مطلب ضروری طور پر ان کی نااہلی کی طرف اشارہ نہیں ہے۔ ایک بہت اچھا ڈاکٹر بھی کسی مخصوص سچوایشن کا شکار ہو کر طبی غفلت کا مرتکب ہوسکتا ہے۔ پوری دنیا میں اس سے نپٹنے کے لئے پروفیشنل انداز میں قانونی چارہ جوئی کی جاتی ہے۔

پاکستان میں بھی اس بات کی ضرورت ہے کہ طبی غفلت کے واقعات کے حل کے لئے ٹارٹ لاء ریفارمز کے تحت ہرجانے کے قانون کو موثر بنایا جائے۔ گرفتاریاں اور ہتھکڑیاں ہمارے معاشرے کا محبوب مشغلہ بن کر رہ گئی ہیں جس سے چند روزہ سنسنی خیزی کے علاوہ کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔

نقصان سے بچنے کی تدبیر اور ہے اور نقصان ہوجانے کی صورت میں تلافی کی تدبیر بالکل دوسری بات ہے۔

تلافی کا حق ہرجانے اور بھاری ہرجانے ہی کی صورت میں ممکن ہے اور یہ دنیا بھر میں رائج کامیاب سسٹم کا ماحاصل ہے۔ مگر ظاہر ہے کہ ٹارٹ کے تحت مقدمات کو جب تک باقاعدہ جوڈیشل پالیسی کے تحت جلد اور موثر انداز میں نپٹانے کی گائیڈ لایئنز جاری نہیں کی جاتیں اس وقت تک عملی طور پر کچھ حاصل نہیں ہوسکتا۔ عدالتوں میں سالوں پر محیط مقدمہ بازی پر بہت سارے وسائل ضائع کردئے جاتے ہیں مگر ہرجانے کی صورت میں عدالتیں مونگ پھلی کے دانوں کے برابر رقم ادا کرتی ہے جس کا عملی اطلاق اپنی جگہ ایک عذاب بن جاتا ہے۔ اس وقت چیف جسٹس آف پاکستان اپنی فہم و فراست اور تجربے کی بنیاد پر کچھ ریفارمز کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اللہ کرے ان کی نظر کرم ان معاملات کی طرف بھی پڑے اور ٹارٹ لاء ریفارمز کے باب میں بھی وہ پالیسی گائیڈ لائینز جاری کریں۔

طبی غفلت کا شکار مریضوں اور ان کے لواحقین کے لئے دادرسی کا یہی ایک راستہ ہے جسے دوسرے کئی ممالک میں کامیابی سے اختیار کیا جاچکا ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...